پاکستان کی خارجہ پالیسی کتنی آزاد
قائد ملت نے امریکی صدر سے کہا ’’ہم نے کشمیر کا جو حصہ آزاد کرایا ہے وہ آپ کی مدد کے بغیر آزاد کرایا ہے‘‘
پاکستان کی خارجہ پا لیسی کے اصول قائداعظم نے آزادی سے قبل ہی واضح کر دیئے تھے، اور اس کا اعلانیہ اظہار اُ نہوں نے مختلف موقعوں پر آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کیا تھا۔ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کوآزاد اور متوازن رکھنا چاہتے تھے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تشکیل کے بعد نظریاتی طور پر وہ اسلامی ملکوں سے قریبی اور دوستانہ تعلقات کے خواہاں تھے اُن کی اس حوالے سے مختلف تقاریر اور ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عالمی سطح پراسلامی ممالک کے اتحاد کا ایک بلاک چاہتے تھے تاکہ مسلم ممالک مل کر بہتر انداز میں اپنا تحفظ کر سکیں۔
اُن کے سامنے ہی اسرائیل کی تشکیل ہو رہی تھی جس کو روکنے کے لیے قائد اعظم نے کوششیں کرتے ہو ئے دولت ِ مشترکہ خصوصاً بر طانیہ کو کہا تھا کہ فسطین میں اسرائیل کے قیام کا فیصلہ مستقبل میں پورے مسلمانوں اور خصوصاً عرب ملکوں کے لیے مستقل تباہی اور بر بادی کا سبب ہو گا۔
اسی طرح اُنہوں نے نہ صرف کشمیر پر مضبوط مو قف اختیار کیا تھا بلکہ وہ جنگ بندی کے بھی قائل نہیں تھے اور بعض شواہد ایسے ہیں کہ جب قائدا عظم 14 مئی 1948 ء سے 11 ستمبر1948 تک اپنی تپ دق کی بیماری کے بہت بڑھ جا نے کی وجہ سے زیارت،، بلوچستان ،،میں مقیم تھے تو یہاں آنے والے اہم افراد سے مسئلہ کشمیر پر اکثر ناراض ہوتے اور غصے میں آتے تھے۔
اُنہوں نے انڈونیشیا کے مسئلے پر بھی انڈونیشیا اور سیکارنوکی پُر زور حمایت کی تھی۔ گیارہ ستمبر1948 ہی کو وہ زیارت سے کراچی روانہ ہو ئے اور کراچی پہنچتے ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بھارت کی آزدی کے فوراً بعد ہی امریکہ سے خصوصی تعلقات کا آغاز کرتے ہو ئے سابق سوویت یو نین سے پہلے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ نہرو خود کو لبرل ، جمہوریت پسند اور خارجہ پالیسی کے اعتبا ر سے غیر جانبدار قرار دیتے تھے اور غیرجانبدار ممالک کی تحریک میں مصر کے صدرجمال ناصر انڈونیشیا کے صدر سیکار نو،چیکوسلاوکیہ کے صدرمارشل ٹیٹو اور چین کے وزیر اعظم چواین لائی کے ساتھ ایک اہم لیڈر تسلیم کئے جاتے تھے۔
اُنہوں نے 1927 ء اپنی بیوی کے ہمراہ سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب کے دس سالہ جشن میں شرکت کی تھی اور جہاں تک تعلق چین کا ہے تو 1949 ء میں چین کی آزادی کے فوراً بعد بھارت اور چین کے تعلقات بہت ہی اچھے تھے۔ اُس زمانے میں ہند ، چین بھائی بھائی کا نعرہ دُنیا میں آبادی کے لحاظ سے اِ ن پہلے دو بڑے ملکوں کے ساتھ پوری دنیا میں گو نجتا تھا۔ یوں بھارت نے عالمی برادری سے اپنے تعلقات پاکستان کے مقابلے کافی زیادہ بہتر کر لیئے تھے۔
موہن داس گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو دو نوں ہی اسرائیل کے قیام کے مخالف تھے اور اِن دونوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا اگرچہ قائد اعظم کی وفات کے بعد پوری مسلم لیگ میں قائداعظم کی طرح ذہین و فطین ،معاملہ فہم اور مستقبل کے اندیشوں اور امکانات کا ادرا ک رکھنے والا کو ئی نہیں تھا اور بد قسمتی سے حکومت اور بیور کریسی میں غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسی شخصیات کی یہ کوشش تھی کہ پاکستان امریکی بلاک میں شامل ہو جائے، مگر یہ حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت تک پاکستان کی کوشش رہی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد اور خود مختار اور قائد اعظم کے واضح کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔
اس لیے جب وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو طویل دورانیے کے اس دورے میں امریکی صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان سے جب پاکستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف امریکی فوجی اڈوں کی بات کی تو لیاقت علی خان نے سختی سے انکار کیا اور گفتگو میں یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکی امداد اور حمایت کے بغیرآزاد کروایا ہے۔
یہ رویہ امریکہ کے لئے قابل قبول نہ تھا۔ امریکی دورے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد وزیراعظم نوابزاہ لیاقت خان کو شہید کر دیا گیا۔ راستے کا کانٹا صاف ہوا تو 1958 ء سے پہلے ہی وزیراعظم حسین شہید سہر وردی کے زمانے میں پشاور کے قریب بڈابیر کے ہوائی اڈے کو سوویت روس کی جاسو سی کے لیے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی ہم سوویت روس اور چین کے خلاف امریکہ ، بر طانیہ کے زیر قیادت مغربی بلاک میں ایران اور ترکی کے ساتھ سیٹو اور سینٹو کے رُکن بھی بن۔ اس اقدام کی مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنماوں نے شدید مخالفت کی تھی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب سرد جنگ زور وں پر تھی۔
مشرقی پاکستان میں مولانا عبد الحمید بھاشانی چین نواز تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے ہمسایہ چین کے خلاف پاکستان کسی امریکی مغربی بلاک میں شامل ہو۔ یہاں مغربی پاکستان میںاُس وقت کی نیشنل عوامی پارٹی ،،نیپ،،کے ، باچا خان ، ولی خان ، سمیت دیگر لیڈر بھی پاکستان کی سیٹو، سینٹو میں شرکت کے خلاف تھے۔
اکتوبر 1958 ء میں ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور اور پھر1967 ء تک ملک میں سیاسی سر گرمیاں تقریباً منجد ہوگئیں۔ یہ پاکستان کی مجبور ی بھی تھی کہ ملک دو قومی نظریہ پر قائم ہوا تھا لہذا کیمونسٹ، سیکولر چین اور سویت روس کے خلاف منفی تاثر پیدا کرنا آسان تھا۔
یوں خطے میں اِن تین بڑے ہمسایہ ملکوں کے درمیان پاکستان کو اپنے بہتر تحفظ کے لیے امریکہ کی ضرورت تھی اور امریکہ کو جنوبی ایشیا میں بہترین جغرافیائی اسٹرٹیجک پوزیشن کے حامل ملک پاکستان کی ضرورت تھی۔
بد قسمتی یہ رہی کہ پاکستان نے اپنی اِس اسٹر ٹیجک پوزیشن کا فائد ہ نہیں اٹھایا بلکہ یہاں برسراقتدار شخصیات کوتاہ اندیشی کی وجہ سے پاکستا ن کو اس کا نقصان ہوا۔ امریکہ سے تعلقات کے ساتھ ہم اپنی خارجہ پالیسی میں وہ توازن قائم نہ رکھ سکے جو لیاقت علی خان کے دور تک قائم تھا۔
اس لحاظ سے لیاقت خان پر بھارتی پروپگنڈے کی بنیاد پر اب تک تنقید کی جاتی ہے کہ سابق سوویت روس نے لیاقت علی خان کو سوویت یونین کا دورہ کر نے کی دعوت دی تھی مگر لیاقت علی خا ن نے اس دعوت نامے کو اہمیت نہ دیتے ہو ئے امریکہ کا دورہ کیا، حالانکہ حقائق اس سے بالکل ہی مختلف ہیں، جو اب معلومات تک آسانی سے رسائی کے باعث سامنے آچکے ہیں۔
سوویت یونین اشتراکی بلاک کا سر براہ تھا اور نہرو نے بھی غیر جانبدارملکوں کی تنظیم میں اہم حیثیت اختیار کر لی تھی اور ان دونوں گروپوں کے ملکوں نے چین کو تسلیم کیا ہواتھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اسٹالن کی وفات کے بعد سوویت روس کی لیڈر شپ چین کے رہنما ماوزے تنگ اور چین کو ایک خاص دباؤ میں رکھنے کی پالیسی کو اپنائے ہو ئے تھی اور یہی پالیسی بھارت کے لئے بھی تھی۔
