شاہد خان پاکستانی نژاد امریکی ارب پتی
16برس کی عمر میں امریکا جا کر ریسٹورنٹ میں برتن دھونے والے کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہونے لگا
شاہد خان پاکستانی نژاد امریکی ارب پتی ہیں، دنیا انہیں سپورٹس ٹائیکون کے طور پر بھی جانتی ہے۔ یہ گاڑیوں کے بمپر بنانے والی امریکا کی مشہورکمپنی 'فلیکس این گیٹ' کے مالک ہیں۔
یہ دنیا میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بنانے والی امیر ترین شخصیات میں دوسرے نمبر پر آتے ہیں، انہیں پاکستان کا سب سے امیر انسان بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ وہی شاہد خان ہیں جن کی تصویر2012ء میں معروف امریکی میگزین 'فوربز' نے اپنے سرورق پر شائع کی اور انہیں 'امریکن ڈریم' کا چہرہ قرار دیا تھا ۔
یہ آج اربوں ڈالرز کے مالک ہیں ، لیکن ان کی زندگی ہمیشہ سے ایسی پرکشش اور پر تعیش نہ تھی۔بلکہ انہوں نے تو 1950ء میں لاہور میں ایک مڈل کلاس خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ اِن کے والد صنعت سے وابستہ تھے اور کنسٹرکشن مٹیریل تیار کیا کرتے تھے، جبکہ اِن کی والدہ ریاضی کی پروفیسر تھیں ۔
شاہد خان ابھی صرف 16برس کے تھے کہ ان میں بیرون ملک جا کر تعلیم حال کرنے اور اچھاکرئیر بنانے کا جنون پنپنے لگا ، انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار والدین کے سامنے کیا تو والدین نے اپنے لخت جگر کو سات سمندر پار امریکا بھیجنے سے صاف انکار کر دیا ۔ لیکن شاہد خان بضد رہے کہ وہ امریکا جا کر ہی دم لیں گے ۔
آخر والدین نے اپنے بچے کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنی تمام تر جمع پونجی جو چند لاکھ روپے تھی ، وہ شاہد کے حوالے کر کے انہیں امریکا روانہ کر دیا۔ امریکا آ کر شاہد کو اپنے اندر چھپی غیر معمولی صلاحیتوں اور اپنے ٹیلنٹ کا اندازہ ہوا۔
انہیں کیونکہ بچپن ہی سے گاڑیوں میں دلچسپی تھی اور یہ اپنی ابتدائی زندگی میں ایک عرصے تک لگژری گاڑیاں خریدنے کے بھی خواہشمند رہے ۔ اس لیے انہوں نے گاڑی ساز صنعت کو اپنی تمام تر دلچسپیوں کا محور بنا لیا اور یونیورسٹی آف ایلینائز میں انڈسٹریل انجینئرنگ کے شعبے میں داخلہ لے لیا ۔ لیکن ایک بات جو شاہد خان کے حوالے سے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
وہ یہ ہے کہ انہوں نے انڈسٹریل انجینئرنگ میں داخلہ لینے سے قبل آرکیٹیکٹ بننے کا بھی فیصلہ کیا ، لیکن اس شعبے میں صرف ایک سمسٹر مکمل کرنے کے بعد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہاں وہ بہت سارا پیسہ نہیں کما سکتے اور مذکورہ شعبے میں انہیں آگے بڑھنے کے مواقع بھی کم نظر آئے ۔
ایسے میں انہوں نے عام طالب علموں کی طرح تعلیم جاری رکھنے کے بجائے، آرکیٹیکٹ کی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر انڈسٹریل انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا ۔ اپنی کالج کی تعلیم کے دوران شاہد اپنے ہاسٹل اور کھانے پینے کا خرچہ خود اٹھایا کرتے تھے ، انہوں نے 1.20ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں برتن دھونے کا کام شروع کر دیا ۔
برتن دھوتے اور 2 وقت کا کھانا کھاتے شاہد خان نے بڑی مشکل اور کسمپرسی میں اعلیٰ تعلیم مکمل کی ۔ 21 برس کی عمر میں یہ انڈسٹریل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر چکے تھے ۔
اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد شاہد خان کو 'فلیکس ان جیٹ' نامی گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بنانے والی کمپنی میں بطور انجینئرنگ ڈائریکٹر کے ملازمت مل گئی ، یہ وہی کمپنی تھی ،جس میں شاہد اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران جز وقتی کام کیا کرتے تھے۔
مذکورہ کمپنی میں شاہد خان نے7 برس کام کیا ، ان کا کام فیکٹری میں بنانے والے سپیئر پارٹس کے پروسیس کو بہتر اور آسان بنانا تھا ۔
شاہد خان کی موجودگی میں 'فلیکس ان جیٹ' نے ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کیں ، لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا ، جب شاہد خان کو محسوس ہوا کہ کمپنی کی انتظامیہ اُن کے منصوبوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی ۔ کچھ عرصہ انتظامیہ کا رویہ ایسا ہی رہا تو شاہد کو بھی اس سب کی عادت ہو گئی ، لیکن جب انہیں یہ احساس ہوا کہ کمپنی کی جانب سے اُن کے نئے خیالات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جانے لگا ہے ، تو اس سے مایوس ہو کر انہوں نے 1978ء میں کمپنی سے استعفیٰ دے دیا ۔
مذکورہ کمپنی کو اپنی زندگی کا قیمتی وقت دینے اور یہاں سے بہت سیکھنے کے بعد شاہد خان نے مزید کوئی ملازمت کرنے کا ارادہ نہیں کیا ، بلکہ انہوں نے خود پر اعتماد کرتے ہوئے، اپنی ذاتی کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا۔
شاہد خان نے اپنے کام کا آغاز پرانی گاڑیوں کو مرمت کرنے اور اُن میں نئے بمپر لگانے سے کیا ۔ رفتہ رفتہ اِن کا کام بڑھتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا، جب انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی گاڑی ساز کمپنیوں میں سے ایک 'جنرل موٹرز' سے معاہدہ کر لیا ۔
انہوں نے جنرل موٹرز کے بعد امریکا کی 3 سب سے بڑی گاڑی ساز کمپنیوں میں بننے والے ٹرکس کیلئے بمپر بنانے شروع کیے۔ ایک جانب شاہد خان کا کام تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا تو دوسری جانب وہی کمپنی'فلیکس این گیٹ' جس نے شاہد خان کے منصوبوں کو مسترد کر دیا تھا ، وہ خسارے میں چلی گئی ۔
شاہد خان کو جب اس بات کا اندازہ ہوا تو وہ کافی رنجیدہ ہو گئے، کیونکہ وہ مذکورہ کمپنی کیلئے ایک طویل عرصے تک کام کرتے رہے تھے اور اس کمپنی کے ملازمین سے بھی اِن کے اچھے تعلق تھے ۔ اِس صورتحال کے پیش نظر 1980ء میں انہوں نے 'فلیکس این گیٹ' کو خریدنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ شاہد خان اپنے پہلے سے شروع کیے گئے کاروبار میں اپنی تمام تر سرمایہ کاری کر چکے تھے ۔
اب ان کا پاس صرف 16ہزار ڈالر کا ہی بینک بیلنس موجود تھا۔ جبکہ کمپنی خریدنے کے لیے انہیں 66 ہزار ڈالر کی ضرورت تھی ۔ شاہد خان نے اپنے بہت سے دوستوں اور رشتے داروں سے ادھار پیسوں کی درخواست کی ، لیکن کسی نے بھی ایک دیوالیہ ہوتی کمپنی کو خریدنے کے لیے شاہد خان کو پیسے دینے کی حامی نہیں بھری ، آخر کار ایک بینک کو ان کا منصوبہ پسند آ گیا اور بینک نے انہیں 50 ہزار ڈالر قرض دے دیا ۔
فلیکس این گیٹ کو خریدنے کے لیے شاہد خان نے کمپنی کے مالکان کو اچھی آفر پیش کی، جسے انہوں نے فوراً قبول کر لیا ۔ لیکن فلیکس این گیٹ کو شاہد خان کے حوالے کرتے ہوئے اس کے سابقہ مالکان کو اس بات کی بھنک تک نہ ہوئی کہ وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کوڑیوں کے بھاؤ بیچ رہے ہیں ۔
