زرداری صاحب خوش آمدید
لطیفہ یہ ہے کہ یہ سیاسی فنکار عوام کے پیسے عوام کی جیب سے نکال کر انھیں ان کی مدد بنا دیتے ہیں۔
TORONTO:
ایک مدت کے بعد پورے پاکستان کے صدر جناب والا آصف علی زرداری کو اپنی قلمرو کا ایک بڑا مرکز بلکہ سب سے بڑا مرکز یاد آیا اور گزشتہ جمعہ کو وہ کچھ وقت نکال کر اسلام آباد سے لاہور تشریف لائے۔
اہل لاہور کو ان کی تشریف آوری کا پتہ سڑکوں کی بندش سے چلا اور خوب چلا۔ لاہوریوں کو امید تھی کہ شاہی قافلہ زیادہ نہیں تو رات بھر قیام ضرور کرے گا اور لاہور میں صدر محترم کے پرستار ان سے ملاقات کر سکیں گے لیکن اس شہر کے ایک سابقہ بادشاہ نے اپنی ملکہ کے انتقال پر دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا کہ ع روئے گل سیر نہ دیدم کہ بہار آخر شد پھول کو جی بھر کر دیکھ نہ سکے کہ بہار ہی ختم ہو گئی۔
لاہوریوں کے لیے صدر صاحب بھی بہار کا ایک جھونکا بن کر آئے اور یہ جا وہ جا۔ سنا ہے سوائے آئی جی پولیس کے کوئی افسر بھی استقبال کے لیے موجود نہ تھا۔ وزراء وغیرہ کا تو کہیں نام و نشان نہ تھا۔ اگر ہمارے وزیراعلیٰ صاحب فرانس نہ ہوتے تو وہ ضرور جاتے لیکن بیماری نے مہلت ہی نہ دی اور دونوں ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھنے سے بچ گئے۔
لاہور میں صدر صاحب کی مصروفیات کا زیادہ علم تو نہ ہو سکا سوائے اس کے کہ جب انھیں خبر ملی کہ کسی مفروضہ تخت لاہور سے تعلق رکھنے والا لیڈر کراچی میں سوختہ جانوں کی تعزیت کر رہا ہے تو کسی نے مشورہ دیا کہ لاہور میں بھی تو ایسا حادثہ ذرا کم درجے کا گزر چکا ہے چنانچہ جناب صدر نے اپنے قیام لاہور میں یہ حادثہ بھی شامل کر لیا اور اسپتال پہنچ گئے جہاں زخمیوں کی عیادت بھی کی اور یقیناً ان کی مالی مدد بھی کی ہو گی کیونکہ سرکاری خزانے سے یہ لوگ کھلے دل سے مدد کیا کرتے ہیں۔
لطیفہ یہ ہے کہ یہ سیاسی فنکار عوام کے پیسے عوام کی جیب سے نکال کر انھیں ان کی مدد بنا دیتے ہیں۔ مزا تو تب تھا کہ کسی ذاتی اکائونٹ کا چیک ان مریضوں کو دیا جاتا، پھر بھی غنیمت ہے کہ جو سرکاری رقم حکمرانوں کی ذات اور دوروں پر خرچ ہوتی ہے، اس میں سے کچھ عوام کو بھی مل گیا۔
صدر صاحب کے دورہ لاہور کی محدود معلومات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ انھوں نے لاہور کے ایک کھلے علاقے میں اپنا محل بنانے کا جو منصوبہ بنایا تھا، وہ مکمل ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس محل کو مناسب نام دینے کا مرحلہ درپیش ہے۔ جناب صدر نے یہ مسئلہ یوں حل کر دیا ہے کہ اس لاہوری محل کا نام بھی بلاول کے نام پر بلاول ہائوس رکھ دیا ہے۔
بلاول ہائوس کی تعمیر کس ماہر تعمیر نے کی، لاہور میں تو نیئر دادا کا جواب نہیں، ممکن ہے صدر صاحب نے اپنا ماہر تعمیر بھی رکھ لیا ہو کیونکہ اطلاعات ہیں کہ ایسے ہائوس کئی مقامات پر تعمیر ہوں گے اور لوگ مغل شاہجہاں کو بھول جائیں گے۔ یہ پتہ نہیں چلا کہ اس نئے بلاول ہائوس میں سیکیورٹی کا خصوصی انتظام کیا ہے۔
