تاریخ کو رہا کریں

ہمارے کچھ لوگ اس بات پر ناز کرتے ہیں کہ ہم ہندوستان سے کہیں مہلک ایٹمی اسلحہ رکھتے ہیں...

zahedahina@gmail.com

ISLAMABAD:
پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے خارجہ کے دورے، اس کے مضمرات اور مثبت نتائج کے امکانات پر ہماری تمام زبانوں کے اخبارات میں خوب خوب لکھا گیا۔

اس کے سیاسی، معاشی اور انسانی پہلوئوں پر ہر زاویے سے تجزیے اور تبصرے سامنے آئے۔ ان ہی دنوں بعض ایسی تحریریں بھی شایع ہوئیں جن میں ہندوستان کو 'ازلی دشمن' قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ کہنا شاید بجا ہو کہ ہم لفظوں کو نہایت بداحتیاطی سے استعمال کرتے ہیں۔

ہندوستان 14 اگست 1947 کو تقسیم ہوا اور پاکستان نہایت تلخ سیاسی مناقشے کے درمیان وجود میں آیا۔ اسی تلخی نے خونیں فسادات اور بیسویں صدی کی ایک ایسی مہیب نقل مکانی کو جنم دیا جس نے کروڑوں زندگیاںتہس نہس کردیں۔ اس سانحے کو صرف 65 برس گزرے ہیں لیکن ہم میںسے کچھ لوگ جب دونوں ملکوںکے تعلقات کی بات کرتے ہیں تو ہندوستان کو اپنا ''ازلی دشمن'' کہتے اور لکھتے نہیں تھکتے۔

کیا 'ازل' 65 برس پر مشتمل ہے؟ وہ لوگ جو 65 برس پہلے ایک مشترک ماضی رکھتے تھے، ایک دوسرے کے 'ازلی' دشمن کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیا ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ برطانیہ اور فرانس کی طرح 100 برس کی جنگ لڑی؟ کیا ہم نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی طرح امریکا کے ہاتھوں ایٹمی زخم کھائے ؟ جرمنی کے سیکڑوں بمبار طیارے جس طرح ہر رات لندن شہر پر بم گراتے تھے کیا ہم پر اسی طرح بم برسائے گئے؟

کیا سوویت بلاک اور مغربی بلاک دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کے نام پرایک دوسرے کے دشمن جانی نہ تھے؟ کیا چین امریکا کو کاغذی شیر نہ کہتا تھا اور کیا اس نے امریکا سے ازلی دشمنی کا اعلان نہیں کیا تھا؟ گزشتہ چند برسوںکے دوران ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ان 'دشمنوں' نے زمینی حقائق کے سامنے یہ تمام دشمنیاں لپیٹ کر رکھ دیں۔

یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ عالمی کساد بازاری کے باوجود یہ ملک ترقی کررہے ہیں اور اس وقت امریکا اور چین کی تجارت ناقابل یقین حدوں کو چھو رہی ہے۔ادھر چین جس کی 1962 میں ہندوستان سے جنگ ہوئی تھی، اس نے اپنے سرحدی تنازعات کو پس پشت ڈال کرہندوستان سے تجارت کو اتنا بڑھایا ہے کہ وہ 100 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔

ہمارے کچھ لوگ اس بات پر ناز کرتے ہیں کہ ہم ہندوستان سے کہیں مہلک ایٹمی اسلحہ رکھتے ہیں اور ہم نے بہترین ڈیلوری سسٹم بنالیا ہے۔ ایسے میںجی چاہتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوںمیں جنگی جنون پھیلانے والوں سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ اپنے لوگوں کو پیٹ بھر کر صرف ایک وقت کا کھانا فراہم نہیں کرسکتے، آپ کے شہری صاف پانی اور سردرد کی گولیوں کو ترستے ہیں۔

آپ کے یہاں دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑپٹیاں اور دنیا کے سب سے زیادہ ناخواندہ، مدقوق اور بیمار بچے رہتے ہیں، اگر کسی عمارت میں آگ لگ جائے تو اسے 48 گھنٹوں تک بجھانا آپ کے لیے ممکن نہیں ہوتا، بجلی آپ کے یہاں 4 گھنٹے آتی ہے اور 20 گھنٹے ملک کی بیشتر آبادی بجلی کو ترستی ہے۔ ایسے میں آپ کے مہلک ہتھیارسوا ڈیڑھ ارب انسانوں کے کس کام کے ہیں؟

