بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال
ان کہی کہانی
مصنف : لیفٹیننٹ جنرل بی ۔ ایم کول، قیمت: 2000 روپے
صفحات: 392، ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز ، علی پلازہ ، سیکنڈ فلور، ٹیمپل روڈ ، لاہور
رابطہ: (03009482775)
لیفٹیننٹ جنرل بی ۔ ایم کول بھارتی افواج کے چیف آف جنرل سٹاف تھے ۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی سوانح عمری ہے جو انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد تین سال کے عرصے میں مکمل کی ، بقول ان کے اس آپ بیتی کے لکھنے کا مقصد اپنی زندگی کی کہانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان الزامات کا جواب دینا ہے جو ان پر خوامخواہ لگائے گئے ۔
تقسیم سے پہلے کے واقعات لکھتے ہوئے وہ بھگت سنگھ کے اسمبلی میں حملے کا واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کیونکہ انقلابی جوش وجذبہ رکھنے کی وجہ سے وہ خود بھی اس وقت وہاں موجود تھے ، جب بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تو وہ تب بھی جیل کے باہر موجود تھے ، یوں لڑکپن میں ہی ان میں ملک وقوم کے لئے جذبہ نمایاں نظر آتا ہے ، پھر والد کی وفات کے بعد انھیں کیا مشکلات پیش آئیں اور فوج میں بھرتی ہونے کی روداد بھی دلگیر کرنے والی ہے ۔
سب سے اہم وہ پہلو ہیں جو وہ فوج کے اہم عہدے پر پہنچنے کے بعد بیان کرتے ہیں ، اس میں تقسیم برصغیر کے واقعات ، بھارتی فوج کے مسائل ، چین کے ساتھ جنگ ، آپریشن جبرالٹر اور پاک بھارت جنگ بہت اہم ہیں کیونکہ لوگ ان کے پس پردہ حقائق جاننا چاہتے ہیں ۔ ملکی سیاست کس طرح فوج اور دوسرے امور پر اثر انداز ہوتی ہے اور نوکری کے دوران کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے ۔
مصنف کہتے ہیں کہ وہ اندرونی ریشہ دوانیاں بہت پہلے بیان کر دینا چاہتے تھے مگر انھیں بہت سے حلقوں کی طرف سے روکا جاتا تھا کہ ابھی اس کا مناسب وقت نہیں۔ بہت اہم کتاب ہے کیونکہ اس سے ناصرف بھارتی فوج اور سیاست پر روشنی پڑتی ہے بلکہ یہ ایک تاریخی ماخذ بھی ہے جسے حوالہ جات کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
لارنس آف عریبیا
مصنف: ایڈورڈ رابنسن، مترجم: قاضی مشیر الدین، قیمت: 600 روپے
صفحات:191، ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ، سیکنڈ فلور، ٹیمپل روڈ، لاہور
رابطہ:(03009482775)
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنی قابلیت ، ذہانت اور محنت سے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیتی ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کا نام رہتا ہے ۔
لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس کا شمار بھی ایسی ہی شخصیا ت میں ہوتا ہے جو لارنس آف عریبیا کے نام سے مشہور ہوئے ، ان کی مقبولیت اتنی زیادہ تھی کہ افسانوی حیثیت اختیار کر گئے ۔ حتی کہ ان کی زندگی پر فلم بنائی گئی ۔
وہ بچپن سے ہی تاریخ عالم اور آثار قدیمہ میں دلچسپی لیتے تھے ۔ عام لڑکوں کی طرح وہ کھیل کود میں وقت گزارنے کی بجائے تاریخی مقامات کی سیر اور کھوج میں زیادہ وقت گزارتے تھے ، صرف اکیس سال کی عمر میں شام اور اس کے اردگرد کے علاقوں کی سیاحت کے لئے نکل پڑے ، واپسی پر ایک شاندار آرٹیکل تحریر کیا جس پر انھیں انعام سے نوازا گیا ، تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین انھیں اپنے کام میں معاونت کے لئے دعوت دینے لگے ۔
جب وہ فوج میں بھرتی ہوئے تو اسے جاسوسی کے لئے دوسرے ممالک میں بھیجا گیا ، انھوں نے تن تنہا ایسے کارنامے سرانجام دیئے جو پوری فوج بھی مل کر نہ کر سکتی تھی ۔
انھوں نے مسلمانوں کا بھیس بدل کر عربوں کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا ، جس نے کے لئے انھوں نے مذہب کا سہارا لیا ۔ اسے متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا اسی لئے انھیں مختلف ممالک کے لوگوں میں گھل مل جانے میں بڑی آسانی ہوتی تھی ۔
