کتاب ’’ امریکا میں دائمی دھرنا ‘‘ کی نیویارک میں تقریب
ان کے دلچسپ مضامین پڑھتے ہوئے مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ ان کی تحریر میں صوفی تبسم بدرجہ اتم موجود ہیں
ایک طرف امریکا کی کچھ ریاستوں میں سردی اپنے عروج پر ہے اور بعض جگہوں پر تو زندگی مفلوج ہوکے رہ گئی ہے۔ دوسری طرف نیویارک اور نیو جرسی میں زندگی معمول پر ہے اور خاص طور پر نیویارک میں تو ثقافتی اور سیاسی سرگرمیاں بھی جاری و ساری ہیں۔
گزشتہ دنوں ہمارے ریڈیو پاکستان کراچی کے دیرینہ دوست جمال محسن صاحب کی کتاب '' امریکا میں دائمی دھرنا '' کی تقریب رونمائی کا نیویارک میں شاندار اہتمام کیا گیا تھا جس میں شرکت کی ہمیں بھی دعوت دی گئی اور پھر 15 جنوری کو ہم بھی وہاں موجود تھے جہاں جمال محسن کی بھڑک دار کتاب ''امریکا میں دائمی دھرنا'' کی شان دار پیمانے پر ایک خوب صورت تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔
تقریب کے پہلے حصے کی نظامت کے فرائض پاکولی کے جنرل سیکریٹری عتیق الرحمن نے ادا کیے ، تقریب کے دوسرے حصے کی نظامت کی ذمے داری نیویارک کے مشہور رائٹر ، شاعر اور طنز نگار حماد خان کے سپرد کی گئی تھی اور دونوں ہی نظامت کاروں نے اپنے فرض کو خوش اسلوبی سے ادا کیا تھا۔
اس تقریب کی مہمان خصوصی نیویارک میں قونصل جنرل آف پاکستان محترمہ عائشہ علی تھیں اور تقریب کی صدارت مشہور رائٹر و تجزیہ نگار اور پی ٹی وی کے سابقہ جنرل منیجر عتیق احمد صدیقی نے کی تھی جب کہ جمال محسن کی کتاب اور شخصیت پر گفتگو کرنے والوں میں نیویارک میں برسوں سے مقیم سینئر شاعر مامون ایمن ایڈیٹر پاکستان نیوز مجیب لودھی رائٹر و شاعر یوسف خان، پروفیسر حماد خان، پاکولی کی صدر عذرا ڈار اور سوشل اڈلٹ ڈے کیئر کے سرپرست افتخار بٹ شامل تھے۔
سب نے ہی جمال محسن کی موجودہ کتاب پر سیر حاصل تبصرے کرتے ہوئے اس کتاب کے دلچسپ مضامین اور جمال محسن کے طرز انداز کی بڑی کھل کر تعریف کی تھی اس موقع پر راقم نے بھی ایک دلچسپ مضمون پڑھا تھا جس میں بڑے منفرد انداز سے جمال محسن کی شخصیت و طرز تحریر اور کتاب کو موضوع بحث بناتے ہوئے کہا تھا کہ '' جمال محسن سے پہلے میری دوستی ان کے بڑے بھائی صبیح محسن سے ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوئی تھی جب کہ جمال محسن سے ملاقات پہلی بار نیویارک کی ایک تقریب میں ہوئی۔
جمال محسن کراچی ہی سے نوجوانی کے زمانے سے لکھتے چلے آ رہے ہیں ، انھوں نے ادب پڑھا بھی خوب ہے اور لکھا بھی خوب ہے۔ ان کی کتاب کا عنوان ہی بڑا خطرناک ہے '' امریکا میں دائمی دھرنا '' اس سے پہلے احساس تو یہ اجاگر ہوتا ہے کہ جمال محسن ایک بے باک لکھاری اور خطروں کے کھلاڑی بھی ہیں جن دنوں میں ریڈیو کراچی کی بزم طلبا سے وابستہ تھا۔
