Character Competence Courage
اپنا خزانہ خالی ہے اس لیے بظاہر حالات بے حد تشویشناک اور خطرناک نظر آتے ہیں
اب بھی کسی بڑی افتاد سے بچا جاسکتا ہے، مگر بچنے کا ارادہ اور عزم بھی تو ہو!۔ جدید دور میں ملکوں کی سالمیت اور تحفظ کا انحصار مالی وسائل اور خزانے پر ہوتا ہے۔
اپنا خزانہ خالی ہے اس لیے بظاہر حالات بے حد تشویشناک اور خطرناک نظر آتے ہیں اور وطنِ عزیز کی خودمختاری اور آزادی تک خطرے میں نظر آتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تباہ حال ملک پاؤں پر کھڑے ہوجاتے ہیں، ملبوں تلے دبی ہوئی قومیں اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی قیادت میں ایسے اٹھتی ہیں کہ جرمنی کی طرح پورے یورپ کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔ مگر اس کے لیے قیادت اور عمل کی ضرورت ہے۔
آسمانوں پر نظر آتی ہوئی بلائیں صرف دعاؤں سے نہیں ٹلتیں۔ دعائیں قبول کرنے والے خالقِ کائنات نے عمل کا حکم دیا ہے۔
بے عمل فرد ہو یا قوم اس کی تقدیر میں ذلت اور زوال کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بربادی سے آزادی اور خوشحالی کا سفر طے کرنے والی قومیں اپنے اندر اتحاد اور ایثار کا جذبہ پیدا کرتی ہیں، اپنے طرزِ زندگی کو تبدیل کرتی ہیں، اپنے اوپر پابندیاں عائد کرتی۔ عیش وعشرت سے منہ موڑ کر سادگی اختیار کرتی ہیں اور اپنے آپ کو اتحاد اور ایثار سے مسلح کرتی ہیں اور پھر وہ حالات کارخ موڑ دیتی ہیں۔
مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ قوم میں اپنے زوال کا احساس اور ادراک تو ہو۔ یہاں تو کارواں میں احساسِ زیاں ہی نظر نہیں آتا۔ احساسِ زیاں ہوتا تو بربادی کے ذمے داروں کا تعین کرکے انھیں نشانِ عبرت بنایا جاتا۔
اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ آج اس ملک کے کروڑوں باشندوں کے لیے ایک وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہے، مگر حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف معیشت ہچکیاں لے رہی ہے مگر پنجاب کا(سابق) وزیرِاعلیٰ پرویزالٰہی اربوں روپوں کی لگژری کاریں درآمد کررہا تھا۔
پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کا خطاب دینے والے عمران خان کی آنکھوں کے سامنے پانچ مہینے یہ سب کچھ ہوتا رہا مگر اس کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ عمران کے لیے یہ سب کچھ قابلِ قبول تھا، نہ اُس نے روکا، نہ میڈیا نے شور مچایا۔ وفاقی حکومت کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف عوام بجلی کے بل دیکھ کر خودکُشیاں کررہے ہیں دوسری طرف مشیروں کی بھرتی جاری ہے اور افسروں کے لیے ایگزیکٹوالاؤنس ڈیڑھ سو فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔
حکمرانوں کی یہ مجرمانہ بے حسی پسے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک رگڑرہی ہے اور ان کے دکھوں میں اضافہ کررہی ہے۔ سیاسی کھیل کو قواعدوضوابط کے تحت لانے اور انتخاب کو منصفانہ بنانے کے لیے طے کیا گیا کہ انتخاب کرانے کے لیے ایک غیرجانبدار سیٹ اپ مقرر کیا جائے گا جو فیلڈ میں غیر جانبدار اور نیک نام افسر مقرر کرکے منصفانہ طریقے سے الیکشن کرائے گا مگر پنجاب کا ''َغیرجانبدار'' سیٹ اپ غیر جانبداری کا مذاق ہے۔
