ترکیہ اور شام میں قیامت خیز زلزلہ

زلزلے کے وقت لوگ گھروں میں سو رہے تھے، متعدد شہروں میں ہزاروں عمارتیں زمین بوس ہوگئیں

زلزلے کے وقت لوگ گھروں میں سو رہے تھے، متعدد شہروں میں ہزاروں عمارتیں زمین بوس ہوگئیں فوٹو:ٹوئٹر

ترکیہ کے جنوب اور شمالی شام میں 7.8 شدت کے زلزلے نے تباہی مچا دی ، جس کے نتیجے میں 3000 سے زائد افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔

زلزلے کے وقت لوگ گھروں میں سو رہے تھے، متعدد شہروں میں ہزاروں عمارتیں زمین بوس ہوگئیں جس کی وجہ سے ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ہے، ترکیہ میں ایمرجنسی نافذ کر کے غازی انتپ اور حاطے ایئر پورٹ پر سول پروازیں معطل کر دی گئیں۔

قدرتی آفات میں زلزلہ ایسی آفت ہے ، جو کرہ ارض پر جہاں بھی آتا ہے ، وہاں تباہی و بربادی لاتا ہے۔ دُنیا میں ابھی تک کوئی ایسا نظام ایجاد نہیں ہوا ، جس سے زلزلہ کا پیشگی پتہ چل سکے۔

سیلاب ہو یا زلزلہ ترکی نے ہر کڑے وقت میں پاکستان کی مدد کی، پاکستانی عوام کے دل ترک بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے فوری طور پر ترکی جانے کا فیصلہ کیا ہے،کیونکہ ترکی کے عوام مشکل میں ہیں۔

پاکستان اور ترکی کے مابین گہرے رشتے استوار ہیں اور دونوں ملک دوستی کے مضبوط بندھن میں بندھے ہوئے ہیں، ترک پاکستان کو اور پاکستانی ترکی کو اپنا دوسرا گھر تسلیم کرتے ہیں خوشی کا موقع ہو یا کوئی حادثاتی واقعہ ہماری دوستی ہر موقع پر پیش پیش رہتی ہے اور دونوں قومیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مدد کرنے کو تیار رہتی ہیں۔

بدقسمتی سے جنوبی ترکی اور خاص طور پر شام میں ایسی عمارات کی تعداد کم ہے جو زلزلے کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔

کئی ناقص عمارتوں کے گرنے سے کئی شہروں میں انسانی جانیں ضایع ہوچکیں۔ یہ سب سے زیادہ خطرناک اور حادثوں کا باعث بوسیدہ اور اپنی عمر پوری کرچکی یہ عمارتیں ہیں ، مزید برآں ہزاروں کی تعداد میں کئی اور خطرناک و بوسیدہ عمارتیں زمین بوس ہونے کو تیار ہیں۔

کئی ایسی عمارتیں جو محض پینٹ یا فرضی مرمت وغیرہ کے ساتھ ان کا اصل چہرہ پوشیدہ ہے لیکن وہ قابل استعمال کسی صورت نہیں ، عمارتوں کے گرنے اور منہدم ہونے کی بہت وجوہات ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم مستحکم ڈھانچے کے بغیر بنایا جانا ہے۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس بلڈنگ میں کتنا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت موجود ہے یا پھر عمارت کتنے عرصہ تک قابل ِ استعمال رہ سکتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ دولت کی بچت کی خاطر ماہرین کی رائے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، بے ڈھنگی چار پانچ منزلہ عمارتیں ہزاروں انسانی جانوں کو نگل چکیں یا وہ مفلوج ہو کر ملک و معاشرے پر بوجھ بن چکے ہیں ، جب کہ دیگر اسباب میں شکستہ و بد حال عمارتوں کی بر وقت مرمت پر بھی کوئی توجہ نہ دیا جانا شامل ہے۔

