آگ ہی آگ
پرائیویٹ ادارے کسی بھی قسم کی مراعات دینے کا حق دار اپنے آپ کو نہیں سمجھتے ہیں۔
ہم نے بارہا اپنے کالم کے ذریعے اربابِ اقتدار کو اس بات کی یاد دہانی کروائی کہ پرائیویٹ ملازمین کے حوالے سے قوانین کا نفاذ اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں چونکہ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے بھی پاکستان کے شہری ہیں، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں، انھیں بھی جینے کا حق ہے لیکن افسوس زندہ رہنے کے حق کو بھی ناانصافی کے ترازو میں تول کر چھین لیا جاتا ہے۔
سرکاری ملازمین کو حکومت کی طرف سے کچھ فائدے ضرور حاصل ہوتے ہیں لیکن پرائیویٹ ملازمین مالکان کے ظلم سہنے پر مجبور کردیے جاتے ہیں اور پھر ایک تو یہ کہ سرکاری نوکری کرنے والوں کی تنخواہیں بجٹ کے مواقعے پر دگنا یا اس سے کم ضرور بڑھا دی جاتی ہیں، اس طرح اس مہنگائی کے بدترین دور میں کچھ سہولتیں مل جاتی ہیں اور زندگی کچھ آسان ہوجاتی ہے۔
دوا و علاج کی رقم بھی کئی سرکاری اداروں میں ملازمین بہم پہنچائی جاتی ہے یا پھر میڈیکل کی سہولتیں اور ضروریاتِ زندگی کی کچھ چیزیں مثال کے طور پر تعلیمی اخراجات مکان کا کرایہ یا قرض وغیرہ آسانی کے ساتھ فراہم کیا جاتا ہے، ساتھ میں خستہ و بوسیدہ عمارات کو پختہ اور جدید آلات اور جدید طرز کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے یا پھر کسی دوسری جگہ دفاتر کو منتقل کردیا جاتا ہے جہاں ہر طرح کی سہولت میسر ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر لفٹ، ہوادارکھڑکیاں، بڑے دروازے، کوریڈور جہاں آسانی کے ساتھ ایک وقت میں 30/40 آدمی گزر سکتے ہیں لیکن گورنمنٹ کے بہت سے ادارے اس قسم کے آرام سے محروم ہیں۔ اور آج بھی اسی حال میں ہیں خستہ دیواریں، پرانی طرز کے پنکھے، فرنیچر غائب طاق یا طاقچوں میں بڑی اہم اور ضروری فائلیں رکھی نظر آتی ہیں۔ ایسا ہی حال ایک ادارے کا نہیں بلکہ کئی اداروں کا ہے۔
اگر حکومت سرکاری و پرائیویٹ اداروں کی سرپرستی و دیکھ بھال بہتر طریقے سے کرے تو بے شمار لوگ مسائل سے بچ جائیں اور انھیں وسائل میسر آئیں لیکن حکومت نے قسم کھالی ہے کہ وہ عوام کی خدمت کسی صورت میں نہیں کرے گی، کوئی مرے، کوئی جیے اس کی بلا سے۔
اگر وہ اپنی رعایا کا خیال کرتی، باقاعدہ مختلف اداروں میں معائنہ ٹیم دورے کرتی تو شاید کراچی میں اتنا بڑا سانحہ ہرگز نہ ہوتا اور نہ ہی بارش کے زمانے میں مخدوش عمارات منہدم ہوتیں اور نہ کچے مکان کی دیواریں گرتیں اور جانی و مالی نقصان ہوتا لیکن مفاد پرستی اور غفلت کی آگ نے لوگوں کے تن من کو جلا کر خاکستر کردیا ہے۔
11 ستمبر ویسے بھی نائن الیون کے نام سے مشہور ہے پھر قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کا دن بھی ہے اور اب 11 ستمبر ایک بڑے المیے کے نام سے بھی یاد رکھا جائے گا۔ 11 ستمبر منگل کا دن شام کا وقت تھا۔ سورج غروب نہیں ہوا تھا لیکن زندگی کا سورج غروب ہونے کے لیے دور افق پار ڈھلنے کے لیے بے قرار تھا۔
پھر وہی ہوا کہ آگ نے پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جان بچانے کے لیے کوئی راستہ نہیں، کوئی صورت نہیں کہ آگ کے جہنم سے نکل کر زندگی کی سرسبز وادیوں کی طرف دوڑ لگادی جائے۔ عمارات بناتے وقت اور اس کے بعد مالکان، انتظامیہ، آرکیٹیکٹ اس بات کا جائزہ لینا ضروری نہیں سمجھتے ہیں کہ کوئی حادثہ ہونے کی صورت میں ملازمین جن کی حیثیت مالکان کے نزدیک حشرات الارض کی طرح ہے کس طرح جان بچائیں گے۔
