جیل بھرو تحریک کی دھمکی
حکومت کا موقف ہے کہ عمران خان کو جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد تمام عدالتوں سے ضمانتیں واپس لے لینی چاہیے
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے کارکنوں کو جیل بھرو تحریک کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔
انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد جیل بھرو تحریک کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے بھی عمران خان کے اس اعلان کو خوش آمدید کہا ہے اور شرط رکھی ہے کہ عمران خان جیل بھرو تحریک کا آغاز اپنے آپ سے کریں۔ سب سے پہلی اپنی گرفتاری دیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ عمران خان کو جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد تمام عدالتوں سے ضمانتیں واپس لے لینی چاہیے اور آیندہ بھی کسی عدالت سے ضمانت کا کوئی ریلیف نہیں لینا چاہیے۔ از خود جیل جائیں اور بعد میں بھی ضمانت نہ کروائیں۔
مجھے حکومت کے موقف میں کوئی جان نہیں لگ رہی ہے۔ حکومت نے شاید عمران خان کا اعلان نہیں سنا۔ انھوں نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ وہ خود گرفتاری دینے جا رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جیل بھرو تحریک کے لیے تیار ہو جائیں اور ان کے اعلان کے بعد تحریک انصاف کے کارکن گرفتاری دیں اور پاکستان کی تمام جیلیں بھر دیں۔ انھوں نے نہ ہی خود گرفتاری دینے کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ ان کے ساتھ ان کی دیگر قیادت بھی گرفتاری دے گی۔
یہ گرفتاریاں اور جیل بھرو صرف کارکنوں کے لیے ہیں۔ جو کارکن عمران خان سے محبت کرتا ہے اسے عمران خان کے لیے گرفتاری دینا ہوگی۔ انھیں جیلیں اس لیے بھرنی ہیں تا کہ ان جیلوں میں عمران خان کو رکھنے کی گنجائش ہی نہ رہے اور حکومت عمران خان کی گرفتاری کا خیال دل سے نکال دے۔
آج کل ویسے بھی زمان پارک کے باہر لوگوں کی حاضریاں لگائی جاتی ہیں۔ پہلے ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں اور پھر ان ڈیوٹیوں کی تکمیل کو چیک کرنے کے لیے حاضریاں لگائی جاتی ہیں۔
پہلے لوگوں کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں کہ آپ نے اتنے بندے لانے ہیں۔ پھر چیک کیا جاتا ہے کہ وہ اتنے لوگ لائے کہ نہیں۔ سارا دن ان لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح زمان پارک کے باہر کھڑے رکھنا اور شام کو واپس لے کر جانا ان لوگوں کی ذمے داری ہوتی ہے جو ٹکٹ کی خواہش میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لاتے ہیں۔
عمران خان ان لائے ہوئے کارکنوں کو ملنے کے لیے ایک لمحہ کے لیے نہ تو خود باہر آتے ہیں اور نہ ہی ان کارکنوں کو زمان پارک عمران خان کے گھر کے اندر داخل ہونے کی اجازت ملتی ہے۔
سارا دن باہر کھڑے رہنے کے بعد انھیں اپنے محبوب لیڈر کی جھلک دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ جن ارکان کی لوگوں کو لانے کی ڈیوٹی لگتی ہے وہ بھی حاضری رجسٹر پر صرف اپنے لوگ گنواتے ہیں۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ عمران خان اس حاضری رجسٹر کو باقاعدگی سے چیک کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی کارکردگی ان تک پہنچ جائے گی۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔
زمان پارک میں روزانہ لوگ عمران خان کی گرفتاری کے خوف سے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اگر جیل بھرو تحریک کا کوئی ارادہ بھی ہے تو اس طرح روزانہ لوگوں کو سڑکوں پر رسوا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ابتدائی طور پر ہر امیدوار ٹکٹ کے لیے پانچ سو لوگ لانے کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ اس طرح روزانہ پانچ چھ ہزار لوگ اکٹھے کرنے کا منصوبہ تھا۔ لیکن لوگوں نے رحم کی درخواست کی کہ پانچ سو لوگوں کو لانا لیجانا ایک مہنگا کام ہے۔
کافی کرایہ لگ جاتا ہے۔ پھر تین وقت کا کھانا بھی دینا پڑتا ہے۔اس لیے لوگوں کی رحم کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے پچاس پچاس لوگ لانے کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے، لیکن پچاس لوگ پورے گنے جاتے ہیں۔ ایک بھی کم ہو تو ساری محنت ضایع اور کارکردگی صفر کا سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے۔ اس لیے اب سب پچاس پچاس لوگ لاتے ہیں۔
اس طرح پانچ چھ سو لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اتنے لوگ تو روز لاہور سے ہی اکٹھے ہوجانے چاہیے۔ باہر کے اضلاع سے لوگ منگوانے کی کوئی ضرورت ہونی ہی نہیں چاہیے۔ بہر حال گرفتاری کو روکنے کے لیے یہ حکمت عملی بنائی گئی ہے، اور ابھی تک گرفتاری رکی بھی ہوئی ہے۔ اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ کامیاب حکمت عملی ہے۔
میرے خیال میں تحریک انصاف کے لوگوں کو اگر گرفتاریوں کا اتنا ہی خوف ہے اور چند دن کی گرفتاریوں کے بعد ان کے آنسو نکلنے لگ گئے ہیں۔ انھیں فوری طور پر بد زبانی بند کرنی چاہیے، انھیں سمجھنا چاہیے کہ اب گالم گلوچ برداشت نہیں کی جائے گی۔
یہ ممکن نہیں کہ آپ لوگوں کو اور ان کے بچوں کو دھمکیاں دیتے رہیں اور کوئی پکڑے بھی نہ۔ اگر دیکھا جائے تو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ میں ماں کی گالی لکھی۔ پھر ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اگر کوئی بھی کسی کو ماں کی گالی نکالے گا تو اس کے ساتھ کیا ہونا چاہیے۔
شہباز گل نے بد زبانی کی۔ فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے خاندانوں کو دھمکی دی۔ اس لیے نہ کوئی جیل بھرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی رونے کی ضرورت ہے۔
پہلا کام تو یہ کرنا چاہیے کہ بدزبانی بند کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف کے دوستوں کو سمجھنا چاہیے کہ اب گالم گلوچ کا سیزن ختم ہوگیا۔ اب واپس تہذہب کے دائرے میں آجائیں۔ ان کی آدھی مشکلات ختم ہو جائیں گی، لیکن اگر بد زبانی جاری رکھنی ہے تو کارکنوں کی جیل بھرو تحریک سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان اپنی احتجاجی سیاست کی صلاحیت کا غلط اندازہ تو نہیں لگا رہے ۔ کیا انھیں اندازہ ہے کہ ان کے کتنے کارکن ان کی کال پر گرفتاری دینے کے لیے تیار ہونگے۔ پھر حکومت ایسے کسی شخص کو کیوں گرفتار کرے گی جس نے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہوگی۔
جو قانو ن کو مطلوب نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ جیل بھرو تحریک بھی سیلفی شو ہی ہوگا۔ لوگ اپنی سیلفیاں اپ لوڈ کریں گے کہ ہم گرفتاری دینے پہنچ گئے ہیں اور پھر گھر چلے جائیں گے۔ اس کا نہ تو تحریک انصاف کو کوئی سیاسی فائدہ ہوگا اور نہ ہی حکومت کو کوئی نقصان ہوگا۔
