ملک کو درپیش معاشی چیلنجز

ہمارے یہاں سب الٹا ہے ، ہمارا ایک نقاطی ایجنڈا ہونا چاہیے ہر صورت اپنی برآمدات بڑھائیں

ہمارے یہاں سب الٹا ہے ، ہمارا ایک نقاطی ایجنڈا ہونا چاہیے ہر صورت اپنی برآمدات بڑھائیں (فوٹو : فائل)

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیر کی آزادی کو ملک کی معیشت سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' کشمیریوں کو آزادی دلانا ہے تو پاکستان کو معاشی طاقت بننا ہوگا۔ پاکستان کے مالی چیلنجز بہت شدید نوعیت کے ہیں ، آئی ایم ایف کا وفد ایک ایک دھیلے کی سبسڈی دیکھ رہا ہے۔''

یہ سچ ہے کہ دنیا میں معاشی طور پر طاقتور ممالک کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے جو بھی فیصلے سیاسی و سفارتی سطح پر ہوتے ہیں، ان میں اپنے معاشی مفادات کو مقدم رکھا جاتا ہے۔

دنیا جانتی ہے کہ بھارت قابض و ظالم ہے لیکن عالمی طاقتیں اور مسلم ممالک بھی مالی و معاشی مفادات کی خاطر مسئلہ کشمیر پر ہماری مدد کرنے سے کتراتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کی معیشت خطے کے ممالک میں سب سے زیادہ کم زور ہوچکی ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ناگزیر تھا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے ، فارن ایکسچینج ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی مسئلہ بنا ہوا اور ڈالر کا حصول بہت مشکل امر بنا ہوا ہے، جس کے سبب روپیہ تیزی سے اپنی قدر کھو رہا ہے۔

ایک درآمدی ملک ہونے کے سبب بھی افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث بھی مہنگائی تیزی سے اوپر جا رہی ہے، بجلی اور پٹرول کے بلند نرخوں نے پاکستانیوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، جس میں مزید اضافہ کے خدشات موجود ہیں، پاکستان کا سیاسی عدم استحکام بھی معاشی عدم استحکام کی بڑی وجہ ہے۔

ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کر کے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا چاہیے، دراصل ہم خود آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔

1995 میں بھی ایک بحران آیا تھا تو اس موقع پر دنیا بھر سے لوگ آئی ایم ایف کے پاس گئے لیکن ملائیشیا کے مہاتیر محمد نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' ہم اپنے مسائل خود حل کریں گے۔''

پاکستان کے عام آدمی کے لیے خوشحالی صرف اس صورت میں آئے گی کہ ملک میں سبز انقلاب کی بنیاد رکھی جائے۔ زراعت کا شعبہ متعدد طریقوں سے پاکستانی معیشت میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے ، تقریباً 21 فیصد قومی آمدنی اور کل روزگار کا 43 فیصد اسی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔

پاکستان کی گندم ، مکئی اور چاول وہ نقد آور فصلیں ہیں جن کا دنیا میں کو ئی ثانی نہیں۔ اس کے باوجود ماضی کی حکومتوں میں اس زرعی ملک کی زراعت کو اس طرح سے فروغ نہیں دیا گیا جس کا وہ متقاضی تھا۔

آم ، اہم پھل و سبزیاں اپنے ذائقے ، کوالٹی اور معیار کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ ہماری گندم کی آسٹریلیا ،کینیڈا ، اسپین میں بہت ڈیمانڈ ہے، گندم اور دیگر فصلوں کی پیداواری لاگت میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی غذائی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے ملک میں مختلف فصلوں کے زون بنائے جائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہم اپنی ضرورت کی تمام اجناس اپنے ملک میں پیدا کریں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے بہترین ماہرین کو بروئے کار لانا ہوگا اور اپنے کسان کی ہر ممکن طریقے سے مدد کرنی ہو گی۔

جعلی کھاد ، جعلی ادویات اور جعلی بیجوں کے خلاف قومی سطح پر تحریک چلانا ہو گی۔ ہماری وزارت خارجہ اپنے سفارت خانوں کو برآمدات بڑھانے کی ترغیب دے رہی ہے اور نئی منڈیوں کی تلاش جاری ہے، جن ملکوں میں نئی منڈی بننے کی صلاحیت موجود ہے ان میں سے اکثر کمرشل اتاشی کی سہولت سے محروم ہیں اور سفارت خانے کے مختصر عملے کو اپنے روز مرہ کے کام سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ کمرشل اتاشی کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے اور ان کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ بھی ضروری ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور غریب کسان کی ہر ممکن مدد کی جائے۔

وطن عزیز کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو ایڈونچر، ٹور ازم ، قدرتی حسن ، مذہبی سیاحت اور تاریخی مقامات سے مالا مال ہے۔

پاکستان میں ریگستان ، سر سبز و شاداب میدان ، پہاڑ، سرد و گرم علاقے،خوبصورت جھیلیں، جزائر اور سب کچھ ہے۔ ساحل سمندر سے لے کر برف پوش آسمان کو چھوتی چوٹیاں ، خوب صورت آبشاریں ، چشمے و جھرنے، وادیاں ، آثار قدیمہ ، ہندوؤں کے تاریخی مندر ، سکھوں کے قدیم مذہبی مقامات اور بدھ مت کی تاریخی نشانیاں ٹیکسلا اور گندھارا کی قدیم تہذیبوں کی صورت میں موجود ہیں۔


دل کش قدرتی مناظر کے علاقے وادی سوات ، کاغان ، گلیات ، آزاد کشمیر ، کیلاش ، ہنزہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کے مرکز ہیں۔ اسکردو میں دیو سائی کا خوب صورت ٹھنڈا صحرا قدرت کی بے نظیر کاری گری ہے۔