آزادی کے بعد برطانیہ نے یہ چاہا کہ نو آبادیات میں رہنے والے ممالک اپنے طور پر آزادانہ فیصلہ کر یں کہ وہ بر طانوی دولتِ مشترکہ میں رہنا چاہتے ہیں یا نہیں تو سوویت یونین کی توقع کے خلاف بھارت میں نہرو نے اپنی اسمبلی میں یہ تاثر دیا کہ برطانوی دولتِ مشترکہ میں شامل ہو نا بھارت کی آزادانہ خارجہ پالیسی کے حق میں ہو گا کیونکہ یہ دولتِ مشترکہ ایک غیر عسکری عالمی تنظیم ہے۔
اس موقع پرروس نے اگر چہ بھارت کے وزیرعظم سے براہ راست تقاضہ تو نہیں کیا کہ بھارت بر طانوی دولت مشترکہ میں شامل نہ ہو مگر بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیئے سوویت یونین نے یہ چال چلی کہ پاکستا ن کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو سوویت کے سر کاری دورے کی دعوت دے دی۔
جوزف اسٹالن کا یہ خیال تھا کہ اس طرح پنڈت جواہر لال نہرو برطانوی دولت ِ مشترکہ میں شامل ہو نے کا منصوبہ ترک کر دیں گے اور سوویت یونین بھی دعوت کو منسوخ کردے گا۔ مگر نہرو نے اسٹالن کی اس سیاسی چال کو دولت ِ مشترکہ میں شامل ہو کر ناکام کر دیا۔
اب سوویت یو نین کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بھارت کو مزید ناراض نہ کرئے۔ دوسری جانب امریکہ پاکستا ن کی اسٹرٹیجیکل پوزیشن سے بھر پور استفادہ کا منصوبہ بنا چکا تھا اس لیئے امریکہ کے صدر نے وزیر اعظم لیا قت علی خا ن کو دورے کی دعوت دے دی جس کو وزیر اعظم لیا قت علی نے سوویت یونین کے دورے کی دعوت کی طرح قبول کر لیا۔
اِن دونوں ملکوں کے دوروں کی دعوتوں میں فرق یہ تھاکہ امریکہ صدر کی جانب سے دورے کی دعوت کے فوراً بعد عالمی خارجی تعلقات کے اصولوں کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے دفاتر خارجہ نے خط و کتاب شروع کر دی تھی اور وزیراعظم کے طویل امریکی دورے کا شیڈول بھی دونوں ملکوں کے سفیروں کی مشاورت سے طے پا گیا جب کہ سوویت روس کے اسٹالن کی جانب سے سوویت یونین کے سرکاری دورے کی دعوت کے بعد سوویت یونین نے کو ئی رابط نہیں کیا اور سوویت یونین کی جانب سے سردمہری رہی جب کہ پاکستانی دفترِ خارجہ متواتر سوویت یونین سے رابطے کی کوششیں کرتا رہا۔
16 اکتوبر1951 ء کو راولپنڈی میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد علاقائی اور عالمی سطح پر یہ پروپیگنڈ ہ کیا جاتا رہا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے یہ غلطی کی کہ اُنہوں نے سوویت یونین کے دورے کو ٹھکرا کر امریکہ کا دورہ کیا۔ واضح رہے کہ کوریا میں سرد جنگ کا سب سے بڑ ا معرکہ امریکی اور سوویت روس کے درمیان جنگ کی صورت میںہوا تھا یہ جنگ 25 جون 1950 ء سے 27 جولائی 1953 ء جاری رہی اور اس کے اختتام پر کوریا جنوبی اور شمالی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
اُس وقت بھی اگرچہ یہ تقاضہ ہوا تھا کہ پاکستان اس جنگ میں امریکی بلاک کا ساتھ دے مگر اُس وقت خصوصا مشرقی پاکستان کے مسلم لیگی لیڈروں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی تھی۔
ستمبر 1954 ء میں جب SEATO ساوتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن تشکیل پایا تو پاکستان اس دفاعی نوعیت کے معاہدے میں آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ، فلپائن ،فرانس، برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ شامل ہو گیا سیٹو کے ایک سال کے اندر یعنی 1955 ء میں سینٹو CENTO سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن 'جسے بغداد پیکٹ بھی کہا جاتا ہے' وجود میںآیا جس میں پاکستا ن ، ایران ،عراق اور ترکی شامل تھے یوں پاکستان اب دنیا میں بھارت کی طرح غیر جانبدارنہ ملک نہیں رہا تھا۔