جیل بھرو تحریک تب کامیاب ہوتی ہے جب حکومت کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جائے اور آپ اس پابندی کو توڑیںلیکن پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں پرکوئی پابندی نہیں۔ تو گرفتاری کیا ہوگی۔ اگر قانون ہاتھ میں لیاجائے گا تو گرفتاری ہوگی۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ تحریک انصاف اگر برگر جماعت ہے۔ ڈی جی پر جلسے کرنے والی جماعت ہے لیکن گرفتاری دینے والی جماعت نہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی چھاؤں تلے پیدا ہونے والی جماعت اور اس کے لیڈر ابھی احتجاجی سیاست کے لیے تیار نہیں۔ ایک طرف لیڈروں نے کئی کئی ماہ جیل کاٹی ہے پھر بھی کارکن باہر نہیں آئے۔
اس لیے تحریک انصاف کے لیڈر بھی اگر گرفتاری دے دیں گے تو ملک میں کوئی طوفان نہیں آئے گا۔ ٹوئٹر پر طوفان آسکتا ہے، لیکن سڑکوں پر کوئی طوفان نہیں آئے گا۔ اس لیے عمران خان جو چند سو لوگ روزانہ زمان پارک کے باہر گرفتاری کے خوف سے جمع کرتے ہیں۔جس دن گرفتاری ہو گی وہ سب بھاگ جائیں گے۔
ان میں سے کچھ مجبوری میں آتے ہیں، کچھ لاہور دیکھنے آتے ہیں، کچھ روٹی کے چکر میں آتے ہیں۔ ان میں سے چند بھی شاید ایسے نہ ہوں جو گرفتاری و مزاحمت کریں جس کے لیے انھیں بلایا گیا۔ جیسے ہی لاٹھی چارج شروع ہوگا یہ سب بھاگ جائیں گے۔
اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان کی جیل بھرو تحریک کی دھمکی ایک گیدڑ بھبکی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسی لیے ان کے سیاسی مخالفین کو اس کا اندازہ ہے۔
اسی لیے وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ایک رائے بن گئی ہے کہ ان کے ساتھی تو چند دنوں میں رو پڑے ہیں۔ عمران خان چند گھنٹوں میں ہی رو پڑیں گے، وہ جیل برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ یہ سب کچھ جیل سے بچنے کے لیے ہی کر رہے ہیں۔
انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد جیل بھرو تحریک کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے بھی عمران خان کے اس اعلان کو خوش آمدید کہا ہے اور شرط رکھی ہے کہ عمران خان جیل بھرو تحریک کا آغاز اپنے آپ سے کریں۔ سب سے پہلی اپنی گرفتاری دیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ عمران خان کو جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد تمام عدالتوں سے ضمانتیں واپس لے لینی چاہیے اور آیندہ بھی کسی عدالت سے ضمانت کا کوئی ریلیف نہیں لینا چاہیے۔ از خود جیل جائیں اور بعد میں بھی ضمانت نہ کروائیں۔
مجھے حکومت کے موقف میں کوئی جان نہیں لگ رہی ہے۔ حکومت نے شاید عمران خان کا اعلان نہیں سنا۔ انھوں نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ وہ خود گرفتاری دینے جا رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جیل بھرو تحریک کے لیے تیار ہو جائیں اور ان کے اعلان کے بعد تحریک انصاف کے کارکن گرفتاری دیں اور پاکستان کی تمام جیلیں بھر دیں۔ انھوں نے نہ ہی خود گرفتاری دینے کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ ان کے ساتھ ان کی دیگر قیادت بھی گرفتاری دے گی۔
یہ گرفتاریاں اور جیل بھرو صرف کارکنوں کے لیے ہیں۔ جو کارکن عمران خان سے محبت کرتا ہے اسے عمران خان کے لیے گرفتاری دینا ہوگی۔ انھیں جیلیں اس لیے بھرنی ہیں تا کہ ان جیلوں میں عمران خان کو رکھنے کی گنجائش ہی نہ رہے اور حکومت عمران خان کی گرفتاری کا خیال دل سے نکال دے۔
