کینسر کا کامیاب علاج ممکن ہے
پوری دْنیا میں دو کروڑ کے قریب سرطان کے مریض، جن میں 55 فی صد مرد اور 45 فی صد خواتین ہیں
جس طرح ایک ذرہ ریگ میں پورا صحرا سمٹ آتا ہے اور ایک قطرہ آب پورے سمندر کا ترجمان ہوتا ہے، اسی طرح انسانی جسم کا ایک خلیہ پورے جسم کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہر خلیے میں زندگی سانس لیتی ہے اور ایک جیتاجاگتا وجود کروٹیں بدلتا ہے۔
ہر خلیے میں وہ ڈی این اے ہوتا ہے ، جو انسان کو کائنات کا منفرد کردار بخش دیتا ہے۔ ایسا کردار جو نشانِ ا نگشت کی طرح باقی دْنیا سے مختلف ہوتا ہے۔ خلیات ختم ہوجائیں تو زندگی کی شام ہوجاتی ہے۔کبھی کبھی یوںہوتا ہے کہ یہی خلیات اپنی شکل تبدیل کرلیتے ہیں اور تیزی سے تعداد میں بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ خلیات کا یہ بدلا ہوا رویّہ سرطان یا کینسرکو جنم دیتا ہے۔
اس مرض کو سنگین بنانے میں عوام الناس کی ناواقفیت اور کوتاہی کا بڑا دخل ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے، تو سرطان سے مکمل نجات ممکن ہے۔ اسی مقصد کی خاطر 2000ء میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں انسانیت کا درد رکھنے والے بہت سے لوگ جمع ہوئے ۔ انھوں نے ہرسال 4 فروری کو ' سرطان سے بچاؤ کا عالمی دِن ' منانے کا فیصلہ کیا۔
بعدازاں اقوامِ متحدہ نے بھی اس فیصلے کی تائید کی۔ یوں پچھلے23 برسوں سے اس اہم دِن کو منانے کا سلسلہ جاری ہے۔ عام طورپر ہر سال کسی بھی عالمی دِن کا ایک مرکزی موضوع یا تھیم ہوتاہے، مگر سرطان کے حوالے سے تین سالوں یعنی 2022ء سے 2024ء تک کے لیے ایک مشترکہ موضوع طے کیا گیا ہے :Close the care gap۔ اس موضوع کا تقاضا یہ ہے کہ دْنیا بَھرمیں سرطان کے مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال میں جو تفاوت پایا جاتا ہے، اسے ختم کیا جائے اور تمام مریضوں کو یکساں درجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
بلاشبہ بروقت تشخیص اور معیاری علاج کے ذریعے کینسر سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی وجوہ اور پورے عمل کو آسان پیرائے میں بیان کردیا جائے۔
انسانی جسم بے شمار خلیات یا Cells کا مجموعہ ہوتا ہے۔مختلف اعضاء کے خلیات دوسرے اعضاء سے مختلف ہوتے ہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ خلیہ زندگی کی بنیادی اکائی کا دوسرا نام ہے۔ خلیات کی اپنی زندگی کا مخصوص دورانیہ ہوتا ہے۔ فطر ت کی منصوبہ بندی کے تحت خلیات پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی کا دورانیہ پورا کرتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔ مرنے والے خلیات کی جگہ نئے خلیات سنبھال لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتارہتاہے، یوںا نسانی زندگی بھی پیہم رواں رہتی ہے۔
سرطان کے مرض میں یہ سلسلہ بوجوہ بالکل مختلف شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جسم کی ضرورت اور خواہش کے بغیر بے تحاشا نئے خلیات جنم لیتے ہیں اور ان کا حجم بھی بڑھنا شروع ہوجاتاہے۔ جن خلیات کا ختم ہوجانا بہتر تھا وہ اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اور نئے خلیات کے ساتھ مل کر ورم یا رسولی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
رسولی کو انگریزی زبان میں ٹیومر (Tumour) کہا جاتا ہے۔اسی ' رسولی ' یا ' ٹیومر ' کا دوسرا نام ' سرطان ' یا ' کینسر ' ہوتا ہے۔ رسولی جسم کے کسی بھی حصّے مثلاً دماغ ، جگر، گْردہ ، مثانہ اور معدہ وغیرہ میں پیدا ہوسکتی ہے۔ بنیادی طورپر سرطان کی دوقسمیں ہوتی ہیں، جنہیں کیفیات ، علامات اور شدّت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ممیز کیا جاتا ہے۔
وہ سرطان جو بے ضرر یا کم خطرناک ہوتے ہیں، انہیں حلیم یا Benign کہا جاتا ہے۔ بینائن ٹیومرکی اصطلاح سے اب عام لوگ بھی واقف ہوچْکے ہیں۔ سرطان کی دوسری قسم کو اْردومیں عنادی سرطان کہاجاتا ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ سرطان انسانی زندگی سے بغض و عناد رکھتاہے اور جسم کی تباہی کاباعث بنتا ہے۔ انگریزی میں اس قسم کو Cancer Malignant کہتے ہیں۔
