محکمہ تعلیم کا خوش آیند فیصلہ چند مزید تجاویز
امید ہے کہ محکمہ تعلیم مندرجہ بالا تجاویز پر غور کر کے مذکورہ مسائل کا حل بھی نکالے گا
محکمہ تعلیم سندھ کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ انسپکشن اینڈ رجسٹریشن پرائیویٹ اسکول کے ایک حالیہ اور بروقت فیصلے کے تحت اسکولوں کی صبح کی ٹائمنگ آگے بڑھا کر ساڑھے آٹھ بجے کردی گئی۔
اس فیصلے کو طلبہ کے والدین کی جانب سے بے حد سراہا گیا کیونکہ کراچی شہر میں سردی کی اچانک تیز لہر کے باعث بچے ہی نہیں بڑے بھی متاثر ہو رہے تھے۔ یہ ایک اہم مسئلہ تھا جس پر ہمیشہ صرف بات ہی کی جاتی تھی مگر کبھی کسی نے اس کا حل نہیں نکالا تھا۔
ذرا چھوٹے معصوم بچوں کی حالت دیکھیے کہ وہ صبح سویرے اسکول پہنچنے کے لیے سورج نکلنے سے بھی پہلے سخت سرد موسم میں گھروں سے اسکول جانے کے لیے نکلتے تھے اور جو بچے وین کے ذریعے اسکول جاتے ہیں انھیں اور بھی جلدی اٹھنا پڑتا ہے کیونکہ وین والے تمام بچوں کو گھروں سے اٹھانے کے لیے اور بھی جلدی کرتے ہیں اور یوں وین والے بچے دیگر بچوں کے مقابلے میں کم از کم پون گھنٹہ پہلے تیار ہوکر اپنی وین میں سوار ہوتے ہیں۔
یوں وقت کی کمی کے باعث اکثر بچے تو صبح ناشتہ بھی نہیں کرتے۔ بہرکیف حکومت سندھ کی جانب سے یہ فیصلہ بہت ہی خوش آیند ثابت ہوا ہے اور اس قسم کے فیصلے آیندہ بھی صرف سرد موسم میں ہی نہیں بلکہ گرمیوں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔
یہاں راقم الحروف بچوں کی تعلیم اور ان کے اداروں سے متعلق چند اور تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے اس امید پر کہ مسائل کو سمجھنے اور بروقت فیصلے کرنے والے سندھ حکومت کے ذمے داران مزید اچھے فیصلے کریں۔
ایک اہم مسئلہ بچوں کی اسکول کی چھٹی کے اوقات سے متعلق ہے۔ اس وقت تمام اسکولوں کی چھٹی کے تقریبا ایک ہی اوقات ہیں۔ عموما ایسے علاقوں میں جہاں ایک ہی بلاک یا سڑک کے کنارے ایک سے زائد اسکول ہوتے، وہاں چھٹی کے اوقات میں بچوں کو لانے اور لیجانے والی گاڑیاں اسکولوں کے گیٹ کے سامنے اس قدر زیادہ تعداد میں کھڑی ہوتی ہیں کہ آدھی سے زیادہ سڑک اور بعض اوقات تقریباً پوری سڑک پر بچوں کو لینے والی گاڑیاں پارک ہو جاتی ہیں اور یوں ٹریفک کی روانی متاثر ہونے سے شدید ٹریفک جام کا باعث بنتی ہے۔
یہ حال کراچی جیسے بڑے شہروں میں تو عام ہے اور اس میں چھوٹے بڑے تمام علاقوں کے اسکولوں کے راستے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ کراچی شہر میں تو ٹریفک جام کی یہ صورتحال ان بڑے اسکولوں کی بھی ہوتی ہے جہاں امیر طبقے کے ہر ایک طالب علم کو لینے کے لیے کار آتی ہے اور اس عمل سے دو سو فٹ کی سڑک بھی کار پارکنگ میں بدل جاتی ہے اور جب تک یہ گاڑیاں نکل نہ جائیں بڑی شاہراہ بھی ٹریفک کے لیے تقریباً بند رہتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ حل صرف ایک نوٹی فیکشن ہے ، اگر اس مسئلے پر صرف ایک نوٹیفیکیشن نکال دیا جائے کہ تمام اسکول اپنے کلاسسز کی چھٹی دو حصوں میں دس منٹ کے وقفے سے کریں ، نیز ایک ہی بلاک کا سڑک کے کنارے ایک سے زائد اسکول بھی ایک دوسرے اسکول کی چھٹی کے اوقات میں دس منٹ کا فرق رکھیں ، تو اس عمل کے بعد ہر اسکول کی طلبہ کی تعداد کو لینے کے لیے آنے والی گاڑیاں دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں گی پھر قریب قریب قائم اسکولوں کے چھٹی کے اوقات کے فرق کے باعث ان کے اسکولوں کے بچوں کی گاڑیاں بھی ایک ساتھ اسکولوں کے سامنے کھڑے ہوکر رش کا باعث نہیں بنیں گی۔
