حکومت اورکلارنیٹ نوازی

آجکل کلارنیٹ سے فن سے جڑے فنکاروں میں منور خاں، لیاقت علی خاں اور جعفر حسین اچھے کلارنٹئے جانے جاتے ہیں

tahir.mir@expressnews.tv

پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت عدالت اور اپوزیشن جماعتوں سے تو سند یافتہ ناکام، نااہل اور کرپٹ ہونے کا ''کریکٹر سرٹیفکیٹ'' حاصل کیے ہوئے ہے۔

رہی سہی کسر استاد صادق کے اس بیان نے نکال دی ہے جس میںموصوف نے نشاندھی کی ہے کہ ''موجودہ حکومت کلارنیٹ نوازی کے فن کی حوصلہ افزائی نہیںکر رہی۔'' سیفما کے زیراہتمام ایک تقریب میں کلار نیٹ نواز استاد صادق نے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ برصغیر کی کلاسیکی اور روایتی موسیقی کے سازوں میں شامل کلارنیٹ کے فن اور اساتذہ کو پاکستان میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

جس کی وجہ سے یہ فن دم توڑ رہا ہے۔ استاد نے تجویز پیش کرنے کے ساتھ، ساتھ خبردار بھی کیا ہے کہ اگر حکومت نے کلارنیٹ کے فن کے فروغ کے لیے فوری اقدام نہ کیے تو ممکن ہے کہ آنیوالے چند سالوں میں اس کے نشانات عجائب گھروں میں ملیں۔

کلاسیکی موسیقی اور فنون لطیفہ کی سر پرستی کے لیے اپنے شہزادہ شیخو کے ڈیڈی اورظل الہی شہنشاہ اکبر اچھی خاصی شہرت رکھتے تھے۔ اساتذہ فن، رقاصاوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو جلال الدین اکبر المعروف شہنشا ہ اکبر سے زیادہ اچھا حکمران میسر نہیںآیا۔ مغلیہ دور کی تاریخ کا مطالعہ کریںتو دربار اکبری میں کلارنیٹ اور کسی کلارنیٹ نواز کا سراغ نہیں ملتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مغلیہ دور کا عروج کا زمانہ 1556ء کہلاتا ہے جب شہنشاہ اکبر ہندوستان پر حکومت فرما رہے تھے اور موجودہ کلارنیٹ ساز 1690ء میں ایجاد کیا گیا۔ کلارنیٹ بنیادی طور پر مصری سازہے اور پہلی بار اس کی اختراع 3000ق م (زمانہ قبل از مسیح) میں ڈالے جانے کے شواہد ملتے ہیں۔ اس نا خوشگوار تاریخی حادثہ پر استاد صادق سے افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ ان کا زیر دست ساز کلارنیٹ شہنشاہ اکبر کے دور میںمعرض وجود میںآتا تو ان کے بڑے بوڑھے بھی میاں تان سین اور بیجو باورا کی طرح بائیسویں گریڈ کے سرکاری کلارنٹ نواز ہوتے۔بر صغیر میںکلارنیٹ انگریز کے ساتھ آیا تھا۔

کہتے ہیں کہ اکبر بادشاہ کے دربار میں تان سین اور بیجو باورا کی حیثیت ابوا لفضل اور فیضی جیسے دانشوروں، درجن سنگھ اور مان سنگھ جیسے سپہ سالاروں سے کم نہ تھی۔ ایسا تو شاید آج بھی ہوتا ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں میں بہت سے ''کسبی اور استاد''اپنا، اپنا کلارنیٹ بڑا اچھا بجا رہے ہیں اور اس فن میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں گذشتہ 66 سال میںلگ بھگ نصف عرصہ فوجی بینڈ نے بھی اپنی، اپنی SYMPHONY (ہیوی ارکسٹرا پر مشتمل بینڈ) دھن بجائی۔ اور ایسا بھی ہوا کہ جب وطن عزیز میں جمہوری راگ اور راگنیاں الاپی گئیں تو پس منظر میں فوجی آرکسٹرا کے ردم کی دھمک اور مخصو ص موسیقی مسلسل سنائی دیتی رہی۔

کلارنیٹ نوازی کی دنیا میں MOZART (موزارٹ) اور BEETHOVEN (بیتھوون) پیر کاریگر فنکار ہوئے ہیں۔ موزارٹ نے پیانو، وائلن اور کلارنیٹ کے ساتھ عظیم میوزک تخلیق کیا۔ 1950 ء کے بعد امریکا اور مغربی ممالک میں SHAW (شا) اورWOODY HERMAN (وڈے ہرمن) نے کلارنیٹ کے شعبے میں خوب نام کمایا۔ ہمارے ہاں بڑے، بڑے کلارنیٹ نوازوں میں جہانگیر خاں، عالم گیر خاں، سونی خاں، صادق علی مانڈو خاں، شاہ جہاں خاں، اورنگ زیب خاں المعروف رنگی خاں اور سونا خاں شامل ہیں۔


آجکل کلارنیٹ سے فن سے جڑے فنکاروں میں منور خاں، لیاقت علی خاں اور جعفر حسین اچھے کلارنٹئے جانے جاتے ہیں مگر ناقدری فن کے باعث کسی کی بھی معاشی حیثیت بہتر نہیںہے۔ وطن عزیز میں یوں تو ہرشعبہ روبہ زوال ہے اور غریب عوام زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔نہتے اور غریب عوام بے رحم موت سے ہر صوبے، ہر شہر میں شکست سے دو چار ہو رہے ہیں۔ انھی دنوں کراچی اور لاہور میں 300 سے زائد غریب اپنے اور بچوں کے لیے روٹی کمانے کی جنگ ہار گئے۔ 300 سے زائد غریبوں کے جسم کی چربی اور ہڈیاں تک پگھل گئیں اور فائر برئگیڈ کا عملہ گھنٹوں آگ پر قابو پانے میںناکام رہا۔

