ذاتی تشہیر میں سب سے نمایاں

عمران خان میڈیا میں نمایاں ہونے کا گر جانتے اور نیا بیانیہ بنا لیتے ہیں اور کوئی ان کا مدمقابل نہیں ہے

m_saeedarain@hotmail.com

سیاست میں سوشل میڈیا کی اہمیت بلاشبہ پی ٹی آئی نے نمایاں کی اور عمران خان نے ذاتی دلچسپی لے کر اپنی پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم تشکیل ہی نہیں دی بلکہ اس کو ذاتی وقت بھی دیا اور وزیر اعظم بننے کے بعد بھی انھوں نے اپنی سرکاری مصروفیات بڑھ جانے کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آنے دی، بطور وزیر اعظم عمران خان نے محکمہ اطلاعات و نشریات کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔

انھوں نے محکمہ اطلاعات کی کارکردگی پر بھی نظر رکھی مگر اہمیت اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو دی جو ان کی سیاست اور ذاتی تشہیر پر محکمہ اطلاعات سے آگے رہی ہے اور عمران خان خود اپنی ٹیم کی نگرانی کرتے اس پر خود مکمل گرفت رکھتے اور ہر ماہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ اجلاس ضرور منعقد کرتے اور ضروری ہدایات دیتے جب کہ محکمہ اطلاعات و نشریات جیسا حکومت کی ترجمانی و تشہیر کا سب سے اہم محکمہ انھوں نے اپنی پونے چار سالہ حکومت میں فواد چوہدری، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور شبلی فراز کے حوالے کیا مگر فردوس عاشق اعوان اور شبلی فراز کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوئے اور دوبارہ یہ محکمہ فواد چوہدری کے حوالے کیے رکھا۔

فردوس عاشق اعوان ،فواد چوہدری کے مقابلے میں محکمہ اطلاعات کی سربراہی کے لیے زیادہ تجربے کار تھیں اور پی پی حکومت میں بھی طویل عرصہ وزیر اطلاعات رہیں۔سینیٹر شبلی فراز کو کسی وزارت کا تجربہ نہیں تھا ۔ جب انھیں وزیر اطلاعات بنایا گیا ،مگر وہ بھی مطلوبہ کارکردگی نہ دکھا سکے تو جس پر وزیر اعظم کو آئی ایس پی آر کے تجربے کار فوجی افسر جنرل عاصم باجوہ کو معاون خصوصی اطلاعات بنانا پڑا جس پر میڈیا بھی مطمئن ہوا۔ چند ماہ بعد ہی وزیر اعظم کو انھیں بھی محکمہ اطلاعات سے فارغ کر کے دوبارہ یہ وزارت فواد چوہدری کے حوالے کرنا پڑی ۔

فواد چوہدری کی بعد کی کارکردگی سے عمران خان مطمئن رہے اور حکومت جانے کے بعد بھی فواد چوہدری پارٹی کے نائب صدر ہوتے ہوئے پارٹی کی موثر ترجمانی کر رہے ہیں جو ان پر عمران خان کے اعتماد کا ثبوت ہے۔ عمران خان نے میڈیا کے ٹاک شوز کے لیے بعض پارٹی رہنماؤں کو مقرر کر رکھا تھا۔

شوز کے لیے مختص پی ٹی آئی کے مرد اور خواتین رہنما بھی جذباتی رہتے تھے اور خود کو کوئی خاص ہی مخلوق تصور کرتے اور جھوٹے الزامات زیادہ اپوزیشن پر عائد کرتے اور حکومتی ترجمانی و تشہیر سے زیادہ خود نمائی میں نمایاں رہتے اور میزبانوں پر بھی حکم چلاتے تھے۔ کوئی سنجیدہ اور قابل رہنما ایسا نہیں تھا جو الزامات کے بجائے دلائل پر یقین رکھتا اور حکومت کی ترجمانی کی سنجیدگی سے عوام کو آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہو۔


پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم اس لیے کامیاب اور متحرک تھی کہ عمران خان خود اسے دیکھتے اور کسی بھی رہنما کو انھوں نے یہ ذمے داری نہیں دی تھی ۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ عمران خان نے اپنے رویے سے میڈیا میں بھی تقسیم پیدا کردی تھی اور میڈیا دو حصوں میں بٹ گیا تھا۔ چند میڈیا پرسنز نے تو عمران خان کی حمایت میں جانبداری کی انتہا کر دی تھی۔

میڈیا میں عمران خان کی حمایت 2014 کے دھرنے سے ہی شروع کردی تھی اور سینئر صحافی اور اینکر پرسنز عمران خان سے بے تحاشا توقعات وابستہ کر بیٹھے تھے اور انھیں ملک کا مستقبل اور مسائل کے حل کرنے والا رہنما سمجھ بیٹھے تھے مگر بعد میں ان کی آنکھیں بھی کھلنا شروع ہوگئیں اور وہ عمران خان سے محتاط اور دور ہو گئے تھے۔

عمران خان نے اپنی حکومت میں میڈیا سے خلیج پیدا کردی تھی وہ سرکاری تقریبات اور انٹرویوز میں صرف اپنے پسندیدہ صحافیوں اور اینکروں کو مدعو کرتے اور اپنے حق میں جانبداری کرنے والوں کو پسند کرتے تھے اور باقیوں کو اپنا مخالف سمجھتے تھے۔

میڈیا کا گلا گھونٹنے کا ہر حربہ استعمال ہوئے جس پر میڈیا احتجاج کرتا رہا مگر عمران خان نے ایسا کرنے والوں کی سرزنش کے بجائے ان کی حمایت جاری رکھی جنھوں نے حکومتی مفادات سمیٹے اور حکومت جانے کے بعد عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے تو علم میں ہی نہیں تھا کہ میڈیا پر کیا گزری۔

تمام سیاسی رہنماؤں میں عمران خان پہلے کی طرح اب اپوزیشن میں بھی نمایاں رہنے والے واحد رہنما ہیں۔ حکومت کے اتحادیوں میں کوئی ایک رہنما عمران خان کے پائے کا نہیں۔ وہ اب بھی اپنے حامیوں ہی نہیں بلکہ مخالفوں اور نقادوں کی مجبوری بن چکے ہیں کہ وہ اپنے شوز اور وی لاگز میں عمران خان کا ذکر کریں۔

عمران خان روزانہ میڈیا میں آگے اور ان کے مخالف سوئے ہوئے ہیں اور اب مریم نواز کی وطن واپسی کے بعد میڈیا کی ہیڈ لائنز تبدیل ہونے لگی ہیں مگر عمران خان میڈیا میں نمایاں ہونے کا گر جانتے اور نیا بیانیہ بنا لیتے ہیں اور کوئی ان کا مدمقابل نہیں ہے۔
Load Next Story