انھوں نے پیسہ پانی کی طرح بہایا اور عرب بدووں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ، کسی کو کبھی خیال تک نہ آیا کہ ایک انگریز ، عربی کے بھیس میں انھیں دھوکا دے رہا ہے ، اسی لئے ان سے ساحرانہ طاقتوں کی کہانیاں منسوب ہو گئیں ۔
فوج میں بھرتی ہونے کے باوجود وہ کبھی ان کے ڈسپلن پر عمل نہ کر سکے اور کیونکہ ان کا مزاج ہی ایسا تھا مگر ان کی قابلیت کی وجہ سے وہ انھیں برداشت کرنے پر مجبور تھے۔
مسلمانوں کیلئے ولن اور انگریزوں کے لئے ہیرو کا کردار ادا کرنے والی اس شخصیت کی ذہانت اور فطانت کے سبھی معترف ہیں،کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
سیلز میں کامیابی کے راز
مصنف : برائن ٹریسی، قیمت:600 روپے
صفحات:224، ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)
سیلز یعنی مصنوعات کی فروخت وہ کام ہے جس سے کاروباری دنیا کی آن بان شان قائم و دائم ہے ، کیونکہ مصنوعات اگر فروخت ہی نہیں ہوں گی تو نہ نئی مصنوعات تیار کی جائیں گی اور نہ اس سے جڑے افراد کو روزگار حاصل ہو گا ، گویا پوری کاروباری دنیا جام ہو کر رہ جائے گی۔
اس لئے سیلز کاروباری دنیا کی سب سے اہم اور بنیادی اکائی ہے جو اسے آگے بڑھاتی ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ سیلز مین کاروباری دنیا کے لئے سب سے اہم فرد ہے جس کی حرکت سے برکت ہوتی ہے ۔ سیلز میں کیسے کامیابی حاصل کی جائے یہ ہر کوئی جاننا چاہتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب اسی مقصد کے لئے لکھی گئی ہے ۔
دنیا بھر کے اداروں کو سیلز ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی مصنوعات کو فروخت کر سکے گویا سیلز کی دنیا میں ہر وقت روزگار موجود ہے مگر اس سے وابستہ ہونے والے فرد نے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کامیاب سیلز مین ہے ۔
اس کتاب میں ایسے بڑے آسان طریقے بتائے گئے ہیں کہ سیلز مین کو مصنوعات کی فروخت کے لئے کیا کرنا چاہیے خاص طور پر بڑی کامیابی کیسے حاصل ہو سکتی ہے ۔
مصنف کا طریقہ استدلال بہت خوب ہے جس سے قاری کو اہم نقاط کو سمجھنے میں بڑی آسانی رہتی ہے ۔ کتاب کو موضوعات کے حوالے سے دس مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ، آخری باب میں سیلز میں کامیابی کے دس مستند گر بھی بتائے گئے ہیں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
: نقوش شبلی
مصنف : ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی، قیمت : درج نہیں
ناشر : قلم فاؤنڈیشن ، بینک سٹاپ ، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ ۔ رابطہ
رابطہ:03000515101
علامہ شبلی نعمانی اپنے عہد کے نامور ترین عالم و مصنف ، ادیب و انشاپرداز ، نقاد اور سیرت نگار تھے۔ صرف یہی نہیں ، وہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے علم بردار اور مفکر و دانش ور بھی تھے۔
انھوں نے ایک طرف مسلمانوں کی ذہنی و فکری بیداری میں اہم کردار ادا کیا ، دوسری طرف علمی میدان میں مستشرقین کا خصوصیت سے مقابلہ کیا ۔ ان کے دو شاندار کارنامے ' ندوۃ العلما ' اور ' دارالمصنفین ' کی صورت میں اب بھی موجود ہیں ۔ جو لوگ ان اداروں سے واقف ہیں ، وہ ان کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔
زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے علامہ شبلی کی جامع کمال شخصیت کے متعدد نئے پہلوؤں اور گوشوں کو شامل کیا ہے ۔ یہ مجموعی طور پر اٹھارہ مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے ۔ آغاز میں علامہ شبلی کے بچپن اور تعلیم کا احوال بیان کیا گیا ہے ۔
ایسی معلومات فراہم کی گئی ہیں جو اس سے پہلے منظر عام پر نہیں آئی تھیں ۔ ایک باب میں ان کے علمی ، ادبی اور فکری سرمایہ کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔
غالب ، نواب محسن الملک ، ڈپٹی نذیر احمد ، علامہ اقبال ، عطیہ فیضی جیسی شخصیات کے حوالے سے علامہ شبلی کے تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ علامہ شبلی اور عطیہ فیضی کے باہمی تعلقات کے نئے گوشے دکھائے گئے ہیں اور بعض غلط معلومات کا ابطال کیا گیا ہے ۔ یہ ایک دلچسپ باب ہے ۔
سرسید احمد خان اور علامہ شبلی کے حوالے سے بھی حقائق پیش کئے گئے ہیں ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ علامہ شبلی سرسید کے مدمقابل تھے اور بعض نے کہا کہ وہ ان کے پروردہ تھے ، حالانکہ معاملہ اس سے مختلف ہے ۔
اگرچہ سرسید شبلی کے محسن تھے لیکن علامہ شبلی کی اپنی علمی تابانی بھی خوب تھی ۔ اس حوالے سے مصنف نے کتاب میں تفصیل سے گفتگو کی ہے جو دراصل ان کے مقالات و مضامین ہیں ۔ انھوں نے کتاب میں مزید کئی موضوعات پر بحث کی ہے ۔
کتاب میں علامہ شبلی کی چند غیر مدون تحریریں ، نو دریافت 36 خطوط بھی شامل ہیں ۔ یقیناً یہ کتاب علامہ شبلی کو مزید جاننے کے لئے نہایت اہم ذریعہ ثابت ہو گی ۔
''اندرے ناں پینڈا''
ڈاکٹر محمد صغیر خان کا سفر نامہ ''اندرے ناں پینڈا'' پہاڑی زبان میں لکھا گیا پہلا سفرنامہ ہے ۔ اس سے قبل پہاڑی زبان میں کوئی سفر نامہ ''پینڈا'' نہیں لکھا گیا ۔
اگرچہ یہ بہت پرانی زبان ہے لیکن ایک لمبے عرصے سے یہ زبان صرف ''بولی '' کی حد تک محدود تھی تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے پہاڑی زبان میں لکھنے اور پڑھنے کا رجحان دیکھنے میں آیا جو اب کافی زیادہ بڑھ چکا ہے ۔
مذکورہ سفرنامے کی دو خاصیتیں ہیں ۔ پہلی یہ کہ 'پہاڑی ' زبان میں لکھا گیا ہے ، دوسری اور اہم یہ خاصیت ہے کہ سفرنامہ منقسم ریاست جموں و کشمیر کی تینوں اکائیوں کے سفر پر مشتمل ہے ۔ تقسیم ریاست کے بعد اس کے علاوہ کوئی بھی سفرنامہ ریاست کی تینوں اکائیوں کے سفر پر مشتمل نہیں ہے ۔
سفر نامہ ایک بنیادی تاریخی حوالہ ہوتا ہے اسی طرح اس سفر نامے سے90 کی دہائی میں گلگت کی سیاسی صورتحال بالخصوص وہاں ریاست کے معروضی حالات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ نیلم اور سماہنی کے سفر پڑھ کر وہاںکے آثار قدیمہ کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ یہ ریاست کسی قدیم تہذیب کا حصہ رہی ہے ۔
خونی لکیر کے اس پار جو علاقہ انڈیا کے انتظام میں ہے وہاں جموں کا سفر نامہ پڑھ کر تقسیم ریاست جموں کشمیر کا دکھ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی ریاست کے شہریوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے والے علاقے میں جانے کے لئے سینکڑوں میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور دو ریاستوں کے اجازت ناموں اور سخت قدغنوں میں سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی اس سفرنامے میں کئی اور مقامات پر بھی تقسیم اور غلامی کا دکھ نمایاں ہے ۔ مثلاً ٹیٹوال اور دریائے نیلم کا ذکر کرتے ہوئے مصنف کے کشمیر کی تقسیم کے بارے میں جذبات اور وسائل سے بے اختیار ہونے پر احساس غلامی واضح نظر آتا ہے ۔ یہ کتاب قاری کو اس طرح جوڑے رکھتی ہے جیسے وہ خود سفر کر رہا ہو اور یہ سارے واقعات اس کے ساتھ پیش آ رہے ہوں ۔
ڈاکٹر محمد صغیر خان راولاکوٹ میں پروفیسر ہیں یعنی سرکاری ملازم ہیں ، اس کے باوجود انہوں نے ہمت کی اور اپنے احساسات و جذبات کا کھل کر اظہار کیا جو قابل ستائش ہے ۔ اس سے قبل بھی وہ پہاڑی زبان میں کئی کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں نظم اور افسانہ بھی شامل ہیں ۔
'' اندرے ناں پینڈا '' پہاڑی بولنے والوں اور ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد میرے لئے جو سب سے حیرت انگیز بات تھی کہ کتاب میں جس ''پینڈے'' ( سفر ) کا ذکر ہوا ، اسے طے کیے ہوئے کم و بیش ڈیڑھ سے اڑھائی دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اس دوران میں پیش آئے واقعات یوں محسوس ہوتے ہیں جیسے حال ہی میں رونما ہوئے ہوں ۔
کتاب میں ایک باب ''پہاڑی ڈکشنری'' پر بھی ہونا چاہیے تھا جس میں ''پہاڑی'' زبان کے کم استعمال ہونے والے یا قدیم الفاظ کے معانی درج ہوتے ۔ اس سے قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ۔