کیا کوئی بنکر تعمیر ہوا ہے یا مغل دور کی طرح دیواروں کی تعمیر میں چونے کے ساتھ ساتھ مونگ کی دال بھی ملا دی گئی ہے۔ سنا ہے بلاول ہائوس ،لاہور کی ایک نئی آباد سڑک بیدیاں روڈ پر بنایا گیا ہے جہاں رئوسا نے فارم ہائوس اور مہمان خانے بنا رکھے ہیں۔ اب یہ دوسری عمارتیں تو اس نئی عالی شان اور عالی مرتبت عمارت کے سامنے پانی بھریں گی مگر لاہور کی تعمیرات میں ایک جدید وضع کا عالی شان اضافہ ہو گا جس پر اہل لاہور شہر میں موجود کسی تاریخی عمارت کی طرح فخر کریں گے۔
لاہور میں قیام جناب زرداری کی پرانی خواہش ہے جس کا اظہار وہ کئی بار کر چکے ہیں۔ وہ اپنی سیاست کا مرکز لاہور کو بنانا چاہتے ہیں۔ سندھ سیاست کا مرکز نہیں بن سکتا۔ کراچی ایک عجیب سا شہر ہے، نہ کسی کا مرکز نہ کسی کا گھر بار جسے دیکھیں وہی کراچی سے باہر کا ہے، اب صرف لاہور رہ جاتا ہے جس کے پیچھے سیاست کی ایک تاریخ ہے۔ متحدہ ہندوستانی دور سے کچھ پہلے تک لاہور برصغیر کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔
پاکستان کے بعد اس شہر کا موچی دروازہ سیاسی جلسوں کا مرکز رہا جسے گورنر کھر نے جلسہ گاہ بنایا اور نئی تعمیر کی۔ موچی دروازے کی ایک خوبی یہ تھی کہ حاضرین کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی اس باغ بیرون موچی دروازہ میں موجود رہتی تھی ، جلسے گرمیوں کے موسم میں ہوا کرتے تھے۔ گرمی کے مارے کچھ لوگ اس باغ میں پہلے سے موجود ہوتے اور کچھ جلسے کی رونق دیکھنے گھروں سے باہر نکل آتے۔
مرحوم عبداللہ ملک کہا کرتے تھے کہ زیادہ نہیں تو ایک چوتھائی حاضرین موچی دروازے سے ہی میسر ہو جاتے تھے۔ ملک صاحب اس دروازے کے رہنے والے تھے۔باقی حاضرین جلسہ ،خود جلسہ کرنے والے جمع کر لیتے تھے،یوں ایک بڑا جلسہ بن جاتا تھا۔ امریکیوں نے اس جلسہ گاہ کا حساب لگایا کہ یہاں سترہ اٹھارہ ہزار افراد ہی جمع ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ اخباروں کا مبالغہ ہوتا ہے۔
اگر قریب کی سرکلر روڈ پر ٹریفک رک جاتی تو پھر یہ جلسہ عظیم الشان جلسہ بن جاتا۔ بات جناب زرداری کی لاہور پسندی کی ہو رہی تھی، لاہور میں پہلے ہی ہمارے جیسے غیر لاہوریوں کی بھرمار ہے اور اسی وجہ سے عید بقر عید پر یہ شہر خالی ہو جاتا ہے۔ یہ عجیب شہر ہے کہ سوائے مصور عبدالرحمان چغتائی کے اس شہر کے تمام مشہور زمانہ لوگ باہر کے ہیں۔ اقبال ہوں یا فیض پہلے تو اس شہر کے حکمران بھی باہر کے ہی رہے۔
مغل سکھ اور انگریز سبھی غیر لاہوری۔ اب جمہوریت کے بعد مقامی حکمران منتخب ہونے شروع ہوئے ہیں لیکن کب تک سندھ کے جناب زرداری یہاں اس شہر میں ڈیرے ڈالنے والے ہیں۔ میں لاہوری ہوتا تو ان کا خیر مقدم کرتا ،خوش آمدید کہتا البتہ اس شہر کے مقیم ایک شاعر منیر نیازی کی یہ بات یاد رہے کہ یہ شہر ہر ایک کو اپنے گھر میں قبول نہیں کرتا۔
کئی ایسے ناپسندیدہ لوگ آئے جو اس شہر نے راوی پار بھگا دیے یا واہگہ کے اس پار بہر حال یہ تو ایک شاعر کی بات ہے اور شاعر لوگ ادھر ادھر کی مارتے رہتے ہیں لیکن لاہور کی سیاست ہمیشہ کی طرح کسی نئے خون اور کسی نئی آواز کی طلب گار ہے۔
زرداری صاحب لاہور میں رہیں لاہوری حسب روایت ان کی خدمت کریں گے، یہ الگ بات کہ سیکیورٹی ان کے راستے روک دے۔ یہ زرداری صاحب کو خوش آمدید کہیں گے۔ ہمارے گائوں کے اسکول کی پیشانی پر فارسی کا ایک شعر لکھا ہوتا تھا، اس کا ایک مصرع کہ اے آمدنت باعث آبادی ما۔
