وفاقی دارالحکومت میں دھماکوں کی تاریخ
موجودہ حکومت کے دس ماہ کے دوران مجموعی طور پر اسلام آباد میں دہشت گردی کے 3 واقعات ہوئے۔
وفاقی دارالحکومت میں سولہ سال پانچ ماہ میں مجموعی طورپر 31 دھماکے ہوئے جن میں 202 افرادجاں بہ حق ہوئے۔
سب سے پہلاخود کش حملہ 19 نومبر 1995 کو مصری سفارت خانے میں ہوا تھا، جس میں حملہ آورنے بارود سے بھرا ٹرک سفارت خانے کے احاطے میں اڑا دیا، جس کے نتیجے میں14 افراد جاں بہ حق ہوئے تھے۔ دوسرا خودکش حملہ مارچ 2002 میں حساس ترین ڈپلومیٹک انکلیومیں پروٹسٹنٹ انٹرنیشنل چرچ میں ہوا تھا، اس میں سری لنکا کے سفیر سمیت متعدد سفارت کار چل بسے۔ تیسراخودکش حملہ 27 مئی 2005 کو اسلام آباد میں مزارِ بری امام کے احاطے میں ہوا، جس میں لگ بھگ 20 افرادہلاک ہوئے۔ 26 جنوری 2007 کووفاقی دارالحکومت میں میریئٹ ہوٹل کے باہرخودکش حملے میں حملہ آور اور سیکیوریٹی گارڈہلاک اور 5 افراد زخمی ہوئے۔ 6 فروری 2007 کواسلام آبادایئرپورٹ کے احاطے میں ایک اورخودکش حملہ ہوا جس میں حملہ آور ہلاک اور تین سیکیوریٹی اہل کار زخمی ہوئے۔ اسی برس 18 جولائی کو ضلع کچہری کے احاطے میں وکلا کنونشن کے پنڈال کے قریب خود کش حملے میں 20 سے زیادہ لوگ جاںبہ حق ہوئے، یہ حملہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آمد سے کچھ دیرقبل کیا گیا تھا۔
ابھی اسلام آبادکے رہائشی لال مسجد آپریشن کے نفسیاتی دباؤ سے نکلے نہیں تھے کہ نو دن بعد ( 27جولائی) مسجد جب دوبارہ کھولی جارہی تھی تو لوگ بہت بڑی تعداد میں ہجوم کر آئے تھے، اس موقع پر احتیاطاً پنجاب پولیس بھی سیکیوریٹی کے لیے طلب کی گئی تھی۔ ہجوم منشتر ہوگیا توآب پارہ مارکیٹ کے چوک میں پولیس پر خودکش حملہ کردیا گیا جس میں7 پولیس اہل کاروں سمیت 15افراد جاں بہ حق ہوئے۔ 2 جون 2008 کو ڈنمارک کے سفارت خانے کے باہرکار بم دھماکے میں 6 افرادہلاک اور 25 زخمی ہوئے۔ 6 جولائی 2008 کومیلوڈی چوک میں خودکش حملہ ہوا، جس میں 19 افرادہلاک اور40 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ 21 ستمبر 2008 کو میریئٹ ہوٹل پر ایک اور خودکش حملہ ہوا، جس میں54 افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اسی سال 9 اکتوبر کوپولیس لائینز میں خودکش حملے میں 3 پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔
یہ حملہ انسدادِ دہشت گردی بیرکس پر کیا گیا تھا۔ 23 مارچ 2009 کو اسلام آباد کی ستارہ مارکیٹ کے قریب پولیس کی سپیشل برانچ کے دفترمیں خودکش حملے میں 2 افرادہلاک اور متعددزخمی ہوئے۔ 4 اپریل 2009 کو اسلام آباد کے سیکٹر E/7 میں واقع فرنٹیئرکانسٹیبلری کے رہائشی کیمپ پرایک خود کش حملے میں 8 اہل کار ہلاک اور 6زخمی ہوئے، حملہ آور ای سیون کی طرف واقع گرین ایریا کی طرف سے آیا تھا۔ 6 جون 2009 کو ریسکیو 15 کے دفتر پر ایک خودکش حملے میں 2 اہل کارجان بہ حق اور حملہ آورہلاک ہوا، حملہ آورنے عمارت کے عقب سے حملے کی کوشش کی تھی لیکن موقع پر موجود سپاہی نے اس پر فائرنگ کردی جس سے اس کے جسم پر بندھا دھماکا خیزمواد پھٹ گیاتھا۔
حالیہ دھماکوں میں 12جون 2011 گیارہ کو تھانہ سیکریٹیریٹ کی حدود میں ملپورکے مقام پر مین مری روڈ کے درمیان میں واقع گرین بیلٹ پرکریکر دھماکا ہوا، اس میں 2 افراد ماموں بھانجا زخمی ہوئے تھے، اس سے اگلے ہی روز I/8 مرکز میں سلک بنک پرخودکش حملہ ہو ا، جس میں سیکیوریٹی گارڈ جاں بحق اور 5 افراد زخمی ہوئے۔ سیکٹرایف ایٹ میںواقع اقوام متحدہ کے دفترکی عمارت میں خودکش حملے میں 5 افراد ہلاک اور 3 زخمی ہوئے۔
موجودہ حکومت کے دس ماہ کے دوران مجموعی طور پر اسلام آباد میں دہشت گردی کے 3 واقعات ہوئے۔ پہلا بھارہ کہو میں عید کی نماز کے موقع پر ہوا، جس میں حملہ آور خود مارا گیا تھا، دوسرا حملہ ضلع کچہری میں ہوا اور گذشتہ روز سبزی منڈی کے اندر واقع فروٹ منڈی میں ہوا۔
سب سے پہلاخود کش حملہ 19 نومبر 1995 کو مصری سفارت خانے میں ہوا تھا، جس میں حملہ آورنے بارود سے بھرا ٹرک سفارت خانے کے احاطے میں اڑا دیا، جس کے نتیجے میں14 افراد جاں بہ حق ہوئے تھے۔ دوسرا خودکش حملہ مارچ 2002 میں حساس ترین ڈپلومیٹک انکلیومیں پروٹسٹنٹ انٹرنیشنل چرچ میں ہوا تھا، اس میں سری لنکا کے سفیر سمیت متعدد سفارت کار چل بسے۔ تیسراخودکش حملہ 27 مئی 2005 کو اسلام آباد میں مزارِ بری امام کے احاطے میں ہوا، جس میں لگ بھگ 20 افرادہلاک ہوئے۔ 26 جنوری 2007 کووفاقی دارالحکومت میں میریئٹ ہوٹل کے باہرخودکش حملے میں حملہ آور اور سیکیوریٹی گارڈہلاک اور 5 افراد زخمی ہوئے۔ 6 فروری 2007 کواسلام آبادایئرپورٹ کے احاطے میں ایک اورخودکش حملہ ہوا جس میں حملہ آور ہلاک اور تین سیکیوریٹی اہل کار زخمی ہوئے۔ اسی برس 18 جولائی کو ضلع کچہری کے احاطے میں وکلا کنونشن کے پنڈال کے قریب خود کش حملے میں 20 سے زیادہ لوگ جاںبہ حق ہوئے، یہ حملہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آمد سے کچھ دیرقبل کیا گیا تھا۔
ابھی اسلام آبادکے رہائشی لال مسجد آپریشن کے نفسیاتی دباؤ سے نکلے نہیں تھے کہ نو دن بعد ( 27جولائی) مسجد جب دوبارہ کھولی جارہی تھی تو لوگ بہت بڑی تعداد میں ہجوم کر آئے تھے، اس موقع پر احتیاطاً پنجاب پولیس بھی سیکیوریٹی کے لیے طلب کی گئی تھی۔ ہجوم منشتر ہوگیا توآب پارہ مارکیٹ کے چوک میں پولیس پر خودکش حملہ کردیا گیا جس میں7 پولیس اہل کاروں سمیت 15افراد جاں بہ حق ہوئے۔ 2 جون 2008 کو ڈنمارک کے سفارت خانے کے باہرکار بم دھماکے میں 6 افرادہلاک اور 25 زخمی ہوئے۔ 6 جولائی 2008 کومیلوڈی چوک میں خودکش حملہ ہوا، جس میں 19 افرادہلاک اور40 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ 21 ستمبر 2008 کو میریئٹ ہوٹل پر ایک اور خودکش حملہ ہوا، جس میں54 افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اسی سال 9 اکتوبر کوپولیس لائینز میں خودکش حملے میں 3 پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔
یہ حملہ انسدادِ دہشت گردی بیرکس پر کیا گیا تھا۔ 23 مارچ 2009 کو اسلام آباد کی ستارہ مارکیٹ کے قریب پولیس کی سپیشل برانچ کے دفترمیں خودکش حملے میں 2 افرادہلاک اور متعددزخمی ہوئے۔ 4 اپریل 2009 کو اسلام آباد کے سیکٹر E/7 میں واقع فرنٹیئرکانسٹیبلری کے رہائشی کیمپ پرایک خود کش حملے میں 8 اہل کار ہلاک اور 6زخمی ہوئے، حملہ آور ای سیون کی طرف واقع گرین ایریا کی طرف سے آیا تھا۔ 6 جون 2009 کو ریسکیو 15 کے دفتر پر ایک خودکش حملے میں 2 اہل کارجان بہ حق اور حملہ آورہلاک ہوا، حملہ آورنے عمارت کے عقب سے حملے کی کوشش کی تھی لیکن موقع پر موجود سپاہی نے اس پر فائرنگ کردی جس سے اس کے جسم پر بندھا دھماکا خیزمواد پھٹ گیاتھا۔
حالیہ دھماکوں میں 12جون 2011 گیارہ کو تھانہ سیکریٹیریٹ کی حدود میں ملپورکے مقام پر مین مری روڈ کے درمیان میں واقع گرین بیلٹ پرکریکر دھماکا ہوا، اس میں 2 افراد ماموں بھانجا زخمی ہوئے تھے، اس سے اگلے ہی روز I/8 مرکز میں سلک بنک پرخودکش حملہ ہو ا، جس میں سیکیوریٹی گارڈ جاں بحق اور 5 افراد زخمی ہوئے۔ سیکٹرایف ایٹ میںواقع اقوام متحدہ کے دفترکی عمارت میں خودکش حملے میں 5 افراد ہلاک اور 3 زخمی ہوئے۔
موجودہ حکومت کے دس ماہ کے دوران مجموعی طور پر اسلام آباد میں دہشت گردی کے 3 واقعات ہوئے۔ پہلا بھارہ کہو میں عید کی نماز کے موقع پر ہوا، جس میں حملہ آور خود مارا گیا تھا، دوسرا حملہ ضلع کچہری میں ہوا اور گذشتہ روز سبزی منڈی کے اندر واقع فروٹ منڈی میں ہوا۔