ہری یوپیا ... امن و آشتی کو ترستے انسان کا خواب
بدامنی، آلودگی اور شور شرابے سے بھری اس دنیا سے تنگ آئے ہوئے لوگ بے شمار ہیں ۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ اچانک ایک ایسی دنیا کا دروازہ کھلے جہاں نفاست ہو ، حسن انتظام ہو ، محبت ہو، سکون ہو ... اور وہ اس خوبصورت دنیا میں داخل ہو جائیں۔ ' ہری یوپیا ' ایسی ہی ایک خوبصورت دنیا ہے۔
وہاں جانے کے لئے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قریباً چھ ہزار سال پہلے کے دَور میں جانا ہوگا ۔ آج کے پاکستانی شہر ساہیوال سے قریباً 24 کلومیٹر دُور ۔ اس وقت یہ خوبصورت دنیا ساڑھے تین سو ایکڑ سے کچھ زائد رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ آج کی دنیا میں اسے ایک ' بڑا گاؤں' ہی کہا جا سکتا ہے تاہم وہ ایک مکمل تہذیب تھی۔
بے شمار لوگ ایسی دنیاؤں میں زندگی گزارنا چاہتے ہیںکہ وہ دنیائیں خودغرضی، نفرت اور ہلاکت خیزی سے پاک ، صاف و شفاف تھیں۔ تب تحمل اور برداشت تھی، ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، ہنسنے کھیلنے کا کلچر تھا۔
اس دنیا کے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے خلاف سوچنے اور لڑنے بھڑنے کا وقت نہیں تھا، بس ! وہ سورج چڑھتے تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لئے کام شروع کرتے تھے، سورج ڈوبنے تک ان کی دنیا یونہی رنگ رنگیلی رہتی تھی۔
اس کے نتیجے میں سرسوتی اور ایرا وتی کے دریا بھی ہنستے گاتے بہتے چلے جاتے تھے، ہر سو ہریالی کی چادر بچھی رہتی تھی، جنگلوں میں مور ناچتے تھے۔ معبد ، پروہت ، مقدس گیت، سنگیت، خاک اڑاتے رتھ، شیش ناگ اور مقامی مٹی میں گندھے ہوئے کردار۔
وقت ملے تو اس تہذیب کے آثار دیکھنے ضرور جائیے گا ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ساہیوال سے چوبیس کلومیٹر دوری پر صرف آثار ہی ملیں گے البتہ یہ پوری تہذیب زندہ و تابندہ ملے گی' ہری یوپیا ' ناول کی صورت میں، جس کی مصنفہ محترمہ حنا جمشید ہیں۔
وہ محقق ، نقاد ، مترجم ،کالم نگار ، افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کی تعلیم حاصل کی ، پی ایچ ڈی کی ، پھر وہ تحقیق کے میدان میں اترگئیں ۔ ایک ماہر آثار قدیمہ کی طرح ہزاروں سال پرانی تہذیب کا کھوج لگایا ، اور پھر اس تہذیب کو زندہ و تابندہ کر دیا ۔
ساڑھے آٹھ ہزار سال پہلے کی یہ دنیا ، پختہ مٹی اور پکی ہوئی سرخ اینٹوں سے تعمیر شدہ ، دور فاصلے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں کئی ٹیلے ہیں اور ہر ٹیلے کی الگ حفاظتی دیوار ۔ ٹیلوں کے اس مجموعے کے اردگرد ایک الگ دیوار تھی جس میں ایک شاندار بلند قامت مرکزی دروازہ تھا ، جس کی ہیبت دیکھنے والوں کو گنگ کر دیتی تھی۔ ایراوتی کی ندی کے کنارے ، ایک چھوٹی سی بستی سے شروع ہونے والی کہانی اسی پرشکوہ مرکزی دروازے کے ذریعے ' ہری یوپیا ' میں داخل ہوتی ہے، وہاں زندگی کے مختلف رنگ بکھیرتی ہے جنھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں :
''سچ تو یہ ہے کہ ہری یوپیا میرا وہ خواب ہے، جو ہڑپا کے کھنڈرات میں، اپنی جاگتی آنکھوں سے میں نے بارہا دیکھا اور محسوس کیا ہے۔
آپ اسے عصر حاضر میں امن و آشتی کو ترستے انسان کا خواب بھی کہہ سکتے ہیں، جو ماضی میں بارہا فنا سے نبردآزما ہوا مگر اپنی جرات ، ہمت اور اٹوٹ حوصلے سے مٹ جانے والی تہذیب کے سینہ نما مدفن پر ایک نئی تہذیب بسا کر اپنے ثبات کا ببانگ دہل اعلان کرتا رہا ''۔
آج ڈاکٹر حنا جمشید یہ خوبصورت خواب آج کے انسانوں کو دکھاتی ہیں اور انھیں لے کر ایک خوبصورت دنیا میں اتر جاتی ہیں۔ اس کہانی کا مطالعہ میرے لئے ایک نیا اور خوبصورت تجربہ ثابت ہوا ۔ آپ بھی ضرور پڑھیے گا۔ ' بک کارنر ' نے اسے نہایت خوبصورت سرورق کے ساتھ ، شاندار انداز اور مجلد صورت میں پیش کیا۔ قیمت ، 1250 روپے۔ ناشر : بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882