سانحے کے وقت دروازے، کھڑکیاں بند، گرل لگا کر اور پکا کام کیا گیا۔ مالکان نے چوری نہ ہونے کے تو انتظامات مکمل کرلیے تھے اور ہر طرح سے عمارت کو محفوظ کردیا لیکن انسانی زندگیوں کے بارے میں سوچا تک نہیں کہ حادثات کی صورت میں گھروں کے چراغوں کی روشنی کو کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے،کیا ان کی یہ ذمے داری نہیں تھی؟ فیکٹری ان کی، مال و اسباب ان کا، نفع و نقصان کے بھی وہی مالک۔ بے چارے غریب ملازمین تو اپنی پورے دن کی اجرت بہت تھوڑی سی رقم کی شکل میں وصول کرتے تھے۔
باقی پرائیویٹ ادارے کسی بھی قسم کی مراعات دینے کا حق دار اپنے آپ کو نہیں سمجھتے ہیں۔ بے چارے غریب اور افلاس زدہ لوگ دور دراز سے محنت مشقت کرنے اور اپنے شکم کی بھوک مٹانے اپنے گھر کا خرچ چلانے فیکٹریوں اور کارخانوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس طرح رزق حلال کما کر عبادت کرنے والوں میں اﷲ کے حکم سے شامل ہوجاتے ہیں۔
یہ لوگ بے حد قانع اور صابر ہوتے ہیں، بڑے بڑے دکھوں اور غموں کو صبر کے ساتھ جھیل لیتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ لاشیں جل کر کوئلہ بن گئی تھیں، انسانی گوشت کی بو پھیلی ہوئی تھی، لوگ اپنے پیاروں کو پہچان نہیں پارہے تھے، ایک ایک لاش کے دو دو خاندان دعوے دار تھے کہ شناخت آگ کے شعلوں میں گم ہوگئی تھی۔ لیکن حدیثِ پاک ہے کہ آگ میںجلنے والے جنت میں جگہ پاتے ہیں اور شہادت کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ یہاں اذیت سہی تو اگر اﷲ چاہے گا وہاں راحت ملے گی۔
ایک نکتہ ضرور قابلِ غور ہے وہ ہے یہ بار بار اور زیادہ تعداد میں انسانی جانوں کا ضایع ہونا۔ وہ بھی آسمانی و سماوی آفات کی شکل میں دو تین سال قبل کی ہی بات ہے جب ایئر بلو کا طیارہ اسلام آباد میں مرگلہ کی پہاڑیوں میں گر گیا تھا اور تقریباً 153 لوگ وہ بھی نوجوان یوتھ کونسل کے ممبران اور دوسرے لوگ شہید ہوگئے تھے، ایک بھی ذی نفس زندہ نہیں بچا تھا اور آج بھی ان کے لواحقین ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے شمعیں روشن کرتے ہیں، ایصال ثواب کے لیے ہر سال کراچی سے اسلام آباد کا سفر دکھ کی وادی میں اتر کر اور اپنوں کی یادوں کو سینے سے لگا کر کرتے ہیں۔
پچھلے سال بھوجا ایئرلائن کا طیارہ بھی اسی طرح اس وقت گر کر تباہ ہوا جب منزل قدموں میں تھی، ساحل آنکھوں کے سامنے تھا کہ کشتی ڈوب گئی۔ اس ایئرلائن میں بھی ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ سوار تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے جنگل میں اتر گئے اور پھر سب کچھ ختم ہوگیا۔ پچھلے برسوں کی طرح اس سال بھی بارش نے بے شمار لوگوں کو اپنی خوراک بنالیا اور آج تک سیکڑوں لوگ برسات کے پانی میں ڈوب گئے، گھر سے بے گھر ہوگئے، کھلے آسمان تلے بے سہارا و بے یارومددگار اﷲ کے رحم و کرم پر پڑے ہیں اور ڈوب جانے والے لوگوں کی یادوں کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں۔