ایک مدت کے بعد پورے پاکستان کے صدر جناب والا آصف علی زرداری کو اپنی قلمرو کا ایک بڑا مرکز بلکہ سب سے بڑا مرکز یاد آیا اور گزشتہ جمعہ کو وہ کچھ وقت نکال کر اسلام آباد سے لاہور تشریف لائے۔
اہل لاہور کو ان کی تشریف آوری کا پتہ سڑکوں کی بندش سے چلا اور خوب چلا۔ لاہوریوں کو امید تھی کہ شاہی قافلہ زیادہ نہیں تو رات بھر قیام ضرور کرے گا اور لاہور میں صدر محترم کے پرستار ان سے ملاقات کر سکیں گے لیکن اس شہر کے ایک سابقہ بادشاہ نے اپنی ملکہ کے انتقال پر دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا کہ ع روئے گل سیر نہ دیدم کہ بہار آخر شد پھول کو جی بھر کر دیکھ نہ سکے کہ بہار ہی ختم ہو گئی۔
لاہوریوں کے لیے صدر صاحب بھی بہار کا ایک جھونکا بن کر آئے اور یہ جا وہ جا۔ سنا ہے سوائے آئی جی پولیس کے کوئی افسر بھی استقبال کے لیے موجود نہ تھا۔ وزراء وغیرہ کا تو کہیں نام و نشان نہ تھا۔ اگر ہمارے وزیراعلیٰ صاحب فرانس نہ ہوتے تو وہ ضرور جاتے لیکن بیماری نے مہلت ہی نہ دی اور دونوں ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھنے سے بچ گئے۔
لاہور میں صدر صاحب کی مصروفیات کا زیادہ علم تو نہ ہو سکا سوائے اس کے کہ جب انھیں خبر ملی کہ کسی مفروضہ تخت لاہور سے تعلق رکھنے والا لیڈر کراچی میں سوختہ جانوں کی تعزیت کر رہا ہے تو کسی نے مشورہ دیا کہ لاہور میں بھی تو ایسا حادثہ ذرا کم درجے کا گزر چکا ہے چنانچہ جناب صدر نے اپنے قیام لاہور میں یہ حادثہ بھی شامل کر لیا اور اسپتال پہنچ گئے جہاں زخمیوں کی عیادت بھی کی اور یقیناً ان کی مالی مدد بھی کی ہو گی کیونکہ سرکاری خزانے سے یہ لوگ کھلے دل سے مدد کیا کرتے ہیں۔
لطیفہ یہ ہے کہ یہ سیاسی فنکار عوام کے پیسے عوام کی جیب سے نکال کر انھیں ان کی مدد بنا دیتے ہیں۔ مزا تو تب تھا کہ کسی ذاتی اکائونٹ کا چیک ان مریضوں کو دیا جاتا، پھر بھی غنیمت ہے کہ جو سرکاری رقم حکمرانوں کی ذات اور دوروں پر خرچ ہوتی ہے، اس میں سے کچھ عوام کو بھی مل گیا۔
صدر صاحب کے دورہ لاہور کی محدود معلومات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ انھوں نے لاہور کے ایک کھلے علاقے میں اپنا محل بنانے کا جو منصوبہ بنایا تھا، وہ مکمل ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس محل کو مناسب نام دینے کا مرحلہ درپیش ہے۔ جناب صدر نے یہ مسئلہ یوں حل کر دیا ہے کہ اس لاہوری محل کا نام بھی بلاول کے نام پر بلاول ہائوس رکھ دیا ہے۔
بلاول ہائوس کی تعمیر کس ماہر تعمیر نے کی، لاہور میں تو نیئر دادا کا جواب نہیں، ممکن ہے صدر صاحب نے اپنا ماہر تعمیر بھی رکھ لیا ہو کیونکہ اطلاعات ہیں کہ ایسے ہائوس کئی مقامات پر تعمیر ہوں گے اور لوگ مغل شاہجہاں کو بھول جائیں گے۔ یہ پتہ نہیں چلا کہ اس نئے بلاول ہائوس میں سیکیورٹی کا خصوصی انتظام کیا ہے۔
