عمران ریاض کے خلاف مقدمہ خارج رِہا کرنے کا حکم

جوڈیشل مجسٹریٹ نے ریاستی ادارے کی توہین کے کیس میں ریمانڈ دینے کے بجائے رہا کرنے کا حکم دیدیا

عمران ریاض اتفاق اختلاف کا حق رکھتے ہیں، یہ بغاوت کیسے ہو گئی، وکیل کے دلائل (فوٹو فائل)

عدالت نے سینئر صحافی اور اینکر پرسن عمران ریاض خان کے خلاف مقدمہ خارج کرتے ہوئے انہیں رِہا کرنے کا حکم دے دیا۔

ایف آئی اے نے اینکر پرسن عمران ریاض خان کو ریاستی ادارے کی توہین کے کیس میں ریمانڈ کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا، جہاں عدالت نے ریمانڈ دینے کے بجائے مقدمہ خارج کرکے عمران ریاض کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے 'عمران ریاض کو حراست' میں لیکر سائبر کرائم کے حوالے کردیا


قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران وکیل میاں علی اشفاق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض نے عوام سے سوال پوچھا، عوام نے اپنی رائے دی، وہ اتفاق اختلاف کا حق رکھتے تھے، کوئی زور زبردستی تو نہیں تھی، پھر یہ بغاوت کیسے ہو گئی؟ جو سوال عمران ریاض نے فوج کے سیاست سے تعلق سے متعلق عوام سے پوچھا، اگر میں عدالت میں موجود افراد ہی سے رائے جاننے کے لیے پوچھ لوں تو یہ جرم کیسے ہوگیا؟

وکیل نے عدالت سے عمران ریاض کے خلاف درج ہونے والا مقدمہ خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اسی نوعیت کے 21 مقدمات عمران ریاض کے خلاف پہلے ہی درج ہیں۔ عمران ریاض کا کیس عوامی مفاد کا کیس بن چکا ہے۔ آئین پاکستان افواج پاکستان پر تنقید کرنے کا حق دیتا ہے، ایک بھی شخص عدالت میں ایسا نہیں کہ جو محب وطن نہیں ہے۔

عمران ریاض کے وکیل نے دلائل میں مزید کہا کہ عوام سے پوچھا کہ کون کہتا ہے کہ جنرل باجوہ نے صحیح بات کی، عمران ریاض نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ کے الفاظ دہرائے، ایک آئینی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔

عدالت نے عمران ریاض خان کے خلاف ریاستی ادارے کی توہین کے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جو کہ بعد میں جاری کیا گیا، جس کے مطابق عدالت نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔
Load Next Story