غالباً اُس وقت یہ پا کستان کی مجبوری بھی تھی کہ اس کے قرب میں تین بڑے ملک بھارت ، چین ، اور سوویت یونین پا کستا ن کے دوست نہیں تھے اور پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے بہرحال ان کے مخالف گروپ کی طرف جانا پڑا جب کہ دوسری جانب نیٹوNATO-Narth Atlantic Treaty Organisation جو1949 ء میں وجود میں آئی تھی اس میں سابق سوویت یونین نے یورپ کے امن کے لیے شمولیت کی درخواست کی تھی مگر نیٹو ممالک کی جانب سے شمولیت کی مخالفت کی گئی تھی۔
9 مئی 1955 ء کو جب مغربی جرمنی کو نیٹو میں شامل کیا گیا تو پھر روس نے بھی 15 جولائی 1955 ء کو اپنے اشتراکی ممالک کے ساتھ وارسا پیکٹ کا ایک دفاعی معاہد ہ کرلیا۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی مماک کے ساتھ اتحاد کے باوجود ،خود انحصاری کی بنیاد پر ترقی نہ کر سکا جب کہ بھارت امریکہ اور سوویت یونین کے دونوں بلاکوں سے وابستہ ممالک سے غیر جانبدارانہ ملک کی حیثیت سے دفاعی ، اقتصادی شعبوں کے علاوہ صنعت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون حاصل کرتا خود انحصاری کی بنیادوں پر ترقی کرتا رہا۔
اس دوران اگرچہ پاکستان کو امریکہ ، برطانیہ کی جانب سے امداد دی جاتی رہی مگر رفتہ رفتہ ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہو تا گیا۔ واضح رہے کہ 1949-50 ء کے قومی سالانہ بجٹ سے لیکر 1971-72 ء کے بجٹ تک تمام قومی میزانیے خسارے کی بجائے، بچت کے بجٹ تھے۔
برصغیر کی تقسیم17 جولائی 1947 کے قانون تقسیم ہند کے موقع پرمشرقی پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے گور داسپور ، فیروزپور اور زیرہ کے علاقوں کو بھارت میں شامل کر نے کا مقصد یہ تھا کہ آزادی کے فوراً بعد کشمیر پر بھارتی قبضہ ممکن ہو جائے اور بھارت کو افغانستان پاکستان اور چین کی ہمالیائی سرحدوں پر ایک نہایت اسٹرٹیجک علاقہ میسر آ جائے۔
مگر قائد اعظم نے فوراً ہی اس منصوبے کو قبائلی لشکر اور کشمیری مجاہد ین کے تعاون سے جزوی طور پر ناکام بنا دیا۔ 11 ستمبر1948 ء کو قائد اعظم کی وفات کے بعد نہرو نے اقوام متحدہ کا سہارہ لیتے ہو ئے لداخ کے علاقے کواپنے قبضے میں کر لیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم نے بھارتی اور برطانوی منصوبے کو جزوی طوری پر ناکام کر دیا۔
کیونکہ اگر بھارت پورے کشمیر پر قبضہ کر کے افغانستان کے ساتھ سرحد حاصل کر لیتا تو پاکستان کے لئے بہت مشکلات پیدا ہو جاتیں۔
1956 ء میں پاکستان نے اپنا پارلیماانی آئین بنالیا، مگراکتوبر1958 ء میں ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ صدر جنرل ایوب خان کے تقریباً دس سالہ دور کے پہلے پانچ سال ملک میں ترقی اور خوشحالی رہی مگر اسی دوران عالمی سطح پر امریکی اور سوویت یو نین کے گروپوں کے درمیان سرد جنگ اپنی انتہاؤں پر پہنچ گئی تھی اور پاکستا ن کسی نہ کسی اعتبار سے امریکہ کی حمایت کر تا رہا۔
1958 ء سے ذرا پہلے ہی پاکستان نے پشاور کے نزدیک بڈابیر پر امریکہ کو روس کے خلاف فضائی فوجی اڈا دے دیا تھا جہاں سے انتہائی بلندی پر پروز کرنے والے امریکی U-2 جاسوس طیارے اڑان بھرتے اور روس پر پرواز کرتے ہوئے اُس کی اہم تنصیبا ت کی تصاویر لیتے تھے۔ اس اقدام نے روس پاکستان تعلقات کو بُری طرح سے متاثر کیا۔