بینائن ٹیومر ایک ہی جگہ پر موجود رہتا ہے، البتہ اس کے بڑھتے ہوئے حجم کی وجہ سے جسم کے اس حصّے یا قریبی حصّوں کا کام متاثر ہوسکتا ہے۔ ایسی صْورت میں اس قسم کی رسولی کو آپریشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے اور انسان عام صحت مند زندگی بسر کرنے کے قا بل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف عنادی سرطان یا میلگننٹ کینسر نہ صرف جسم کے اس حصّے کو متاثر کرتا ہے جہاں وہ موجود ہوتا ہے، بلکہ سرطانی خلیات cancerous cells مختلف ذرائع سے جسم کے دوسرے صحت مند اعضاء تک پہنچ جاتے ہیں۔ سرطانی خلیات کی اس منتقلی کو میٹاس ٹیسزMetastasis کہا جاتا ہے۔
مثال کے طورپر جگر اور معدے کے سرطان کے اثرات انسانی دماغ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح سے دوسرے مقام پر بھی سرطان پیدا ہوجاتا ہے ،جیسے ثانوی سرطان یا Secondary Cancer کہا جاتا ہے۔ سرطان کی مختلف شکلوں کو خلیات کی نوعیت کی بنیا د پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سرطان کی مندرجہ ذیل معروف اقسام سامنے آتی ہیں:
٭ کارسی نوما(Carcinoma) : یہ دْنیا میں سب سے زیادہ پایا جانے والا سرطان ہے، جو Epithelial Cells میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ وہ خلیات ہیں ،جوایک تہہ کی شکل میں ہمارے جسم کی اندرونی اور بیرونی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔ مذکورہ تہہ ہماری جِلد اورمختلف اندرونی اعضاء پر پائی جاتی ہے اور ایک قسم کے حفاظتی غلاف کا کام کرتی ہے۔
سارکوما:(Sarcoma) یہ کینسر عمومی طورپر Connective Tissue میں جنم لیتا ہے۔یہ ٹشوز ہمارے جسم کے مختلف حصّوں کو باہم مربوط کرتے ہیں۔اس لحاظ سے یہ سرطان انسانی ہڈیوں، نرم ہڈیوں یاCartilage ،خون کی نالیوں، چربی اور پٹّھوں وغیرہ میں پیدا ہوتا ہے۔
خون کا سرطان(Leukemia): اس قسم کے سرطان میں خون کے سفید ذرّات بے تحاشا بڑھ جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ خون کے مختلف ذرّات ہڈیوں کے گودے میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں پر ان کی افزائش میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔
لمفوما (Lymphoma): خون کے سفید ذرّات کی ایک خصوصی قسم کولمفوسائٹ Lymphocyteکہا جاتا ہے۔یہ انسانی جسم کے دفاعی نظام لمف سسٹم Lymph system میں پائے جاتے ہیں۔ سرطان کی صْورت میں یہ خلیات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
میلانوما :(Melanoma)یہ جِلد کے سرطان کی ایک قسم ہوتی ہے۔ جِلد میں خاص قسم کے خلیات پائے جاتے ہیں، جنہیں میلانو سائٹسMelanocytes کہا جاتا ہے۔ ہمارے جسم کی گندمی رنگت انہی خلیات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بعض اوقات جِلد کے یہ خلیات غیرمعمولی طورپر بڑھ کر رسولی یا ٹیومر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
سرطان کی علامات وشکایات جاننے سے قبل ضروری ہے کہ سرطان کے مریضوں کی مجموعی تعداد سے ہمیں آگاہی ہوجائے۔اس وقت پوری دْنیا میں دو کروڑ کے قریب سرطان کے مریض ہیں جن میں 55 فی صد کے لگ بھگ مَرد اور 45 فی صد خواتین ہیں۔مختلف اقسام کے سرطان کا تناسب درج ذیل ہے:
٭ چھاتی کا کینسر 12.5فی صد۔
٭ پھیپھڑوں کا کینسر12.2فی صد۔
٭ بڑی آنت اور مقعد کا کینسر10.7فی صد۔
٭ مردانہ غدود یا پروسٹیٹ کا کینسر 7. 8فی صد۔
٭ معدے کا کینسر 6 فی صد۔
٭ جگر کاکینسر 5 فی صد۔
٭ بچّہ دانی کا کینسر 3.3فی صد۔
٭ غذا کی نالی کاکینسر 3.3فی صد۔
٭ تھائی رائڈ کا کینسر3.2فی صد۔
٭ مثانے کا کینسر3.2 فی صد۔
سرطان کی اور بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں ، مگر ہم نے اْن دس اقسام کا تذکرہ کیا ہے جو دْنیا میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ خیال رہے کہ مذکورہ بالا جائزہ جنس اور عْمر کی تخصیص کے بغیر لیا گیا ہے۔ دْنیا میں ہر سال ایک کروڑ سے زائد افراد سرطان کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دْنیا بَھر میں امراضِ قلب کے بعد سرطان کو موت کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سرطان کے مریضوں کی مجموعی تعداد 15 لاکھ کے قریب ہے اور ہر سال 80 ہزار لوگ سرطان کی وجہ سے موت کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔
سرطان کی تشخیص صرف علامات کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ زیادہ تر علامات عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں ۔ ہم اکثروبیشتر ان کا سامناکرتے رہتے ہیں۔ مثلاً جسم کے کسی بھی حصّے میں ورم یا گلٹی کا نمودار ہونا، کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون آنا، سانس لینے میں مشکل، نگلنے میں دشواری، وزن میں کمی ،تھکن،جسم میں درد، اسہال یا قبض، مقعد کے راستے خون آنا، جسم پر کسی نئے تِل کا نمودار ہونا یا پْرانے تل میں تبدیلی واقع ہونا، زخم اور السر کا ٹھیک نہ ہونا، خواتین کے سینے میں گلٹی پیدا ہونا، بھوک نہ لگنا، رات کوپسینے آنا، پیشاب کرنے کی عادت میں تبدیلی ہونا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ درست ہے کہ مذکورہ علامات عمومی نوعیت کی ہیں، مگر ان کی مسلسل موجودگی تقاضا کرتی ہے کہ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔
اس موقع پرمناسب ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے پانچ اقسام کے سرطان کا تذکرہ کیا جائے۔ اس تذکرے میں ہم نے جنس اور عْمر کو پیشِ نظر رکھا ہے۔
بریسٹ کینسر : پاکستان میں سب سے زیادہ پایاجانے والاسرطان ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد اس مرض میںمبتلا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں اس مرض کی تشخیص ہوجائے، تو مکمل صحت یابی کا نوّے فی صد امکان ہوتا ہے۔ مرض کا آغازچھاتی میں گلٹی بننے سے ہوتا ہے۔ خواتین کو خود اپنی چھاتی کا معائنہ کرتے رہنا چاہیے اورکسی بھی شبہے کی صْورت میں ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرناچاہیے۔ سرطان کے مجموعی مریضوں میں سے14.5فی صدکا تعلق اس مرض سے ہوتا ہے۔
ہونٹوں اور منہ کا کینسر : تناسب کے اعتبار سے پاکستان میں اس سرطان کا نمبر دوسرا ہے۔ 9.5 فی صد مریض اس مرض کا شکار ہیں۔ یہ عام طورپر ایسے لوگوں کو ہوتاہے جو پان، چھالیا، گٹکا ، تمباکو، سگریٹ اور الکحل کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس مرض کی ابتدائی علامات مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ مثلاً ہونٹوں پر یا منہ کے اندر ایسے چھالے کا بننا جوکسی بھی طرح ٹھیک نہ ہوسکے۔ منہ کے اندرونی حصّے میں سفید یا سْرخ دھبّوں کا نمودار ہونا، دانتوں کا ہلنا، منہ میں درد ہونا ، نگلنے، چبانے اور منہ کھولنے میں تکلیف محسوس کرنا وغیرہ۔ علاج کے باوجود 40 سے 50 فی صد مریض موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ زندہ بچ جانے والوں کو بھی تکلیف دہ زندگی کا سا منا کرنا پڑتا ہے۔
پھیپھڑوں کا کینسر : پاکستان میں سرطان کے مجموعی مریضوںمیں تقریباً چھے فی صد مریض پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس سرطان کی وجہ تمباکونوشی ہے۔ اس مرض کا شکار ہونے والے نوّے فی صد افراد تمباکونوشی کے عادی ہوتے ہیں۔زیادہ تر مریضوں میں مرض کی ابتدا بغیر کسی علامت کے ہوتی ہے۔دیگر مریضوں میں کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون کی آمد ، سانس لینے میں دشواری اور وزن میں کمی کی شکایات پائی جاتی ہیں۔ اکثر تمباکو نوش افراد کی وجہ سے ان کے اہلِ خانہ اور دوستوں کو بھی برے اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سگریٹ کا دھواں سانس کے ذریعے ان کے پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے۔ اس عمل کو passive inhalationکہا جاتا ہے ۔ یہ بھی پھیپھڑوں کے لیے باقاعدہ تمباکونوشی کی طرح خطرناک ہے۔
غذا کی نالی کا کینسر : پاکستان میں لوگوں کی بڑی تعداد غذا کی نالی کے سرطان میں مبتلا ہے۔ تناسب کے لحاظ سے یہ تعداد5.7 فی صد بنتی ہے۔ اس کی نمایاں علامات میں نگلنے میں دشواری، سینے میںجلن، بھوک اور وزن میں کمی شامل ہیں۔ تمباکو کا کثرت سے استعمال اور شراب نوشی اس مرض کی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔
بڑی آنت اور مقعد کا کینسر: مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے اس کینسر کا پاکستان میں پانچواں نمبرہے اور 4.8 فی صد مریض اس موذی بیماری کا سامنا کررہے ہیں۔اس بیماری کے دوران اسہال یا قبض، پیٹ میں درد ،مقعد سے خون کا اخراج، تھکن اور وزن میں کمی کی شکایات ہوتی ہیں۔
ہم پچھلی سطورمیں عرض کرچکے ہیں کہ محض علامات کی بنیاد پر سرطان کی تشخیص نہیں کی جاسکتی۔ سرطان کی تشخیص کے لیے مریض کو عمومی طور پر چارمراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جسمانی معائنہ ، لیبارٹری ٹیسٹ، ایکس رے، الٹرا ساؤنڈ اور سی ٹی اسکین وغیرہ اور بائیوآپسیBiopsy ۔ یہ سارے مراحل اہمیت کے حامل ہیں ، مگر سرطان کی حتمی تشخیص بائیو آپسی کے ذریعے ہوتی ہے، جس میں متاثرہ مقام سے چھوٹا سا ٹکڑا حاصل کرکے خوردبین سے اس کا معائنہ کیا جاتا ہے۔
