کتے اور ڈوگیز
طوطا بھی انسان ہی کا صحبت یافتہ ہے لیکن یہ مرد آزاد اگر عمر بھر بھی قفس میں رہے تو بھی کبھی غلامی قبول نہیں کرتا
یہ خبر تو آپ نے پڑھ ہی لی ہوگی کہ اسلام آباد میں میں کتوں، سوری ڈاگز بلکہ ڈوگیزکا ایک گرینڈ شو یامقابلہ حسن منعقد ہوا، یہ بات پہلے ہی سے واضح کر دیں کہ عام کتے اور ڈوگیز قطعی الگ الگ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، یوں کہیے کہ ''ڈوگیز'' اشرافیہ ہوتے ہیں جن کا نام کتا اور فارسی میں سگ ہوتا ہے، انھیں عامی کہا جاتا ہے۔
انسان بھی بظاہر برابر ہوتے ہیں لیکن ان میں کچھ ''آپ'' ہوتے ہیں، کچھ '' جناب '' ہوتے ہیں جب کہ اکثریت ''تو'' کی ہوتی ہے یعنی سگے ہوتے ہوئے بھی ''سگے'' نہیں ہوتے۔ مثلاً کچھ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں عورت کہا جائے تو برا مانتی ہیں اور لیڈیز کہلوانا پسند کرتی ہیں بلکہ پڑوسی ملک کے چینل پر تو ایک اور انکشاف بھی دیکھا۔
ایک صاحب سامنے آنے والی ایک لیڈی سے کوئی پتہ پوچھنا چاہتا ہے چنانچہ وہ اس سے مخاطب ہوکر...، پورا مکالمہ یوں ہے۔ بہن جی؟ بہن جی ہوگی تیری ماں، تیری بہن تری نانی۔ کیا میں تجھے ''بہن جی'' لگتی ہوں؟
ایک خاتون کو ہم نے خود ایک بس ڈرائیور سے لڑتے دیکھا اور سنا کہ تم نے ان سیٹوں پر ''مستورات کے لیے'' کیوں لکھا ہے، ''لیڈیزکے لیے لکھو''۔ خیر یہ تو ایک الگ دم ہل گئی، ہم بات کر رہے تھے ''ڈوگیز'' کے مقابلہ حسن کی۔ کتوں اور ڈوگیز میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا امیر اور غریب میں ہوتا ہے چنانچہ ان دونوں طبقوں کا سب کچھ متضاد ہوتا ہے، عام کتے مالک کے وفادار ہوتے ہیں جب کہ ڈوگیز کے وفادار ان کے مالک ہوتے ہیں، چلیے وفادار نہ کہیں، خدمت گارکہیں۔
پھر ایک دم ہل گئی ہے ، ایک گھر کے نوکر نے دوسرے گھر کے نوکر سے پوچھا، تمہارے مالکوں نے کتے تو نہیں پالے ہیں، دوسرا بولا، نہیں! کتے نہیں پالے ہیں، کیوں کہ ضرورت کے وقت وہ خود بھونک بھی لیتے ہیں اورکاٹ بھی لیتے ہیں۔ اسی مفہوم کا ایک پشتو لطیفہ بھی سننے کے لائق ہے جو مختصر تکلیفوں میں سرفہرست ہے کہ وہ تیرا باپ کیا کم تھا؟ کہ تم نے کتا بھی پال لیا۔
ڈوگیز عام کتو ں کی طرح ہر وقت نہیں بھونکتے بلکہ کبھی کبھار بھونکنا فرماتے ہیں۔ یہ کتوں کا موضوع ہے ہی اتنا لطیفہ آورکہ بات بات پر کوئی نہ کوئی لطیفہ دم ہلانے لگتا ہے۔ ہم ذرا کتوں کی مشہور صفت وفاداری پر فلسفہ بگھارتے ہیں۔ یہ فیصلہ آج تک نہیں ہو سکا ہے کہ کتے وفادار ہوتے ہیں یا انتہائی ٹاپ کلاس غدار، ننگ قوم ، ننگ نسل اورننگ خاندان ہوتے ہیں، یہ اس ہاتھ کے تو وفادار ہوتے ہیں جو انھیں نوالہ کھلاتا ہے لیکن پھر نوالے کی خاطر اپنے ہم قوموں کے دشمن بن جاتے ہیں۔
مالک سے وفاداری ہی ان کی اپنی قوم سے غداری ہوتی ہے جو کتا اپنی قوم کا جتنا زیادہ دشمن ہوتا ہے، اسے اتنا وفادار سمجھا جاتا ہے اور یہاں سے پھر یہ مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ غدای کو وفاداری کہنے والے انسان کا نظریہ وفاداری وغداری کیا ہے بلکہ کچھ لوگ تو یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ جس طرح انسان کی لغت میں غداری کا نام وفاداری ہے، اسی طرح اس لغت میں اور بھی بہت کچھ الٹ پلٹ ہیں، صفات کو عیوب اور عیوب کو صفات بنانے کا۔