جمال محسن بھی ریڈیو کے ساتھ مختلف اخبارات میں لکھتے رہتے تھے میری اس زمانے میں ان سے ایک آدھ بار ہی ملاقات ہوئی ہوگی، کیونکہ میں کراچی چھوڑ کر لاہور شفٹ ہو کر وہاں کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گیا تھا جب میں بارہ سال کے بعد لاہور سے واپس کراچی آیا تھا تو کچھ عرصہ بعد اپنی فیملی کے ساتھ امریکا آگیا تھا یہاں جمال محسن بہت پہلے سے رہائش پذیر تھے، میری پھر بھی ان سے ملاقاتیں نہ رہی تھیں کہ یہ نیویارک کے رہائشی تھے اور میں نیوجرسی کا باسی۔
ہاں ایک دو تقریبات میں علیک سلیک کے بعد ٹیلی فون پر بات چیت ضرور رہی تھی البتہ میری ایک بھرپور ملاقات گزشتہ دنوں ان کی کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران ہوئی۔ ان کی کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ لوگوں کو اپنی تحریر سے رلانا تو آسان ہے مگر لوگوں کو ہنسانا اور ان کے ہونٹوں سے قہقہے اگلوانا بڑا مشکل کام ہے اور یہ مشکل کام جمال محسن نیویارک میں آسانی سے ایک بزم خیام بنا کر بھی کر رہے ہیں جس میں طنز و مزاح کے پھول کھلائے جاتے ہیں اور ان پھولوں کی خوشبو مجھے ان کی موجودہ کتاب کے ہر مضمون سے ملی ہے، اس سے پہلے کہ میں ان کی تحریروں کی طرف آؤں ایک دلچسپ واقعہ بھی سناتا چلوں۔
ایک محفل میں چند پڑھے لکھے لوگ موجود تھے اس محفل میں ایک دیہاتی نوجوان بھی آگیا تھا۔ اچانک اس نوجوان نے سب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا '' بزرگو ! کیا میں آپ سے ایک سوال کا جواب پوچھ سکتا ہوں'' ایک صاحب نے کہہ دیا '' ہاں! شوق سے پوچھو۔'' وہ دیہاتی نوجوان بولا '' دنیا میں ایسی وہ کون سی چیز ہے جس کا ایک حصہ اللہ نے بنایا ہے اور دوسرا پچھلا حصہ انسان نے بنایا ہے۔''
لوگ دیہاتی نوجوان کا عجیب سوال سن کر چونک گئے۔ کافی وقت محفل میں خاموشی رہی کوئی کچھ نہ بولا۔ جیسے سب کچھ سوچ رہے ہوں۔ کچھ دیر کے سناٹے کے بعد ایک مولوی قسم کے صاحب نے بڑی برہمی سے کہا '' کیا بکواس سوال کیا ہے اس چھورے نے۔ اللہ نے دنیا میں کوئی چیز ادھوری نہیں بنائی ہے جو چیز بھی بنائی ہے وہ مکمل بنائی ہے۔ اس دیہاتی پر تو کفر کا فتویٰ لگایا جاسکتا ہے۔''
دیہاتی نوجوان فوراً بولا '' نہ نہ بزرگو ! نہ ، آپ جواب نہ دے سکو تو میرے پاس جواب ہے اس کا۔'' ایک صاحب نے کہا '' بتاؤکیا جواب ہے؟'' دیہاتی نوجوان نے ترنت جواب دیتے ہوئے کہا '' دنیا میں ایک چیز جس کا ایک حصہ اللہ نیبنایا اور دوسرا حصہ انسان نے، وہ ہے ''بیل گاڑی'' بیل اللہ نے بنایا اور گاڑی انسان نے۔ یہ کہہ کر وہ نوجوان بے ساختہ ہنسنے لگا۔ صحیح ہے نا جواب۔ اس جواب پر محفل میں بھی قہقہے پھوٹ پڑے تھے۔ بس جمال محسن کی تحریر میں بھی ایسی ہی بات ہے۔ ہنسی بھی ہے حیرت بھی ہے اور طنز بھی۔
جمال محسن کی کتاب میں نے ایک نشست میں پڑھ کر بڑا لطف اٹھایا تھا اگر جمال محسن اپنی کوئی کتاب ''اسلام آباد میں دائمی دھرنا'' لکھتے اور اس کی تقریب پاکستان جا کر اسلام آباد یا کراچی آرٹس کونسل میں کرتے تو یہ تقریب کے انعقاد سے پہلے ہی دھر لیے جاتے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور ان کی جان کے لالے پڑ جاتے کیونکہ پاکستان میں اس طرح کی تحریر لکھنا یا اس انداز کی بات کرنا بڑا جرم گردانا جاتا ہے۔ جمال محسن شکر کرو تم امریکا کے شہری ہو۔ یہاں آپ سب کچھ کہہ سکتے ہو، سب کچھ لکھ سکتے ہو۔