غیر جانبدارسیٹ اپ نے گریڈ 19 کے ایک پولیس افسر کو گریڈ 21کی پوسٹ پر تعینات کردیا ہے اس کے خلاف کرپشن کے کیس تھے اوروہ بیرون ملک چلا گیا۔ پولیس سروس میں یہی مشہور تھا کہ وہ نوکری چھوڑ چکا ہے اور بیرون ملک میں موجیں مار رہا ہے۔
چار سال بعد جب اس کے سرپرست افسروں نے اہم عہدے سنبھال لیے ہیں تو وہ فاتحانہ انداز میں واپس آیا، نوکری پر بحال ہوا اور اب پنجاب کی ایک ڈویژن میں پولیس کا سر براہ ہے۔ حکمرانوں کی یہی حرکتیں عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل رہی ہیں۔ اور وہ اربابِ بست وکشاد کی مجرمانہ بے نیازیوں کو دیکھ کر ریاست سے لاتعلق ہورہے ہیں اور جنھیں موقع ملتا ہے وہ ملک سے باہر جارہے ہیں۔
عوام اس چیز کو بھی بڑے دکھی دل کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ اقتدار سے محروم ہونے والا ایک مقبول لیڈر اس قدر desperate ہوگیا ہے کہ وہ علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ جس پاکستان کا حکمران میں نہیں اس پر ایٹم بم چلادینا چاہیے اور وہ قوم کو حوصلہ دینے کے بجائے ہر روز ملک کے ڈیفالٹ کرجانے کی وعیدیں سناتا اور بیرونی سرمایہ کاروں کو ڈراتا ہے۔
کیا کسی نے کسی یورپی ملک میں اپوزیشن کے کسی سیاستدان کے منہ سے ایسی باتیں سنی ہیں؟ یوں لگتا ہے کہ سیاسی اسٹیج کے کرداروں کے لیے پہلی اور آخری ترجیح اپنی ذات، اپنا گھرانہ اور اپنا مفاد ہے۔ وہ کرسی اور اقتدار کے لیے باہم اس طرح دست وگریباں ہیں کہ نہ انھیں ملک کی سنگین حالت کا خیال ہے اور نہ انھیں عوام کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔
جذباتی سپورٹروں اور اندھے پیروکاروں کی بات اور ہے مگر عام آدمی میں ان حالات اور اس نظام سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ حکومت اور حکمران بدلنے سے صرف دسترخوانی قبیلہ بدل جاتا ہے، ملک کے وسائل سے مستفیض ہونے والے چند سو نئے چہرے سامنے آجاتے ہیں مگر کروڑوں عوام کے دکھ ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔
ان کے مسائل اور پریشانیوں میں کوئی کمی نہیں آتی، ان کے دامن میں خوشی اور خوشحالی کا کوئی پھول نہیں کھلتا، عوام اگر مزدور ہے تو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مشقت کا معقول معاوضہ ملنا چاہیے جو نہیں ملتا۔ عوام اگر کسان ہے تو اس کی تذلیل کر کے اس کا غلہ اونے پونے داموں اٹھالیا جاتا ہے۔
وہ جب زیادتی کا نشانہ بننے پر تھانے اور کچہری جاتا ہے تو اسے مزید بے عزت کیا جاتا ہے۔ اور وہ انصاف کی آرزو لیے برس ہا برس تک ایڑیاں رگڑتے رگڑتے قبر میں اتر جاتا ہے۔ کیا اقتدار کے خواہش مندوں کو عوام کے ان دکھو ں کا ادراک ہے؟ کیا گلے سڑے فرسودہ عدالتی نظام کو تبدیل کرنا کسی ایک بھی لیڈر کی ترجیحات میں ہے؟ ہر گز نہیں۔
سول سرونٹ میں داخلے کا امتحان صرف انگریزی لکھنے کی استعداد اور یادداشت کا ٹیسٹ بن کر رہ گیا ہے، خیر سے سول سروس کے تربیتی ادارے کا سربراہ ایک ٹک ٹاکر ہے۔
