خطرہ‘ الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد

زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک میں ایک ایسا چیف الیکشن کمشنر موجود ہے کہ جس پر تمام سیاسی جماعتیں کھلا اعتماد کرتی ہیں...

شاہ زیب خانزادہ

لاہور:
بار بار کی آمریتوں نے اس ملک میں ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ جمہوریت آ بھی جائے تو چند ماہ میں آمریت کا خطرہ شروع ہو جاتا ہے۔

گیارہ گیارہ سال کی آمریتوں کو اپنے ادوار میں مجال ہے کہ یہ خطرہ لاحق ہوا ہو کہ کہیں جمہوریت نہ آ جائے۔ بس کوئی ایک واقعہ یا آمر کی سنگین غلطی آمریت کو جمہوریت میں بدل ڈالتا ہے ورنہ پورا دورِ آمریت بلاخوف وخطر آرام سے گزرتا ہے۔

نہ کہ جمہوریت کی طرح کبھی میموگیٹ کا ڈر تو کبھی ایجنسیوں کو تابع کرنے کی کوشش پر گھر جانے کا۔ نہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مدت ملازمت کی توسیع میں غیریقینی صورت حال پر بوریا بسترا لپیٹے جانے کا ڈر اور نہ ہی کسی لانگ مارچ کا کوئی خوف اور نہ ہی اپوزیشن کے سڑکوں پر یا ایوانوں میں شور مچانے کی پروا۔

یہ جمہوریت ہی ہے جو اس ملک میں ہر سال' ہر مہینہ اور ہر دن اس خوف' ڈر اور دباؤ میں کاٹتی ہے کہ اس کے روح رواں کے جیل جانے یا جلاوطن ہونے کا وقت تو نہیں آ گیا۔

گزشتہ ساڑھے چار برسوں کی طرح آج کل بھی اسلام آباد میں نت نئی افواہوں کا بول بالا ہے۔ اب اس بات پر تو گویا سب متفق ہیں کہ پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی حکومت اپنا وقت مکمل کر لے گی مگر اس بات پر سوالیہ نشان پیدا ہو گئے ہیں کہ بھلا الیکشن ہو بھی پائیں گے یا نہیں۔ اس کی وجہ ہر معاملے میں سازش تلاش کرنا ہے۔

اگر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو جنرل الیکشن نہ کرانے کی سازش' اگر لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہو تو جنرل الیکشن نہ کرانے کی سازش۔ غرض کہ ہر چھوٹے بڑے بیان سے یہ نتیجہ اخذ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ جنرل الیکشن نہ کرانے کی سازش ہے۔

کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت خود الیکشن ملتوی کر کے انھی اسمبلیوں سے صدر آصف علی زرداری کو دوبارہ صدر منتخب کرنا چاہتی ہے تو کبھی یہ کہ اس حکومت کے جاتے ہی ایک طویل عرصے کے لیے ایک ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ آنے والا ہے۔

جو الیکشن نہیں کرائے گا اور سیاست میں موجود گند کو صاف کرے گا۔ کرپشن کا خاتمہ کرے گا اور ملکی معیشت کو صحیح ڈگر پر لائے گا اور کیونکہ عدلیہ مستقبل میں کسی بھی قسم کا پی سی او خود پر حرام کر چکی ہے اس لیے مارشل لاء کی حمایت تو نہیں کر سکتی مگر کسی بھی قسم کے ٹیکنوکریٹک سیٹ پر مہر ضرور لگا سکتی ہے۔

اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ جمہوریت کو خطرہ بہرحال اس ملک میں ابھی موجود ہے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ خطرہ الیکشن سے پہلے نہیں بلکہ الیکشن کے بعد نظر آتا ہے۔ الیکشن سے پہلے خطرہ نظر نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ زمینی حقائق مذکورہ بالا بیان کیے گئے تمام سازشی نظریوں کی نفی کرتے ہیں۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک میں ایک ایسا چیف الیکشن کمشنر موجود ہے کہ جس پر تمام سیاسی جماعتیں کھلا اعتماد کرتی ہیں اور جس کی ساری زندگی کی سیاست اور وکالت پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ الیکشن جیتنے اور مرکز میں حکومت بنانے کی تین سیاسی جماعتیں واضح امیدوار ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی' مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف۔ پاکستان پیپلزپارٹی مرکزی حکومت اپنی ساڑھے چار سال کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کے باوجود اپنے مختلف سیاسی کارڈز جن میں سندھ کارڈ' جنوبی پنجاب صوبہ کارڈ' اتحادیوں کے ساتھ الیکشن لڑنے کا کارڈ اور مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ایک دوسرے کے ووٹ کاٹنے کے کارڈ پر بھروسہ کیے ہوئے ہے۔


پارٹی رہنماؤں کو پوری امید ہے کہ ان کی سیاسی حکمت عملی رنگ لائے گی اور اگلی حکومت بھی پیپلزپارٹی اتحادیوں کے ساتھ مل کر بنائے گی۔ مسلم لیگ نواز کو بھی لگتا ہے کہ اگلی باری اس کی ہے۔ میاں نواز شریف گزشتہ چند ماہ سے بھرپور بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ پارٹی کو الیکشن جیتنے کے لیے تیار بھی کر رہے ہیں اور جیتنے کے لیے پرامید بھی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان تو گویا خود کو یقین دلائے بیٹھے ہیں کہ اگلے وزیراعظم وہی ہوں گے۔ پارٹی میں کوئی آئے یا پارٹی سے کوئی جائے انھیں پورا بھروسہ ہے کہ ان کا سونامی سب کو بہا کر لے جائے گا۔ جب صورت حال یہ ہو کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن جیتنے کے لیے پر طول رہی ہوں تو بھلا کسی بھی غیرآئینی یا نیم غیرآئینی قدم کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی نہ تو عدلیہ سے بنتی ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ سے اور ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ کے لیے اگر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا آشیرباد لازمی ہے کہ ایسے کسی اقدام کی صورت میں پاکستان پیپلزپارٹی سڑکوں پر ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) کی اپوزیشن پر تنقید اور انھیں فرینڈلی ہونے کا طعنہ اپنی جگہ مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ نے گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں جتنی آواز عدلیہ کی بالادستی کے لیے اٹھائی ہے اتنی ہی آواز ملک میں جمہوریت کے تسلسل اور کسی بھی غیرآئینی قدم کے خلاف اٹھائی ہے۔ میاں نواز شریف نے ثابت کیا ہے کہ انھوں نے اپنے تلخ تجربات سے سبق سیکھا ہے اور اختلافات کتنے ہی شدید کیوں نہ ہوں مگر مسائل کا حل یا اقتدار کا حصول کسی تیسری قوت کی مدد سے نہیں کرنا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ بھی اسٹیبلشمنٹ سے کسی بھی قسم کی سازباز نہیں کرے گی اور ایسے کسی بھی قدم کی صورت میں سڑکوں پر ہو گی۔ پاکستان تحریک انصاف کو ایجنسیوں کی طرف سے سپورٹ ملنے کے الزامات اپنی جگہ مگر یہ عمران خان ہی ہیں جو جنرل مشرف کے ریفرنڈم کو سپورٹ کرنے پر بار بار معافی مانگ چکے ہیں اور بہت پراعتماد ہیں کہ عوام کے ووٹ سے وہی اگلے وزیراعظم بنیں گے۔

عدلیہ کے لیے تحریک انصاف کی سپورٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تحریک انصاف کی سپورٹ کا الزام اپنی جگہ مگر تحریک انصاف بھی الیکشن میں کسی بھی رکاوٹ کی صورت میں سڑکوں پر ہو گی۔ ان تمام باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ نہ تو عدلیہ اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ بھی کسی قسم کی ممکنہ سازشی نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاسی سپورٹ حاصل کر پائیں گی۔ تو اس سازشی نظریے میں قطعی کوئی جان نظر نہیں آتی۔

جہاں تک تعلق ہے بلدیاتی انتخابات کا ڈرامہ رچا کر پیپلزپارٹی عام انتخابات میں تاخیر کرنا چاہتی ہے تو یہ تاخیر نہ تو تحریک انصاف نے برداشت کرنی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن اور عدلیہ نے۔ بلدیاتی انتخابات تو پتہ نہیں ہوں گے یا نہیں مگر عام انتخابات ضرور ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ناصرف مرکزی حکومت کے الیکشن جیتنے کے لیے مختلف پروگرامز کی مدد سے الیکشن مہم شروع کر دی ہے بلکہ پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف سے بھی تمام منتخب نمایندوں کو الیکشن کی تیاری کرنے کی تاکید کر دی گئی ہے۔

صاف واضح ہے کہ فی الحال الیکشن سے پہلے جمہوریت محفوظ نظر آتی ہے اور حکومت اپنا وقت پورا کرتی نظر آتی ہے بشرطیکہ پیپلزپارٹی اور اتحادی بذات خود جلدی الیکشن کرنے کا فیصلہ کر لیں تاہم تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں دکھتی۔ بہرحال جمہوریت کو خطرہ اب بھی موجود ہے اور وہ ہے صرف اور صرف الیکشن میں دھاندلی سے۔

جیسا کہ اوپر میں نے عرض کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو لگتا ہے کہ الیکشن وہ جیتیں گے تو پیپلزپارٹی کی حکومت کو چاہیے کہ الیکشن میں کسی بھی قسم کی دھاندلی روکنے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیں اور الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے مزید مضبوط کیا جائے کیونکہ میاں صاحب اور عمران خان دونوں ہی اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ ملک پر حکومت کرنے کا یہ الیکشن انھیں شاید آخری موقع فراہم کر سکتا ہے۔

وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ جب یہ الیکشن دونوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ الیکشن میں کسی بھی قسم کی دھاندلی ان کے لیے ناصرف ناقابل قبول ہو گی بلکہ ملک میں انارکی کی صورت حال پیدا کر دے گی۔ خان صاحب تو پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو تحریک انصاف سڑکوں پر ہو گی اور 1977ء کے الیکشن سے بھی زیادہ برا حال ہو گا اور دھاندلی کرنے والے نہیں بچیں گے۔

تو ایسی صورت حال میں جمہوریت کا بچنا ناممکن ہو جائے گا کہ جب جمہوریت کے رکھوالے ایک دوسرے کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے اور ملک میں شدید انارکی کی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ اسی لیے پاکستان پیپلزپارٹی پر شفاف انتخابات کرانے کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو آمریت سے جمہوریت کے سفر میں جو حکومت ملی اس نے اسے جمہوریت کا رکھوالا بنا دیا ہے۔

ایسا رکھوالا کہ جس نے صرف اپنی حکومت کی مدت پوری نہیں کرنی بلکہ انتہائی خوش اسلوبی اور شفاف طریقے سے اگلی جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل بھی کرنا ہے۔ چاہے وہ منتقلی خود پاکستان پیپلزپارٹی کی اگلی حکومت کو ہو یا ن لیگ یا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو۔

مگر یہ منتقلی ہو ایک شفاف الیکشن کے ذریعے۔ جو ناصرف شفاف ہوں بلکہ شفاف نظر بھی آئیں وگرنہ فی الحال الیکشن سے پہلے سازشی نظریے گھڑنے والوں کی خواہشات پوری ہوتی نظر نہیں آتیں مگر شاید بعد میں ضرور پوری ہو جائیں۔ تو جناب انتخابات اور صرف شفاف انتخابات ہی انتخابات کے بعد جمہوریت کو لاحق خطرے سے جمہوریت کو بچا سکتے ہیں۔
Load Next Story