کے ٹو ، نانگا پربت ، گلگت ، بلوچستان کے خوب صورت خشک پہاڑ ، زیارت ، کوئٹہ اور گوادر اپنی مثال آپ ہیں۔ کراچی کا ساحل، گورکھ ہل دادو ، صحرائے تھر، موہنجو دڑو ، پنجاب کا تاریخی شہر ملتان ، صحرائے چولستان ، کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ فورٹ منرو سیاحت کے حامل ہیں۔

دنیا بھر میں سیاحت ایک ایسی صنعت ہے جس میں ترقی کے بے پناہ مواقعے ہیں۔ پاکستان میں سیاحت کا مقابلہ اگر تین ممالک ، بھارت ، سعودی عرب اور چین سے کیا جائے تو یہاں سیاحت کی صنعت کا GDP میں حصہ سب سے کم ہے جو صرف 3.1 فی صد ہے۔

گلگت بلتستان دنیا کی سیاحت کا مرکز بن سکتا ہے کیوں کہ سوئٹزرلینڈ اس علاقے سے آدھا ہے اور وہ سالانہ سیاحت کے شعبے سے اسی ارب ڈالرز کماتا ہے۔

ادھر پاکستان کی ساری برآمدات پچیس ارب ڈالرز کی ہیں۔ گلگت بلتستان سوئٹزر لینڈ سے دگنا ہے اور یہاں خوب صورتی بہت زیادہ ہے۔ صرف سیاحت پر ہی توجہ دیں تو سارا علاقہ اتنا خوش حال ہوسکتا ہے جس کا سوچ نہیں سکتے۔

اس صنعت کے فروغ میں عدم دل چسپی اور جارحانہ مارکیٹنگ کے ذریعے دنیا کو پاکستان کے زبردست سیاحتی مقامات سے آگاہ نہ کرنے کی وجہ سے ہم اُن اربوں ڈالرز سے محروم ہیں جو ہمیں اس اہم صنعت سے حاصل ہوسکتے تھے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمزکو سیاحت کے فروغ اور بین الاقوامی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے درست استعمال کے ذریعے سیاحت کے نئے در وا کیے جاسکتے ہیں جو مستقبل میں بہت منافع بخش ثابت ہوں گے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک طرف جہاں ملکی سطح پر وسائل کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے وہیں بیشمار ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض بہت ہی سادہ مگر اہم معاملات کو زیر التوا ڈال کر قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر صرف تمباکو پر ہی ہیلتھ لیوی ٹیکس لگا دیا جائے تو قومی خزانے میں ہر سال 40 سے 50 ارب روپے جمع کیے جا سکتے ہیں اور اس آمدن کو نہ صرف صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ، کئی ممالک نے تمباکو پر بھاری ٹیکسز کے ذریعے نہ صرف اپنی معیشت کو مضبوط بنایا بلکہ تمباکو جیسی لعنت سے اپنے معاشروں کو پاک بھی کیا۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان برآمدات کیسے بڑھا سکتا ہے؟ ہمارے بیرون ملک مقیم ہم وطن، ایک بڑا پول ہے، ان کی سالانہ آمدنی 60 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔

اس میں سے 30 بلین ترسیلات زر کے ذریعے پاکستان میں آتے ہیں باقی کے 30بلین ڈالر وہ اپنے پاس رکھتے ہیں یا اس کی سرمایہ کاری باہر ہی کرتے ہیں ، ان کے لیے یہاں دلچسپی پیدا کرنا ضروری ہے ، اس میں میڈیا کو کردار ادا کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

معاشی حکمت عملی کے تحت ملکی خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا، ایک برآمدی مصنوعات کا اور دوسرا اندرونی ضروریات کا۔ جب تک کراچی یا سدرن پاکستان کی ایکسپورٹ نہیں بڑھائیں گے۔

ہم لاکھ کوشش کرلیں دنیا میں ہماری ایکسپورٹ نہیں بڑھیں گی دنیا کے تمام ممالک وہ چاہے بنگلہ دیش، بھارت یا چین ہوں ان کا ایکسپورٹ سینٹر ساحلی علاقے کے قریب ہیں۔

ہمارے یہاں سب الٹا ہے ، ہمارا ایک نقاطی ایجنڈا ہونا چاہیے ہر صورت اپنی برآمدات بڑھائیں۔ پاکستان کو کم سے کم انفرا اسٹرکچر اور سرمایہ کاری کی ضرورت والی برآمدی خدمات اور مصنوعات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صنعتوں کو اپنی پیداوار کو کم قیمت سے زیادہ قیمت والی مصنوعات کی طرف منتقل کرنے کے لیے مراعات فراہم کرنے کے لیے ایک مثالی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

حالات سے لگتا ہے ہماری مزید مالی مشکلات ابھی باقی ہیں ، جس کی ہمیں تیاری کرنی چاہیے۔ یہ تیاری حکومت کے ساتھ عوام کو بھی کرنی پڑے گی۔

گھر کے ایک کے بجائے دو افراد کام کریں ، آمدنی میں اضافے کے نئے ذرایع ڈھونڈیں وغیرہ وغیرہ ہم مہنگائی کا مقابلہ اپنی آمدنی کو بڑھا کر کرسکتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے ہمیں ڈالر کی کمی کا سامنا ہے لیکن عوام کو ان مشکلات کا احساس نہیں ہے۔

اس میں سب سے پہلے ہمیں غیرملکی سرمایہ کمانے کی کوشش کرنی پڑے گی اور صنعتوں پر یہ لازم کریں کہ وہ جو بھی چیز تیارکرتی ہیں اس میں برآمدات کا حصہ زیادہ رکھیں۔
Load Next Story