یوں شہر میں دوپہر میں اسکولوں کی چھٹی کے اوقات میں ٹریفک جام کا ایک بڑا مسئلہ آرام سے حل ہوجائے گا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں عام طور پر جہاں بھی ایک اسکول قائم ہوتا ہے رفتہ رفتہ وہاں مزید کئی اسکول قائم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اکثر علاقوں میں ایک دو نہیں بلکہ چھ ، چھ ، دس، دس اسکول دائیں اور بائیں قطار کی شکل میں موجود ہیں جس کے سبب ٹریفک اور بھی جام ہو جاتا ہے بلکہ ان اسکولوں سے قریب واقع بڑی شاہراہیں اور چورنگیاں بھی صبح و دوپہر ٹریفک جام کا منظر ہی پیش کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم ترین تعلیمی مسئلہ بچوں کی صحت سے متعلق ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اچھی اور معیار ی تعلیم کے لیے نجی اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں ، مگر ان نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم سے زیادہ کاپی اور کتابوں کا بوجھ بچوں کے کندھوں پر نظر آتا ہے۔ اس بوجھ کے باعث بچوں کی بڑی تعداد میں صحت کے مسائل جنم لے تے ہیں۔
آپ کسی بھی بچوں کے ڈاکٹر کے پاس جا کر بچوں کی صحت کے مسائل پر بات کر کے دیکھ لیں، ہر ڈاکٹر یہی کہتا نظر آئے گا کہ وزنی بستوں کے اٹھانے سے بچوں میں سر وائیکل ، کمر کے درد اور گردن کے جوڑوں میں تکلیف کے مسائل بڑی تعداد میں سامنے آرہے ہیں۔
بچوں کے یہ بستے اس قدر وزنی ہوتے ہیں کہ بڑوں سے بھی اٹھانا محال ہوتا ہے جب کہ یہ معصوم بچے بھاری بھرکم بستے لے کر گھر سے اسکول اور پھر اسکول سے گھر روزانہ لے کر جاتے ہیں جب کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے کہ جو اپنے اسکول میں یہ بستے لے کر پہلی اور دوسری منزل پر اپنی کلاس تک لے کر جاتے ہیں یوں یہ بستے جو کم و بیش پندرہ سے بیس کلو وزنی ہوتے ہیں، ان بچوں کے کندھوں اور ریڑھ کی ہڈی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق یہ بچوں کی صحت کے لیے انتہائی خطر ناک معاملہ ہے اور اس سے ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز بھی متاثر ہو سکتا ہے ،گویا زندگی بھر کی معذوری بھی واقع ہو سکتی ہے۔
اس کا بھی حل محکمہ سندھ کے متعلقہ تعلیمی ادارے صرف ایک نوٹیفیکیشن نکال کر حل کر سکتے ہیں ، یعنی اگر اسکولوں میں روزانہ پڑھائے جانے والے مضامین جو اکثر اسکو لوں میں سات سے آٹھ کے قریب ہوتے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ہفتے کے ابتدائی تین روز میں اور آخری تین روز میں ان مضامین کو نصف ، نصف تقسیم کر دیا جائے۔ اس عمل سے بچے کی کتابوں اورکاپیوں کا بوجھ آدھا ہو جائے گا ، گو کہ اس وقت بھی اسکولوں میں مضامین کے لیے تقسیم کا عمل ہے مگر اس کو برابر ، برابر دو حصوں میں تقسیم کر کے بوجھ مزید کم کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح سے نجی اسکولوں میں سال میں دو بار امتحان لیا جا تا ہے اور نصاب بھی دو حصوں میں پڑھا یا جاتا ہے مگر افسوس ان مضامین کی کاپیاں عام طور پر سال بھرکے اعتبار سے ہوتی ہیں، اگرکاپی کے صفحات بھی دو حصوں کے مطابق الگ الگ کر دیے جائیں تو آدھی کاپیوں کا وزن کم ہو جائے گا۔
یعنی ایک مضمون کی دو سو صفحات کی کاپی طالب علم پورا سال استعمال کرتا ہے جب کہ تقریباً چھ ماہ بعد وہ نہ تو پچھلا سبق پڑھتا ہے نہ ہی آگے اس کا امتحان دیتا ہے لیکن بلا وجہ پچھلے کام کاپی میں اٹھائے پھرتا ہے ، یوں اگر دو سو صفحات کے بجائے سو صفحات کی دوکاپیاں استعمال کی جائیں تو اس عمل سے بھی استعمال کی جانے والی کاپیوں کا وزن آدھا ہو سکتا ہے۔
امید ہے کہ محکمہ تعلیم مندرجہ بالا تجاویز پر غور کر کے مذکورہ مسائل کا حل بھی نکالے گا، اس کے علاوہ نجی اسکول خود سے بھی ان تجاویز پر عمل کر کے معاشرے کی بہتر خدمت انجام دے سکتے ہیں۔
اس فیصلے کو طلبہ کے والدین کی جانب سے بے حد سراہا گیا کیونکہ کراچی شہر میں سردی کی اچانک تیز لہر کے باعث بچے ہی نہیں بڑے بھی متاثر ہو رہے تھے۔ یہ ایک اہم مسئلہ تھا جس پر ہمیشہ صرف بات ہی کی جاتی تھی مگر کبھی کسی نے اس کا حل نہیں نکالا تھا۔
ذرا چھوٹے معصوم بچوں کی حالت دیکھیے کہ وہ صبح سویرے اسکول پہنچنے کے لیے سورج نکلنے سے بھی پہلے سخت سرد موسم میں گھروں سے اسکول جانے کے لیے نکلتے تھے اور جو بچے وین کے ذریعے اسکول جاتے ہیں انھیں اور بھی جلدی اٹھنا پڑتا ہے کیونکہ وین والے تمام بچوں کو گھروں سے اٹھانے کے لیے اور بھی جلدی کرتے ہیں اور یوں وین والے بچے دیگر بچوں کے مقابلے میں کم از کم پون گھنٹہ پہلے تیار ہوکر اپنی وین میں سوار ہوتے ہیں۔
یوں وقت کی کمی کے باعث اکثر بچے تو صبح ناشتہ بھی نہیں کرتے۔ بہرکیف حکومت سندھ کی جانب سے یہ فیصلہ بہت ہی خوش آیند ثابت ہوا ہے اور اس قسم کے فیصلے آیندہ بھی صرف سرد موسم میں ہی نہیں بلکہ گرمیوں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔
یہاں راقم الحروف بچوں کی تعلیم اور ان کے اداروں سے متعلق چند اور تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے اس امید پر کہ مسائل کو سمجھنے اور بروقت فیصلے کرنے والے سندھ حکومت کے ذمے داران مزید اچھے فیصلے کریں۔
ایک اہم مسئلہ بچوں کی اسکول کی چھٹی کے اوقات سے متعلق ہے۔ اس وقت تمام اسکولوں کی چھٹی کے تقریبا ایک ہی اوقات ہیں۔ عموما ایسے علاقوں میں جہاں ایک ہی بلاک یا سڑک کے کنارے ایک سے زائد اسکول ہوتے، وہاں چھٹی کے اوقات میں بچوں کو لانے اور لیجانے والی گاڑیاں اسکولوں کے گیٹ کے سامنے اس قدر زیادہ تعداد میں کھڑی ہوتی ہیں کہ آدھی سے زیادہ سڑک اور بعض اوقات تقریباً پوری سڑک پر بچوں کو لینے والی گاڑیاں پارک ہو جاتی ہیں اور یوں ٹریفک کی روانی متاثر ہونے سے شدید ٹریفک جام کا باعث بنتی ہے۔
یہ حال کراچی جیسے بڑے شہروں میں تو عام ہے اور اس میں چھوٹے بڑے تمام علاقوں کے اسکولوں کے راستے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ کراچی شہر میں تو ٹریفک جام کی یہ صورتحال ان بڑے اسکولوں کی بھی ہوتی ہے جہاں امیر طبقے کے ہر ایک طالب علم کو لینے کے لیے کار آتی ہے اور اس عمل سے دو سو فٹ کی سڑک بھی کار پارکنگ میں بدل جاتی ہے اور جب تک یہ گاڑیاں نکل نہ جائیں بڑی شاہراہ بھی ٹریفک کے لیے تقریباً بند رہتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ حل صرف ایک نوٹی فیکشن ہے ، اگر اس مسئلے پر صرف ایک نوٹیفیکیشن نکال دیا جائے کہ تمام اسکول اپنے کلاسسز کی چھٹی دو حصوں میں دس منٹ کے وقفے سے کریں ، نیز ایک ہی بلاک کا سڑک کے کنارے ایک سے زائد اسکول بھی ایک دوسرے اسکول کی چھٹی کے اوقات میں دس منٹ کا فرق رکھیں ، تو اس عمل کے بعد ہر اسکول کی طلبہ کی تعداد کو لینے کے لیے آنے والی گاڑیاں دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں گی پھر قریب قریب قائم اسکولوں کے چھٹی کے اوقات کے فرق کے باعث ان کے اسکولوں کے بچوں کی گاڑیاں بھی ایک ساتھ اسکولوں کے سامنے کھڑے ہوکر رش کا باعث نہیں بنیں گی۔
یوں شہر میں دوپہر میں اسکولوں کی چھٹی کے اوقات میں ٹریفک جام کا ایک بڑا مسئلہ آرام سے حل ہوجائے گا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں عام طور پر جہاں بھی ایک اسکول قائم ہوتا ہے رفتہ رفتہ وہاں مزید کئی اسکول قائم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اکثر علاقوں میں ایک دو نہیں بلکہ چھ ، چھ ، دس، دس اسکول دائیں اور بائیں قطار کی شکل میں موجود ہیں جس کے سبب ٹریفک اور بھی جام ہو جاتا ہے بلکہ ان اسکولوں سے قریب واقع بڑی شاہراہیں اور چورنگیاں بھی صبح و دوپہر ٹریفک جام کا منظر ہی پیش کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم ترین تعلیمی مسئلہ بچوں کی صحت سے متعلق ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اچھی اور معیار ی تعلیم کے لیے نجی اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں ، مگر ان نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم سے زیادہ کاپی اور کتابوں کا بوجھ بچوں کے کندھوں پر نظر آتا ہے۔ اس بوجھ کے باعث بچوں کی بڑی تعداد میں صحت کے مسائل جنم لے تے ہیں۔
آپ کسی بھی بچوں کے ڈاکٹر کے پاس جا کر بچوں کی صحت کے مسائل پر بات کر کے دیکھ لیں، ہر ڈاکٹر یہی کہتا نظر آئے گا کہ وزنی بستوں کے اٹھانے سے بچوں میں سر وائیکل ، کمر کے درد اور گردن کے جوڑوں میں تکلیف کے مسائل بڑی تعداد میں سامنے آرہے ہیں۔
بچوں کے یہ بستے اس قدر وزنی ہوتے ہیں کہ بڑوں سے بھی اٹھانا محال ہوتا ہے جب کہ یہ معصوم بچے بھاری بھرکم بستے لے کر گھر سے اسکول اور پھر اسکول سے گھر روزانہ لے کر جاتے ہیں جب کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے کہ جو اپنے اسکول میں یہ بستے لے کر پہلی اور دوسری منزل پر اپنی کلاس تک لے کر جاتے ہیں یوں یہ بستے جو کم و بیش پندرہ سے بیس کلو وزنی ہوتے ہیں، ان بچوں کے کندھوں اور ریڑھ کی ہڈی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق یہ بچوں کی صحت کے لیے انتہائی خطر ناک معاملہ ہے اور اس سے ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز بھی متاثر ہو سکتا ہے ،گویا زندگی بھر کی معذوری بھی واقع ہو سکتی ہے۔
اس کا بھی حل محکمہ سندھ کے متعلقہ تعلیمی ادارے صرف ایک نوٹیفیکیشن نکال کر حل کر سکتے ہیں ، یعنی اگر اسکولوں میں روزانہ پڑھائے جانے والے مضامین جو اکثر اسکو لوں میں سات سے آٹھ کے قریب ہوتے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ہفتے کے ابتدائی تین روز میں اور آخری تین روز میں ان مضامین کو نصف ، نصف تقسیم کر دیا جائے۔ اس عمل سے بچے کی کتابوں اورکاپیوں کا بوجھ آدھا ہو جائے گا ، گو کہ اس وقت بھی اسکولوں میں مضامین کے لیے تقسیم کا عمل ہے مگر اس کو برابر ، برابر دو حصوں میں تقسیم کر کے بوجھ مزید کم کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح سے نجی اسکولوں میں سال میں دو بار امتحان لیا جا تا ہے اور نصاب بھی دو حصوں میں پڑھا یا جاتا ہے مگر افسوس ان مضامین کی کاپیاں عام طور پر سال بھرکے اعتبار سے ہوتی ہیں، اگرکاپی کے صفحات بھی دو حصوں کے مطابق الگ الگ کر دیے جائیں تو آدھی کاپیوں کا وزن کم ہو جائے گا۔
یعنی ایک مضمون کی دو سو صفحات کی کاپی طالب علم پورا سال استعمال کرتا ہے جب کہ تقریباً چھ ماہ بعد وہ نہ تو پچھلا سبق پڑھتا ہے نہ ہی آگے اس کا امتحان دیتا ہے لیکن بلا وجہ پچھلے کام کاپی میں اٹھائے پھرتا ہے ، یوں اگر دو سو صفحات کے بجائے سو صفحات کی دوکاپیاں استعمال کی جائیں تو اس عمل سے بھی استعمال کی جانے والی کاپیوں کا وزن آدھا ہو سکتا ہے۔
امید ہے کہ محکمہ تعلیم مندرجہ بالا تجاویز پر غور کر کے مذکورہ مسائل کا حل بھی نکالے گا، اس کے علاوہ نجی اسکول خود سے بھی ان تجاویز پر عمل کر کے معاشرے کی بہتر خدمت انجام دے سکتے ہیں۔