انہیں تو یہاں تک لگ رہا تھا کہ فلیکس این گیٹ کمپنی خریدنے والا شخص اسے خرید کر دیوالیہ ہو جائے گا ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ یہی کمپنی جو خسارے میں جا رہی تھی، شاہد خان کی ملکیت میں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ترقی کرنے لگی ۔
نہ صرف فلیکس این گیٹ کی فیکٹریوں میں گاڑیوں کیلئے سپیئر پارٹس کی پروڈکشن بڑھ گئی، بلکہ کمپنی کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی دگنا اضافہ کر دیا گیا ۔
شاہد خان نے ہمیشہ سے اپنا ایک اصول رکھا کہ اُن کی فیکٹریوں سے بننے والے گاڑیوں کے سپیئر پارٹس خوبصورت اوراعلیٰ معیار کے ہوں گے ۔ شاہد خان کو اپنی محنت اور عزم کا پھل کچھ اس طرح ملا کہ ان کا 1984ء میں اُس زمانے کی سب سے بڑی گاڑی ساز کمپنیوں میں سے ایک 'ٹویوٹا' سے معاہدہ طے پا گیا ۔
پہلے پہل انہوں نے ٹویوٹا کی پک اپس کیلئے بمپر بنانے شروع کیے ۔ ٹویوٹا سے معاہدہ طے پانے کے صرف 3برس بعد شاہد خان کو 1987ء میں مذکورہ کمپنی کے سب سے بڑے بمپر سپلائرز کا اعزاز مل گیا اور اگلے دو برسوں میں شاہد کی کمپنی امریکا میں موجود 'ٹویوٹا' کی تمام فیکٹریوں میں بننے والی گاڑیوں کیلئے بمپرز بنانے لگی ۔
شاہد خان نے جب ٹویوٹا سے اپنا پہلا معاہدہ کیا تھا تو اس وقت ان کی کمپنی کی کل مالیت صرف 17ملین ڈالر تھی ، لیکن 2010 میں یہی کمپنی 2 ارب ڈالر اور پھر 2022 میں 12ارب ڈالر مالیت رکھنے والی کمپنی بن گئی ۔
2011 میں شاہد خان کی امریکا بھر میں موجود 48 فیکٹریوں میں 12ہزار ملازمین کام کر رہے تھے ۔ وقت رفتہ کے ساتھ نہ صرف اِن کی فیکٹریوں کی تعداد اور اِن فیکٹریوں میں بنانے والے سپیئر پارٹس کی پروڈکشن میں اضافہ ہوا ، بلکہ آج شاہد خان کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد بھی دگنی ہو کر27 ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔
گاڑیوں میں دلچسپی سے ہٹ کر شاہد خان فٹ بال کے بھی بہت بڑے مداح تھے ۔ انہوں نے امریکا آکر فٹ بال کا کھلاڑی بننے کا بھی ارادہ کیا ، لیکن کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ان کا یہ خواب ادھورا ہی رہا ، تاہم انہوں نے امریکامیں رہتے ہوئے فٹ بال کے میدان میں وہ اعزاز حاصل کر لیا ، جو شاید آج تک فٹ بال کے کسی سب سے بڑے کھلاڑی کو بھی نصیب نہیں ہو ا ۔
شاہد خان نے اپنے مشغلے کو کاروبار میں بدلنے کیلئے ایک شاندارفیصلہ کیا ۔ انہوں نے 2012 میں مشہور امریکی فٹ بال کلب 'جیکسن ویلے جیگورز' 760 ملین ڈالر میں خرید لیا ، جبکہ 2013 میں انہوں نے لندن کا مشہور انگلش فٹ بال کلب 'فل ہیم' بھی اپنی ملکیت میں لے لیا ۔
انہوں نے ریسلنگ کے کھیل میں بھی سرمایہ کاری کی اور یہاں بھی دگنا منافع کمایا ۔ شاہد خان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو اسے سونابنا دیتے ہیں، شاہد خان اپنی کامیابی کا راز بڑے ہی خوبصورت الفاظ میں بتاتے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ آپ اگر کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں، ملازمت کرنا چاہتے ہیں یا کسی مسئلے کا حل تلاش کر نا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ آپ پیسے پھینکیں اورآپ کو مطلوبہ نتائج مل جائیں گے ، بلکہ مسئلے کا حل نکالنے کے لیے آپ کو اپنے سے زیادہ قابل اور تجربہ کار لوگوں کو سننا پڑے گا ۔