کیا کوئی بنکر تعمیر ہوا ہے یا مغل دور کی طرح دیواروں کی تعمیر میں چونے کے ساتھ ساتھ مونگ کی دال بھی ملا دی گئی ہے۔ سنا ہے بلاول ہائوس ،لاہور کی ایک نئی آباد سڑک بیدیاں روڈ پر بنایا گیا ہے جہاں رئوسا نے فارم ہائوس اور مہمان خانے بنا رکھے ہیں۔ اب یہ دوسری عمارتیں تو اس نئی عالی شان اور عالی مرتبت عمارت کے سامنے پانی بھریں گی مگر لاہور کی تعمیرات میں ایک جدید وضع کا عالی شان اضافہ ہو گا جس پر اہل لاہور شہر میں موجود کسی تاریخی عمارت کی طرح فخر کریں گے۔
لاہور میں قیام جناب زرداری کی پرانی خواہش ہے جس کا اظہار وہ کئی بار کر چکے ہیں۔ وہ اپنی سیاست کا مرکز لاہور کو بنانا چاہتے ہیں۔ سندھ سیاست کا مرکز نہیں بن سکتا۔ کراچی ایک عجیب سا شہر ہے، نہ کسی کا مرکز نہ کسی کا گھر بار جسے دیکھیں وہی کراچی سے باہر کا ہے، اب صرف لاہور رہ جاتا ہے جس کے پیچھے سیاست کی ایک تاریخ ہے۔ متحدہ ہندوستانی دور سے کچھ پہلے تک لاہور برصغیر کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔
پاکستان کے بعد اس شہر کا موچی دروازہ سیاسی جلسوں کا مرکز رہا جسے گورنر کھر نے جلسہ گاہ بنایا اور نئی تعمیر کی۔ موچی دروازے کی ایک خوبی یہ تھی کہ حاضرین کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی اس باغ بیرون موچی دروازہ میں موجود رہتی تھی ، جلسے گرمیوں کے موسم میں ہوا کرتے تھے۔ گرمی کے مارے کچھ لوگ اس باغ میں پہلے سے موجود ہوتے اور کچھ جلسے کی رونق دیکھنے گھروں سے باہر نکل آتے۔
مرحوم عبداللہ ملک کہا کرتے تھے کہ زیادہ نہیں تو ایک چوتھائی حاضرین موچی دروازے سے ہی میسر ہو جاتے تھے۔ ملک صاحب اس دروازے کے رہنے والے تھے۔باقی حاضرین جلسہ ،خود جلسہ کرنے والے جمع کر لیتے تھے،یوں ایک بڑا جلسہ بن جاتا تھا۔ امریکیوں نے اس جلسہ گاہ کا حساب لگایا کہ یہاں سترہ اٹھارہ ہزار افراد ہی جمع ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ اخباروں کا مبالغہ ہوتا ہے۔
اگر قریب کی سرکلر روڈ پر ٹریفک رک جاتی تو پھر یہ جلسہ عظیم الشان جلسہ بن جاتا۔ بات جناب زرداری کی لاہور پسندی کی ہو رہی تھی، لاہور میں پہلے ہی ہمارے جیسے غیر لاہوریوں کی بھرمار ہے اور اسی وجہ سے عید بقر عید پر یہ شہر خالی ہو جاتا ہے۔ یہ عجیب شہر ہے کہ سوائے مصور عبدالرحمان چغتائی کے اس شہر کے تمام مشہور زمانہ لوگ باہر کے ہیں۔ اقبال ہوں یا فیض پہلے تو اس شہر کے حکمران بھی باہر کے ہی رہے۔
مغل سکھ اور انگریز سبھی غیر لاہوری۔ اب جمہوریت کے بعد مقامی حکمران منتخب ہونے شروع ہوئے ہیں لیکن کب تک سندھ کے جناب زرداری یہاں اس شہر میں ڈیرے ڈالنے والے ہیں۔ میں لاہوری ہوتا تو ان کا خیر مقدم کرتا ،خوش آمدید کہتا البتہ اس شہر کے مقیم ایک شاعر منیر نیازی کی یہ بات یاد رہے کہ یہ شہر ہر ایک کو اپنے گھر میں قبول نہیں کرتا۔
کئی ایسے ناپسندیدہ لوگ آئے جو اس شہر نے راوی پار بھگا دیے یا واہگہ کے اس پار بہر حال یہ تو ایک شاعر کی بات ہے اور شاعر لوگ ادھر ادھر کی مارتے رہتے ہیں لیکن لاہور کی سیاست ہمیشہ کی طرح کسی نئے خون اور کسی نئی آواز کی طلب گار ہے۔
زرداری صاحب لاہور میں رہیں لاہوری حسب روایت ان کی خدمت کریں گے، یہ الگ بات کہ سیکیورٹی ان کے راستے روک دے۔ یہ زرداری صاحب کو خوش آمدید کہیں گے۔ ہمارے گائوں کے اسکول کی پیشانی پر فارسی کا ایک شعر لکھا ہوتا تھا، اس کا ایک مصرع کہ اے آمدنت باعث آبادی ما۔