مصنف : لیفٹیننٹ جنرل بی ۔ ایم کول، قیمت: 2000 روپے
صفحات: 392، ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز ، علی پلازہ ، سیکنڈ فلور، ٹیمپل روڈ ، لاہور
رابطہ: (03009482775)
لیفٹیننٹ جنرل بی ۔ ایم کول بھارتی افواج کے چیف آف جنرل سٹاف تھے ۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی سوانح عمری ہے جو انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد تین سال کے عرصے میں مکمل کی ، بقول ان کے اس آپ بیتی کے لکھنے کا مقصد اپنی زندگی کی کہانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان الزامات کا جواب دینا ہے جو ان پر خوامخواہ لگائے گئے ۔
تقسیم سے پہلے کے واقعات لکھتے ہوئے وہ بھگت سنگھ کے اسمبلی میں حملے کا واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کیونکہ انقلابی جوش وجذبہ رکھنے کی وجہ سے وہ خود بھی اس وقت وہاں موجود تھے ، جب بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تو وہ تب بھی جیل کے باہر موجود تھے ، یوں لڑکپن میں ہی ان میں ملک وقوم کے لئے جذبہ نمایاں نظر آتا ہے ، پھر والد کی وفات کے بعد انھیں کیا مشکلات پیش آئیں اور فوج میں بھرتی ہونے کی روداد بھی دلگیر کرنے والی ہے ۔
سب سے اہم وہ پہلو ہیں جو وہ فوج کے اہم عہدے پر پہنچنے کے بعد بیان کرتے ہیں ، اس میں تقسیم برصغیر کے واقعات ، بھارتی فوج کے مسائل ، چین کے ساتھ جنگ ، آپریشن جبرالٹر اور پاک بھارت جنگ بہت اہم ہیں کیونکہ لوگ ان کے پس پردہ حقائق جاننا چاہتے ہیں ۔ ملکی سیاست کس طرح فوج اور دوسرے امور پر اثر انداز ہوتی ہے اور نوکری کے دوران کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے ۔
مصنف کہتے ہیں کہ وہ اندرونی ریشہ دوانیاں بہت پہلے بیان کر دینا چاہتے تھے مگر انھیں بہت سے حلقوں کی طرف سے روکا جاتا تھا کہ ابھی اس کا مناسب وقت نہیں۔ بہت اہم کتاب ہے کیونکہ اس سے ناصرف بھارتی فوج اور سیاست پر روشنی پڑتی ہے بلکہ یہ ایک تاریخی ماخذ بھی ہے جسے حوالہ جات کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
لارنس آف عریبیا
مصنف: ایڈورڈ رابنسن، مترجم: قاضی مشیر الدین، قیمت: 600 روپے
صفحات:191، ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ، سیکنڈ فلور، ٹیمپل روڈ، لاہور
رابطہ:(03009482775)
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنی قابلیت ، ذہانت اور محنت سے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیتی ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کا نام رہتا ہے ۔
لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس کا شمار بھی ایسی ہی شخصیا ت میں ہوتا ہے جو لارنس آف عریبیا کے نام سے مشہور ہوئے ، ان کی مقبولیت اتنی زیادہ تھی کہ افسانوی حیثیت اختیار کر گئے ۔ حتی کہ ان کی زندگی پر فلم بنائی گئی ۔
وہ بچپن سے ہی تاریخ عالم اور آثار قدیمہ میں دلچسپی لیتے تھے ۔ عام لڑکوں کی طرح وہ کھیل کود میں وقت گزارنے کی بجائے تاریخی مقامات کی سیر اور کھوج میں زیادہ وقت گزارتے تھے ، صرف اکیس سال کی عمر میں شام اور اس کے اردگرد کے علاقوں کی سیاحت کے لئے نکل پڑے ، واپسی پر ایک شاندار آرٹیکل تحریر کیا جس پر انھیں انعام سے نوازا گیا ، تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین انھیں اپنے کام میں معاونت کے لئے دعوت دینے لگے ۔
جب وہ فوج میں بھرتی ہوئے تو اسے جاسوسی کے لئے دوسرے ممالک میں بھیجا گیا ، انھوں نے تن تنہا ایسے کارنامے سرانجام دیئے جو پوری فوج بھی مل کر نہ کر سکتی تھی ۔
انھوں نے مسلمانوں کا بھیس بدل کر عربوں کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا ، جس نے کے لئے انھوں نے مذہب کا سہارا لیا ۔ اسے متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا اسی لئے انھیں مختلف ممالک کے لوگوں میں گھل مل جانے میں بڑی آسانی ہوتی تھی ۔