یوں سرطان کی موجودگی یا غیر موجودگی کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ تشخیص کے ساتھ یہ جاننا بھی انتہائی ضروری ہے کہ سرطان کی شدّت اورپھیلاؤ کتنا ہے، سرطان ایک مقام پر محدود ہے یا دوسرے اعضاء بھی اس کی زد میں آچْکے ہیں۔یاد رہے کہ بروقت تشخیص سے ایک تہائی اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
سرطان کی حتمی تشخیص
سرطان کی شدّت اور پھیلاؤ سے آگہی کے بعد باقاعدہ علاج کا مرحلہ ہوتاہے۔ آج کل سرطان کے علاج کے لیے متعدّد جدیدطریقے منظرِعام پر آچْکے ہیں، مگر گزشتہ کئی برسوں سے مندرجہ ذیل تین طریقے زیادہ مستعمل ہیں:
سرجری : آپریشن کے ذریعے سرطان کو مکمل طور پر یا اس کے بڑے حصّے کو جسم سے نکال دیا جاتا ہے۔ سرجری کی بدولت سرطان کے مکمل خاتمے کا امکان ہوتاہے۔
کیموتھراپی: یہ علاج کا دوسرا معروف طریقہ ہے، جس میں بطور خاص سرطان کے لیے تیار کی ہوئی ادویہ کا استعمال ہوتا ہے۔ ان ادویہ کے خاصے مضراثرات ہیں، مگر اصل مقصد کے حصول کے لیے انھیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ریڈیوتھراپی : اس طریقہ علاج میں ایکس رے سے مشابہ طاقت ور شعاعیں استعمال کی جاتی ہیں جو سرطانی خلیات کو ہلاک کردیتی ہیں۔ پاکستان کے متعدّد بڑے شہروں میں اس قسم کے علاج کے مراکز موجود ہیں۔ اسی علاج کی جدید شکل سائبرنائف سسٹم ہے، جوزیادہ معتبر اور موثر ہے۔ اس میں روبوٹ کا استعمال ہوتا ہے اور براہِ راست سرطانی خلیات کو ہدف بنایا جاتا ہے۔
اس موقع پر مناسب ہوگا کہ سرطان کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے کچھ مزید طریقوں کا تذکرہ کردیا جائے۔
ہڈیوں کے گْودے کی پیوندکاری یا بون میرو ٹرانس پلانٹ: ہڈیوں کا گْودا وہ مقام ہے، جہاں خون کے تمام خلیات کی افزائش ہوتی ہے۔ گْودے کی پیوندکاری سے خون کے سرطانی خلیات کا خاتمہ ممکن ہے۔
ہارمون تھراپی: کچھ سرطان اس قسم کے ہوتے ہیں، جن کی افزائش کے لیے مختلف ہارمون استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً چھاتی اور پروسٹیٹ کا سرطان۔ اس طریقہ علاج سے سرطانی خلیات کی افزایش کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
کرایو ا بلیشن (Cryoablation): یہ بڑا منفرد طریقہ علاج ہے۔اس میں شدید ٹھنڈک کے ذریعے سرطانی خلیات کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔
ریڈیو فریکوئنسی ابلیشن( Radiofrequency Ablation): اس طریقہ میں برقی توانائی کے ذریعے حرارت پہنچا کر سرطانی خلیات کو تباہ کردیا جاتا ہے۔
امیونو تھراپی(ImmunoTherapy): یہ بالکل جدید طریقہ علاج ہے، جس میں انسان کے دفاعی نظام یعنی امیون سسٹم متحرک کرکے سرطان کا خاتمہ کیا جاتاہے۔
جینیاتی علاج ( Therapy Gene ): یہ بڑا محفوظ طریقہ علاج ہے، مگر بہت زیادہ مستعمل نہیں۔ اس میں ناکارہ جین کی جگہ صحت مند اور متحرّک جین جسم میں منتقل کیا جاتا ہے۔
سرطان کی شدّت اور وسعت کے لحاظ سے مندرجہ بالا کوئی ایک یا ایک سے زائد طریقے علاج کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔اس موقعے پر یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرطان کے علاج کے لیے اتنے منہگے اور مشکل طریقوں کی نوبت کیوں آتی ہے؟ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے جینے کا انداز تبدیل کرلیں، تو سرطان کے مریضوں میں 40فی صد کمی واقع ہوسکتی ہے۔درج ذیل پانچ محرّکات ایسے ہیں، جن پر توجّہ دے کر سرطان کے مرض پر خاصی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے:
1۔سگریٹ نوشی اور تمباکوکااستعمال ختم کردیا جائے۔
2۔شراب نوشی اور نشے کی دیگر عادات کو ترک کیا جائے۔
3۔خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ استعمال کیا جائے۔
4۔وزن کی زیادتی اورمٹاپے پر قابوپایا جائے۔
5۔غیرفعالیت کو ترک کرکے باقاعدہ ورزش کا آغاز کیا جائے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ اپنے رویّوں اور معاملات میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا جائے۔ غصّے، اشتعال، حسد، بغض، کینے اور دیگر منفی جذبات سے گریز کیا جائے۔ صرف تکالیف میں نہیں، ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے۔ باقاعدگی سے مطالعہ قرآن اور نماز کا اہتمام کیا جائے۔
یہ اندازِ زندگی اختیار کرنے سے ہمیں اندر کا اطمینان نصیب ہوتا ہے اور ہمارے جسم کا داخلی نظام درست ہوتا ہے۔ اس طرح ہمیں مختلف امراض سے محفوظ رہنے میں مدد ملتی ہے ۔ اگر پھر بھی کسی مرض میں مبتلا ہوجائیں ، تو ہمّت اور حوصلے کے ساتھ مرض کا سامنا کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔
( ڈاکٹر افتخار برنی اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔ )
ہر خلیے میں وہ ڈی این اے ہوتا ہے ، جو انسان کو کائنات کا منفرد کردار بخش دیتا ہے۔ ایسا کردار جو نشانِ ا نگشت کی طرح باقی دْنیا سے مختلف ہوتا ہے۔ خلیات ختم ہوجائیں تو زندگی کی شام ہوجاتی ہے۔کبھی کبھی یوںہوتا ہے کہ یہی خلیات اپنی شکل تبدیل کرلیتے ہیں اور تیزی سے تعداد میں بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ خلیات کا یہ بدلا ہوا رویّہ سرطان یا کینسرکو جنم دیتا ہے۔
اس مرض کو سنگین بنانے میں عوام الناس کی ناواقفیت اور کوتاہی کا بڑا دخل ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے، تو سرطان سے مکمل نجات ممکن ہے۔ اسی مقصد کی خاطر 2000ء میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں انسانیت کا درد رکھنے والے بہت سے لوگ جمع ہوئے ۔ انھوں نے ہرسال 4 فروری کو ' سرطان سے بچاؤ کا عالمی دِن ' منانے کا فیصلہ کیا۔
بعدازاں اقوامِ متحدہ نے بھی اس فیصلے کی تائید کی۔ یوں پچھلے23 برسوں سے اس اہم دِن کو منانے کا سلسلہ جاری ہے۔ عام طورپر ہر سال کسی بھی عالمی دِن کا ایک مرکزی موضوع یا تھیم ہوتاہے، مگر سرطان کے حوالے سے تین سالوں یعنی 2022ء سے 2024ء تک کے لیے ایک مشترکہ موضوع طے کیا گیا ہے :Close the care gap۔ اس موضوع کا تقاضا یہ ہے کہ دْنیا بَھرمیں سرطان کے مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال میں جو تفاوت پایا جاتا ہے، اسے ختم کیا جائے اور تمام مریضوں کو یکساں درجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
بلاشبہ بروقت تشخیص اور معیاری علاج کے ذریعے کینسر سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی وجوہ اور پورے عمل کو آسان پیرائے میں بیان کردیا جائے۔
انسانی جسم بے شمار خلیات یا Cells کا مجموعہ ہوتا ہے۔مختلف اعضاء کے خلیات دوسرے اعضاء سے مختلف ہوتے ہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ خلیہ زندگی کی بنیادی اکائی کا دوسرا نام ہے۔ خلیات کی اپنی زندگی کا مخصوص دورانیہ ہوتا ہے۔ فطر ت کی منصوبہ بندی کے تحت خلیات پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی کا دورانیہ پورا کرتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔ مرنے والے خلیات کی جگہ نئے خلیات سنبھال لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتارہتاہے، یوںا نسانی زندگی بھی پیہم رواں رہتی ہے۔
سرطان کے مرض میں یہ سلسلہ بوجوہ بالکل مختلف شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جسم کی ضرورت اور خواہش کے بغیر بے تحاشا نئے خلیات جنم لیتے ہیں اور ان کا حجم بھی بڑھنا شروع ہوجاتاہے۔ جن خلیات کا ختم ہوجانا بہتر تھا وہ اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اور نئے خلیات کے ساتھ مل کر ورم یا رسولی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
رسولی کو انگریزی زبان میں ٹیومر (Tumour) کہا جاتا ہے۔اسی ' رسولی ' یا ' ٹیومر ' کا دوسرا نام ' سرطان ' یا ' کینسر ' ہوتا ہے۔ رسولی جسم کے کسی بھی حصّے مثلاً دماغ ، جگر، گْردہ ، مثانہ اور معدہ وغیرہ میں پیدا ہوسکتی ہے۔ بنیادی طورپر سرطان کی دوقسمیں ہوتی ہیں، جنہیں کیفیات ، علامات اور شدّت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ممیز کیا جاتا ہے۔
وہ سرطان جو بے ضرر یا کم خطرناک ہوتے ہیں، انہیں حلیم یا Benign کہا جاتا ہے۔ بینائن ٹیومرکی اصطلاح سے اب عام لوگ بھی واقف ہوچْکے ہیں۔ سرطان کی دوسری قسم کو اْردومیں عنادی سرطان کہاجاتا ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ سرطان انسانی زندگی سے بغض و عناد رکھتاہے اور جسم کی تباہی کاباعث بنتا ہے۔ انگریزی میں اس قسم کو Cancer Malignant کہتے ہیں۔
بینائن ٹیومر ایک ہی جگہ پر موجود رہتا ہے، البتہ اس کے بڑھتے ہوئے حجم کی وجہ سے جسم کے اس حصّے یا قریبی حصّوں کا کام متاثر ہوسکتا ہے۔ ایسی صْورت میں اس قسم کی رسولی کو آپریشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے اور انسان عام صحت مند زندگی بسر کرنے کے قا بل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف عنادی سرطان یا میلگننٹ کینسر نہ صرف جسم کے اس حصّے کو متاثر کرتا ہے جہاں وہ موجود ہوتا ہے، بلکہ سرطانی خلیات cancerous cells مختلف ذرائع سے جسم کے دوسرے صحت مند اعضاء تک پہنچ جاتے ہیں۔ سرطانی خلیات کی اس منتقلی کو میٹاس ٹیسزMetastasis کہا جاتا ہے۔