اب میں جمال محسن کی کتاب کے حسن کی طرف آتا ہوں۔ یہ کتاب میں نے بڑے دھیان اور گیان کے ساتھ پڑھی ہے۔ مجھے ان کی تحریر میں مشہور طنز نگار شفیق الرحمن کی کرنیں بھی چمکتی نظر آتی ہیں، کہیں کہیں ان کی تحریر میں مشتاق احمد یوسفی کا رنگ ڈھنگ ملتا ہے اور تو اور ان کی تحریر میں ابراہیم جلیس کے کالموں کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
ان کے دلچسپ مضامین پڑھتے ہوئے مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ ان کی تحریر میں صوفی تبسم بدرجہ اتم موجود ہیں اور کہیں دور دور تک مجھے دکھی پریم نگری نظر نہیں آئے ، اگر جمال محسن کو کوئی اعتراض نہ ہو اور مجھے یہ اجازت دیں تو میں ان کے تین مضامین پاکستان کی تین مشہور شخصیات کو صدقے کے طور پر دے دوں۔
مضمون کے آخر میں جب میں نے یہ کہا کہ ان کی موجودہ کتاب کسی ٹک ٹاک حسینہ سے کم نہیں تو کافی تالیاں بجائی گئی تھیں۔ میرے مضمون کے بعد صدر محفل نے ایک پرمغز تجزیے میں یہ واضح کیا کہ امریکا سے قلبی اور ازدواجی رشتہ استوار کرنے کے باوجود جمال محسن کو اپنی تہذیب اور ثقافت سے بے پناہ رومانس ہے۔
امریکا میں پچھلے پچاس سالوں سے مقیم بہت ہی سینئر شاعر اور دانشور مامون ایمن نے اپنے ناقدانہ انداز کے ساتھ جمال محسن کے اسلوب تحریر کو طنز و مزاح کے بجائے فکاہت قرار دیا جس میں ذہانت بھی ہے اور لطافت بھی۔ اسی کے ساتھ ہی یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
گزشتہ دنوں ہمارے ریڈیو پاکستان کراچی کے دیرینہ دوست جمال محسن صاحب کی کتاب '' امریکا میں دائمی دھرنا '' کی تقریب رونمائی کا نیویارک میں شاندار اہتمام کیا گیا تھا جس میں شرکت کی ہمیں بھی دعوت دی گئی اور پھر 15 جنوری کو ہم بھی وہاں موجود تھے جہاں جمال محسن کی بھڑک دار کتاب ''امریکا میں دائمی دھرنا'' کی شان دار پیمانے پر ایک خوب صورت تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔
تقریب کے پہلے حصے کی نظامت کے فرائض پاکولی کے جنرل سیکریٹری عتیق الرحمن نے ادا کیے ، تقریب کے دوسرے حصے کی نظامت کی ذمے داری نیویارک کے مشہور رائٹر ، شاعر اور طنز نگار حماد خان کے سپرد کی گئی تھی اور دونوں ہی نظامت کاروں نے اپنے فرض کو خوش اسلوبی سے ادا کیا تھا۔
اس تقریب کی مہمان خصوصی نیویارک میں قونصل جنرل آف پاکستان محترمہ عائشہ علی تھیں اور تقریب کی صدارت مشہور رائٹر و تجزیہ نگار اور پی ٹی وی کے سابقہ جنرل منیجر عتیق احمد صدیقی نے کی تھی جب کہ جمال محسن کی کتاب اور شخصیت پر گفتگو کرنے والوں میں نیویارک میں برسوں سے مقیم سینئر شاعر مامون ایمن ایڈیٹر پاکستان نیوز مجیب لودھی رائٹر و شاعر یوسف خان، پروفیسر حماد خان، پاکولی کی صدر عذرا ڈار اور سوشل اڈلٹ ڈے کیئر کے سرپرست افتخار بٹ شامل تھے۔
سب نے ہی جمال محسن کی موجودہ کتاب پر سیر حاصل تبصرے کرتے ہوئے اس کتاب کے دلچسپ مضامین اور جمال محسن کے طرز انداز کی بڑی کھل کر تعریف کی تھی اس موقع پر راقم نے بھی ایک دلچسپ مضمون پڑھا تھا جس میں بڑے منفرد انداز سے جمال محسن کی شخصیت و طرز تحریر اور کتاب کو موضوع بحث بناتے ہوئے کہا تھا کہ '' جمال محسن سے پہلے میری دوستی ان کے بڑے بھائی صبیح محسن سے ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوئی تھی جب کہ جمال محسن سے ملاقات پہلی بار نیویارک کی ایک تقریب میں ہوئی۔
جمال محسن کراچی ہی سے نوجوانی کے زمانے سے لکھتے چلے آ رہے ہیں ، انھوں نے ادب پڑھا بھی خوب ہے اور لکھا بھی خوب ہے۔ ان کی کتاب کا عنوان ہی بڑا خطرناک ہے '' امریکا میں دائمی دھرنا '' اس سے پہلے احساس تو یہ اجاگر ہوتا ہے کہ جمال محسن ایک بے باک لکھاری اور خطروں کے کھلاڑی بھی ہیں جن دنوں میں ریڈیو کراچی کی بزم طلبا سے وابستہ تھا۔
جمال محسن بھی ریڈیو کے ساتھ مختلف اخبارات میں لکھتے رہتے تھے میری اس زمانے میں ان سے ایک آدھ بار ہی ملاقات ہوئی ہوگی، کیونکہ میں کراچی چھوڑ کر لاہور شفٹ ہو کر وہاں کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گیا تھا جب میں بارہ سال کے بعد لاہور سے واپس کراچی آیا تھا تو کچھ عرصہ بعد اپنی فیملی کے ساتھ امریکا آگیا تھا یہاں جمال محسن بہت پہلے سے رہائش پذیر تھے، میری پھر بھی ان سے ملاقاتیں نہ رہی تھیں کہ یہ نیویارک کے رہائشی تھے اور میں نیوجرسی کا باسی۔
ہاں ایک دو تقریبات میں علیک سلیک کے بعد ٹیلی فون پر بات چیت ضرور رہی تھی البتہ میری ایک بھرپور ملاقات گزشتہ دنوں ان کی کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران ہوئی۔ ان کی کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ لوگوں کو اپنی تحریر سے رلانا تو آسان ہے مگر لوگوں کو ہنسانا اور ان کے ہونٹوں سے قہقہے اگلوانا بڑا مشکل کام ہے اور یہ مشکل کام جمال محسن نیویارک میں آسانی سے ایک بزم خیام بنا کر بھی کر رہے ہیں جس میں طنز و مزاح کے پھول کھلائے جاتے ہیں اور ان پھولوں کی خوشبو مجھے ان کی موجودہ کتاب کے ہر مضمون سے ملی ہے، اس سے پہلے کہ میں ان کی تحریروں کی طرف آؤں ایک دلچسپ واقعہ بھی سناتا چلوں۔
ایک محفل میں چند پڑھے لکھے لوگ موجود تھے اس محفل میں ایک دیہاتی نوجوان بھی آگیا تھا۔ اچانک اس نوجوان نے سب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا '' بزرگو ! کیا میں آپ سے ایک سوال کا جواب پوچھ سکتا ہوں'' ایک صاحب نے کہہ دیا '' ہاں! شوق سے پوچھو۔'' وہ دیہاتی نوجوان بولا '' دنیا میں ایسی وہ کون سی چیز ہے جس کا ایک حصہ اللہ نے بنایا ہے اور دوسرا پچھلا حصہ انسان نے بنایا ہے۔''