زیرِ تربیت افسران اکیڈمیوں میں ہی لوٹ مار کے پروگرام بنانا شروع کردیتے ہیں، کیا سیاسی قیادت نے اس نظام میں تبدیلی یا ا صلاح کرنے اور سرکاری دفتروں میں ایمانداری اور خوش اخلاقی کا کلچر پروان چڑھانے کا کبھی سوچا بھی ہے؟ اعلیٰ عدلیہ میں بعض تقرریاں سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی کا منصفافہ طریقۂ کار کیا ہونا چاہیے کیا اس پر کسی سیاسی پارٹی نے کبھی سوچا ہے اور کیا کسی نے کوئی متبادل اور بہتر طریقۂ کار تجویز کیا ہے؟ ہرگز نہیں۔
ملک کے لاکھوں بچے جوعملی زندگی میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالتے اور فیصلہ ساز اداروں میں اہم ترین عہدے سنبھالتے ہیں، انھیں تعلیمی اداروں میں کیا پڑھایا جاتا ہے، اس کا فیصلہ ریاستِ پاکستان نہیں کرتی یہ باہر سے ہوتا ہے، ان کے نصاب کی تیاری میں پاکستان کے ماہرینِ تعلیم کا کوئی کردار نہیں۔ درجنوں پرائیویٹ چینلوں کے ذریعے ملک کی نئی نسل کے ذہنوں کو کس طرح متاثر کرنا ہے، اس کا فیصلہ بھی ملٹی نیشنل اور اشتہاری کمپنیاں کرتی ہیں۔
کیا ترکی اور ایران میں ایسا ہوسکتا ہے؟ کیا کوئی آزاد، خودمختار اور غیرت مند قوم ایسا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟ غریب افریقی ملک میں بھی ایسا ممکن ہے کہ وہاں قومی زبان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جائے اور سرکاری اور عدالتی زبان کوئی غیر ملکی زبان ہو؟ ہر گز نہیں۔
کیا کسی لیڈر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ سنگین ترین حالات میں وزیروں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کو فری پٹرول دینے کا سلسلہ ختم کردیا جائے گا جس سے پونے دو ارب ڈالر کی بچت ہوگی، کیا یہ پوری قوم کے لیے باعث شرم نہیں کہ ہم ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے گندم، چینی اور سبزیاں باہر سے درآمد کرتے ہیں۔
کیا زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانا جرم قرار نہیں دینا چاہیے؟ کیا کسی سیاسی لیڈر نے ایسا اعلان کیا ہے؟ ہمارے اوورسیز پاکستانی آپس میں برسرپیکار ہوکر جگ ہنسائی کا موجب بنتے ہیں کیا یہ قانون نہیں بننا چاہیے کہ ملک سے باہر پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کا کوئی دفتر یا عہدیدار نہیں ہوگا۔ باہر رہنے والے پاکستانی اس ملک کی سیاست میں حصہ لیں، وہاں متحرک ہوکر اہم مقام حاصل کریں جس طرح کہ بھارتی باشندے کر رہے ہیں۔
کیا اس اہم اِشوپر سیاسی لیڈروں نے اتفاق رائے پیدا کیا ہے؟ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں بازار اور مارکیٹیں شام پانچ بجے بند ہوجاتی ہیں ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہ ہیں کرنے کی باتیں، ان بنیادی اِشوز پر سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ ہوجائے تو عوام کو امید کی روشنی نظر آجائے گی اور وہ مشکل حالات کا مقابلہ بھی کرلیں گے اور قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے۔
آگے بڑھنے کا راستہ (Way out) ایک ہی ہے، بربادی کے ذمے داروں کو عبرت کا نشان بنایا جائے اور آیندہ تہیہ کرلیا جائے کہ قیادت صرف اس کی قبول کی جائے گی جس کے دامن پر مالی یا اخلاقی کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہوگا اور جو باصلاحیت اور جرات مند ہوگا،یعنی قیادت کے لیے بنیادی خوبیاں ظاہری حسن اور دولت نہیں بلکہ Character، Competence اور Courage ہوںگی۔