مثال کے طورپر جگر اور معدے کے سرطان کے اثرات انسانی دماغ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح سے دوسرے مقام پر بھی سرطان پیدا ہوجاتا ہے ،جیسے ثانوی سرطان یا Secondary Cancer کہا جاتا ہے۔ سرطان کی مختلف شکلوں کو خلیات کی نوعیت کی بنیا د پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سرطان کی مندرجہ ذیل معروف اقسام سامنے آتی ہیں:
٭ کارسی نوما(Carcinoma) : یہ دْنیا میں سب سے زیادہ پایا جانے والا سرطان ہے، جو Epithelial Cells میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ وہ خلیات ہیں ،جوایک تہہ کی شکل میں ہمارے جسم کی اندرونی اور بیرونی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔ مذکورہ تہہ ہماری جِلد اورمختلف اندرونی اعضاء پر پائی جاتی ہے اور ایک قسم کے حفاظتی غلاف کا کام کرتی ہے۔
سارکوما:(Sarcoma) یہ کینسر عمومی طورپر Connective Tissue میں جنم لیتا ہے۔یہ ٹشوز ہمارے جسم کے مختلف حصّوں کو باہم مربوط کرتے ہیں۔اس لحاظ سے یہ سرطان انسانی ہڈیوں، نرم ہڈیوں یاCartilage ،خون کی نالیوں، چربی اور پٹّھوں وغیرہ میں پیدا ہوتا ہے۔
خون کا سرطان(Leukemia): اس قسم کے سرطان میں خون کے سفید ذرّات بے تحاشا بڑھ جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ خون کے مختلف ذرّات ہڈیوں کے گودے میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں پر ان کی افزائش میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔
لمفوما (Lymphoma): خون کے سفید ذرّات کی ایک خصوصی قسم کولمفوسائٹ Lymphocyteکہا جاتا ہے۔یہ انسانی جسم کے دفاعی نظام لمف سسٹم Lymph system میں پائے جاتے ہیں۔ سرطان کی صْورت میں یہ خلیات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
میلانوما :(Melanoma)یہ جِلد کے سرطان کی ایک قسم ہوتی ہے۔ جِلد میں خاص قسم کے خلیات پائے جاتے ہیں، جنہیں میلانو سائٹسMelanocytes کہا جاتا ہے۔ ہمارے جسم کی گندمی رنگت انہی خلیات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بعض اوقات جِلد کے یہ خلیات غیرمعمولی طورپر بڑھ کر رسولی یا ٹیومر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
سرطان کی علامات وشکایات جاننے سے قبل ضروری ہے کہ سرطان کے مریضوں کی مجموعی تعداد سے ہمیں آگاہی ہوجائے۔اس وقت پوری دْنیا میں دو کروڑ کے قریب سرطان کے مریض ہیں جن میں 55 فی صد کے لگ بھگ مَرد اور 45 فی صد خواتین ہیں۔مختلف اقسام کے سرطان کا تناسب درج ذیل ہے:
٭ چھاتی کا کینسر 12.5فی صد۔
٭ پھیپھڑوں کا کینسر12.2فی صد۔
٭ بڑی آنت اور مقعد کا کینسر10.7فی صد۔
٭ مردانہ غدود یا پروسٹیٹ کا کینسر 7. 8فی صد۔
٭ معدے کا کینسر 6 فی صد۔
٭ جگر کاکینسر 5 فی صد۔
٭ بچّہ دانی کا کینسر 3.3فی صد۔
٭ غذا کی نالی کاکینسر 3.3فی صد۔
٭ تھائی رائڈ کا کینسر3.2فی صد۔
٭ مثانے کا کینسر3.2 فی صد۔
سرطان کی اور بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں ، مگر ہم نے اْن دس اقسام کا تذکرہ کیا ہے جو دْنیا میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ خیال رہے کہ مذکورہ بالا جائزہ جنس اور عْمر کی تخصیص کے بغیر لیا گیا ہے۔ دْنیا میں ہر سال ایک کروڑ سے زائد افراد سرطان کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دْنیا بَھر میں امراضِ قلب کے بعد سرطان کو موت کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سرطان کے مریضوں کی مجموعی تعداد 15 لاکھ کے قریب ہے اور ہر سال 80 ہزار لوگ سرطان کی وجہ سے موت کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔
سرطان کی تشخیص صرف علامات کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ زیادہ تر علامات عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں ۔ ہم اکثروبیشتر ان کا سامناکرتے رہتے ہیں۔ مثلاً جسم کے کسی بھی حصّے میں ورم یا گلٹی کا نمودار ہونا، کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون آنا، سانس لینے میں مشکل، نگلنے میں دشواری، وزن میں کمی ،تھکن،جسم میں درد، اسہال یا قبض، مقعد کے راستے خون آنا، جسم پر کسی نئے تِل کا نمودار ہونا یا پْرانے تل میں تبدیلی واقع ہونا، زخم اور السر کا ٹھیک نہ ہونا، خواتین کے سینے میں گلٹی پیدا ہونا، بھوک نہ لگنا، رات کوپسینے آنا، پیشاب کرنے کی عادت میں تبدیلی ہونا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ درست ہے کہ مذکورہ علامات عمومی نوعیت کی ہیں، مگر ان کی مسلسل موجودگی تقاضا کرتی ہے کہ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔
اس موقع پرمناسب ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے پانچ اقسام کے سرطان کا تذکرہ کیا جائے۔ اس تذکرے میں ہم نے جنس اور عْمر کو پیشِ نظر رکھا ہے۔
بریسٹ کینسر : پاکستان میں سب سے زیادہ پایاجانے والاسرطان ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد اس مرض میںمبتلا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں اس مرض کی تشخیص ہوجائے، تو مکمل صحت یابی کا نوّے فی صد امکان ہوتا ہے۔ مرض کا آغازچھاتی میں گلٹی بننے سے ہوتا ہے۔ خواتین کو خود اپنی چھاتی کا معائنہ کرتے رہنا چاہیے اورکسی بھی شبہے کی صْورت میں ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرناچاہیے۔ سرطان کے مجموعی مریضوں میں سے14.5فی صدکا تعلق اس مرض سے ہوتا ہے۔
ہونٹوں اور منہ کا کینسر : تناسب کے اعتبار سے پاکستان میں اس سرطان کا نمبر دوسرا ہے۔ 9.5 فی صد مریض اس مرض کا شکار ہیں۔ یہ عام طورپر ایسے لوگوں کو ہوتاہے جو پان، چھالیا، گٹکا ، تمباکو، سگریٹ اور الکحل کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس مرض کی ابتدائی علامات مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ مثلاً ہونٹوں پر یا منہ کے اندر ایسے چھالے کا بننا جوکسی بھی طرح ٹھیک نہ ہوسکے۔ منہ کے اندرونی حصّے میں سفید یا سْرخ دھبّوں کا نمودار ہونا، دانتوں کا ہلنا، منہ میں درد ہونا ، نگلنے، چبانے اور منہ کھولنے میں تکلیف محسوس کرنا وغیرہ۔ علاج کے باوجود 40 سے 50 فی صد مریض موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ زندہ بچ جانے والوں کو بھی تکلیف دہ زندگی کا سا منا کرنا پڑتا ہے۔
پھیپھڑوں کا کینسر : پاکستان میں سرطان کے مجموعی مریضوںمیں تقریباً چھے فی صد مریض پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس سرطان کی وجہ تمباکونوشی ہے۔ اس مرض کا شکار ہونے والے نوّے فی صد افراد تمباکونوشی کے عادی ہوتے ہیں۔زیادہ تر مریضوں میں مرض کی ابتدا بغیر کسی علامت کے ہوتی ہے۔دیگر مریضوں میں کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون کی آمد ، سانس لینے میں دشواری اور وزن میں کمی کی شکایات پائی جاتی ہیں۔ اکثر تمباکو نوش افراد کی وجہ سے ان کے اہلِ خانہ اور دوستوں کو بھی برے اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سگریٹ کا دھواں سانس کے ذریعے ان کے پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے۔ اس عمل کو passive inhalationکہا جاتا ہے ۔ یہ بھی پھیپھڑوں کے لیے باقاعدہ تمباکونوشی کی طرح خطرناک ہے۔
غذا کی نالی کا کینسر : پاکستان میں لوگوں کی بڑی تعداد غذا کی نالی کے سرطان میں مبتلا ہے۔ تناسب کے لحاظ سے یہ تعداد5.7 فی صد بنتی ہے۔ اس کی نمایاں علامات میں نگلنے میں دشواری، سینے میںجلن، بھوک اور وزن میں کمی شامل ہیں۔ تمباکو کا کثرت سے استعمال اور شراب نوشی اس مرض کی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔
بڑی آنت اور مقعد کا کینسر: مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے اس کینسر کا پاکستان میں پانچواں نمبرہے اور 4.8 فی صد مریض اس موذی بیماری کا سامنا کررہے ہیں۔اس بیماری کے دوران اسہال یا قبض، پیٹ میں درد ،مقعد سے خون کا اخراج، تھکن اور وزن میں کمی کی شکایات ہوتی ہیں۔
ہم پچھلی سطورمیں عرض کرچکے ہیں کہ محض علامات کی بنیاد پر سرطان کی تشخیص نہیں کی جاسکتی۔ سرطان کی تشخیص کے لیے مریض کو عمومی طور پر چارمراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جسمانی معائنہ ، لیبارٹری ٹیسٹ، ایکس رے، الٹرا ساؤنڈ اور سی ٹی اسکین وغیرہ اور بائیوآپسیBiopsy ۔ یہ سارے مراحل اہمیت کے حامل ہیں ، مگر سرطان کی حتمی تشخیص بائیو آپسی کے ذریعے ہوتی ہے، جس میں متاثرہ مقام سے چھوٹا سا ٹکڑا حاصل کرکے خوردبین سے اس کا معائنہ کیا جاتا ہے۔
یوں سرطان کی موجودگی یا غیر موجودگی کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ تشخیص کے ساتھ یہ جاننا بھی انتہائی ضروری ہے کہ سرطان کی شدّت اورپھیلاؤ کتنا ہے، سرطان ایک مقام پر محدود ہے یا دوسرے اعضاء بھی اس کی زد میں آچْکے ہیں۔یاد رہے کہ بروقت تشخیص سے ایک تہائی اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
