تمام حکمرانوں سے مایوس بے بس عوام
بے روزگاری اور مہنگائی پر توجہ دینے کے بجائے سابق حکمرانوں کی کرپشن پر زور رکھاگیا
مسلم لیگ ن کی بیرون ملک موجود قیادت کو یقین تھا کہ وزیر خزانہ بن کر اسحاق ڈارکوئی کارنامہ کر دکھائیں گے اور عوام اور معاشی بدتری میں بہتری کا سبب بنیں گے۔
انھوں نے آتے ہی اپنی ہی حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل کے خلاف بیان بازی شروع کردی تھی جو ہنستے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھایا کرتے تھے اور اپنے صنعتی اداروں کا مفاد مقدم رکھتے تھے ۔
اسحاق ڈار کے آتے ہی قوم کے مسئلے کو چھوڑ کر اپنا مسئلہ حل کرایا ، کیس ختم ، ضبط کیاگیا گھر واپس لیا اور بینک میں منجمد اپنے 50کروڑ روپے بحال کرائے۔ انھوں نے آتے ہی ڈالر کا ریٹ مصنوعی طور پر کم کرایا اور ڈالر کو دو سو روپے تک لانے کے دعوے کیے۔
آئی ایم ایف کو بھی نظر انداز کیا اور چوتھے ماہ میں ملک سے ڈالروں کے غائب ہوجانے پر بھی توجہ نہ دی جس سے ہر کوئی مایوس ہوا پھر اچانک 29 جنوری کو دن دھاڑے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کا اعلان کر کے ایک روز قبل وطن آنے والی مریم نواز کے شاندار استقبال کی خوشی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جیسے قوم کو حکم دے رہے ہوں۔
انھوں نے اس اچانک اضافے کی وجہ بھی بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور یہ کہہ کر قوم پہ احسان کردیا کہ ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ اقتصادی بحران سے نمٹنے اور ملک آگے لے جانے کے لیے بڑے فیصلے ضروری ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اسحاق ڈار کے اعلان کو مریم نواز کے لیے سلامی اور وطن واپسی کی خواہش مند نواز شریف کا کریڈٹ قرار دیا اور کہا کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے اور عوام کے لیے مہنگائی کے عذاب مزید بڑھادیے ہیں۔
اپنے اقدامات سے آئی ایم ایف کو ناراض کرکے ملک کو معاشی دلدل میں جھونکنے والے سابق وزیراعظم عمران خان بھی کہاں چپ رہتے انھیں موقع مل گیا اور ٹویٹ کردیا کہ امپورٹڈ حکومت نے عوام کو کچل دیا اور مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔
اتحادی حکومت کے قول و فعل پر بھی عوام پی ٹی آئی حکومت کی طرح اعتماد نہیں کرتے۔ یہ ان ہی ارکان کی حکومت ہے جو قومی اسمبلی میں پلے کارڈ اٹھاکر پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی بڑھنے پر احتجاج کیا کرتے تھے۔
پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی حکومت میں آنے سے قبل ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت میں مہنگائی بڑھنے پر ریلیاں نکالتے اور جلسے جلوسوں میں عمران خان حکومت کو ملک و قوم کا دشمن قرار دیتے اور دھائیاں دیتے نہیں تھکتے تھے مگر اب ان کے لب سل گئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے ایک روز قبل ہی کہا تھا کہ عمران خان پہلے اپنی چار سالہ حکومت کا حساب دیں تو ہم بھی اپنے 8 ماہ کا حساب دیں گے اور اب عمران خان کی زندگی روتے ہوئے گزرے گی۔
ابھی ان کی تقریر کو 15گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اسحاق ڈار کے اعلان نے قوم کو رلادیا ۔ عمران خان تو نہیں روئے مگر قوم ضرور روپڑی ہے۔
1988میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت ختم اور بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت وجود میں آئی تھی اور 1999 تک جمہوری اور عوامی کہلانے والی بے نظیر اور نواز شریف کی چار حکومتوں میں مہنگائی بڑھنا شروع ہوئی تھی جس کے بعد جنرل پرویز کی حکومت میں مہنگائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔
عوام کو آصف زرداری کی عوامی حکومت ملی جس نے ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا جس کو بنیاد بنا کر روشنیاں بحال کرانے نواز شریف کی تیسری حکومت آئی جس میں بدترین لوڈشیڈنگ تو کم ہوئی مگر بالاتروں کو وہ پسند آئی نہ عوام کو ان کی مہنگائی۔ عمران خان مہنگائی کی وجہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن قرار دیتے تھے اور بالاتر بھی عوام کی طرح تبدیلی حکومت میں عوام کی برتر حالت میں تبدیلی چاہتے تھے مگر حالات تبدیل عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ہوئے۔
بے روزگاری اور مہنگائی پر توجہ دینے کے بجائے سابق حکمرانوں کی کرپشن پر زور رکھاگیا جس سے کوئی دولت واپس آئی نہ ایمانداری کے دعوے دار حکمران نے مہنگائی کم کرنے پر توجہ دی نہ انھیں اوپر سے ہدایت ملی۔
عمران حکومت کی مہنگائی کو بنیاد بناکر مگر اپنے مقدمات ختم کرانے، اتحادی حکومت وسیع تر کابینہ کے ساتھ اقتدار میں آئی اور اسحاق ڈار نے اتحادی حکومت میں مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کرا کر ثابت کرادیا کہ بے بس عوام کے لیے تمام حکمران ایک جیسے ہی ہوتے ہیں کوئی عوام کا خیرخواہ ہے نہ کوئی عوام دوست۔
انھوں نے آتے ہی اپنی ہی حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل کے خلاف بیان بازی شروع کردی تھی جو ہنستے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھایا کرتے تھے اور اپنے صنعتی اداروں کا مفاد مقدم رکھتے تھے ۔
اسحاق ڈار کے آتے ہی قوم کے مسئلے کو چھوڑ کر اپنا مسئلہ حل کرایا ، کیس ختم ، ضبط کیاگیا گھر واپس لیا اور بینک میں منجمد اپنے 50کروڑ روپے بحال کرائے۔ انھوں نے آتے ہی ڈالر کا ریٹ مصنوعی طور پر کم کرایا اور ڈالر کو دو سو روپے تک لانے کے دعوے کیے۔
آئی ایم ایف کو بھی نظر انداز کیا اور چوتھے ماہ میں ملک سے ڈالروں کے غائب ہوجانے پر بھی توجہ نہ دی جس سے ہر کوئی مایوس ہوا پھر اچانک 29 جنوری کو دن دھاڑے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کا اعلان کر کے ایک روز قبل وطن آنے والی مریم نواز کے شاندار استقبال کی خوشی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جیسے قوم کو حکم دے رہے ہوں۔
انھوں نے اس اچانک اضافے کی وجہ بھی بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور یہ کہہ کر قوم پہ احسان کردیا کہ ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ اقتصادی بحران سے نمٹنے اور ملک آگے لے جانے کے لیے بڑے فیصلے ضروری ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اسحاق ڈار کے اعلان کو مریم نواز کے لیے سلامی اور وطن واپسی کی خواہش مند نواز شریف کا کریڈٹ قرار دیا اور کہا کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے اور عوام کے لیے مہنگائی کے عذاب مزید بڑھادیے ہیں۔
اپنے اقدامات سے آئی ایم ایف کو ناراض کرکے ملک کو معاشی دلدل میں جھونکنے والے سابق وزیراعظم عمران خان بھی کہاں چپ رہتے انھیں موقع مل گیا اور ٹویٹ کردیا کہ امپورٹڈ حکومت نے عوام کو کچل دیا اور مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔
اتحادی حکومت کے قول و فعل پر بھی عوام پی ٹی آئی حکومت کی طرح اعتماد نہیں کرتے۔ یہ ان ہی ارکان کی حکومت ہے جو قومی اسمبلی میں پلے کارڈ اٹھاکر پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی بڑھنے پر احتجاج کیا کرتے تھے۔
پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی حکومت میں آنے سے قبل ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت میں مہنگائی بڑھنے پر ریلیاں نکالتے اور جلسے جلوسوں میں عمران خان حکومت کو ملک و قوم کا دشمن قرار دیتے اور دھائیاں دیتے نہیں تھکتے تھے مگر اب ان کے لب سل گئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے ایک روز قبل ہی کہا تھا کہ عمران خان پہلے اپنی چار سالہ حکومت کا حساب دیں تو ہم بھی اپنے 8 ماہ کا حساب دیں گے اور اب عمران خان کی زندگی روتے ہوئے گزرے گی۔
ابھی ان کی تقریر کو 15گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اسحاق ڈار کے اعلان نے قوم کو رلادیا ۔ عمران خان تو نہیں روئے مگر قوم ضرور روپڑی ہے۔
1988میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت ختم اور بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت وجود میں آئی تھی اور 1999 تک جمہوری اور عوامی کہلانے والی بے نظیر اور نواز شریف کی چار حکومتوں میں مہنگائی بڑھنا شروع ہوئی تھی جس کے بعد جنرل پرویز کی حکومت میں مہنگائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔
عوام کو آصف زرداری کی عوامی حکومت ملی جس نے ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا جس کو بنیاد بنا کر روشنیاں بحال کرانے نواز شریف کی تیسری حکومت آئی جس میں بدترین لوڈشیڈنگ تو کم ہوئی مگر بالاتروں کو وہ پسند آئی نہ عوام کو ان کی مہنگائی۔ عمران خان مہنگائی کی وجہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن قرار دیتے تھے اور بالاتر بھی عوام کی طرح تبدیلی حکومت میں عوام کی برتر حالت میں تبدیلی چاہتے تھے مگر حالات تبدیل عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ہوئے۔
بے روزگاری اور مہنگائی پر توجہ دینے کے بجائے سابق حکمرانوں کی کرپشن پر زور رکھاگیا جس سے کوئی دولت واپس آئی نہ ایمانداری کے دعوے دار حکمران نے مہنگائی کم کرنے پر توجہ دی نہ انھیں اوپر سے ہدایت ملی۔
عمران حکومت کی مہنگائی کو بنیاد بناکر مگر اپنے مقدمات ختم کرانے، اتحادی حکومت وسیع تر کابینہ کے ساتھ اقتدار میں آئی اور اسحاق ڈار نے اتحادی حکومت میں مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کرا کر ثابت کرادیا کہ بے بس عوام کے لیے تمام حکمران ایک جیسے ہی ہوتے ہیں کوئی عوام کا خیرخواہ ہے نہ کوئی عوام دوست۔