ٹیوشن سینٹرز فوائد اور نقصانات

ٹیوشن سینٹرز جہاں پڑھائی میں معاونت کرتے ہیں وہیں اضافی مالی بوجھ کا باعث بھی بنتے ہیں

کچھ طلبا روایتی اسکول کے مقابلے میں ٹیوشن مراکز پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

تعلیم انسانی ترقی کا ایک بنیادی پہلو ہے اور اسے بہتر مستقبل کی کلید کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ مختلف رسمی اور غیر رسمی ذرائع سے علم، مہارت، اقدار، عقائد اور عادات کے حصول کا عمل ہے۔ رسمی تدریس (formal schooling) جسے روایتی تعلیم بھی کہا جاتا ہے، سے مراد وہ تعلیم ہے جو اسکول، مدرسہ، کالج اور جامعات وغیرہ میں مخصوص و مرتب نصاب اور نظام و طرزِ عمل میں دی جاتی ہے۔ یہ تعلیم کےلیے ایک منظم انداز ہے جو ایک مخصوص نصاب کی پیروی کرتا ہے اور اسے تربیت یافتہ اساتذہ کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔

دوسری صورت 'ٹیوشن سینٹرز' وہ اضافی تعلیمی سہولیات ہیں جو طلبا کو ان کی رسمی تدریس کی باقاعدہ عمارت و اوقات سے باہر اضافی اسباق اور مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ مراکز طلبا کی ان ضروریات کو پورا کرتے ہیں جنھیں مخصوص مضامین میں اضافی مدد کی ضرورت ہوتی ہے یا جو اپنی تعلیمی کارکردگی کو بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ ٹیوشن سینٹرز انفرادی درس و تدریس سے لے کر اجتماعی درس و تدریس تک بہت سی خدمات پیش کرسکتے ہیں۔

 

ٹیوشن سینٹرز کے فوائد

انفرادی توجہ: ٹیوشن سینٹرز کے اہم فوائد میں سے ایک فائدہ انفرادی توجہ ہے، جو طلبا کو ملتی ہے، جب کہ روایتی کمرۂ جماعت کے برعکس، جہاں ایک استاد کو اپنی توجہ طلبا کی ایک بڑی تعداد میں تقسیم کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیوشن سینٹر میں اساتذہ انفرادی طور پر ہر طالب علم کےلیے ہدایات فراہم کرسکتے ہیں اور ہر طالب علم کی مخصوص ضروریات کے مطابق تدریسی طرزِ عمل اپنا سکتے ہیں۔

مطلوب اوقات: ٹیوشن سینٹرز کے عموماً تمام ہی مراکز شام کے اوقات اور اختتامِ ہفتہ کے دوران کلاسز کا انعقاد کرتے ہیں، جس سے اُن طلبا کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں آسانی ملتی ہے جو روزگار یا کسی اور وجہ سے بہت زیادہ مصروف زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور وہ رسمی درس گاہوں تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے۔ مزید برآں بہت سے مراکز آن لائن کلاسز اور ورچوئل ٹیوشن آفر کرتے ہیں، جس سے طلبا کو اپنی ضرورت کی مدد حاصل کرنا اور بھی آسان ہوجاتا ہے۔

حلقہ بندی: ٹیوشن سینٹرز طلبا کو چھوٹے گروپوں میں کام کرنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ ان طلبا کےلیے فائدہ مند ہوسکتا ہے جو حلقے (گروپ سیٹنگ) میں مباحثے اور آرا کے تبادلۂ خیال سے بہتر طریقے سے سیکھتے ہیں، کیوں کہ ٹیوشن سینٹرز ایسے طلبا کو اپنے ساتھیوں سے تعاون کرنے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ بہت سے ٹیوشن مراکز مضامین کی مخصوص کلاسز بھی پیش کرتے ہیں، جن میں ریاضی اور سائنس کے مضامین قابلِ ذکر ہیں، جو طلبا کو مواد کی گہری سمجھ پیدا کرنے اور اس مضمون میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد کرسکتی ہیں۔

 

ٹیوشن سینٹرز کے نقصانات


حد سے زیادہ انحصار: کچھ طلبا روایتی اسکول کے مقابلے میں ٹیوشن مراکز پر بہت زیادہ انحصار کرلیتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ٹیوشن سینٹرز آزادانہ طور پر مطالعہ اور سیکھنے کےلیے ضروری مہارتیں فراہم نہ کرسکیں۔ ٹیوشن سینٹرز کی تدریس طلبا کی حوصلہ افزائی اور نظم و ضبط کی کمی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

لاگت: اکثر ٹیوشن سینٹر کافی مہنگے ہوتے ہیں جہاں صرف امیر خاندان کے بچے ہی جاسکتے ہیں۔ ایسے ٹیوشن سینٹرز میں متوسط اور غریب خاندان ٹیوشن فیس کی ادائیگی کا اضافی بار برداشت کرنے سے قاصر رہ سکتے ہیں اور یہ ان خاندانوں کےلیے مالی بوجھ پیدا کرسکتا ہے۔