شاہد خان نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ کبھی کسی کام کو چھوٹا نہ سمجھیں، بلکہ اس کام کی اہمیت کو سمجھنے اور اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں ، وہ کہتے ہیں کہ جب وہ مقامی ریسٹورنٹ میں برتن دھویا کرتے تھے ، تو اس وقت انہیں یہ احساس بڑی شدت سے ہوتا تھا کہ اُن کا مستقبل اُن کے اپنے ہاتھ میں ہے ، وہ چاہیں تو ساری زندگی برتن دھوتے ہوئے گزار سکتے ہیں اور چاہیں تو اپنے آپ کو دنیا کا کامیاب ترین انسان بنا سکتے ہیں ۔
یہ دنیا میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بنانے والی امیر ترین شخصیات میں دوسرے نمبر پر آتے ہیں، انہیں پاکستان کا سب سے امیر انسان بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ وہی شاہد خان ہیں جن کی تصویر2012ء میں معروف امریکی میگزین 'فوربز' نے اپنے سرورق پر شائع کی اور انہیں 'امریکن ڈریم' کا چہرہ قرار دیا تھا ۔
یہ آج اربوں ڈالرز کے مالک ہیں ، لیکن ان کی زندگی ہمیشہ سے ایسی پرکشش اور پر تعیش نہ تھی۔بلکہ انہوں نے تو 1950ء میں لاہور میں ایک مڈل کلاس خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ اِن کے والد صنعت سے وابستہ تھے اور کنسٹرکشن مٹیریل تیار کیا کرتے تھے، جبکہ اِن کی والدہ ریاضی کی پروفیسر تھیں ۔
شاہد خان ابھی صرف 16برس کے تھے کہ ان میں بیرون ملک جا کر تعلیم حال کرنے اور اچھاکرئیر بنانے کا جنون پنپنے لگا ، انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار والدین کے سامنے کیا تو والدین نے اپنے لخت جگر کو سات سمندر پار امریکا بھیجنے سے صاف انکار کر دیا ۔ لیکن شاہد خان بضد رہے کہ وہ امریکا جا کر ہی دم لیں گے ۔
آخر والدین نے اپنے بچے کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنی تمام تر جمع پونجی جو چند لاکھ روپے تھی ، وہ شاہد کے حوالے کر کے انہیں امریکا روانہ کر دیا۔ امریکا آ کر شاہد کو اپنے اندر چھپی غیر معمولی صلاحیتوں اور اپنے ٹیلنٹ کا اندازہ ہوا۔
انہیں کیونکہ بچپن ہی سے گاڑیوں میں دلچسپی تھی اور یہ اپنی ابتدائی زندگی میں ایک عرصے تک لگژری گاڑیاں خریدنے کے بھی خواہشمند رہے ۔ اس لیے انہوں نے گاڑی ساز صنعت کو اپنی تمام تر دلچسپیوں کا محور بنا لیا اور یونیورسٹی آف ایلینائز میں انڈسٹریل انجینئرنگ کے شعبے میں داخلہ لے لیا ۔ لیکن ایک بات جو شاہد خان کے حوالے سے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
وہ یہ ہے کہ انہوں نے انڈسٹریل انجینئرنگ میں داخلہ لینے سے قبل آرکیٹیکٹ بننے کا بھی فیصلہ کیا ، لیکن اس شعبے میں صرف ایک سمسٹر مکمل کرنے کے بعد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہاں وہ بہت سارا پیسہ نہیں کما سکتے اور مذکورہ شعبے میں انہیں آگے بڑھنے کے مواقع بھی کم نظر آئے ۔
ایسے میں انہوں نے عام طالب علموں کی طرح تعلیم جاری رکھنے کے بجائے، آرکیٹیکٹ کی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر انڈسٹریل انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا ۔ اپنی کالج کی تعلیم کے دوران شاہد اپنے ہاسٹل اور کھانے پینے کا خرچہ خود اٹھایا کرتے تھے ، انہوں نے 1.20ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں برتن دھونے کا کام شروع کر دیا ۔