دوسری طرف ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس حوالے سے قوانین موجود ہے لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ بہت حساس ہے تاکہ وقتی بچت کی خاطر انسانی جانیں موت کے منہ میں نہ دھکیلی جائیں، قانون کے مطابق عمارتیں بنائی جائیں تو بڑی سے بڑی آزمائش کو بھی ٹالا جانا ممکن ہے۔

قوموں کی تاریخ میں قدرتی آفات اور حادثات رونما ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے اور ہر قوم اپنے وسائل اور منصوبہ بندی کے مطابق ان آفات اور حادثات سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ حادثات سے ہونے والے نقصانات کی روک تھام کی جاسکے اور نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔

قدرتی آفات اور حادثات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے والی اقوام میں جاپان کا شمارصف اول کی اقوام میں ہوتاہے۔ جاپان نے آفات اور حاثادت سے نمٹنے کے لیے جس طرح جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے اور اپنی منصوبہ بندی کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے آپ کو منوایا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔

جاپان میں زلزلے ، سیلاب ، سونامی وغیرہ آنا معمول کی بات ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ڈیزاسٹر جاپان میں کلچر کی طرح ہے۔ شاید اسی لیے جاپانیوں نے ہمیشہ منصوبہ بندی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے مسائل پر قابو پانے کے لیے انتھک کوششیں جاری رکھی ہیں اور ہر وقت اپنے آپ کو آنے والی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار رکھا ہوا ہے۔

قدرتی آفات کی روک تھام کے لیے ٹی وی اور محکمہ موسمیات جاپان کا کردار بنیادی اور تاریخی ہے۔


زلزلے ، سیلاب اور سونامی کے بارے میں پیشگی آگاہی اور نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی اور امدادی کارروائیوں میں دونوں سرکاری ادارے اور جاپان میٹو رو لوجیکل ایجنسی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اپنے عوام کو جانی و مالی نقصانات سے نمٹنے کے لیے بھرپور انداز میں تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جس سے تباہی اور نقصانات میں کمی لائی جاتی ہے۔

درست معلومات صرف قومی نشریاتی ادارہ ہی دیتا ہے ، سب سے پہلے ایمرجنسی Responseکے ذریعے حادثات سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے لہٰذا ابتدائی وارننگ کے ذریعے لوگوں کو جان بچانے کے لیے محفوظ مقامات کی طرف بلایا جاتا ہے۔

ایمرجنسی نیوز دیکھ کر لوگ حادثے کی جگہ سے محفوظ مقام کا رخ کر لیتے ہیں اور پھر ریسکیو اینڈ سپورٹ آپریشن ہوتا ہے۔ امداد کے لیے ریسکیو آپریشن کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی مدد کے لیے NHK ٹی وی نشریات کا آغاز کرتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں حادثات کے بعد ریکوری اور ری کنسٹرکشن کے لیے امدادی کارروائیاں شامل ہیں۔

کمیونٹی اور زندہ بچ جانے والوں کی ریکوری، محفوظ مقامات کی طرف منتقلی، طبی امداد کی فراہمی وغیرہ شامل ہیں۔ حادثات سے تباہی کے بعد دوبارہ سے عمارات اور گھروں کے پہلے سے بہتر انداز میں تعمیراتی اور بحالی کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں اور '' ٹوبلڈ بیک بیٹر'' یعنی از سر نو بحالی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

2004میں بحر ہند میں زیر آب زلزلے کے باعث '' سو نامی'' اپنی تباہ کاریوں کی بنا پر تاریخ کی ایک ہولناک قدرتی آفت سمجھا جاتا ہے ، جب بلا مبالغہ ہزاروں افراد آناً فاناً موت کے منہ میں چلے گئے، آج جاپان دنیا بھر میں زلزلہ پروف عمارات کی تعمیر میں مستند مانا جاتا ہے۔