ایک طرف برسات کا سمندر ہے تو دوسری جانب آنکھوں سے سمندر بہہ رہا ہے، جسے کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اکثر بسیں الٹ جاتی ہیں۔ باراتی اور دولھا، دلھن موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آئے دن حادثات کا ہونا کس بات کی علامت ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا رب ہم سے ناراض ہوگیا ہو، اس لیے کہ ہم نے بھی تو اسے بھلادیا ہے۔ آج سفر ہو یا حضر ہو، شادی ہو یا دوسری تقریبات، ان خوشیوں اور سکون بھری زندگی کے موقع پر ہم اﷲ کو بڑی آسانی سے بھلادیتے ہیں، حتیٰ کہ نماز تک بھول جاتے ہیں، بس ہلہ گلہ، شور شرابا کرتے ہیں، مہندی ہو یا شادی کی رسومات، ہر گھر کا ایسا ہی حال ہے۔ ہم نے یہ کبھی غوروخوض نہیں کیا کہ ہم جو دنیا میں رہ کر اپنی خوشی اور رسم و رواج کے تحت امور انجام دے رہے ہیں تو کیا ایسی زندگی سے اور ایسے اعمال سے ہمارا رب راضی ہے کہ نہیں؟
ہم نے کالم کی ابتدا میں سرکار کی توجہ پرائیویٹ ملازمین کی طرف دلائی تھی کہ جب بھی بجٹ آتا ہے، پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے ورکرز حکومت کی مہربانیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت اس موقع پر جب کہ بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں آگ لگنے کے باعث سیکڑوں مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ محنت کشوں کی زندگی کے مسائل و مصائب کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے اور مالکان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ بھی بجٹ کے موقع پر اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرے، چونکہ جب ضروریاتِ زندگی کو مہنگا کردیا جاتا ہے، تب ان حالات میں غریب لوگ کس طرح گزارہ کریں؟
لاہور کے علاقے شفیق آباد میں جنریٹر کے بھڑکنے اور کیمیکل کے بھرے ڈرم کا زد میں آنا قیامت بن گیا۔ یہاں بھی غفلت کی ہی وجہ سے قیمتی جانوں کا زیاں ہوا اور بے شمار لوگ اس لاپروائی کے نتیجے میں جھلس گئے اور 30 کے قریب لوگ جان کی بازی ہار گئے، یہاں بھی آہ و بکا، چیخ و پکار اور پھر خاموشی، گہری خاموشی کہ وہ سوئے عدم روانہ ہوئے، کوئی داخلی راستہ نہیں کہ باہر بھاگیں، کیا ہی اچھا ہو کہ دوسری فیکٹریوں اور کارخانے کے مالکان ان سانحات کی روشنی میں اپنے مزدوروں کے تمام حقوق ادا کریں تاکہ کسی کی بددعا نہ لگے اور راکھ خاک نہ بن جائے اور پھر بنتا ہی چلا جائے، لہٰذا عمارتوں کو ازسرنو تعمیر کریں۔
سرکاری ملازمین کو حکومت کی طرف سے کچھ فائدے ضرور حاصل ہوتے ہیں لیکن پرائیویٹ ملازمین مالکان کے ظلم سہنے پر مجبور کردیے جاتے ہیں اور پھر ایک تو یہ کہ سرکاری نوکری کرنے والوں کی تنخواہیں بجٹ کے مواقعے پر دگنا یا اس سے کم ضرور بڑھا دی جاتی ہیں، اس طرح اس مہنگائی کے بدترین دور میں کچھ سہولتیں مل جاتی ہیں اور زندگی کچھ آسان ہوجاتی ہے۔
دوا و علاج کی رقم بھی کئی سرکاری اداروں میں ملازمین بہم پہنچائی جاتی ہے یا پھر میڈیکل کی سہولتیں اور ضروریاتِ زندگی کی کچھ چیزیں مثال کے طور پر تعلیمی اخراجات مکان کا کرایہ یا قرض وغیرہ آسانی کے ساتھ فراہم کیا جاتا ہے، ساتھ میں خستہ و بوسیدہ عمارات کو پختہ اور جدید آلات اور جدید طرز کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے یا پھر کسی دوسری جگہ دفاتر کو منتقل کردیا جاتا ہے جہاں ہر طرح کی سہولت میسر ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر لفٹ، ہوادارکھڑکیاں، بڑے دروازے، کوریڈور جہاں آسانی کے ساتھ ایک وقت میں 30/40 آدمی گزر سکتے ہیں لیکن گورنمنٹ کے بہت سے ادارے اس قسم کے آرام سے محروم ہیں۔ اور آج بھی اسی حال میں ہیں خستہ دیواریں، پرانی طرز کے پنکھے، فرنیچر غائب طاق یا طاقچوں میں بڑی اہم اور ضروری فائلیں رکھی نظر آتی ہیں۔ ایسا ہی حال ایک ادارے کا نہیں بلکہ کئی اداروں کا ہے۔
اگر حکومت سرکاری و پرائیویٹ اداروں کی سرپرستی و دیکھ بھال بہتر طریقے سے کرے تو بے شمار لوگ مسائل سے بچ جائیں اور انھیں وسائل میسر آئیں لیکن حکومت نے قسم کھالی ہے کہ وہ عوام کی خدمت کسی صورت میں نہیں کرے گی، کوئی مرے، کوئی جیے اس کی بلا سے۔
اگر وہ اپنی رعایا کا خیال کرتی، باقاعدہ مختلف اداروں میں معائنہ ٹیم دورے کرتی تو شاید کراچی میں اتنا بڑا سانحہ ہرگز نہ ہوتا اور نہ ہی بارش کے زمانے میں مخدوش عمارات منہدم ہوتیں اور نہ کچے مکان کی دیواریں گرتیں اور جانی و مالی نقصان ہوتا لیکن مفاد پرستی اور غفلت کی آگ نے لوگوں کے تن من کو جلا کر خاکستر کردیا ہے۔
11 ستمبر ویسے بھی نائن الیون کے نام سے مشہور ہے پھر قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کا دن بھی ہے اور اب 11 ستمبر ایک بڑے المیے کے نام سے بھی یاد رکھا جائے گا۔ 11 ستمبر منگل کا دن شام کا وقت تھا۔ سورج غروب نہیں ہوا تھا لیکن زندگی کا سورج غروب ہونے کے لیے دور افق پار ڈھلنے کے لیے بے قرار تھا۔
پھر وہی ہوا کہ آگ نے پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جان بچانے کے لیے کوئی راستہ نہیں، کوئی صورت نہیں کہ آگ کے جہنم سے نکل کر زندگی کی سرسبز وادیوں کی طرف دوڑ لگادی جائے۔ عمارات بناتے وقت اور اس کے بعد مالکان، انتظامیہ، آرکیٹیکٹ اس بات کا جائزہ لینا ضروری نہیں سمجھتے ہیں کہ کوئی حادثہ ہونے کی صورت میں ملازمین جن کی حیثیت مالکان کے نزدیک حشرات الارض کی طرح ہے کس طرح جان بچائیں گے۔
سانحے کے وقت دروازے، کھڑکیاں بند، گرل لگا کر اور پکا کام کیا گیا۔ مالکان نے چوری نہ ہونے کے تو انتظامات مکمل کرلیے تھے اور ہر طرح سے عمارت کو محفوظ کردیا لیکن انسانی زندگیوں کے بارے میں سوچا تک نہیں کہ حادثات کی صورت میں گھروں کے چراغوں کی روشنی کو کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے،کیا ان کی یہ ذمے داری نہیں تھی؟ فیکٹری ان کی، مال و اسباب ان کا، نفع و نقصان کے بھی وہی مالک۔ بے چارے غریب ملازمین تو اپنی پورے دن کی اجرت بہت تھوڑی سی رقم کی شکل میں وصول کرتے تھے۔
باقی پرائیویٹ ادارے کسی بھی قسم کی مراعات دینے کا حق دار اپنے آپ کو نہیں سمجھتے ہیں۔ بے چارے غریب اور افلاس زدہ لوگ دور دراز سے محنت مشقت کرنے اور اپنے شکم کی بھوک مٹانے اپنے گھر کا خرچ چلانے فیکٹریوں اور کارخانوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس طرح رزق حلال کما کر عبادت کرنے والوں میں اﷲ کے حکم سے شامل ہوجاتے ہیں۔
یہ لوگ بے حد قانع اور صابر ہوتے ہیں، بڑے بڑے دکھوں اور غموں کو صبر کے ساتھ جھیل لیتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ لاشیں جل کر کوئلہ بن گئی تھیں، انسانی گوشت کی بو پھیلی ہوئی تھی، لوگ اپنے پیاروں کو پہچان نہیں پارہے تھے، ایک ایک لاش کے دو دو خاندان دعوے دار تھے کہ شناخت آگ کے شعلوں میں گم ہوگئی تھی۔ لیکن حدیثِ پاک ہے کہ آگ میںجلنے والے جنت میں جگہ پاتے ہیں اور شہادت کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ یہاں اذیت سہی تو اگر اﷲ چاہے گا وہاں راحت ملے گی۔
ایک نکتہ ضرور قابلِ غور ہے وہ ہے یہ بار بار اور زیادہ تعداد میں انسانی جانوں کا ضایع ہونا۔ وہ بھی آسمانی و سماوی آفات کی شکل میں دو تین سال قبل کی ہی بات ہے جب ایئر بلو کا طیارہ اسلام آباد میں مرگلہ کی پہاڑیوں میں گر گیا تھا اور تقریباً 153 لوگ وہ بھی نوجوان یوتھ کونسل کے ممبران اور دوسرے لوگ شہید ہوگئے تھے، ایک بھی ذی نفس زندہ نہیں بچا تھا اور آج بھی ان کے لواحقین ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے شمعیں روشن کرتے ہیں، ایصال ثواب کے لیے ہر سال کراچی سے اسلام آباد کا سفر دکھ کی وادی میں اتر کر اور اپنوں کی یادوں کو سینے سے لگا کر کرتے ہیں۔