ہندوستان کی تقسیم اس لیے نہیں ہوئی تھی کہ خطے میں دو دشمن ایجاد کیے جائیں اور انھیں ایک دوسرے کا نرخرہ چبانے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ کہا یہ گیا تھا کہ ہندوستان کے اس خطے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے،وہاں وہ ایک آزاد ملک چاہتے ہیں، تاکہ معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر ایک خود مختار قوم کی زندگی گزار سکیں۔ہندوستان کی تقسیم دو دشمنوں کو جنم دینے کے لیے ہر گز نہیں ہوئی تھی۔

نفرت انگیز فرقہ وارانہ فسادات اور اس کے بعد سخت گیر اور اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے دشمنی کو راسخ کرنے پر تلی ہوئی دونوں طرف کی بالادست اشرافیہ نے اپنے اپنے ملکوں میں نفرت کے وہ بیج بوئے جنہوں نے بے شمار لوگوں کو اس بات کا یقین دلادیا کہ وہ واقعی ایک دوسرے کے دشمن ہیں اوران پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ختم کردیں، صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔


دونوں ملکوں کے وسائل اور دولت جو لوگوں کی خواندگی، خوش حالی اور ان کی نسلوں کے بہترین مستقبل پر خرچ ہونی تھی وہ تمام ذرایع اور وسائل جنگی تیاریوں پر اور صنعتی ملکوں سے اسلحے کی خریداری پر خرچ کردیے گئے۔ ہم نے جنگیں لڑیں، ہم نے سیاچن کی بلندیوں پر اپنے اپنے نوجوانوں کے بدن برف کو کھلادیے، ان میں سے کچھ ختم ہوئے ، کچھ عمر بھر کے لیے معذور ہوکر گھروں کو لوٹے۔ ہم نے کارگل ایڈونچر کے قدموں میں امن کو بلیدان کیا۔

آج جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہم اپنی تلخ اور المناک تاریخ کو پیچھے چھوڑ کر آگے کی طرف سفر کریں اور اپنی نسلوں کو جنگو ازم کے عفریت سے نجات دلائیں تو دونوں طرف کے انتہا پسند اور جنگ کے جہنم کو بھڑکانے والے آتش زیرِپا ہوجاتے ہیں۔ وہاں کے ایک رہنمافرماتے ہیں کہ وہ پاکستانی ٹیم کو ممبئی کی سرزمین پر نہیں کھیلنے دیں گے گویا ممبئی کا شہر ان کی ذاتی ملکیت ہے۔

دوسری طرف ہمارے یہاں کے قلمی جنگجو اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے۔ حالانکہ ان میں سے بیشتر اگر اپنا پاسپورٹ اٹھاکر دیکھیں تو ان کی جنم بھومی لاہور ہو، یا پشاور ، اپنی پیدائش کے وقت وہ ہندوستانی تھے۔ اسی طرح ایڈوانی صاحب سندھ میں پیدا ہوئے تھے اور اگر انھیں پیدائشی اعتبار سے پاکستانی کہا جائے تو انھیں برا نہیں ماننا چاہیے۔

ایسے موقعوں پر مجھے وہ لوگ بہت یاد آتے ہیں جو گزشتہ سات آٹھ سو برس کے دوران اس مشترک تہذیب کے خالق رہے جس کی آج بھی سارے جہاں میں دھوم ہے۔ ہندوئوں کو اپنا 'ازلی دشمن' لکھنے والوں کویہ کیوں یاد نہیں آتا کہ ان کی زبان کی پرورش و پرداخت، فارسی اور اردو کے متعدد بے مثال ہندو ادیبوں نے کی ہے اور آج تک کررہے ہیں۔ مغل دربار سے وابستہ ہندوئوں نے فارسی میں ایسی دسترس حاصل کی تھی کہ ان کی لکھی ہوئی کتابیں سند کا درجہ رکھتی تھیں۔

انشائے منشی مادھو رام گزشتہ صدی میں سارے ہندوستان کے فارسی اور اردو نصاب میں پڑھائی جاتی تھی۔ منشی چندر بھان، انشائے مرکرن، چہار چمن، یعنی انشائے چندر بھان اور ایسی درجنوں نہیں سیکڑوں کتابیںہیں جو وہ لکھتے رہے اور ہم پڑھتے رہے۔ انھوں نے تاریخ کی متعدد کتابیں لکھیں جن سے انگریزی مصنفین نے استفادہ کیا۔ انھوں نے فارسی اور اردو کے تذکرے تحریر کیے۔ آمدن نامہ سکھ رام داس نے لکھا۔ ہندوستان میں لکھی جانے والی فارسی کی لغت 'بہار عجم' جو آج تک ایران میں بہت ہی مستند لغت سمجھی جاتی ہے وہ ٹیک چند بہار کی لکھی ہوئی ہے۔

منشی چندر بھان برہمن، آنند رام مخلص، منشی لکمشی نرائن شفیق کیسے کیسے بڑے لکھنے والے ہیں۔ فارسی علم و ادب اور شاعری میںطاق سیکڑوں ہندو شعراء کے نام ہیں جو ڈاکٹر سید عبداللہ ،ڈاکٹر نریندر بہادر سریواستوا اور ڈاکٹر تارا چندکی کتابوں میں مل جائیں گے۔

اردو جس نے فارسی سے کسب فیض کیا، اس کے ہندو ادیبوں نے کیسے کیسے کمالات نہیںد کھائے۔ ان کی مرتب کی ہوئی لغات، ان کی مثنویاں، ان کی داستانیں۔ کیا جواہر ہیں جن سے انھوں نے اردو شعرو ادب کا دامن مالا مال کیا۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کا فسانۂ آزاد، للو لال جی کی، سنگھاسن بتیسی، نیم چند کھتری کا ''قصہ گل وصنوبر'' جس کا آغاز حمد ونعت اور منقبت سے ہوا ہے۔

پنڈت دیاناتھ وفا کی مثنوی داغ دل، پنڈت دیا شنکر نسیم کی 'گلزار نسیم'' لالہ انبے پرشاد مدہوش کا 'قصہ گوپی چند' منشی طوطارام شایان کی مثنوی 'پرکالۂ آتش' پنڈت چکبست، پنڈت دتاتر یہ کیفی، پنڈت تلوک چند محروم، جگن ناتھ آزاد، فراق گورکھپوری۔

جدید افسانے اور ناول نگاری پر نظر ڈالیے تومنشی پریم چندر، سدرشن، کرشن چندر، سرلا دیوی، راجندر سنگھ بیدی، مہندر ناتھ، رتن سنگھ دانشوروں اور محققوں میں مالک رام، ڈاکٹر پرکاش مونس، کشن چندزیبا، گوپی چند نارنگ، دیوان سنگھ مفتون، ڈاکٹر گیان چند جین، رنگ لال چمن، بشیشوناتھ، منور لکھنوی،...... یہ وہ نام ہیں جو تقدیم و تاخیر کا لحاظ رکھے بغیر لکھ دیے ہیں۔ ان میں کالی داس گپتا رضا اور ستیہ پال آنند، گلزار زتشی، کنور مہندرسنگھ بیدی سحر، دینہ جہلم کے گلزار کا نام تو رہاجاتا ہے، اس کے علاوہ بھی جانے کتنے نام رہ گئے۔

ہمارے بعض دانشوروں کی منطق کے اعتبار سے یہ سب ہمارے 'ازلی دشمن' ہیں۔ یہ وہ ہیں جن میں سے متعدد آج بھی ہمارے نصاب میں شامل ہیں اور صرف اردو پر ہی کیا منحصر ہے؟ پنجابی، سندھی، گجراتی، سرائیکی، بنگالی یہ تمام زبانیں ہمارے اجتماعی شعور کے ہیرے، جواہر ہیں اور ان تمام زبانوں میں لکھنے والے ہمارا مشترک ورثہ ہیں۔ 'ہیر' گائی جائے تو وارث شاہ کا جادو مسلمان، سکھ اور ہندو کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔

دلہن رخصت ہورہی ہوتو امیر خسرو کا بابل ہر آنکھ کو نم کردیتا ہے۔ یہ برصغیر کی رواداری اور دلداری کا وہ لشکارا ہے جو دلوں میں کُھب جاتا ہے۔ ہم جس ریت رواج کے ماننے والے ہیں اس میں سروں کے مینار نہیں اٹھائے جاتے۔ ہم نے بہت دنوں 65 برس کی تاریخ کو نفرت کا قیدی رکھا۔ اب دونوں ملکوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی تاریخ کو اس قید سے رہا کریں۔
Load Next Story