ملک میں بدامنی اور تشدد سے عرصہ حیات کم ہوسکتا ہے
آکسفورڈ یونیورسٹی اور این وائے یو ابوظہبی نے طویل تحقیق کے بعد کہا ہے کہ پرتشدد ممالک میں حیات غیریقینی ہوجاتی ہے
اگرچہ پرتشدد، جنگ زدہ اور بد امنی والے علاقوں میں رہنے والے ہروقت خطرے اور نقصان کی زد میں رہتے ہیں لیکن اب سائنسی سروے سے ٹھوس ثبوت ملا ہے کہ ان علاقوں میں رہنے سے اوسط زندگی کم ہوسکتی ہے اور حیاتیاتی غیریقینی کیفیت منڈلاتی رہتی ہے۔
ابوظہبی میں واقع نیویارک یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر ایک طویل سروے کیا ہے۔ اس شائع شدہ تحقیق میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ملکی بدامنی اور تشدد سے صحت کے اشاریئے متاثر ہوتے ہیں اور اس سے زندگی مختصر ہوسکتی ہے۔
غیریقنی مستقبل، بالخصوص بقا کی غیریقینی صورتحال انسانی رویے اور فیصلے پر اثرڈالتی ہے۔ اس سے انسان تعلیم، طرزِحیات اور اپنی صحت سے بھی لاپرواہ ہوجاتا ہے جبکہ کئی جگہوں پر بچوں کی پیدائش بھی روکی جاتی ہے۔ پھر آبادی کی سطح پر قبل ازوقت اموات دیکھی جاسکتی ہیں۔
سائنس ایڈوانسِس نامی جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق 2008 سے 2017 تک 162 ممالک کا جائزہ لیا گیا۔ ساتھ ہی عالمی امراض کے ڈیٹا بیس، اور اندرونی امن کے انڈیکس سے بھی مدد لی گئی ہے۔ سب سےحیرت انگیز بات یہ سامنے آئی کہ سب سے جنگ زدہ علاقوں میں اوسط افراد کی عمر سب سے کم نکلی۔ یعنی تشدد اور بدامنی والےممالک میں پرامن ملکوں کے مقابلے میں قبل ازوقت موت کا دورانیہ 14 برس کم تھا۔
اس کا سب سے زیادہ اظہار فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر خطوں مثلاً عراق اور شام میں بھی ہوا۔ اسی طرح لاطینی امریکہ میں جرائم ، بم دھماکوں اور دیگر منفی اثرات بھی زندگی کا چراغ بجھاتے نظرآئے۔ تاہم سب سے زیادہ متاثر مرد ہی ہوئے جو یا زخمی ہوئے یا کسی وجہ سے مرگئے۔ دوسری جانب خواتین میں قبل ازوقت زچگی اور جنگوں کے درمیان اہم تعلق بھی سامنے آیا۔ تاہم کم وبیش یہی صورتحال مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں بھی ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب بدامنی کے دیگر اثرات میں تعلیم اور روزگار میں کمی، ناامیدی، منشیات کا استعمال، ناکافی غذا اور پی ٹی ایس ڈی جیسی کیفیات بھی انسان کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ دیگرماہرین نے اسے ایک غیرمعمولی تحقیق قرار دیا ہے جو امن و سکون کی اہمیت اور انسانی زندگی کے درمیان تعلق سے آگاہ کرتی ہے۔
ابوظہبی میں واقع نیویارک یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر ایک طویل سروے کیا ہے۔ اس شائع شدہ تحقیق میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ملکی بدامنی اور تشدد سے صحت کے اشاریئے متاثر ہوتے ہیں اور اس سے زندگی مختصر ہوسکتی ہے۔
غیریقنی مستقبل، بالخصوص بقا کی غیریقینی صورتحال انسانی رویے اور فیصلے پر اثرڈالتی ہے۔ اس سے انسان تعلیم، طرزِحیات اور اپنی صحت سے بھی لاپرواہ ہوجاتا ہے جبکہ کئی جگہوں پر بچوں کی پیدائش بھی روکی جاتی ہے۔ پھر آبادی کی سطح پر قبل ازوقت اموات دیکھی جاسکتی ہیں۔
سائنس ایڈوانسِس نامی جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق 2008 سے 2017 تک 162 ممالک کا جائزہ لیا گیا۔ ساتھ ہی عالمی امراض کے ڈیٹا بیس، اور اندرونی امن کے انڈیکس سے بھی مدد لی گئی ہے۔ سب سےحیرت انگیز بات یہ سامنے آئی کہ سب سے جنگ زدہ علاقوں میں اوسط افراد کی عمر سب سے کم نکلی۔ یعنی تشدد اور بدامنی والےممالک میں پرامن ملکوں کے مقابلے میں قبل ازوقت موت کا دورانیہ 14 برس کم تھا۔
اس کا سب سے زیادہ اظہار فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر خطوں مثلاً عراق اور شام میں بھی ہوا۔ اسی طرح لاطینی امریکہ میں جرائم ، بم دھماکوں اور دیگر منفی اثرات بھی زندگی کا چراغ بجھاتے نظرآئے۔ تاہم سب سے زیادہ متاثر مرد ہی ہوئے جو یا زخمی ہوئے یا کسی وجہ سے مرگئے۔ دوسری جانب خواتین میں قبل ازوقت زچگی اور جنگوں کے درمیان اہم تعلق بھی سامنے آیا۔ تاہم کم وبیش یہی صورتحال مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں بھی ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب بدامنی کے دیگر اثرات میں تعلیم اور روزگار میں کمی، ناامیدی، منشیات کا استعمال، ناکافی غذا اور پی ٹی ایس ڈی جیسی کیفیات بھی انسان کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ دیگرماہرین نے اسے ایک غیرمعمولی تحقیق قرار دیا ہے جو امن و سکون کی اہمیت اور انسانی زندگی کے درمیان تعلق سے آگاہ کرتی ہے۔