انھوں نے پیسہ پانی کی طرح بہایا اور عرب بدووں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ، کسی کو کبھی خیال تک نہ آیا کہ ایک انگریز ، عربی کے بھیس میں انھیں دھوکا دے رہا ہے ، اسی لئے ان سے ساحرانہ طاقتوں کی کہانیاں منسوب ہو گئیں ۔
فوج میں بھرتی ہونے کے باوجود وہ کبھی ان کے ڈسپلن پر عمل نہ کر سکے اور کیونکہ ان کا مزاج ہی ایسا تھا مگر ان کی قابلیت کی وجہ سے وہ انھیں برداشت کرنے پر مجبور تھے۔
مسلمانوں کیلئے ولن اور انگریزوں کے لئے ہیرو کا کردار ادا کرنے والی اس شخصیت کی ذہانت اور فطانت کے سبھی معترف ہیں،کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
سیلز میں کامیابی کے راز
مصنف : برائن ٹریسی، قیمت:600 روپے
صفحات:224، ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)
سیلز یعنی مصنوعات کی فروخت وہ کام ہے جس سے کاروباری دنیا کی آن بان شان قائم و دائم ہے ، کیونکہ مصنوعات اگر فروخت ہی نہیں ہوں گی تو نہ نئی مصنوعات تیار کی جائیں گی اور نہ اس سے جڑے افراد کو روزگار حاصل ہو گا ، گویا پوری کاروباری دنیا جام ہو کر رہ جائے گی۔
اس لئے سیلز کاروباری دنیا کی سب سے اہم اور بنیادی اکائی ہے جو اسے آگے بڑھاتی ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ سیلز مین کاروباری دنیا کے لئے سب سے اہم فرد ہے جس کی حرکت سے برکت ہوتی ہے ۔ سیلز میں کیسے کامیابی حاصل کی جائے یہ ہر کوئی جاننا چاہتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب اسی مقصد کے لئے لکھی گئی ہے ۔
دنیا بھر کے اداروں کو سیلز ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی مصنوعات کو فروخت کر سکے گویا سیلز کی دنیا میں ہر وقت روزگار موجود ہے مگر اس سے وابستہ ہونے والے فرد نے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کامیاب سیلز مین ہے ۔
اس کتاب میں ایسے بڑے آسان طریقے بتائے گئے ہیں کہ سیلز مین کو مصنوعات کی فروخت کے لئے کیا کرنا چاہیے خاص طور پر بڑی کامیابی کیسے حاصل ہو سکتی ہے ۔
مصنف کا طریقہ استدلال بہت خوب ہے جس سے قاری کو اہم نقاط کو سمجھنے میں بڑی آسانی رہتی ہے ۔ کتاب کو موضوعات کے حوالے سے دس مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ، آخری باب میں سیلز میں کامیابی کے دس مستند گر بھی بتائے گئے ہیں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
: نقوش شبلی
مصنف : ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی، قیمت : درج نہیں
ناشر : قلم فاؤنڈیشن ، بینک سٹاپ ، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ ۔ رابطہ
رابطہ:03000515101
علامہ شبلی نعمانی اپنے عہد کے نامور ترین عالم و مصنف ، ادیب و انشاپرداز ، نقاد اور سیرت نگار تھے۔ صرف یہی نہیں ، وہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے علم بردار اور مفکر و دانش ور بھی تھے۔
انھوں نے ایک طرف مسلمانوں کی ذہنی و فکری بیداری میں اہم کردار ادا کیا ، دوسری طرف علمی میدان میں مستشرقین کا خصوصیت سے مقابلہ کیا ۔ ان کے دو شاندار کارنامے ' ندوۃ العلما ' اور ' دارالمصنفین ' کی صورت میں اب بھی موجود ہیں ۔ جو لوگ ان اداروں سے واقف ہیں ، وہ ان کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔
زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے علامہ شبلی کی جامع کمال شخصیت کے متعدد نئے پہلوؤں اور گوشوں کو شامل کیا ہے ۔ یہ مجموعی طور پر اٹھارہ مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے ۔ آغاز میں علامہ شبلی کے بچپن اور تعلیم کا احوال بیان کیا گیا ہے ۔
ایسی معلومات فراہم کی گئی ہیں جو اس سے پہلے منظر عام پر نہیں آئی تھیں ۔ ایک باب میں ان کے علمی ، ادبی اور فکری سرمایہ کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔
غالب ، نواب محسن الملک ، ڈپٹی نذیر احمد ، علامہ اقبال ، عطیہ فیضی جیسی شخصیات کے حوالے سے علامہ شبلی کے تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ علامہ شبلی اور عطیہ فیضی کے باہمی تعلقات کے نئے گوشے دکھائے گئے ہیں اور بعض غلط معلومات کا ابطال کیا گیا ہے ۔ یہ ایک دلچسپ باب ہے ۔