اپنا خزانہ خالی ہے اس لیے بظاہر حالات بے حد تشویشناک اور خطرناک نظر آتے ہیں اور وطنِ عزیز کی خودمختاری اور آزادی تک خطرے میں نظر آتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تباہ حال ملک پاؤں پر کھڑے ہوجاتے ہیں، ملبوں تلے دبی ہوئی قومیں اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی قیادت میں ایسے اٹھتی ہیں کہ جرمنی کی طرح پورے یورپ کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔ مگر اس کے لیے قیادت اور عمل کی ضرورت ہے۔
آسمانوں پر نظر آتی ہوئی بلائیں صرف دعاؤں سے نہیں ٹلتیں۔ دعائیں قبول کرنے والے خالقِ کائنات نے عمل کا حکم دیا ہے۔
بے عمل فرد ہو یا قوم اس کی تقدیر میں ذلت اور زوال کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بربادی سے آزادی اور خوشحالی کا سفر طے کرنے والی قومیں اپنے اندر اتحاد اور ایثار کا جذبہ پیدا کرتی ہیں، اپنے طرزِ زندگی کو تبدیل کرتی ہیں، اپنے اوپر پابندیاں عائد کرتی۔ عیش وعشرت سے منہ موڑ کر سادگی اختیار کرتی ہیں اور اپنے آپ کو اتحاد اور ایثار سے مسلح کرتی ہیں اور پھر وہ حالات کارخ موڑ دیتی ہیں۔
مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ قوم میں اپنے زوال کا احساس اور ادراک تو ہو۔ یہاں تو کارواں میں احساسِ زیاں ہی نظر نہیں آتا۔ احساسِ زیاں ہوتا تو بربادی کے ذمے داروں کا تعین کرکے انھیں نشانِ عبرت بنایا جاتا۔
اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ آج اس ملک کے کروڑوں باشندوں کے لیے ایک وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہے، مگر حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف معیشت ہچکیاں لے رہی ہے مگر پنجاب کا(سابق) وزیرِاعلیٰ پرویزالٰہی اربوں روپوں کی لگژری کاریں درآمد کررہا تھا۔
پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کا خطاب دینے والے عمران خان کی آنکھوں کے سامنے پانچ مہینے یہ سب کچھ ہوتا رہا مگر اس کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ عمران کے لیے یہ سب کچھ قابلِ قبول تھا، نہ اُس نے روکا، نہ میڈیا نے شور مچایا۔ وفاقی حکومت کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف عوام بجلی کے بل دیکھ کر خودکُشیاں کررہے ہیں دوسری طرف مشیروں کی بھرتی جاری ہے اور افسروں کے لیے ایگزیکٹوالاؤنس ڈیڑھ سو فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔
حکمرانوں کی یہ مجرمانہ بے حسی پسے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک رگڑرہی ہے اور ان کے دکھوں میں اضافہ کررہی ہے۔ سیاسی کھیل کو قواعدوضوابط کے تحت لانے اور انتخاب کو منصفانہ بنانے کے لیے طے کیا گیا کہ انتخاب کرانے کے لیے ایک غیرجانبدار سیٹ اپ مقرر کیا جائے گا جو فیلڈ میں غیر جانبدار اور نیک نام افسر مقرر کرکے منصفانہ طریقے سے الیکشن کرائے گا مگر پنجاب کا ''َغیرجانبدار'' سیٹ اپ غیر جانبداری کا مذاق ہے۔