1962 ء میں روس نے کیوبا میں ایٹمی میزائیل نصب کر دئیے جن کی زد میں امریکہ آگیا جس پر امریکی صدر کینیڈی نے روس کے برزنیف کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دے دی اور پھر پوری دنیا پر 16 اکتوبر1962 ء سے 28 اکتوبر 1962 ء تیرادن بہت بھاری گذرے۔ آخر روس نے کیوبا سے اور امریکہ نے اٹلی اور ترکی سے میزائیل ہٹا لیئے۔ (جاری ہے)
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تشکیل کے بعد نظریاتی طور پر وہ اسلامی ملکوں سے قریبی اور دوستانہ تعلقات کے خواہاں تھے اُن کی اس حوالے سے مختلف تقاریر اور ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عالمی سطح پراسلامی ممالک کے اتحاد کا ایک بلاک چاہتے تھے تاکہ مسلم ممالک مل کر بہتر انداز میں اپنا تحفظ کر سکیں۔
اُن کے سامنے ہی اسرائیل کی تشکیل ہو رہی تھی جس کو روکنے کے لیے قائد اعظم نے کوششیں کرتے ہو ئے دولت ِ مشترکہ خصوصاً بر طانیہ کو کہا تھا کہ فسطین میں اسرائیل کے قیام کا فیصلہ مستقبل میں پورے مسلمانوں اور خصوصاً عرب ملکوں کے لیے مستقل تباہی اور بر بادی کا سبب ہو گا۔
اسی طرح اُنہوں نے نہ صرف کشمیر پر مضبوط مو قف اختیار کیا تھا بلکہ وہ جنگ بندی کے بھی قائل نہیں تھے اور بعض شواہد ایسے ہیں کہ جب قائدا عظم 14 مئی 1948 ء سے 11 ستمبر1948 تک اپنی تپ دق کی بیماری کے بہت بڑھ جا نے کی وجہ سے زیارت،، بلوچستان ،،میں مقیم تھے تو یہاں آنے والے اہم افراد سے مسئلہ کشمیر پر اکثر ناراض ہوتے اور غصے میں آتے تھے۔
اُنہوں نے انڈونیشیا کے مسئلے پر بھی انڈونیشیا اور سیکارنوکی پُر زور حمایت کی تھی۔ گیارہ ستمبر1948 ہی کو وہ زیارت سے کراچی روانہ ہو ئے اور کراچی پہنچتے ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بھارت کی آزدی کے فوراً بعد ہی امریکہ سے خصوصی تعلقات کا آغاز کرتے ہو ئے سابق سوویت یو نین سے پہلے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ نہرو خود کو لبرل ، جمہوریت پسند اور خارجہ پالیسی کے اعتبا ر سے غیر جانبدار قرار دیتے تھے اور غیرجانبدار ممالک کی تحریک میں مصر کے صدرجمال ناصر انڈونیشیا کے صدر سیکار نو،چیکوسلاوکیہ کے صدرمارشل ٹیٹو اور چین کے وزیر اعظم چواین لائی کے ساتھ ایک اہم لیڈر تسلیم کئے جاتے تھے۔
اُنہوں نے 1927 ء اپنی بیوی کے ہمراہ سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب کے دس سالہ جشن میں شرکت کی تھی اور جہاں تک تعلق چین کا ہے تو 1949 ء میں چین کی آزادی کے فوراً بعد بھارت اور چین کے تعلقات بہت ہی اچھے تھے۔ اُس زمانے میں ہند ، چین بھائی بھائی کا نعرہ دُنیا میں آبادی کے لحاظ سے اِ ن پہلے دو بڑے ملکوں کے ساتھ پوری دنیا میں گو نجتا تھا۔ یوں بھارت نے عالمی برادری سے اپنے تعلقات پاکستان کے مقابلے کافی زیادہ بہتر کر لیئے تھے۔
موہن داس گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو دو نوں ہی اسرائیل کے قیام کے مخالف تھے اور اِن دونوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا اگرچہ قائد اعظم کی وفات کے بعد پوری مسلم لیگ میں قائداعظم کی طرح ذہین و فطین ،معاملہ فہم اور مستقبل کے اندیشوں اور امکانات کا ادرا ک رکھنے والا کو ئی نہیں تھا اور بد قسمتی سے حکومت اور بیور کریسی میں غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسی شخصیات کی یہ کوشش تھی کہ پاکستان امریکی بلاک میں شامل ہو جائے، مگر یہ حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت تک پاکستان کی کوشش رہی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد اور خود مختار اور قائد اعظم کے واضح کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔
اس لیے جب وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو طویل دورانیے کے اس دورے میں امریکی صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان سے جب پاکستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف امریکی فوجی اڈوں کی بات کی تو لیاقت علی خان نے سختی سے انکار کیا اور گفتگو میں یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکی امداد اور حمایت کے بغیرآزاد کروایا ہے۔
یہ رویہ امریکہ کے لئے قابل قبول نہ تھا۔ امریکی دورے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد وزیراعظم نوابزاہ لیاقت خان کو شہید کر دیا گیا۔ راستے کا کانٹا صاف ہوا تو 1958 ء سے پہلے ہی وزیراعظم حسین شہید سہر وردی کے زمانے میں پشاور کے قریب بڈابیر کے ہوائی اڈے کو سوویت روس کی جاسو سی کے لیے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی ہم سوویت روس اور چین کے خلاف امریکہ ، بر طانیہ کے زیر قیادت مغربی بلاک میں ایران اور ترکی کے ساتھ سیٹو اور سینٹو کے رُکن بھی بن۔ اس اقدام کی مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنماوں نے شدید مخالفت کی تھی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب سرد جنگ زور وں پر تھی۔
مشرقی پاکستان میں مولانا عبد الحمید بھاشانی چین نواز تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے ہمسایہ چین کے خلاف پاکستان کسی امریکی مغربی بلاک میں شامل ہو۔ یہاں مغربی پاکستان میںاُس وقت کی نیشنل عوامی پارٹی ،،نیپ،،کے ، باچا خان ، ولی خان ، سمیت دیگر لیڈر بھی پاکستان کی سیٹو، سینٹو میں شرکت کے خلاف تھے۔
اکتوبر 1958 ء میں ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور اور پھر1967 ء تک ملک میں سیاسی سر گرمیاں تقریباً منجد ہوگئیں۔ یہ پاکستان کی مجبور ی بھی تھی کہ ملک دو قومی نظریہ پر قائم ہوا تھا لہذا کیمونسٹ، سیکولر چین اور سویت روس کے خلاف منفی تاثر پیدا کرنا آسان تھا۔
یوں خطے میں اِن تین بڑے ہمسایہ ملکوں کے درمیان پاکستان کو اپنے بہتر تحفظ کے لیے امریکہ کی ضرورت تھی اور امریکہ کو جنوبی ایشیا میں بہترین جغرافیائی اسٹرٹیجک پوزیشن کے حامل ملک پاکستان کی ضرورت تھی۔
بد قسمتی یہ رہی کہ پاکستان نے اپنی اِس اسٹر ٹیجک پوزیشن کا فائد ہ نہیں اٹھایا بلکہ یہاں برسراقتدار شخصیات کوتاہ اندیشی کی وجہ سے پاکستا ن کو اس کا نقصان ہوا۔ امریکہ سے تعلقات کے ساتھ ہم اپنی خارجہ پالیسی میں وہ توازن قائم نہ رکھ سکے جو لیاقت علی خان کے دور تک قائم تھا۔
اس لحاظ سے لیاقت خان پر بھارتی پروپگنڈے کی بنیاد پر اب تک تنقید کی جاتی ہے کہ سابق سوویت روس نے لیاقت علی خان کو سوویت یونین کا دورہ کر نے کی دعوت دی تھی مگر لیاقت علی خا ن نے اس دعوت نامے کو اہمیت نہ دیتے ہو ئے امریکہ کا دورہ کیا، حالانکہ حقائق اس سے بالکل ہی مختلف ہیں، جو اب معلومات تک آسانی سے رسائی کے باعث سامنے آچکے ہیں۔
سوویت یونین اشتراکی بلاک کا سر براہ تھا اور نہرو نے بھی غیر جانبدارملکوں کی تنظیم میں اہم حیثیت اختیار کر لی تھی اور ان دونوں گروپوں کے ملکوں نے چین کو تسلیم کیا ہواتھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اسٹالن کی وفات کے بعد سوویت روس کی لیڈر شپ چین کے رہنما ماوزے تنگ اور چین کو ایک خاص دباؤ میں رکھنے کی پالیسی کو اپنائے ہو ئے تھی اور یہی پالیسی بھارت کے لئے بھی تھی۔
