مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے بھارتی ہتھکنڈے

مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں اپنے عروج پر

مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں اپنے عروج پر۔ فوٹو: فائل

٭مقبوضہ جموں و کشمیر رَقبہ کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے۔

58%رَقبہ لَداخ،26%جموں اور 16%وادی کشمیر کا ہے جبکہ55%آبادی مقبوضہ وادی کشمیر،43%جموں اور2%لَداخ میں رہتی ہے۔

مودی سرکار کا مشن آبادی کے اس تناسب کو تیزی سے تبدیل کر نا ہے۔ اسی سلسلے میںمودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اگلی مردم شماری 2021ء سے2026ء تک ملتوی کر رکھی ہے۔ ۔

کشمیر کے مُسلم تشخص کو مسخ کرنے کی غرض سے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے ۔

آرٹیکلز 370اور 35-Aغیر آئینی طریقے سے ختم کر کے مودی سرکار مسلم اکثریت ختم کرنے کے درپے ہے۔ متنازعہ علاقے کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنا جنیوا کنونشن4کے آرٹیکل 49کی خلاف ورزی ہے۔ اس گھناؤنے منصوبے پر انڈیا کو اندرونی اور بیرونی مذمت کا سامنا ہے ۔

برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی اس عمل کی مذمت کی اور کشمیر میں ممکنہ ریفرنڈم کا نتیجہ تبدیل کرنے کی سازش قرار دے دیا تھا۔

کشمیر میں بیرونی ہندوؤں کی آباد کاری کا ریلہ بھی چھوڑ دیا گیا۔ نئے ڈومیسائل لاء کے تحت 4.2ملین سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا۔ لاکھوں مزید غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گورکھا کمیونٹی کے 6600ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی ڈومیسائل دے دیا گیا ۔ ڈومیسائل جاری کرنے کا اختیار تحصیلدار کو حاصل ہے ۔ اب ہزاروں باہر سے آئے مزدوربھی ڈومیسائل حاصل کر سکیں گے ۔ لاکھوں مقامی کشمیریوں کو بے گھر اور بے زمین کرنے کا گھناؤنا منصوبہ جاری ہے ۔

RSS بھارت کو ہندو راشٹرا بنانے پر تُلی BJPکافی عرصے سے لاکھوں ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔5لاکھ کشمیری پنڈتوں کیلئے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ایک طرف کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا گھناؤنا منصوبہ حرکت میں آچکا ہے۔ دوسری طرف شہریت کے امتیازی قانون سے لاکھوں مسلمانوں کو ہندوستان میں ریاستی تحفظ سے محروم کر دیا گیاہے۔

آرٹیکل 35-Aکے خاتمے کے بعد اب غیر کشمیریوں پر مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید نے پر کوئی رکاوٹ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اونے پونے داموں جائیداد خریدنے کی دوڑ میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج بھی شامل ہے۔

سیکیورٹی فورسز کیلئے اب زمین حاصل کرنے کیلئے خصوصی سر ٹیفیکیٹ (NOC) کی شرط ختم کر دی گئی۔اب دہلی سرکار نے مسلح افواج کوسٹریٹجک ایریاز کے قیام کی اجازت دے دی ہے جو سینکڑوں ایکڑز پر محیط ہونگے۔ اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988ء اور جموں وکشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970ء تبدیل کر کے مسلح افواج اور کنٹونمنٹ بورڈ ز کو تعمیرات کی کُھلی ڈھیل دے دی ہے۔


اسرائیل کی طرز پر پورے مقبوضہ کشمیر کو گیریژن سٹی بنانے کی سازش بھی دُنیا کے سامنے ہے ۔ محبوبہ مُفتی نے بھی جنوری 2018ء میں بھارتی فوج کی قبضہ گیری کے خلاف آواز اُٹھائی تھی۔ زمین کی خریداری کی اجازت دے کر مقبوضہ کشمیر پر ہندو سرمایہ داروں کے قبضے کا راستہ ہموار کر دیا گیا۔ مقامی لوگوں کی زمینیں ضبط اور نیلام کی جا رہی ہیں ۔

بھارتی حکومت 2لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے بھی خرید نے جا رہی ہے۔

قبضہ گیری کی ہمہ گیر مہم سے کشمیر کے وجود کو خطرہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے علاقے میں تعمیر و ترقی اور معاشی خوشحالی کے کھوکھلے نعرے مودی سرکار کو آئینی دِکھا رہے ہیں۔اُلٹا ان کارستانیوں سے مقبوضہ کشمیر میں معاشی و معاشرتی بدحالی میں اضافہ ہوا ہے۔

اگست 2019ء کے اقدام کے بعد صرف ایک سال میں کشمیر ی معیشت کو5.3بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ۔

جموں و کشمیر میںBJPکا ہندو وزیر اعلیٰ لانے کیلئے بڑے پیمانے پر سازشیں ہو رہی ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں میں جوڑ توڑ اورجموں و کشمیر اپنی پارٹی(JKAP) کا قیام بھی اسی سازش کا حصہ ۔جموں و کشمیر میں نئی انتخابی حد بندی ہونے جا رہی ہے۔

نئی حلقہ بندی کے بعد انتخابات کا ڈھونک رچاکر سادہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اس کے علاوہ ایک نئے ڈویژن کا قیام بھی کیا جا رہا ہے تاکہ جموں و کشمیر کی نسبت کا اثر رَسوخ کم کیا جا سکے۔مجوزہ ڈویژن میں رمبان، کشتوار، ڈوڈا، سوفیان ، انتناگ اور کُلگم کے اضلاع شامل ہونگے۔

دوسری طرف علاوہ مقبوضہ کشمیر کی گجر قبائلی آبادی کو بھی مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔آئے روز ان خانہ بدوشوں کے گھروں کا جلاؤ گھیراؤ عام ہے ۔ ایک لاکھ سے زائد بکروال آبادی پر معاشی اور معاشرتی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جنوری 2008ء میں ضلع کٹوہا کے علاقے رسانہ میں 8سالہ بکروال بچی آصفہ کا انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں گینگ ریپ اور قتل ایسا ہی اندوہناک واقعہ ہے۔

ہزاروں مسلم بکروا ل خاندانوں کو جنگلوں سے بے دخل اور بے گھر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ انھیں انڈیا کے فاریسٹ رائیٹس ایکٹ (FRA)کے تحت تحفظ حاصل ہے۔بھارت کے غاصبانہ منصوبوں اور استحصالی ہتھکنڈوں نے کشمیریوں میں نفرت اور آزادی کے جذبہ کو مزید تقویت دی ہے۔

پاکستان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خاموشی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دینے کے بھارتی منصوبے کو مکمل ہوتا دیکھتا رہے۔

 
Load Next Story