غیر جانبدارسیٹ اپ نے گریڈ 19 کے ایک پولیس افسر کو گریڈ 21کی پوسٹ پر تعینات کردیا ہے اس کے خلاف کرپشن کے کیس تھے اوروہ بیرون ملک چلا گیا۔ پولیس سروس میں یہی مشہور تھا کہ وہ نوکری چھوڑ چکا ہے اور بیرون ملک میں موجیں مار رہا ہے۔
چار سال بعد جب اس کے سرپرست افسروں نے اہم عہدے سنبھال لیے ہیں تو وہ فاتحانہ انداز میں واپس آیا، نوکری پر بحال ہوا اور اب پنجاب کی ایک ڈویژن میں پولیس کا سر براہ ہے۔ حکمرانوں کی یہی حرکتیں عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل رہی ہیں۔ اور وہ اربابِ بست وکشاد کی مجرمانہ بے نیازیوں کو دیکھ کر ریاست سے لاتعلق ہورہے ہیں اور جنھیں موقع ملتا ہے وہ ملک سے باہر جارہے ہیں۔
عوام اس چیز کو بھی بڑے دکھی دل کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ اقتدار سے محروم ہونے والا ایک مقبول لیڈر اس قدر desperate ہوگیا ہے کہ وہ علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ جس پاکستان کا حکمران میں نہیں اس پر ایٹم بم چلادینا چاہیے اور وہ قوم کو حوصلہ دینے کے بجائے ہر روز ملک کے ڈیفالٹ کرجانے کی وعیدیں سناتا اور بیرونی سرمایہ کاروں کو ڈراتا ہے۔
کیا کسی نے کسی یورپی ملک میں اپوزیشن کے کسی سیاستدان کے منہ سے ایسی باتیں سنی ہیں؟ یوں لگتا ہے کہ سیاسی اسٹیج کے کرداروں کے لیے پہلی اور آخری ترجیح اپنی ذات، اپنا گھرانہ اور اپنا مفاد ہے۔ وہ کرسی اور اقتدار کے لیے باہم اس طرح دست وگریباں ہیں کہ نہ انھیں ملک کی سنگین حالت کا خیال ہے اور نہ انھیں عوام کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔
جذباتی سپورٹروں اور اندھے پیروکاروں کی بات اور ہے مگر عام آدمی میں ان حالات اور اس نظام سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ حکومت اور حکمران بدلنے سے صرف دسترخوانی قبیلہ بدل جاتا ہے، ملک کے وسائل سے مستفیض ہونے والے چند سو نئے چہرے سامنے آجاتے ہیں مگر کروڑوں عوام کے دکھ ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔
ان کے مسائل اور پریشانیوں میں کوئی کمی نہیں آتی، ان کے دامن میں خوشی اور خوشحالی کا کوئی پھول نہیں کھلتا، عوام اگر مزدور ہے تو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مشقت کا معقول معاوضہ ملنا چاہیے جو نہیں ملتا۔ عوام اگر کسان ہے تو اس کی تذلیل کر کے اس کا غلہ اونے پونے داموں اٹھالیا جاتا ہے۔
وہ جب زیادتی کا نشانہ بننے پر تھانے اور کچہری جاتا ہے تو اسے مزید بے عزت کیا جاتا ہے۔ اور وہ انصاف کی آرزو لیے برس ہا برس تک ایڑیاں رگڑتے رگڑتے قبر میں اتر جاتا ہے۔ کیا اقتدار کے خواہش مندوں کو عوام کے ان دکھو ں کا ادراک ہے؟ کیا گلے سڑے فرسودہ عدالتی نظام کو تبدیل کرنا کسی ایک بھی لیڈر کی ترجیحات میں ہے؟ ہر گز نہیں۔
سول سرونٹ میں داخلے کا امتحان صرف انگریزی لکھنے کی استعداد اور یادداشت کا ٹیسٹ بن کر رہ گیا ہے، خیر سے سول سروس کے تربیتی ادارے کا سربراہ ایک ٹک ٹاکر ہے۔
زیرِ تربیت افسران اکیڈمیوں میں ہی لوٹ مار کے پروگرام بنانا شروع کردیتے ہیں، کیا سیاسی قیادت نے اس نظام میں تبدیلی یا ا صلاح کرنے اور سرکاری دفتروں میں ایمانداری اور خوش اخلاقی کا کلچر پروان چڑھانے کا کبھی سوچا بھی ہے؟ اعلیٰ عدلیہ میں بعض تقرریاں سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی کا منصفافہ طریقۂ کار کیا ہونا چاہیے کیا اس پر کسی سیاسی پارٹی نے کبھی سوچا ہے اور کیا کسی نے کوئی متبادل اور بہتر طریقۂ کار تجویز کیا ہے؟ ہرگز نہیں۔