سرسید احمد خان اور علامہ شبلی کے حوالے سے بھی حقائق پیش کئے گئے ہیں ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ علامہ شبلی سرسید کے مدمقابل تھے اور بعض نے کہا کہ وہ ان کے پروردہ تھے ، حالانکہ معاملہ اس سے مختلف ہے ۔
اگرچہ سرسید شبلی کے محسن تھے لیکن علامہ شبلی کی اپنی علمی تابانی بھی خوب تھی ۔ اس حوالے سے مصنف نے کتاب میں تفصیل سے گفتگو کی ہے جو دراصل ان کے مقالات و مضامین ہیں ۔ انھوں نے کتاب میں مزید کئی موضوعات پر بحث کی ہے ۔
کتاب میں علامہ شبلی کی چند غیر مدون تحریریں ، نو دریافت 36 خطوط بھی شامل ہیں ۔ یقیناً یہ کتاب علامہ شبلی کو مزید جاننے کے لئے نہایت اہم ذریعہ ثابت ہو گی ۔
''اندرے ناں پینڈا''
ڈاکٹر محمد صغیر خان کا سفر نامہ ''اندرے ناں پینڈا'' پہاڑی زبان میں لکھا گیا پہلا سفرنامہ ہے ۔ اس سے قبل پہاڑی زبان میں کوئی سفر نامہ ''پینڈا'' نہیں لکھا گیا ۔
اگرچہ یہ بہت پرانی زبان ہے لیکن ایک لمبے عرصے سے یہ زبان صرف ''بولی '' کی حد تک محدود تھی تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے پہاڑی زبان میں لکھنے اور پڑھنے کا رجحان دیکھنے میں آیا جو اب کافی زیادہ بڑھ چکا ہے ۔
مذکورہ سفرنامے کی دو خاصیتیں ہیں ۔ پہلی یہ کہ 'پہاڑی ' زبان میں لکھا گیا ہے ، دوسری اور اہم یہ خاصیت ہے کہ سفرنامہ منقسم ریاست جموں و کشمیر کی تینوں اکائیوں کے سفر پر مشتمل ہے ۔ تقسیم ریاست کے بعد اس کے علاوہ کوئی بھی سفرنامہ ریاست کی تینوں اکائیوں کے سفر پر مشتمل نہیں ہے ۔
سفر نامہ ایک بنیادی تاریخی حوالہ ہوتا ہے اسی طرح اس سفر نامے سے90 کی دہائی میں گلگت کی سیاسی صورتحال بالخصوص وہاں ریاست کے معروضی حالات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ نیلم اور سماہنی کے سفر پڑھ کر وہاںکے آثار قدیمہ کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ یہ ریاست کسی قدیم تہذیب کا حصہ رہی ہے ۔
خونی لکیر کے اس پار جو علاقہ انڈیا کے انتظام میں ہے وہاں جموں کا سفر نامہ پڑھ کر تقسیم ریاست جموں کشمیر کا دکھ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی ریاست کے شہریوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے والے علاقے میں جانے کے لئے سینکڑوں میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور دو ریاستوں کے اجازت ناموں اور سخت قدغنوں میں سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی اس سفرنامے میں کئی اور مقامات پر بھی تقسیم اور غلامی کا دکھ نمایاں ہے ۔ مثلاً ٹیٹوال اور دریائے نیلم کا ذکر کرتے ہوئے مصنف کے کشمیر کی تقسیم کے بارے میں جذبات اور وسائل سے بے اختیار ہونے پر احساس غلامی واضح نظر آتا ہے ۔ یہ کتاب قاری کو اس طرح جوڑے رکھتی ہے جیسے وہ خود سفر کر رہا ہو اور یہ سارے واقعات اس کے ساتھ پیش آ رہے ہوں ۔
ڈاکٹر محمد صغیر خان راولاکوٹ میں پروفیسر ہیں یعنی سرکاری ملازم ہیں ، اس کے باوجود انہوں نے ہمت کی اور اپنے احساسات و جذبات کا کھل کر اظہار کیا جو قابل ستائش ہے ۔ اس سے قبل بھی وہ پہاڑی زبان میں کئی کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں نظم اور افسانہ بھی شامل ہیں ۔
'' اندرے ناں پینڈا '' پہاڑی بولنے والوں اور ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد میرے لئے جو سب سے حیرت انگیز بات تھی کہ کتاب میں جس ''پینڈے'' ( سفر ) کا ذکر ہوا ، اسے طے کیے ہوئے کم و بیش ڈیڑھ سے اڑھائی دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اس دوران میں پیش آئے واقعات یوں محسوس ہوتے ہیں جیسے حال ہی میں رونما ہوئے ہوں ۔
کتاب میں ایک باب ''پہاڑی ڈکشنری'' پر بھی ہونا چاہیے تھا جس میں ''پہاڑی'' زبان کے کم استعمال ہونے والے یا قدیم الفاظ کے معانی درج ہوتے ۔ اس سے قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ۔
ہری یوپیا ... امن و آشتی کو ترستے انسان کا خواب
بدامنی، آلودگی اور شور شرابے سے بھری اس دنیا سے تنگ آئے ہوئے لوگ بے شمار ہیں ۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ اچانک ایک ایسی دنیا کا دروازہ کھلے جہاں نفاست ہو ، حسن انتظام ہو ، محبت ہو، سکون ہو ... اور وہ اس خوبصورت دنیا میں داخل ہو جائیں۔ ' ہری یوپیا ' ایسی ہی ایک خوبصورت دنیا ہے۔
وہاں جانے کے لئے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قریباً چھ ہزار سال پہلے کے دَور میں جانا ہوگا ۔ آج کے پاکستانی شہر ساہیوال سے قریباً 24 کلومیٹر دُور ۔ اس وقت یہ خوبصورت دنیا ساڑھے تین سو ایکڑ سے کچھ زائد رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ آج کی دنیا میں اسے ایک ' بڑا گاؤں' ہی کہا جا سکتا ہے تاہم وہ ایک مکمل تہذیب تھی۔
بے شمار لوگ ایسی دنیاؤں میں زندگی گزارنا چاہتے ہیںکہ وہ دنیائیں خودغرضی، نفرت اور ہلاکت خیزی سے پاک ، صاف و شفاف تھیں۔ تب تحمل اور برداشت تھی، ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، ہنسنے کھیلنے کا کلچر تھا۔
اس دنیا کے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے خلاف سوچنے اور لڑنے بھڑنے کا وقت نہیں تھا، بس ! وہ سورج چڑھتے تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لئے کام شروع کرتے تھے، سورج ڈوبنے تک ان کی دنیا یونہی رنگ رنگیلی رہتی تھی۔
اس کے نتیجے میں سرسوتی اور ایرا وتی کے دریا بھی ہنستے گاتے بہتے چلے جاتے تھے، ہر سو ہریالی کی چادر بچھی رہتی تھی، جنگلوں میں مور ناچتے تھے۔ معبد ، پروہت ، مقدس گیت، سنگیت، خاک اڑاتے رتھ، شیش ناگ اور مقامی مٹی میں گندھے ہوئے کردار۔
وقت ملے تو اس تہذیب کے آثار دیکھنے ضرور جائیے گا ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ساہیوال سے چوبیس کلومیٹر دوری پر صرف آثار ہی ملیں گے البتہ یہ پوری تہذیب زندہ و تابندہ ملے گی' ہری یوپیا ' ناول کی صورت میں، جس کی مصنفہ محترمہ حنا جمشید ہیں۔
وہ محقق ، نقاد ، مترجم ،کالم نگار ، افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کی تعلیم حاصل کی ، پی ایچ ڈی کی ، پھر وہ تحقیق کے میدان میں اترگئیں ۔ ایک ماہر آثار قدیمہ کی طرح ہزاروں سال پرانی تہذیب کا کھوج لگایا ، اور پھر اس تہذیب کو زندہ و تابندہ کر دیا ۔
ساڑھے آٹھ ہزار سال پہلے کی یہ دنیا ، پختہ مٹی اور پکی ہوئی سرخ اینٹوں سے تعمیر شدہ ، دور فاصلے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں کئی ٹیلے ہیں اور ہر ٹیلے کی الگ حفاظتی دیوار ۔ ٹیلوں کے اس مجموعے کے اردگرد ایک الگ دیوار تھی جس میں ایک شاندار بلند قامت مرکزی دروازہ تھا ، جس کی ہیبت دیکھنے والوں کو گنگ کر دیتی تھی۔ ایراوتی کی ندی کے کنارے ، ایک چھوٹی سی بستی سے شروع ہونے والی کہانی اسی پرشکوہ مرکزی دروازے کے ذریعے ' ہری یوپیا ' میں داخل ہوتی ہے، وہاں زندگی کے مختلف رنگ بکھیرتی ہے جنھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں :
''سچ تو یہ ہے کہ ہری یوپیا میرا وہ خواب ہے، جو ہڑپا کے کھنڈرات میں، اپنی جاگتی آنکھوں سے میں نے بارہا دیکھا اور محسوس کیا ہے۔
آپ اسے عصر حاضر میں امن و آشتی کو ترستے انسان کا خواب بھی کہہ سکتے ہیں، جو ماضی میں بارہا فنا سے نبردآزما ہوا مگر اپنی جرات ، ہمت اور اٹوٹ حوصلے سے مٹ جانے والی تہذیب کے سینہ نما مدفن پر ایک نئی تہذیب بسا کر اپنے ثبات کا ببانگ دہل اعلان کرتا رہا ''۔
آج ڈاکٹر حنا جمشید یہ خوبصورت خواب آج کے انسانوں کو دکھاتی ہیں اور انھیں لے کر ایک خوبصورت دنیا میں اتر جاتی ہیں۔ اس کہانی کا مطالعہ میرے لئے ایک نیا اور خوبصورت تجربہ ثابت ہوا ۔ آپ بھی ضرور پڑھیے گا۔ ' بک کارنر ' نے اسے نہایت خوبصورت سرورق کے ساتھ ، شاندار انداز اور مجلد صورت میں پیش کیا۔ قیمت ، 1250 روپے۔ ناشر : بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882