بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں دوران حراست ذہنی معذور کا قتل

بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ذہنی طور پر معذور تبارک حسین کو دہشت گرد کے طور پر پیش کررہا تھا

غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج نے آزاد جموں و کشمیر کے علاقے کوٹلی سے تعلق رکھنے والے تبارک حسین کے جو ذہنی طور پر معذور تھا، دوران حراست شہید کر دیاہے۔

بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ذہنی طور پر معذور تبارک حسین کو دہشت گرد کے طور پر پیش کررہا تھا۔تبارک نے حال ہی میں نادانستہ طور پر کنٹرول لائن عبورکی تھی اور بھارتی فوجیوں نے اسے گولی مار کر زخمی حالت میں گرفتارکیا تھا۔ بھارتی فوجی کشمیریوں کوکنٹرول لائن کے قریب لاکر جعلی مقابلوں میں شہید کر رہے ہیں۔

بھارتی فوجیوں نے تبارک حسین کو گرفتار کرکے پاکستانی دہشت گرد قراردیا تھا۔بھارتی حکومت یہ جانتی تھی کہ اگروہ اس کو دنیا کے سامنے لائیں گے تو اس کا جھوٹا پروپیگنڈہ بے نقاب ہوجائے گا اس لئے انہوں نے اس کو دوران حراست شہید کردیا۔

قابض بھارتی افواج نے آزاد کشمیر کے ذہنی معذور قیدی تبارک حسین کو دوران حراست شہید کیا ،حریت رہنما عبدالحمید لون کے مطابق ذہنی مریض تبارک حسین غلطی سے سیز فائر لائن عبور کر گیا تھا۔ تبارک چھ سال قبل بھی سرحد عبور کرگیا تھا جیسے 28 ستمبر 2017 کو بذریعہ بارڈر واپس کیا گیا تھا۔

تبارک حسین ذہنی مفلوج تھا اور کنٹرول لائن کے قریب گھر میں بیماری کے پیش نظر بندھا رہتا تھا۔ تبارک حسین کے اہلخانہ اکثر اوقات سرحد کی طرف جانے کے خدشہ سے اسکو باندھ کر رکھتے تھے۔ ذہنی مریض تبارک حسین کو بھارتی فورسز اور ایجنسیاں تشدد کا نشانہ بناکر اپنی مرضی کا بیان لیتی رہیں۔

تبارک حسین کو بھارتی میڈیا پر پاکستانی حملہ آور دکھایا جاتا رہا، ذہنی مریض سے مرضی کا بیان دلواکر پاکستان اور کشمیر کاز کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا نتبارک حسین کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بھارت رسوائی سے بچنے کے لئے ذہنی طور مفلوج کو دوران حراست شہید کردیا اس طرح بھارتی حکومت منظم طریقے سے انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں، بدسلوکی اور تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔

ہندوستانی صحافیوں نے جموں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایک سال سے انسانی حقوق کے کشمیری کارکن خرم پرویز کو گرفتار کیا گیا۔ 22 نومبر 2021 کو بھارت کے انسداد دہشت گردی کے ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے خرم پرویز کے گھر پر چھاپہ مارا اور تقریباً 14 گھنٹے تک اس کے قبضے میں رہیاور اس کے خاندان کے افراد کا لیپ ٹاپ، موبائل فون، اور کتابیں قبضے میں ہے۔


ستم ظریفی یہ ہے کہ خرم کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہیاوراس وقت روہنی جیل کمپلیکس میں نظر بند ہے دفعہ 43D(2)(b) کے تحت اگرجرم ثابت ہونے پر اسے 14 سال قید یا موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ پینل کوڈ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (UAPA)، بھارت کا مکروہ انسداد دہشت گردی قانون ہے جس سے ضمانت پر رہائی مشکل ہوجاتی ہے۔ خرم پرویز TIME میگزین کے 100 غیر معمولی لوگوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ کشمیر میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ان کا کام ہے۔

بڑے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی طرف سے شائع تصاویر نے متعدد ایوارڈز جیتے ہیں، اور 2022 میں انسانی حقوق کی ایک درجن تنظیمیں، بشمول اقوام تحدہ کے ماہرین، ایمنسٹی، انسانی حقوق واچ، اقلیتی حقوق گروپ، اور فرنٹ لائن محافظوں نے اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے 11 نومبر 2022 کو اپنے بیان میں کہا " پرویز کی گرفتاری کا معاملہ، طویل حراستUAPA کے تحت سول سوسائٹی پر اثر پڑتا ہے،حکومت ہند کارکنوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی انتقامی کارروائیوں اور دھمکیوں کو ختم کرے،اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں اور میکانزم کے ساتھ۔ پرویز جیسے لوگ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر معلومات اور گواہی کا اشتراک کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپیل ہے کہ وہ دوران حراست شہید کرنے کی تحقیقات کرے پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر راجوڑی میں بھارتی فوجی ہسپتال میں پاکستانی شہری تبارک حسین کے ماورائے قتل پر بھارتی ناظم الامور کو وزارت خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کیا ہے اور احتجاجی مراسلہ تھمایا گیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے جاری بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی شہری تبارک حسین ذہنی طور پر معذور، 21 اگست کو نوشہرہ، راجوری کے مقام پر نادانستہ سرحد پار کر گیا تھا۔ بھارتی قابض سیکورٹی فورسز نے تبارک حسین کو بے رحمی سے گولی مار دی تھی۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا پاکستان تبارک حسین کو دل کا دورہ پڑنے سے موت کے بھارتی دعوے کو بھی یکسر مسترد کر تا ہے۔ بھارتی حکام نے شرارت پر مبنی یہ بیان بھی دیا کہ تبارک حسین کو پاکستانی فوج نے بھیجا تھا۔تبارک کی خراب دماغی صحت کے باعث بھارتی دعوؤں کی کوئی بنیاد نہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہناتھا تبارک حسین نے 2016ء میں بھی نادانستہ سرحد پار کی، 26 ماہ کی طویل قید کاٹی، پھر پاکستان واپس بھیجا گیا۔ واقعے نے انڈین حراست میں دیگر پاکستانیوں کی حفاظت، سلامتی اور بہبود پر پاکستانی سنگین خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

بھارتی حکام کے ہاتھوں پاکستانی قیدی محمد علی حسین کا بھی وحشیانہ ماورائے عدالت قتل کیا گیا، ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہندوستان تبارک علی کے ماورائے عدالت قتل کے واقعہ کی تفصیلات فراہم کرے۔تبارک حسین کی موت کی وجہ کے تعین کے لیے پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی فراہم کی جائے۔ پاکستانی قیدی کے قتل کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرنے کے لیے شفاف تحقیقات کی جائیں۔ تبارک کے اہل خانہ کی خواہش کے مطابق مرحوم کی میت کی جلد وطن بھیجی جائے۔
Load Next Story