سرطان کی حتمی تشخیص
سرطان کی شدّت اور پھیلاؤ سے آگہی کے بعد باقاعدہ علاج کا مرحلہ ہوتاہے۔ آج کل سرطان کے علاج کے لیے متعدّد جدیدطریقے منظرِعام پر آچْکے ہیں، مگر گزشتہ کئی برسوں سے مندرجہ ذیل تین طریقے زیادہ مستعمل ہیں:
سرجری : آپریشن کے ذریعے سرطان کو مکمل طور پر یا اس کے بڑے حصّے کو جسم سے نکال دیا جاتا ہے۔ سرجری کی بدولت سرطان کے مکمل خاتمے کا امکان ہوتاہے۔
کیموتھراپی: یہ علاج کا دوسرا معروف طریقہ ہے، جس میں بطور خاص سرطان کے لیے تیار کی ہوئی ادویہ کا استعمال ہوتا ہے۔ ان ادویہ کے خاصے مضراثرات ہیں، مگر اصل مقصد کے حصول کے لیے انھیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ریڈیوتھراپی : اس طریقہ علاج میں ایکس رے سے مشابہ طاقت ور شعاعیں استعمال کی جاتی ہیں جو سرطانی خلیات کو ہلاک کردیتی ہیں۔ پاکستان کے متعدّد بڑے شہروں میں اس قسم کے علاج کے مراکز موجود ہیں۔ اسی علاج کی جدید شکل سائبرنائف سسٹم ہے، جوزیادہ معتبر اور موثر ہے۔ اس میں روبوٹ کا استعمال ہوتا ہے اور براہِ راست سرطانی خلیات کو ہدف بنایا جاتا ہے۔
اس موقع پر مناسب ہوگا کہ سرطان کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے کچھ مزید طریقوں کا تذکرہ کردیا جائے۔
ہڈیوں کے گْودے کی پیوندکاری یا بون میرو ٹرانس پلانٹ: ہڈیوں کا گْودا وہ مقام ہے، جہاں خون کے تمام خلیات کی افزائش ہوتی ہے۔ گْودے کی پیوندکاری سے خون کے سرطانی خلیات کا خاتمہ ممکن ہے۔
ہارمون تھراپی: کچھ سرطان اس قسم کے ہوتے ہیں، جن کی افزائش کے لیے مختلف ہارمون استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً چھاتی اور پروسٹیٹ کا سرطان۔ اس طریقہ علاج سے سرطانی خلیات کی افزایش کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
کرایو ا بلیشن (Cryoablation): یہ بڑا منفرد طریقہ علاج ہے۔اس میں شدید ٹھنڈک کے ذریعے سرطانی خلیات کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔
ریڈیو فریکوئنسی ابلیشن( Radiofrequency Ablation): اس طریقہ میں برقی توانائی کے ذریعے حرارت پہنچا کر سرطانی خلیات کو تباہ کردیا جاتا ہے۔
امیونو تھراپی(ImmunoTherapy): یہ بالکل جدید طریقہ علاج ہے، جس میں انسان کے دفاعی نظام یعنی امیون سسٹم متحرک کرکے سرطان کا خاتمہ کیا جاتاہے۔
جینیاتی علاج ( Therapy Gene ): یہ بڑا محفوظ طریقہ علاج ہے، مگر بہت زیادہ مستعمل نہیں۔ اس میں ناکارہ جین کی جگہ صحت مند اور متحرّک جین جسم میں منتقل کیا جاتا ہے۔
سرطان کی شدّت اور وسعت کے لحاظ سے مندرجہ بالا کوئی ایک یا ایک سے زائد طریقے علاج کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔اس موقعے پر یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرطان کے علاج کے لیے اتنے منہگے اور مشکل طریقوں کی نوبت کیوں آتی ہے؟ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے جینے کا انداز تبدیل کرلیں، تو سرطان کے مریضوں میں 40فی صد کمی واقع ہوسکتی ہے۔درج ذیل پانچ محرّکات ایسے ہیں، جن پر توجّہ دے کر سرطان کے مرض پر خاصی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے:
1۔سگریٹ نوشی اور تمباکوکااستعمال ختم کردیا جائے۔
2۔شراب نوشی اور نشے کی دیگر عادات کو ترک کیا جائے۔
3۔خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ استعمال کیا جائے۔
4۔وزن کی زیادتی اورمٹاپے پر قابوپایا جائے۔
5۔غیرفعالیت کو ترک کرکے باقاعدہ ورزش کا آغاز کیا جائے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ اپنے رویّوں اور معاملات میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا جائے۔ غصّے، اشتعال، حسد، بغض، کینے اور دیگر منفی جذبات سے گریز کیا جائے۔ صرف تکالیف میں نہیں، ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے۔ باقاعدگی سے مطالعہ قرآن اور نماز کا اہتمام کیا جائے۔
یہ اندازِ زندگی اختیار کرنے سے ہمیں اندر کا اطمینان نصیب ہوتا ہے اور ہمارے جسم کا داخلی نظام درست ہوتا ہے۔ اس طرح ہمیں مختلف امراض سے محفوظ رہنے میں مدد ملتی ہے ۔ اگر پھر بھی کسی مرض میں مبتلا ہوجائیں ، تو ہمّت اور حوصلے کے ساتھ مرض کا سامنا کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔
( ڈاکٹر افتخار برنی اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔ )