ٹڈاپ اسکینڈل گیلانی کی طلبی ایف آئی اے نے 14 سوالوں پر مبنی نوٹس بھیج دیا
سابق وزیراعظم کو11 اپریل کوتحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوکرمالی اسکینڈل میں سامنے آنے والے حقائق کی وضاحت کرنیکی ہدایت
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی میں اربوں روپے کی لوٹ مار کے الزام میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو14 سوالوں پر مبنی قانونی نوٹس ارسال کردیااور سابق وزیراعظم کو 11 اپریل کو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوکر مالی اسکینڈل میں سامنے آنے والے حقائق کی وضاحت کرنے کا کہا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی نے گزشتہ دورحکومت میں ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ایکسپورٹرزکودی جانے والی فریٹ سبسڈی کی مد میں7 ارب روپے کی خورد بردکی تحقیقات تقریباً ایک سال قبل شروع کی گئی تھیں، تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ٹڈاپ کے اعلی ترین افسران،کاغذی کمپنیوں کے مالکان اورسیاستدانوں کے مڈل مین کاکردار ادا کرنے والے افراد کی ملی بھگت سے گزشتہ 5 سالوں کے دوران قومی خزانے کودونوں ہاتھوں سے لوٹاگیا،ایک محتاط اندازے کے مطابق5 سالہ دورحکومت میں فریٹ سبڈی اوردیگر اسکیموں کے نام پر7ارب روپے کی خوردبرد کی گئی،ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اس سلسلے میں تحقیقات کاسلسلہ جاری ہے اوراب تک ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 2 سربراہان سمیت متعدداعلی افسران،آڈٹ کمپنی کے نمائندوں،کاغذی کمپنیوں کے مالکان ،بینکرز اور سیاستدانوں کے مڈل مین سمیت درجنوں افراد کوگرفتار کرکے ان کیخلاف 70مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔
مالی اسکینڈل میں ملوث ہونے کے شواہدسامنے آنے کے بعدایف آئی اے سابق وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے پرسنل سیکریٹری کوبھی گرفتار کرچکی ہے اورمخدوم امین فہیم کو بھی اس سلسلے میں قانونی نوٹس کااجرا کیا جاچکا ہے،سابق وزیراعظم کوایف آئی اے کی جانب سے جاری کردہ حالیہ نوٹس میں یہ پوچھاگیا ہے کہ کیاوہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک ریٹائرڈبیوروکریٹ محب اﷲ شاہ (ملزم) کو 26 جولائی 2008 کو 3 سالہ مدت کیلیے ٹڈاپ کا چیف ایگزیکٹو مقرر کیا؟، فریٹ سبسڈی اسکینڈل کے ایک مرکزی ملزم فیصل صدیق خان بھی اڈیالہ جیل میں سابق وزیراعظم کی اسیری کے دنوں میں بطور قیدی موجودتھے اور دوران ان دونوں کے درمیان دوستانہ مراسم ہوئے اورالیکشن اوربعد ازاں وزیراعظم کاعہدہ حاصل کرنے کے بعدمراسم مزیدمضبوط ہوئے۔
کیایہ درست ہے کہ یوسف رضاگیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران محمدزیبر بطور ڈپٹی سیکریٹری وزیراعظم ہائوس میں تعینات تھے؟، کیا یہ بھی درست ہے کہ فیصل صدیق خان مالی اسکینڈل کے ایک اور ملزم محمد فردوس کے ہمراہ وزیراعظم ہائوس میں آپ(یوسف رضا گیلانی)سے ملاقات کی اوراس موقع پر فیصل صدیق خان نے چیف ایگزیکٹو ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کوجنرل فریٹ سبسڈی اسکیم کومنظور کرنے کی ہدایت دینے کے عوض 50 لاکھ روپے ادا کیے جوکہ ڈپٹی سیکریٹری محمد زبیر نے وصول کیے؟،نوٹس میں اٹھائے جانے والے سوالوں میں یہ بھی بتایا گیاکہ فیصل صدیق خان نے چیف ایگزیکٹوٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی سے ان کے کراچی آفس میں وزیراعظم ہائوس کے نمائندے کے طور پرملاقات کی اور اس موقع پر سابق وزیراعظم کی جانب سے ڈپٹی سیکریٹری محمد زبیر نے محب اﷲ شاہ کو وزیراعظم ہائوس میں اداکی جانے والی رقم کے عوض ہدایات جاری کیں۔
وزیراعظم ہائوس اورٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے صدر دفتر کاٹیلی فونک ریکارڈ اس کا گواہ ہے،اس ملاقات کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر فریٹ سبسڈی اسکیم کے تحت وزارت تجارت نے436 ملین روپے جاری کیے اور یہ رقم فیصل صدیق خان کے خواہش کے مطابق درجنوں کاغذی ایکسپورٹ کمپنیوں کوجاری کی گئی اور رقم کا60سے 70فیصل صدیق خان اور وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے نام پرکام کرنے والے گروہ میں تقسیم کیاگیا اور اسی طرح تقریباً5 ارب روپے فریٹ سبسڈی کی مدمیں کاغذی کمپنیوں کو جاری کیے گئے،فیصل صدیق خان کے کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کے دوران کا ٹیلی فونک ریکارڈیہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مسلسل وزیراعظم ہائوس کے ٹیلی فون نمبر 051-9222666 سے مسلسل رابطے میں تھے جوکہ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسی گیلانی کو الاٹ کیا گیاتھا۔
نوٹس میں مزید بتایا گیاہے کہ کرپشن کی رقم کی تقسیم پر ہونے والے تنازع کے بعد فیصل صدیق خان کی جگہ ملتان کے ایک تاجر غلام عباس کو وزیراعظم کے نمائندے کے طور پر تعینات کیا گیا اور ٹڈاپ کے ٹیلی فونک ریکارڈ سے یہ ثابت ہوتاہے کہ غلام عباس بعد ازاں فیصل صدیق کا کردار ادا کرتا رہا۔نوٹس کے مطابق سی دمحب اﷲ شاہ کوان کے عہدے کی مدت ختم ہونے سے قبل غیرقانونی طور پر برطرف کرکے طارق اقبال پوری کو چیف ایگزیکٹوکے عہدے پر تعینات کیا گیا اور اس کے فوری بعد ایک خطیررقم کاغذی کمپنیوں کو فریٹ سبسڈی کے جعلی کلیمزکے عوض جاری کی گئی اوربالکل اسی طریقے سے ایک مرتبہ پھر 5 جولائی 2012 کو طارق اقبال پوری کوان کے عہدے سے فارغ کردیا گیا اورعابد جاوید اکبر کو اس عہدے پر تعینات کیا گیاتاکہ قومی خزانے کی دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاسکے، ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے یوسف رضا گیلانی کو اس سوالوں کی وضاحت کیلیے 11 اپریل کو طلب کیاہے۔
تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی نے گزشتہ دورحکومت میں ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ایکسپورٹرزکودی جانے والی فریٹ سبسڈی کی مد میں7 ارب روپے کی خورد بردکی تحقیقات تقریباً ایک سال قبل شروع کی گئی تھیں، تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ٹڈاپ کے اعلی ترین افسران،کاغذی کمپنیوں کے مالکان اورسیاستدانوں کے مڈل مین کاکردار ادا کرنے والے افراد کی ملی بھگت سے گزشتہ 5 سالوں کے دوران قومی خزانے کودونوں ہاتھوں سے لوٹاگیا،ایک محتاط اندازے کے مطابق5 سالہ دورحکومت میں فریٹ سبڈی اوردیگر اسکیموں کے نام پر7ارب روپے کی خوردبرد کی گئی،ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اس سلسلے میں تحقیقات کاسلسلہ جاری ہے اوراب تک ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 2 سربراہان سمیت متعدداعلی افسران،آڈٹ کمپنی کے نمائندوں،کاغذی کمپنیوں کے مالکان ،بینکرز اور سیاستدانوں کے مڈل مین سمیت درجنوں افراد کوگرفتار کرکے ان کیخلاف 70مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔
مالی اسکینڈل میں ملوث ہونے کے شواہدسامنے آنے کے بعدایف آئی اے سابق وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے پرسنل سیکریٹری کوبھی گرفتار کرچکی ہے اورمخدوم امین فہیم کو بھی اس سلسلے میں قانونی نوٹس کااجرا کیا جاچکا ہے،سابق وزیراعظم کوایف آئی اے کی جانب سے جاری کردہ حالیہ نوٹس میں یہ پوچھاگیا ہے کہ کیاوہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک ریٹائرڈبیوروکریٹ محب اﷲ شاہ (ملزم) کو 26 جولائی 2008 کو 3 سالہ مدت کیلیے ٹڈاپ کا چیف ایگزیکٹو مقرر کیا؟، فریٹ سبسڈی اسکینڈل کے ایک مرکزی ملزم فیصل صدیق خان بھی اڈیالہ جیل میں سابق وزیراعظم کی اسیری کے دنوں میں بطور قیدی موجودتھے اور دوران ان دونوں کے درمیان دوستانہ مراسم ہوئے اورالیکشن اوربعد ازاں وزیراعظم کاعہدہ حاصل کرنے کے بعدمراسم مزیدمضبوط ہوئے۔
کیایہ درست ہے کہ یوسف رضاگیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران محمدزیبر بطور ڈپٹی سیکریٹری وزیراعظم ہائوس میں تعینات تھے؟، کیا یہ بھی درست ہے کہ فیصل صدیق خان مالی اسکینڈل کے ایک اور ملزم محمد فردوس کے ہمراہ وزیراعظم ہائوس میں آپ(یوسف رضا گیلانی)سے ملاقات کی اوراس موقع پر فیصل صدیق خان نے چیف ایگزیکٹو ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کوجنرل فریٹ سبسڈی اسکیم کومنظور کرنے کی ہدایت دینے کے عوض 50 لاکھ روپے ادا کیے جوکہ ڈپٹی سیکریٹری محمد زبیر نے وصول کیے؟،نوٹس میں اٹھائے جانے والے سوالوں میں یہ بھی بتایا گیاکہ فیصل صدیق خان نے چیف ایگزیکٹوٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی سے ان کے کراچی آفس میں وزیراعظم ہائوس کے نمائندے کے طور پرملاقات کی اور اس موقع پر سابق وزیراعظم کی جانب سے ڈپٹی سیکریٹری محمد زبیر نے محب اﷲ شاہ کو وزیراعظم ہائوس میں اداکی جانے والی رقم کے عوض ہدایات جاری کیں۔
وزیراعظم ہائوس اورٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے صدر دفتر کاٹیلی فونک ریکارڈ اس کا گواہ ہے،اس ملاقات کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر فریٹ سبسڈی اسکیم کے تحت وزارت تجارت نے436 ملین روپے جاری کیے اور یہ رقم فیصل صدیق خان کے خواہش کے مطابق درجنوں کاغذی ایکسپورٹ کمپنیوں کوجاری کی گئی اور رقم کا60سے 70فیصل صدیق خان اور وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے نام پرکام کرنے والے گروہ میں تقسیم کیاگیا اور اسی طرح تقریباً5 ارب روپے فریٹ سبسڈی کی مدمیں کاغذی کمپنیوں کو جاری کیے گئے،فیصل صدیق خان کے کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کے دوران کا ٹیلی فونک ریکارڈیہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مسلسل وزیراعظم ہائوس کے ٹیلی فون نمبر 051-9222666 سے مسلسل رابطے میں تھے جوکہ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسی گیلانی کو الاٹ کیا گیاتھا۔
نوٹس میں مزید بتایا گیاہے کہ کرپشن کی رقم کی تقسیم پر ہونے والے تنازع کے بعد فیصل صدیق خان کی جگہ ملتان کے ایک تاجر غلام عباس کو وزیراعظم کے نمائندے کے طور پر تعینات کیا گیا اور ٹڈاپ کے ٹیلی فونک ریکارڈ سے یہ ثابت ہوتاہے کہ غلام عباس بعد ازاں فیصل صدیق کا کردار ادا کرتا رہا۔نوٹس کے مطابق سی دمحب اﷲ شاہ کوان کے عہدے کی مدت ختم ہونے سے قبل غیرقانونی طور پر برطرف کرکے طارق اقبال پوری کو چیف ایگزیکٹوکے عہدے پر تعینات کیا گیا اور اس کے فوری بعد ایک خطیررقم کاغذی کمپنیوں کو فریٹ سبسڈی کے جعلی کلیمزکے عوض جاری کی گئی اوربالکل اسی طریقے سے ایک مرتبہ پھر 5 جولائی 2012 کو طارق اقبال پوری کوان کے عہدے سے فارغ کردیا گیا اورعابد جاوید اکبر کو اس عہدے پر تعینات کیا گیاتاکہ قومی خزانے کی دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاسکے، ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے یوسف رضا گیلانی کو اس سوالوں کی وضاحت کیلیے 11 اپریل کو طلب کیاہے۔