آزادی کے بعد برطانیہ نے یہ چاہا کہ نو آبادیات میں رہنے والے ممالک اپنے طور پر آزادانہ فیصلہ کر یں کہ وہ بر طانوی دولتِ مشترکہ میں رہنا چاہتے ہیں یا نہیں تو سوویت یونین کی توقع کے خلاف بھارت میں نہرو نے اپنی اسمبلی میں یہ تاثر دیا کہ برطانوی دولتِ مشترکہ میں شامل ہو نا بھارت کی آزادانہ خارجہ پالیسی کے حق میں ہو گا کیونکہ یہ دولتِ مشترکہ ایک غیر عسکری عالمی تنظیم ہے۔
اس موقع پرروس نے اگر چہ بھارت کے وزیرعظم سے براہ راست تقاضہ تو نہیں کیا کہ بھارت بر طانوی دولت مشترکہ میں شامل نہ ہو مگر بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیئے سوویت یونین نے یہ چال چلی کہ پاکستا ن کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو سوویت کے سر کاری دورے کی دعوت دے دی۔
جوزف اسٹالن کا یہ خیال تھا کہ اس طرح پنڈت جواہر لال نہرو برطانوی دولت ِ مشترکہ میں شامل ہو نے کا منصوبہ ترک کر دیں گے اور سوویت یونین بھی دعوت کو منسوخ کردے گا۔ مگر نہرو نے اسٹالن کی اس سیاسی چال کو دولت ِ مشترکہ میں شامل ہو کر ناکام کر دیا۔
اب سوویت یو نین کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بھارت کو مزید ناراض نہ کرئے۔ دوسری جانب امریکہ پاکستا ن کی اسٹرٹیجیکل پوزیشن سے بھر پور استفادہ کا منصوبہ بنا چکا تھا اس لیئے امریکہ کے صدر نے وزیر اعظم لیا قت علی خا ن کو دورے کی دعوت دے دی جس کو وزیر اعظم لیا قت علی نے سوویت یونین کے دورے کی دعوت کی طرح قبول کر لیا۔
اِن دونوں ملکوں کے دوروں کی دعوتوں میں فرق یہ تھاکہ امریکہ صدر کی جانب سے دورے کی دعوت کے فوراً بعد عالمی خارجی تعلقات کے اصولوں کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے دفاتر خارجہ نے خط و کتاب شروع کر دی تھی اور وزیراعظم کے طویل امریکی دورے کا شیڈول بھی دونوں ملکوں کے سفیروں کی مشاورت سے طے پا گیا جب کہ سوویت روس کے اسٹالن کی جانب سے سوویت یونین کے سرکاری دورے کی دعوت کے بعد سوویت یونین نے کو ئی رابط نہیں کیا اور سوویت یونین کی جانب سے سردمہری رہی جب کہ پاکستانی دفترِ خارجہ متواتر سوویت یونین سے رابطے کی کوششیں کرتا رہا۔
16 اکتوبر1951 ء کو راولپنڈی میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد علاقائی اور عالمی سطح پر یہ پروپیگنڈ ہ کیا جاتا رہا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے یہ غلطی کی کہ اُنہوں نے سوویت یونین کے دورے کو ٹھکرا کر امریکہ کا دورہ کیا۔ واضح رہے کہ کوریا میں سرد جنگ کا سب سے بڑ ا معرکہ امریکی اور سوویت روس کے درمیان جنگ کی صورت میںہوا تھا یہ جنگ 25 جون 1950 ء سے 27 جولائی 1953 ء جاری رہی اور اس کے اختتام پر کوریا جنوبی اور شمالی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
اُس وقت بھی اگرچہ یہ تقاضہ ہوا تھا کہ پاکستان اس جنگ میں امریکی بلاک کا ساتھ دے مگر اُس وقت خصوصا مشرقی پاکستان کے مسلم لیگی لیڈروں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی تھی۔
ستمبر 1954 ء میں جب SEATO ساوتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن تشکیل پایا تو پاکستان اس دفاعی نوعیت کے معاہدے میں آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ، فلپائن ،فرانس، برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ شامل ہو گیا سیٹو کے ایک سال کے اندر یعنی 1955 ء میں سینٹو CENTO سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن 'جسے بغداد پیکٹ بھی کہا جاتا ہے' وجود میںآیا جس میں پاکستا ن ، ایران ،عراق اور ترکی شامل تھے یوں پاکستان اب دنیا میں بھارت کی طرح غیر جانبدارنہ ملک نہیں رہا تھا۔