آج کل ویسے بھی زمان پارک کے باہر لوگوں کی حاضریاں لگائی جاتی ہیں۔ پہلے ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں اور پھر ان ڈیوٹیوں کی تکمیل کو چیک کرنے کے لیے حاضریاں لگائی جاتی ہیں۔
پہلے لوگوں کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں کہ آپ نے اتنے بندے لانے ہیں۔ پھر چیک کیا جاتا ہے کہ وہ اتنے لوگ لائے کہ نہیں۔ سارا دن ان لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح زمان پارک کے باہر کھڑے رکھنا اور شام کو واپس لے کر جانا ان لوگوں کی ذمے داری ہوتی ہے جو ٹکٹ کی خواہش میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لاتے ہیں۔
عمران خان ان لائے ہوئے کارکنوں کو ملنے کے لیے ایک لمحہ کے لیے نہ تو خود باہر آتے ہیں اور نہ ہی ان کارکنوں کو زمان پارک عمران خان کے گھر کے اندر داخل ہونے کی اجازت ملتی ہے۔
سارا دن باہر کھڑے رہنے کے بعد انھیں اپنے محبوب لیڈر کی جھلک دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ جن ارکان کی لوگوں کو لانے کی ڈیوٹی لگتی ہے وہ بھی حاضری رجسٹر پر صرف اپنے لوگ گنواتے ہیں۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ عمران خان اس حاضری رجسٹر کو باقاعدگی سے چیک کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی کارکردگی ان تک پہنچ جائے گی۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔
زمان پارک میں روزانہ لوگ عمران خان کی گرفتاری کے خوف سے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اگر جیل بھرو تحریک کا کوئی ارادہ بھی ہے تو اس طرح روزانہ لوگوں کو سڑکوں پر رسوا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ابتدائی طور پر ہر امیدوار ٹکٹ کے لیے پانچ سو لوگ لانے کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ اس طرح روزانہ پانچ چھ ہزار لوگ اکٹھے کرنے کا منصوبہ تھا۔ لیکن لوگوں نے رحم کی درخواست کی کہ پانچ سو لوگوں کو لانا لیجانا ایک مہنگا کام ہے۔
کافی کرایہ لگ جاتا ہے۔ پھر تین وقت کا کھانا بھی دینا پڑتا ہے۔اس لیے لوگوں کی رحم کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے پچاس پچاس لوگ لانے کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے، لیکن پچاس لوگ پورے گنے جاتے ہیں۔ ایک بھی کم ہو تو ساری محنت ضایع اور کارکردگی صفر کا سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے۔ اس لیے اب سب پچاس پچاس لوگ لاتے ہیں۔
اس طرح پانچ چھ سو لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اتنے لوگ تو روز لاہور سے ہی اکٹھے ہوجانے چاہیے۔ باہر کے اضلاع سے لوگ منگوانے کی کوئی ضرورت ہونی ہی نہیں چاہیے۔ بہر حال گرفتاری کو روکنے کے لیے یہ حکمت عملی بنائی گئی ہے، اور ابھی تک گرفتاری رکی بھی ہوئی ہے۔ اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ کامیاب حکمت عملی ہے۔
میرے خیال میں تحریک انصاف کے لوگوں کو اگر گرفتاریوں کا اتنا ہی خوف ہے اور چند دن کی گرفتاریوں کے بعد ان کے آنسو نکلنے لگ گئے ہیں۔ انھیں فوری طور پر بد زبانی بند کرنی چاہیے، انھیں سمجھنا چاہیے کہ اب گالم گلوچ برداشت نہیں کی جائے گی۔
یہ ممکن نہیں کہ آپ لوگوں کو اور ان کے بچوں کو دھمکیاں دیتے رہیں اور کوئی پکڑے بھی نہ۔ اگر دیکھا جائے تو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ میں ماں کی گالی لکھی۔ پھر ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اگر کوئی بھی کسی کو ماں کی گالی نکالے گا تو اس کے ساتھ کیا ہونا چاہیے۔