ملک کے لاکھوں بچے جوعملی زندگی میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالتے اور فیصلہ ساز اداروں میں اہم ترین عہدے سنبھالتے ہیں، انھیں تعلیمی اداروں میں کیا پڑھایا جاتا ہے، اس کا فیصلہ ریاستِ پاکستان نہیں کرتی یہ باہر سے ہوتا ہے، ان کے نصاب کی تیاری میں پاکستان کے ماہرینِ تعلیم کا کوئی کردار نہیں۔ درجنوں پرائیویٹ چینلوں کے ذریعے ملک کی نئی نسل کے ذہنوں کو کس طرح متاثر کرنا ہے، اس کا فیصلہ بھی ملٹی نیشنل اور اشتہاری کمپنیاں کرتی ہیں۔
کیا ترکی اور ایران میں ایسا ہوسکتا ہے؟ کیا کوئی آزاد، خودمختار اور غیرت مند قوم ایسا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟ غریب افریقی ملک میں بھی ایسا ممکن ہے کہ وہاں قومی زبان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جائے اور سرکاری اور عدالتی زبان کوئی غیر ملکی زبان ہو؟ ہر گز نہیں۔
کیا کسی لیڈر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ سنگین ترین حالات میں وزیروں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کو فری پٹرول دینے کا سلسلہ ختم کردیا جائے گا جس سے پونے دو ارب ڈالر کی بچت ہوگی، کیا یہ پوری قوم کے لیے باعث شرم نہیں کہ ہم ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے گندم، چینی اور سبزیاں باہر سے درآمد کرتے ہیں۔
کیا زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانا جرم قرار نہیں دینا چاہیے؟ کیا کسی سیاسی لیڈر نے ایسا اعلان کیا ہے؟ ہمارے اوورسیز پاکستانی آپس میں برسرپیکار ہوکر جگ ہنسائی کا موجب بنتے ہیں کیا یہ قانون نہیں بننا چاہیے کہ ملک سے باہر پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کا کوئی دفتر یا عہدیدار نہیں ہوگا۔ باہر رہنے والے پاکستانی اس ملک کی سیاست میں حصہ لیں، وہاں متحرک ہوکر اہم مقام حاصل کریں جس طرح کہ بھارتی باشندے کر رہے ہیں۔
کیا اس اہم اِشوپر سیاسی لیڈروں نے اتفاق رائے پیدا کیا ہے؟ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں بازار اور مارکیٹیں شام پانچ بجے بند ہوجاتی ہیں ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہ ہیں کرنے کی باتیں، ان بنیادی اِشوز پر سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ ہوجائے تو عوام کو امید کی روشنی نظر آجائے گی اور وہ مشکل حالات کا مقابلہ بھی کرلیں گے اور قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے۔
آگے بڑھنے کا راستہ (Way out) ایک ہی ہے، بربادی کے ذمے داروں کو عبرت کا نشان بنایا جائے اور آیندہ تہیہ کرلیا جائے کہ قیادت صرف اس کی قبول کی جائے گی جس کے دامن پر مالی یا اخلاقی کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہوگا اور جو باصلاحیت اور جرات مند ہوگا،یعنی قیادت کے لیے بنیادی خوبیاں ظاہری حسن اور دولت نہیں بلکہ Character، Competence اور Courage ہوںگی۔