مختلف تدریسی طریقوں کا فقدان: بہت سے ٹیوشن سینٹرز عام طور پر ایک مخصوص تدریسی طریقہ استعمال کرتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ طلبا کو مختلف تدریسی طریقوں سے رُوشناس نہ کرسکیں، جس سے وہ مختلف سیکھنے کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت کو محدود کرتے ہیں۔ نتیجتاً طلبا سیکھنے کے عمل میں اپنی دلچسپی کھو دیتے ہیں۔

وسائل تک محدود رسائی: ٹیوشن سینٹرز کو روایتی اسکول کی طرح وسائل اور ٹیکنالوجی جیسے کہ کتب خانہ، تجربہ گاہیں، کھیل کے میدان، کمپیوٹر لیب اور کئی دیگر ہم نصابی مواقع اور وسائل دستیاب نہیں ہوتے، جو ہدایات کی تاثیر کو محدود کرسکتی ہے۔ نیز ٹیوشن سینٹرز کی عمارتیں تدریسی مقصد کے تحت تعمیر نہیں کی جاتیں بلکہ پہلے سے تعمیر شدہ عمارت جو کہ عموماً مکان یا دکان ہوتی ہے، اُسے ٹیوشن سینٹر بنادیا جاتا ہے جہاں ان مراکز میں مناسب فرنیچر، کھلے ہوا دار کمرے، بیت الخلا، نکاسئ آب، پینے کے صاف پانی اور باغات وغیرہ کا مناسب انتظام بھی نہیں ہوتا، جو کہ سیکھنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

محدود سماجی میل جول: سماجی میل جول سیکھنے کے عمل اور شخصیت کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ٹیوشن مراکز میں اکثر سماجی میل جول کے مواقع کی کمی ہوتی ہے، جو طلبا کو روایتی اسکول اور کمرۂ جماعت میں حاصل ہوتے ہیں، جو ان کی مجموعی ترقی کےلیے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔ ٹیوشن سینٹرز میں ہم نصابی سرگرمیوں میں مل جل کر حصہ لینے کے مواقع بھی طلبا کو میسر نہیں ہوتے۔ اس کے نتیجے میں انھیں سماجی مہارتیں، ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت کرنے اور ہمہ گیر شخصیت کی تکمیل میں دشواری پیش آتی ہے۔

تعلیم کا معیار: اکثر ٹیوشن مراکز اعلیٰ معیار کی تدریسی ہدایات فراہم نہیں کرپاتے جس کی وجہ تربیت یافتہ اساتذہ کا نہ ہونا ہے۔ تربیت یافتہ اساتذہ کا نہ ہونا غیر مؤثر ہدایات طالب علم کےلیے ترقی کی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ نیز ٹیوشن سینٹر میں اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام بھی نہیں ہوتا۔

مضامین کی محدود دستیابی: اسکولوں میں نصاب کے مطابق مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ان مضامین میں طلبا اپنی دلچسپی کے لحاظ سے حصہ لیتے ہوئے اپنے مستقبل کی راہیں متعین کرتے ہیں، جب کہ ہوسکتا ہے کچھ ٹیوشن مراکز تمام مضامین میں تدریسی خدمات پیش نہ کرسکیں، جو ان طلبا کےلیے رکاوٹ ہوسکتی ہے جنھیں مخصوص شعبوں میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عام طور پر اساتذہ کی تنحواہیں بہت کم مقرر کی جاتی ہیں اور اساتذہ اپنی گھریلو ضروریات کی تکمیل اور اضافی آمدنی کےلیے ٹیوشن پڑھانے کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کا ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ کچھ اساتذہ اپنے رسمی اسکول میں دلچسپی سے نہیں بلکہ صرف سرسری طور پر پڑھاتے ہیں اور اپنے طلبا کو اپنے ٹیوشن سینٹر کی طرف راغب کرتے ہیں۔ کہیں کہیں مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ جب والدین اساتذہ سے کسی مضمون میں اپنے بچے کی خراب کارکردگی کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں تو اکثر اساتذہ کا یہ جواب ہوتا ہے کہ آپ اس کو ٹیوشن دلوائیں۔ ایسا غیر منطقی جواب دے کر وہ اپنی کمزوری عیاں کرنے کے ساتھ شعبۂ تدریس میں اپنے وجود کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔

یاد رہے! یہ ممکنہ منفی پہلو ہیں اور ہوسکتا ہے کہ تمام ٹیوشن مراکز پر لاگو نہ ہوں۔ طالبِ علم کا اندراج کرنے سے پہلے تحقیق کرنا اور ٹیوشن سنٹر پر غور کرنا ضروری ہے۔ ٹیوشن سینٹرز ایسے طلبا کےلیے قیمتی وسیلہ ہوسکتے ہیں جنھیں اضافی مدد اور انفرادی ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لچک، انفرادی توجہ، اور چھوٹے گروپوں میں کام کرنے کا موقع پیش کرتے ہیں۔ تاہم، ٹیوشن سینٹر میں داخلہ لینے کا فیصلہ کرنے سے پہلے طالب علم کی مخصوص ضروریات اور مالی استطاعت پر غور کرنا ضروری ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story