کراچی بارش کے دوران ڈوبنے والے نوجوان کی لاش تاحال نہ مل سکی
مظفر عید کی شاپنگ سے واپس آتے وقت اہلیہ اور شیر خوار بیٹے کیساتھ بفرزون کے نالے میں ڈوب گئے تھے۔
ISLAMABAD:
مملکت خداداد پاکستان کے سب سے بڑے شہر ، ملک کے معاشی حب اور میٹرو پولیٹن سٹی کہلانے والے کراچی میں بارش شہریوں کے لیے رحمت کے بجائے اکثر و بیشتر زحمت میں ہی تبدیل ہوجاتی ہے ، اگست 2013 کے آغاز میں ہونے والی بارشیں طوفانوں میں تبدیل ہوئیں اور درجنوں افراد پانی کی نذر ہوگئے۔
ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ بفرزون کے علاقے کے بی آر سوسائٹی میں پیش آیا جہاں کار سوار میاں ، بیوی اور ان کا ڈھائی سالہ بیٹا ڈوب گئے لیکن المیہ یہ ہے کہ انجینئر مظفر کی لاش تاحال نہیں مل سکی ہے جو شہر میں موجود ریسکیو اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ وقوعہ کے وقت مظفر اپنی اہلیہ اور بیٹے کو طارق روڈ سے عید کی شاپنگ کروا کر واپس آرہا تھا کہ کے بی آر سوسائٹی میں پلیہ سے گزرتے وقت پانی کا تیز ریلہ آیا اور انھیں گاڑی سمیت بہا لے گیا۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ حادثے کے وقت مظفر گاڑی سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا اور اس نے ارد گرد موجود افراد سے مدد طلب کی تھی جس پر وہاں موجود نوجوانوں نے رسیاں پھینکیں لیکن اسی اثنا میں گاڑی ڈوبنے لگی جس پر مظفر اپنی اہلیہ اور بچے کو بچانے کی خاطر دوبارہ گاڑی کے اندر چلا گیا لیکن پھر وہ کبھی واپس نہیں آسکا حتیٰ کہ اس کی لاش آج تک نہیں مل سکی۔ واقعے کے بعد انتظامیہ کو فوری طور پر مطلع کیا گیا لیکن کوئی داد رسی نہ ہوسکی ، اہل علاقہ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں جاری رکھے رہے ، بعدازاں حکومتی مشینری موقع پر پہنچی اور تلاش کا کام شروع کیا گیا۔
اس دوران بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ بعض اوقات مشینری میں ڈیزل ختم ہونے کے بعد علاقہ مکینوں اور امدادی رضاکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی مشینری میں ڈیزل ڈلوایا تاکہ جلد سے جلد تینوں افراد اور ان کی کار کو نکالا جاسکے۔ 2 روز کی سخت جدوجہد کے بعد 5 اگست 25 رمضان المبارک کو نالے سے کار اور ماں بیٹے کی لاشیں پاک بحریہ کے غوطہ خوروں نے نکالیں لیکن شوہر انجینئر مظفر کی لاش نہیں مل سکی ، اس واقعے کے صرف چند روز بعد ہی عید الفطر تھی لیکن مذکورہ خاندان کے گھر کہرام مچا ہوا تھا ، وقوعہ کے وقت حکومتی عہدیداران نے آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کی غرض سے کئی بلند و بانگ دعوے کیے لیکن کسی پر بھی عمل ہوتا نظر نہیں آیا ، مظفر کے اہل خانہ آج بھی اپنے پیارے کی یاد میں حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے ہیں ، ان کی پُرنم آنکھیں اس بات کا سوال کرتی ہیں کہ ہے کوئی جو انھیں مظفر کے بارے میں کچھ بتاسکے۔
بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی کے باعث ابلنے والے نالوں اور گاڑی نالے میں گر کر میاں بیوی اور بچے کی المناک ہلاکت پر اس وقت کے وزیر بلدیات اویس مظفر نے واقعہ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس میں ذمے داروں کا تعین کر کے انھیں قرار واقعی سزا دینے کی ہدایت جاری کی گئی تھی تاہم نہ تو اس کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آسکی اور نہ ہی غفلت و لاپروائی کے مرتکب بلدیاتی افسران کے ناموإ لا تعین کیا جا سکا ۔ اگر تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ تیار کر کے اس وقت کے وزیر بلدیات کو رپورٹ ارسال کی تھی تو کیا وجہ ہے کہ آج تک انجینئر مظفر ان کی اہلیہ اور شیر خوار بچے کی المناک موت کے ذمہ داروں کے خلاف تاحال کوئی کارروائی عمل میں کیوں نہیں لائی جا سکی۔
مملکت خداداد پاکستان کے سب سے بڑے شہر ، ملک کے معاشی حب اور میٹرو پولیٹن سٹی کہلانے والے کراچی میں بارش شہریوں کے لیے رحمت کے بجائے اکثر و بیشتر زحمت میں ہی تبدیل ہوجاتی ہے ، اگست 2013 کے آغاز میں ہونے والی بارشیں طوفانوں میں تبدیل ہوئیں اور درجنوں افراد پانی کی نذر ہوگئے۔
ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ بفرزون کے علاقے کے بی آر سوسائٹی میں پیش آیا جہاں کار سوار میاں ، بیوی اور ان کا ڈھائی سالہ بیٹا ڈوب گئے لیکن المیہ یہ ہے کہ انجینئر مظفر کی لاش تاحال نہیں مل سکی ہے جو شہر میں موجود ریسکیو اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ وقوعہ کے وقت مظفر اپنی اہلیہ اور بیٹے کو طارق روڈ سے عید کی شاپنگ کروا کر واپس آرہا تھا کہ کے بی آر سوسائٹی میں پلیہ سے گزرتے وقت پانی کا تیز ریلہ آیا اور انھیں گاڑی سمیت بہا لے گیا۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ حادثے کے وقت مظفر گاڑی سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا اور اس نے ارد گرد موجود افراد سے مدد طلب کی تھی جس پر وہاں موجود نوجوانوں نے رسیاں پھینکیں لیکن اسی اثنا میں گاڑی ڈوبنے لگی جس پر مظفر اپنی اہلیہ اور بچے کو بچانے کی خاطر دوبارہ گاڑی کے اندر چلا گیا لیکن پھر وہ کبھی واپس نہیں آسکا حتیٰ کہ اس کی لاش آج تک نہیں مل سکی۔ واقعے کے بعد انتظامیہ کو فوری طور پر مطلع کیا گیا لیکن کوئی داد رسی نہ ہوسکی ، اہل علاقہ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں جاری رکھے رہے ، بعدازاں حکومتی مشینری موقع پر پہنچی اور تلاش کا کام شروع کیا گیا۔
اس دوران بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ بعض اوقات مشینری میں ڈیزل ختم ہونے کے بعد علاقہ مکینوں اور امدادی رضاکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی مشینری میں ڈیزل ڈلوایا تاکہ جلد سے جلد تینوں افراد اور ان کی کار کو نکالا جاسکے۔ 2 روز کی سخت جدوجہد کے بعد 5 اگست 25 رمضان المبارک کو نالے سے کار اور ماں بیٹے کی لاشیں پاک بحریہ کے غوطہ خوروں نے نکالیں لیکن شوہر انجینئر مظفر کی لاش نہیں مل سکی ، اس واقعے کے صرف چند روز بعد ہی عید الفطر تھی لیکن مذکورہ خاندان کے گھر کہرام مچا ہوا تھا ، وقوعہ کے وقت حکومتی عہدیداران نے آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کی غرض سے کئی بلند و بانگ دعوے کیے لیکن کسی پر بھی عمل ہوتا نظر نہیں آیا ، مظفر کے اہل خانہ آج بھی اپنے پیارے کی یاد میں حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے ہیں ، ان کی پُرنم آنکھیں اس بات کا سوال کرتی ہیں کہ ہے کوئی جو انھیں مظفر کے بارے میں کچھ بتاسکے۔
بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی کے باعث ابلنے والے نالوں اور گاڑی نالے میں گر کر میاں بیوی اور بچے کی المناک ہلاکت پر اس وقت کے وزیر بلدیات اویس مظفر نے واقعہ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس میں ذمے داروں کا تعین کر کے انھیں قرار واقعی سزا دینے کی ہدایت جاری کی گئی تھی تاہم نہ تو اس کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آسکی اور نہ ہی غفلت و لاپروائی کے مرتکب بلدیاتی افسران کے ناموإ لا تعین کیا جا سکا ۔ اگر تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ تیار کر کے اس وقت کے وزیر بلدیات کو رپورٹ ارسال کی تھی تو کیا وجہ ہے کہ آج تک انجینئر مظفر ان کی اہلیہ اور شیر خوار بچے کی المناک موت کے ذمہ داروں کے خلاف تاحال کوئی کارروائی عمل میں کیوں نہیں لائی جا سکی۔