شہباز گل نے بد زبانی کی۔ فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے خاندانوں کو دھمکی دی۔ اس لیے نہ کوئی جیل بھرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی رونے کی ضرورت ہے۔
پہلا کام تو یہ کرنا چاہیے کہ بدزبانی بند کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف کے دوستوں کو سمجھنا چاہیے کہ اب گالم گلوچ کا سیزن ختم ہوگیا۔ اب واپس تہذہب کے دائرے میں آجائیں۔ ان کی آدھی مشکلات ختم ہو جائیں گی، لیکن اگر بد زبانی جاری رکھنی ہے تو کارکنوں کی جیل بھرو تحریک سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان اپنی احتجاجی سیاست کی صلاحیت کا غلط اندازہ تو نہیں لگا رہے ۔ کیا انھیں اندازہ ہے کہ ان کے کتنے کارکن ان کی کال پر گرفتاری دینے کے لیے تیار ہونگے۔ پھر حکومت ایسے کسی شخص کو کیوں گرفتار کرے گی جس نے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہوگی۔
جو قانو ن کو مطلوب نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ جیل بھرو تحریک بھی سیلفی شو ہی ہوگا۔ لوگ اپنی سیلفیاں اپ لوڈ کریں گے کہ ہم گرفتاری دینے پہنچ گئے ہیں اور پھر گھر چلے جائیں گے۔ اس کا نہ تو تحریک انصاف کو کوئی سیاسی فائدہ ہوگا اور نہ ہی حکومت کو کوئی نقصان ہوگا۔
جیل بھرو تحریک تب کامیاب ہوتی ہے جب حکومت کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جائے اور آپ اس پابندی کو توڑیںلیکن پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں پرکوئی پابندی نہیں۔ تو گرفتاری کیا ہوگی۔ اگر قانون ہاتھ میں لیاجائے گا تو گرفتاری ہوگی۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ تحریک انصاف اگر برگر جماعت ہے۔ ڈی جی پر جلسے کرنے والی جماعت ہے لیکن گرفتاری دینے والی جماعت نہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی چھاؤں تلے پیدا ہونے والی جماعت اور اس کے لیڈر ابھی احتجاجی سیاست کے لیے تیار نہیں۔ ایک طرف لیڈروں نے کئی کئی ماہ جیل کاٹی ہے پھر بھی کارکن باہر نہیں آئے۔
اس لیے تحریک انصاف کے لیڈر بھی اگر گرفتاری دے دیں گے تو ملک میں کوئی طوفان نہیں آئے گا۔ ٹوئٹر پر طوفان آسکتا ہے، لیکن سڑکوں پر کوئی طوفان نہیں آئے گا۔ اس لیے عمران خان جو چند سو لوگ روزانہ زمان پارک کے باہر گرفتاری کے خوف سے جمع کرتے ہیں۔جس دن گرفتاری ہو گی وہ سب بھاگ جائیں گے۔
ان میں سے کچھ مجبوری میں آتے ہیں، کچھ لاہور دیکھنے آتے ہیں، کچھ روٹی کے چکر میں آتے ہیں۔ ان میں سے چند بھی شاید ایسے نہ ہوں جو گرفتاری و مزاحمت کریں جس کے لیے انھیں بلایا گیا۔ جیسے ہی لاٹھی چارج شروع ہوگا یہ سب بھاگ جائیں گے۔
اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان کی جیل بھرو تحریک کی دھمکی ایک گیدڑ بھبکی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسی لیے ان کے سیاسی مخالفین کو اس کا اندازہ ہے۔
اسی لیے وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ایک رائے بن گئی ہے کہ ان کے ساتھی تو چند دنوں میں رو پڑے ہیں۔ عمران خان چند گھنٹوں میں ہی رو پڑیں گے، وہ جیل برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ یہ سب کچھ جیل سے بچنے کے لیے ہی کر رہے ہیں۔