لوگ دیہاتی نوجوان کا عجیب سوال سن کر چونک گئے۔ کافی وقت محفل میں خاموشی رہی کوئی کچھ نہ بولا۔ جیسے سب کچھ سوچ رہے ہوں۔ کچھ دیر کے سناٹے کے بعد ایک مولوی قسم کے صاحب نے بڑی برہمی سے کہا '' کیا بکواس سوال کیا ہے اس چھورے نے۔ اللہ نے دنیا میں کوئی چیز ادھوری نہیں بنائی ہے جو چیز بھی بنائی ہے وہ مکمل بنائی ہے۔ اس دیہاتی پر تو کفر کا فتویٰ لگایا جاسکتا ہے۔''
دیہاتی نوجوان فوراً بولا '' نہ نہ بزرگو ! نہ ، آپ جواب نہ دے سکو تو میرے پاس جواب ہے اس کا۔'' ایک صاحب نے کہا '' بتاؤکیا جواب ہے؟'' دیہاتی نوجوان نے ترنت جواب دیتے ہوئے کہا '' دنیا میں ایک چیز جس کا ایک حصہ اللہ نیبنایا اور دوسرا حصہ انسان نے، وہ ہے ''بیل گاڑی'' بیل اللہ نے بنایا اور گاڑی انسان نے۔ یہ کہہ کر وہ نوجوان بے ساختہ ہنسنے لگا۔ صحیح ہے نا جواب۔ اس جواب پر محفل میں بھی قہقہے پھوٹ پڑے تھے۔ بس جمال محسن کی تحریر میں بھی ایسی ہی بات ہے۔ ہنسی بھی ہے حیرت بھی ہے اور طنز بھی۔
جمال محسن کی کتاب میں نے ایک نشست میں پڑھ کر بڑا لطف اٹھایا تھا اگر جمال محسن اپنی کوئی کتاب ''اسلام آباد میں دائمی دھرنا'' لکھتے اور اس کی تقریب پاکستان جا کر اسلام آباد یا کراچی آرٹس کونسل میں کرتے تو یہ تقریب کے انعقاد سے پہلے ہی دھر لیے جاتے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور ان کی جان کے لالے پڑ جاتے کیونکہ پاکستان میں اس طرح کی تحریر لکھنا یا اس انداز کی بات کرنا بڑا جرم گردانا جاتا ہے۔ جمال محسن شکر کرو تم امریکا کے شہری ہو۔ یہاں آپ سب کچھ کہہ سکتے ہو، سب کچھ لکھ سکتے ہو۔
اب میں جمال محسن کی کتاب کے حسن کی طرف آتا ہوں۔ یہ کتاب میں نے بڑے دھیان اور گیان کے ساتھ پڑھی ہے۔ مجھے ان کی تحریر میں مشہور طنز نگار شفیق الرحمن کی کرنیں بھی چمکتی نظر آتی ہیں، کہیں کہیں ان کی تحریر میں مشتاق احمد یوسفی کا رنگ ڈھنگ ملتا ہے اور تو اور ان کی تحریر میں ابراہیم جلیس کے کالموں کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
ان کے دلچسپ مضامین پڑھتے ہوئے مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ ان کی تحریر میں صوفی تبسم بدرجہ اتم موجود ہیں اور کہیں دور دور تک مجھے دکھی پریم نگری نظر نہیں آئے ، اگر جمال محسن کو کوئی اعتراض نہ ہو اور مجھے یہ اجازت دیں تو میں ان کے تین مضامین پاکستان کی تین مشہور شخصیات کو صدقے کے طور پر دے دوں۔
مضمون کے آخر میں جب میں نے یہ کہا کہ ان کی موجودہ کتاب کسی ٹک ٹاک حسینہ سے کم نہیں تو کافی تالیاں بجائی گئی تھیں۔ میرے مضمون کے بعد صدر محفل نے ایک پرمغز تجزیے میں یہ واضح کیا کہ امریکا سے قلبی اور ازدواجی رشتہ استوار کرنے کے باوجود جمال محسن کو اپنی تہذیب اور ثقافت سے بے پناہ رومانس ہے۔
امریکا میں پچھلے پچاس سالوں سے مقیم بہت ہی سینئر شاعر اور دانشور مامون ایمن نے اپنے ناقدانہ انداز کے ساتھ جمال محسن کے اسلوب تحریر کو طنز و مزاح کے بجائے فکاہت قرار دیا جس میں ذہانت بھی ہے اور لطافت بھی۔ اسی کے ساتھ ہی یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