جاپانی ماہرین نہ صرف اپنے ملک کی عمارات کو زلزلے سے محفوظ رکھنے کے قابل ہوچکے ہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی تکنیکی معاونت فراہم کررہے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق جاپان میں قدرتی آفات کے موقعے پر مدد فراہم کرنے کے لیے خودکار روبوٹ بھی تیار کیے جارہے ہیں۔

جب سے ہماری زمین خداوند تعالیٰ نے بنائی ہے تب سے ہی قدرتی تبدیلیوں کا ایک سلسلہ جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ کبھی زمین کے متعدد خشک حصے زیر آب آجاتے ہیں تو کبھی نئے جزیرے سطحِ سمندر کے اوپر ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیلاب اور زلزلے جیسی قدرتی آفات کے متاثرین کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا قدرتی آفات کے بعد نقصانات کے ازالے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں یا پھر قدرتی آفات سے قبل ہی حفاظتی تدابیر اختیار کر لی جائیں؟ ہمیں اس حوالے سے حقیقت پسندانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ انسان قدرت کے کاموں میں مداخلت کے قابل تو نہیں لیکن قدرتی آفات کے نتیجے میں نقصانات کی شدت کم ضرور کرسکتا ہے۔

دوسری طرف ہمیں اپنے سماجی رویوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ ہم قدرتی آفات کے متاثرین کو ان کے گناہوں کے نتیجے میں عذاب قرار دینے کے بجائے عملی امداد کی فراہمی یقینی بنائیں۔

درحقیقت قدرت کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی کا ہم خود کیسے سامنا کرتے ہیں اور انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پر دوسرے متاثرین کی کیسے مدد کرتے ہیں۔

ہمیں قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے لیے عالمی برادری کے اشتراک سے مختصر المدتی اور طویل المدتی دونوں طرح کی حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے ، اسی طرح قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہ کاری کے بعد چندے اور امداد کی اپیل کے بجائے ہمیں پانی کے عظیم ذخیرے کو محفوظ کرکے قومی ترقی کے لیے استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

ہمیں ان قدرتی آفات میں پوشیدہ قدرت کے اس پیغام کو سمجھنا چاہیے کہ زلزلے اور سیلاب سے مکمل چھٹکارہ حاصل کرنا کسی ملک کے بس کی بات نہیں لیکن انسانی تاریخ میں سرخرو وہی ممالک قرار پاتے ہیں جو حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے درپیش مشکلات سے سبق حاصل کرتے ہیں اور مستقبل میں اپنے عوام کے بچاؤ کے لیے لائحہ عمل ٹھوس بنیادوں پر استوار کرتے ہیں۔

ان خطرات کے پیش نظر سائنس دانوں کی ایک کمیٹی اس بات پر متفق ہو گئی ہے کہ ہمیں اس بنیادی ضرورت کی حفاظت اور بقا کے لیے ''کرہ ارض پر بدترین صورتِ حال'' کو ذہن میں رکھتے ہوئے جس میں کوئی بہت بڑی قدرتی آفت کی وجہ سے یا ایٹمی جنگ کی وجہ سے کسی ملک یا خطے کی زمینی پیداواری صلاحیت کا یکسر ختم ہوجانا ، کوئی خاص بیج کی نسل کا دُنیا سے یکسر ختم ہوجانا ، جیسے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی انتہائی جدید اور محفوظ انتظام کرنا ہوگا جس پر عالمی سطح پر موثر فیصلے ضروری ہیں تا کہ بیک وقت عالم انسانیت کی مجموعی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔

آنے والی نسلوں کو گزرے ہوئے حادثات اور تباہی کے بارے میں ضرور علم ہونا چاہیے تاکہ وہ ہمیشہ تیار رہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں کیونکہ اگر ماضی میں ہونے والے نقصانات کا علم نہ ہوتو انسان مشکل کے لیے بہتر منصوبہ بندی نہیں کرسکتا۔
Load Next Story