اوراس کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے، طوطا بھی انسان ہی کا صحبت یافتہ ہے لیکن یہ مرد آزاد اگر عمر بھر بھی قفس میں رہے تو بھی کبھی غلامی قبول نہیں کرتا اور موقع ملتے ہی یہ بھاگ جاتا ہے اور انسان نے اس کی حریت پسندی کو ''طوطاچشمی'' کہہ کر عیب بنایا ہوا ہے ،گویا
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
انسان بھی بظاہر برابر ہوتے ہیں لیکن ان میں کچھ ''آپ'' ہوتے ہیں، کچھ '' جناب '' ہوتے ہیں جب کہ اکثریت ''تو'' کی ہوتی ہے یعنی سگے ہوتے ہوئے بھی ''سگے'' نہیں ہوتے۔ مثلاً کچھ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں عورت کہا جائے تو برا مانتی ہیں اور لیڈیز کہلوانا پسند کرتی ہیں بلکہ پڑوسی ملک کے چینل پر تو ایک اور انکشاف بھی دیکھا۔
ایک صاحب سامنے آنے والی ایک لیڈی سے کوئی پتہ پوچھنا چاہتا ہے چنانچہ وہ اس سے مخاطب ہوکر...، پورا مکالمہ یوں ہے۔ بہن جی؟ بہن جی ہوگی تیری ماں، تیری بہن تری نانی۔ کیا میں تجھے ''بہن جی'' لگتی ہوں؟
ایک خاتون کو ہم نے خود ایک بس ڈرائیور سے لڑتے دیکھا اور سنا کہ تم نے ان سیٹوں پر ''مستورات کے لیے'' کیوں لکھا ہے، ''لیڈیزکے لیے لکھو''۔ خیر یہ تو ایک الگ دم ہل گئی، ہم بات کر رہے تھے ''ڈوگیز'' کے مقابلہ حسن کی۔ کتوں اور ڈوگیز میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا امیر اور غریب میں ہوتا ہے چنانچہ ان دونوں طبقوں کا سب کچھ متضاد ہوتا ہے، عام کتے مالک کے وفادار ہوتے ہیں جب کہ ڈوگیز کے وفادار ان کے مالک ہوتے ہیں، چلیے وفادار نہ کہیں، خدمت گارکہیں۔
پھر ایک دم ہل گئی ہے ، ایک گھر کے نوکر نے دوسرے گھر کے نوکر سے پوچھا، تمہارے مالکوں نے کتے تو نہیں پالے ہیں، دوسرا بولا، نہیں! کتے نہیں پالے ہیں، کیوں کہ ضرورت کے وقت وہ خود بھونک بھی لیتے ہیں اورکاٹ بھی لیتے ہیں۔ اسی مفہوم کا ایک پشتو لطیفہ بھی سننے کے لائق ہے جو مختصر تکلیفوں میں سرفہرست ہے کہ وہ تیرا باپ کیا کم تھا؟ کہ تم نے کتا بھی پال لیا۔
ڈوگیز عام کتو ں کی طرح ہر وقت نہیں بھونکتے بلکہ کبھی کبھار بھونکنا فرماتے ہیں۔ یہ کتوں کا موضوع ہے ہی اتنا لطیفہ آورکہ بات بات پر کوئی نہ کوئی لطیفہ دم ہلانے لگتا ہے۔ ہم ذرا کتوں کی مشہور صفت وفاداری پر فلسفہ بگھارتے ہیں۔ یہ فیصلہ آج تک نہیں ہو سکا ہے کہ کتے وفادار ہوتے ہیں یا انتہائی ٹاپ کلاس غدار، ننگ قوم ، ننگ نسل اورننگ خاندان ہوتے ہیں، یہ اس ہاتھ کے تو وفادار ہوتے ہیں جو انھیں نوالہ کھلاتا ہے لیکن پھر نوالے کی خاطر اپنے ہم قوموں کے دشمن بن جاتے ہیں۔
مالک سے وفاداری ہی ان کی اپنی قوم سے غداری ہوتی ہے جو کتا اپنی قوم کا جتنا زیادہ دشمن ہوتا ہے، اسے اتنا وفادار سمجھا جاتا ہے اور یہاں سے پھر یہ مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ غدای کو وفاداری کہنے والے انسان کا نظریہ وفاداری وغداری کیا ہے بلکہ کچھ لوگ تو یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ جس طرح انسان کی لغت میں غداری کا نام وفاداری ہے، اسی طرح اس لغت میں اور بھی بہت کچھ الٹ پلٹ ہیں، صفات کو عیوب اور عیوب کو صفات بنانے کا۔
اوراس کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے، طوطا بھی انسان ہی کا صحبت یافتہ ہے لیکن یہ مرد آزاد اگر عمر بھر بھی قفس میں رہے تو بھی کبھی غلامی قبول نہیں کرتا اور موقع ملتے ہی یہ بھاگ جاتا ہے اور انسان نے اس کی حریت پسندی کو ''طوطاچشمی'' کہہ کر عیب بنایا ہوا ہے ،گویا
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے