ناقص معیار یورپی یونین نے فروٹ ایکسپورٹرز کو متنبہ کردیا

خدشات دورنہ ہوئے تو پاکستانی کینو اور آم پرمکمل پابندی عائد ہوجائیگی،یورپی نمائندہ

اصلاحات ناگزیر ہیں، سیکریٹری ٹی ڈیپ، معیاری پروسیسنگ یقینی بنائی جائے، صدر کراچی چیمبر۔ فوٹو: فائل

لاہور:
عالمی معیارات پرعمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہرسال پاکستانی آم، کینو ودیگر مصنوعات کے سیکڑوں کنسائنمنٹس مستردہوتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان سے کینو اورآم کی برآمدات کم ہو رہی ہیں۔

یہ بات یورپی یونین کے تجارت سے متعلق تکنیکی معاونت پروگرام کے نمائندے برونو والنزاؤلو نے ''پاکستانی کینو اورآم کی برآمدات کا فروغ'' کے موضوع پر منعقدہ پبلک پرائیویٹ ڈائیلاگ سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوںنے انکشاف کیا کہ یورپی یونین نے عالمی معیارات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے پاکستانی برآمدکنندگان کو یلوکارڈز دکھا دیے ہیں جبکہ خدشات دور نہ کیے جانے کی صورت میں پاکستان سے یورپی ممالک میں برآمد ہونے والے کینو اور آم پر مکمل پابندی عائد ہوجائیگی۔ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی سیکریٹری رابعہ جویری آغا نے کہا کہ ٹی ڈی اے پی کورنٹائن ڈپارٹمنٹ سے مسلسل رابطے میں ہے تاکہ وی ایچ ٹی پلانٹ کی تنصیب یقینی بنائی جاسکے۔


بھارتی آم کی برآمدات پر یورپی پابندی سے پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے کا موقع ملا ہے، اگراصلاحات نہ کی گئیں اور عالمی معیارات پر پورا نہ اتراگیا تو پاکستانی آم کی منزل بھی وہی ہوگی جواس وقت بھارت کی ہے، اصلاحات سے یورپی یونین کی ممکنہ پابندیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ کراچی چیمبرکے صدر عبداللہ ذکی نے کینو اور آم کی عالمی معیارکے مطابق پروسیسنگ نہ کرنے پرپابندی کے یورپی انتباہ پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت واسٹیک ہولڈرز پر زور دیاکہ وہ ہارٹی کلچر سیکٹر خصوصاًکینو اورآم کی عالمی معیار کے مطابق پروسیسنگ کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے پاکستانی پھلوں کی برآمدات میں اضافے کیلیے تحقیق اور جدید ٹیکنالونی کے استعمال پر زور دیا اور کہا کہ اعلیٰ معیار کے باوجود پاکستانی کینو عالمی مارکیٹ میں اپنا حقیقی شیئر حاصل نہیںکر پایا جس کی بنیادی وجہ کینومیں بیج کا ہونا ہے تاہم تحقیق کا عمل جاری رکھتے ہوئے اگر ہم بغیر بیج کے کینو کی پیداوار کریں تو پاکستان عالمی مارکیٹ میں خاطر خواہ شیئر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔

انھوں نے کہاکہ پاکستانی آم کا بڑا پیداواری وبرآمدی ملک ہونے کے باوجود ملک میں آم کی صنعت ترقی نہ کر سکی، زرعی تکینک، پروسیسنگ اور اسٹوریج کی سہولت کی کمی کے باعث 30 فیصد پیداوار ضائع ہو جاتی ہے۔ پی آئی ٹی اے ڈی کے ڈائریکٹر جنرل ساجد حسین نے بتایا کہ اب تک آئی ٹی سی کے اشتراک سے پاکستان میں 8 پبلک پرائیوٹ ڈائیلاگ منعقد کیے جاچکے ہیں تاکہ حکومت کو پالیسیاں مرتب کرنے میں مدد مل سکے۔ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر کے پروگرام آفیسر برائے تجارتی پالیسی محمد اویس نے بتایا کہ وزارت تجارت کی منظوری کی بعد پبلک پرائیویٹ اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جوپبلک پرائیویٹ ڈائیلاگ کے عمل کوآگے بڑھا رہی ہے۔ انہوںنے اسٹیک ہولڈرز پرزور دیا کہ وہ پالیسی ریفارمز کیلیے تجاویز دیں اور بھرپور طریقے سے ڈائیلاگ میں حصہ لیں۔
Load Next Story