غالباً اُس وقت یہ پا کستان کی مجبوری بھی تھی کہ اس کے قرب میں تین بڑے ملک بھارت ، چین ، اور سوویت یونین پا کستا ن کے دوست نہیں تھے اور پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے بہرحال ان کے مخالف گروپ کی طرف جانا پڑا جب کہ دوسری جانب نیٹوNATO-Narth Atlantic Treaty Organisation جو1949 ء میں وجود میں آئی تھی اس میں سابق سوویت یونین نے یورپ کے امن کے لیے شمولیت کی درخواست کی تھی مگر نیٹو ممالک کی جانب سے شمولیت کی مخالفت کی گئی تھی۔
9 مئی 1955 ء کو جب مغربی جرمنی کو نیٹو میں شامل کیا گیا تو پھر روس نے بھی 15 جولائی 1955 ء کو اپنے اشتراکی ممالک کے ساتھ وارسا پیکٹ کا ایک دفاعی معاہد ہ کرلیا۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی مماک کے ساتھ اتحاد کے باوجود ،خود انحصاری کی بنیاد پر ترقی نہ کر سکا جب کہ بھارت امریکہ اور سوویت یونین کے دونوں بلاکوں سے وابستہ ممالک سے غیر جانبدارانہ ملک کی حیثیت سے دفاعی ، اقتصادی شعبوں کے علاوہ صنعت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون حاصل کرتا خود انحصاری کی بنیادوں پر ترقی کرتا رہا۔
اس دوران اگرچہ پاکستان کو امریکہ ، برطانیہ کی جانب سے امداد دی جاتی رہی مگر رفتہ رفتہ ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہو تا گیا۔ واضح رہے کہ 1949-50 ء کے قومی سالانہ بجٹ سے لیکر 1971-72 ء کے بجٹ تک تمام قومی میزانیے خسارے کی بجائے، بچت کے بجٹ تھے۔
برصغیر کی تقسیم17 جولائی 1947 کے قانون تقسیم ہند کے موقع پرمشرقی پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے گور داسپور ، فیروزپور اور زیرہ کے علاقوں کو بھارت میں شامل کر نے کا مقصد یہ تھا کہ آزادی کے فوراً بعد کشمیر پر بھارتی قبضہ ممکن ہو جائے اور بھارت کو افغانستان پاکستان اور چین کی ہمالیائی سرحدوں پر ایک نہایت اسٹرٹیجک علاقہ میسر آ جائے۔
مگر قائد اعظم نے فوراً ہی اس منصوبے کو قبائلی لشکر اور کشمیری مجاہد ین کے تعاون سے جزوی طور پر ناکام بنا دیا۔ 11 ستمبر1948 ء کو قائد اعظم کی وفات کے بعد نہرو نے اقوام متحدہ کا سہارہ لیتے ہو ئے لداخ کے علاقے کواپنے قبضے میں کر لیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم نے بھارتی اور برطانوی منصوبے کو جزوی طوری پر ناکام کر دیا۔
کیونکہ اگر بھارت پورے کشمیر پر قبضہ کر کے افغانستان کے ساتھ سرحد حاصل کر لیتا تو پاکستان کے لئے بہت مشکلات پیدا ہو جاتیں۔
1956 ء میں پاکستان نے اپنا پارلیماانی آئین بنالیا، مگراکتوبر1958 ء میں ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ صدر جنرل ایوب خان کے تقریباً دس سالہ دور کے پہلے پانچ سال ملک میں ترقی اور خوشحالی رہی مگر اسی دوران عالمی سطح پر امریکی اور سوویت یو نین کے گروپوں کے درمیان سرد جنگ اپنی انتہاؤں پر پہنچ گئی تھی اور پاکستا ن کسی نہ کسی اعتبار سے امریکہ کی حمایت کر تا رہا۔
1958 ء سے ذرا پہلے ہی پاکستان نے پشاور کے نزدیک بڈابیر پر امریکہ کو روس کے خلاف فضائی فوجی اڈا دے دیا تھا جہاں سے انتہائی بلندی پر پروز کرنے والے امریکی U-2 جاسوس طیارے اڑان بھرتے اور روس پر پرواز کرتے ہوئے اُس کی اہم تنصیبا ت کی تصاویر لیتے تھے۔ اس اقدام نے روس پاکستان تعلقات کو بُری طرح سے متاثر کیا۔
1962 ء میں روس نے کیوبا میں ایٹمی میزائیل نصب کر دئیے جن کی زد میں امریکہ آگیا جس پر امریکی صدر کینیڈی نے روس کے برزنیف کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دے دی اور پھر پوری دنیا پر 16 اکتوبر1962 ء سے 28 اکتوبر 1962 ء تیرادن بہت بھاری گذرے۔ آخر روس نے کیوبا سے اور امریکہ نے اٹلی اور ترکی سے میزائیل ہٹا لیئے۔ (جاری ہے)