پچھلے سال بھوجا ایئرلائن کا طیارہ بھی اسی طرح اس وقت گر کر تباہ ہوا جب منزل قدموں میں تھی، ساحل آنکھوں کے سامنے تھا کہ کشتی ڈوب گئی۔ اس ایئرلائن میں بھی ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ سوار تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے جنگل میں اتر گئے اور پھر سب کچھ ختم ہوگیا۔ پچھلے برسوں کی طرح اس سال بھی بارش نے بے شمار لوگوں کو اپنی خوراک بنالیا اور آج تک سیکڑوں لوگ برسات کے پانی میں ڈوب گئے، گھر سے بے گھر ہوگئے، کھلے آسمان تلے بے سہارا و بے یارومددگار اﷲ کے رحم و کرم پر پڑے ہیں اور ڈوب جانے والے لوگوں کی یادوں کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں۔
ایک طرف برسات کا سمندر ہے تو دوسری جانب آنکھوں سے سمندر بہہ رہا ہے، جسے کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اکثر بسیں الٹ جاتی ہیں۔ باراتی اور دولھا، دلھن موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آئے دن حادثات کا ہونا کس بات کی علامت ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا رب ہم سے ناراض ہوگیا ہو، اس لیے کہ ہم نے بھی تو اسے بھلادیا ہے۔ آج سفر ہو یا حضر ہو، شادی ہو یا دوسری تقریبات، ان خوشیوں اور سکون بھری زندگی کے موقع پر ہم اﷲ کو بڑی آسانی سے بھلادیتے ہیں، حتیٰ کہ نماز تک بھول جاتے ہیں، بس ہلہ گلہ، شور شرابا کرتے ہیں، مہندی ہو یا شادی کی رسومات، ہر گھر کا ایسا ہی حال ہے۔ ہم نے یہ کبھی غوروخوض نہیں کیا کہ ہم جو دنیا میں رہ کر اپنی خوشی اور رسم و رواج کے تحت امور انجام دے رہے ہیں تو کیا ایسی زندگی سے اور ایسے اعمال سے ہمارا رب راضی ہے کہ نہیں؟
ہم نے کالم کی ابتدا میں سرکار کی توجہ پرائیویٹ ملازمین کی طرف دلائی تھی کہ جب بھی بجٹ آتا ہے، پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے ورکرز حکومت کی مہربانیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت اس موقع پر جب کہ بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں آگ لگنے کے باعث سیکڑوں مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ محنت کشوں کی زندگی کے مسائل و مصائب کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے اور مالکان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ بھی بجٹ کے موقع پر اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرے، چونکہ جب ضروریاتِ زندگی کو مہنگا کردیا جاتا ہے، تب ان حالات میں غریب لوگ کس طرح گزارہ کریں؟
لاہور کے علاقے شفیق آباد میں جنریٹر کے بھڑکنے اور کیمیکل کے بھرے ڈرم کا زد میں آنا قیامت بن گیا۔ یہاں بھی غفلت کی ہی وجہ سے قیمتی جانوں کا زیاں ہوا اور بے شمار لوگ اس لاپروائی کے نتیجے میں جھلس گئے اور 30 کے قریب لوگ جان کی بازی ہار گئے، یہاں بھی آہ و بکا، چیخ و پکار اور پھر خاموشی، گہری خاموشی کہ وہ سوئے عدم روانہ ہوئے، کوئی داخلی راستہ نہیں کہ باہر بھاگیں، کیا ہی اچھا ہو کہ دوسری فیکٹریوں اور کارخانے کے مالکان ان سانحات کی روشنی میں اپنے مزدوروں کے تمام حقوق ادا کریں تاکہ کسی کی بددعا نہ لگے اور راکھ خاک نہ بن جائے اور پھر بنتا ہی چلا جائے، لہٰذا عمارتوں کو ازسرنو تعمیر کریں۔