سنیئر فائر فائٹر غلام حسین بتاتے ہیں کہ پاکستان کے کسی شہر میں بھی آگ بجھانے کاکوئی فعا ل نظام موجود نہیں ہے۔ امریکیوں سمیت دنیا کی دوسری اقوام نے ایسے انتظامات کیے ہیں کہ آگ بجھانے سے بہتر ہے کہ آگ لگنے نہ پائے۔ لیکن ہم وہ ''زندہ قوم'' ہیں جسے اندیشہ ہائے زندگی سے مکمل ''استثنیٰ'' حاصل ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت جمہوری، سیاسی، سفارتی، خارجی اور عسکری سمیت ہر قسم کی کلارنیٹ نوازی جاری ہے۔

صدر آصف زرداری نے لاہور میںکہا ہے کہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی پر قابو تو نہیں پایا جا سکا مگر آیندہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ جیالا ہو گا۔ سیاسی کلارنیٹ نوازی میں اس بیان کی اہمیت ''کلاسیکی ٹوٹے''سے کم نہیں ہے۔صدر صاحب سیاسی کلارنیٹ نوازی میں ''راگ کھپے'' بجانے کے استاد مانے جاتے ہیں۔ دیگر اے کلاس کلارنٹیوںمیں قمر زمان کائرہ، رحمان ملک اورکچھ عرصہ سے اعتراز احسن بھی شامل ہیں۔

گیلانی صاحب نے ساڑھے چار سال بڑی اچھا کلارنیٹ بجا یا ' آج کل یہی کام وہ اپنے گھر بیٹھ کر کر رہے ہیں اور طربیہ دھنیں بجا رہے ہیں۔ نون لیگ کی کلارنیٹ نوازی میں میاں برادران کی حیثیت کلاسیکل ہے۔ سیاست میں میاں برادران کی حیثیت ایسے ہی مسلم ہے جیسے موسیقی میںطافو برادران کا خاندان محترم ہے۔

نون لیگ کے دیگر فنکاروں میں چوہدری نثار جنگی کلارنیٹ بجانے کے ماہر ہیں، خواجہ سعد رفیق جذباتی کلارنیٹ بجانے کے کاریگر ہیں جب کہ ظفر علی شاہ کو کلارنیٹ بجاتے بجاتے غش بھی پڑ جاتاہے' د ھیمے سروں میں کلارنیٹ بجانے والوں میں احسن اقبال اور پرویز رشید پیر کاریگر مانے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست ہو یا کوئی حکومتی ڈھانچہ ایم کیو ایم کے کلارنیٹ نواز شامل کیے بغیر اقتدار کی کوئی اعلیٰ سمفینی بجائی نہیں جا سکتی۔

جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل مشرف اور پھرمیثاق جمہوریت کے چیمپینز سبھی نے ایم کیو ایم کے کلارنیٹ نوازوں کو اپنے بینڈ میںشامل کر کے اقتدار کی دھن بجائی۔ ایم کیو ایم کلارنیٹ نواز ایسے پیر کاریگر ہیں کہ انھیںآج کے زمانہ کا سیاسی سازینہ بجانے والوںکو موزاٹ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن بھی کلارنیٹ بجاتے ہیں لیکن اس کی حیثیت غیر شرعی نہیںہونے دیتے۔

اسفند یار ولی کلارنیٹ اپنے طریقے سے بجاتے ہیں۔ شاہی سید کلارنیٹ اسنفند یار کے طریقے سے بجاتے ہیں۔ چوہدری برادران کو کلارنیٹ بجانا تو نہیںآتا، تاہم انھوں نے مشہور کیا ہوا ہے کہ ہم بجا لیتے ہیں۔ عمران خان کا نیم فوجی بینڈ کافی پھیل گیاہے، اس کے سا زینے میں شاہ محمود قریشی' جاوید ہاشمی' جہانگیر ترین اورخورشید محمود قصوری جیسے کلارنٹئے شامل کر کے اس بینڈ کو مظبوط کیا گیاہے ورنہ اس کی حیثیت نقار خانے میں طوطی کی تھی۔ کلارنیٹ نوازی میں شیخ رشید کی حیثیت اس سولو فنکارکی سی ہے جسے جو سائی (ایڈوانس رقم) تھمائے اس کے بینڈ میںکلارنیٹ اٹھا کر پہنچ جاتے ہیں۔

آخرمیںاستادصادق کلارنٹ نواز کی خدمت میں صرف اتنی عرض ہے کہ جس ملک کے بجٹ میںتعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے چیرٹی، زکوٰۃ، فطرانہ اورخیرات سے ''کارخیر'' میں حصہ ڈالا جاتا ہو، وہاں کلارنیٹ نوازی جیسی عیاشی، غیرشرعی اور غیر ترقیاتی فعل پر انوسٹمنٹ کرنا دانشمندی نہیں۔ ہمارے ہاںکلارنیٹ نوازی کے بجائے نے نوازی کا رواج فروغ پا گیا ہے اور اس کے لیے شرط یہ ہے کہ غریبوں کو اپنی اس پرفارمنس کی لائیو کوریج کرانے کے لیے300 سے زائد انسانوںکے زندہ جل جانے کے '' ایونٹ'' کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔
Load Next Story