برتن دھوتے اور 2 وقت کا کھانا کھاتے شاہد خان نے بڑی مشکل اور کسمپرسی میں اعلیٰ تعلیم مکمل کی ۔ 21 برس کی عمر میں یہ انڈسٹریل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر چکے تھے ۔
اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد شاہد خان کو 'فلیکس ان جیٹ' نامی گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بنانے والی کمپنی میں بطور انجینئرنگ ڈائریکٹر کے ملازمت مل گئی ، یہ وہی کمپنی تھی ،جس میں شاہد اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران جز وقتی کام کیا کرتے تھے۔
مذکورہ کمپنی میں شاہد خان نے7 برس کام کیا ، ان کا کام فیکٹری میں بنانے والے سپیئر پارٹس کے پروسیس کو بہتر اور آسان بنانا تھا ۔
شاہد خان کی موجودگی میں 'فلیکس ان جیٹ' نے ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کیں ، لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا ، جب شاہد خان کو محسوس ہوا کہ کمپنی کی انتظامیہ اُن کے منصوبوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی ۔ کچھ عرصہ انتظامیہ کا رویہ ایسا ہی رہا تو شاہد کو بھی اس سب کی عادت ہو گئی ، لیکن جب انہیں یہ احساس ہوا کہ کمپنی کی جانب سے اُن کے نئے خیالات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جانے لگا ہے ، تو اس سے مایوس ہو کر انہوں نے 1978ء میں کمپنی سے استعفیٰ دے دیا ۔
مذکورہ کمپنی کو اپنی زندگی کا قیمتی وقت دینے اور یہاں سے بہت سیکھنے کے بعد شاہد خان نے مزید کوئی ملازمت کرنے کا ارادہ نہیں کیا ، بلکہ انہوں نے خود پر اعتماد کرتے ہوئے، اپنی ذاتی کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا۔
شاہد خان نے اپنے کام کا آغاز پرانی گاڑیوں کو مرمت کرنے اور اُن میں نئے بمپر لگانے سے کیا ۔ رفتہ رفتہ اِن کا کام بڑھتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا، جب انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی گاڑی ساز کمپنیوں میں سے ایک 'جنرل موٹرز' سے معاہدہ کر لیا ۔
انہوں نے جنرل موٹرز کے بعد امریکا کی 3 سب سے بڑی گاڑی ساز کمپنیوں میں بننے والے ٹرکس کیلئے بمپر بنانے شروع کیے۔ ایک جانب شاہد خان کا کام تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا تو دوسری جانب وہی کمپنی'فلیکس این گیٹ' جس نے شاہد خان کے منصوبوں کو مسترد کر دیا تھا ، وہ خسارے میں چلی گئی ۔
شاہد خان کو جب اس بات کا اندازہ ہوا تو وہ کافی رنجیدہ ہو گئے، کیونکہ وہ مذکورہ کمپنی کیلئے ایک طویل عرصے تک کام کرتے رہے تھے اور اس کمپنی کے ملازمین سے بھی اِن کے اچھے تعلق تھے ۔ اِس صورتحال کے پیش نظر 1980ء میں انہوں نے 'فلیکس این گیٹ' کو خریدنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ شاہد خان اپنے پہلے سے شروع کیے گئے کاروبار میں اپنی تمام تر سرمایہ کاری کر چکے تھے ۔
اب ان کا پاس صرف 16ہزار ڈالر کا ہی بینک بیلنس موجود تھا۔ جبکہ کمپنی خریدنے کے لیے انہیں 66 ہزار ڈالر کی ضرورت تھی ۔ شاہد خان نے اپنے بہت سے دوستوں اور رشتے داروں سے ادھار پیسوں کی درخواست کی ، لیکن کسی نے بھی ایک دیوالیہ ہوتی کمپنی کو خریدنے کے لیے شاہد خان کو پیسے دینے کی حامی نہیں بھری ، آخر کار ایک بینک کو ان کا منصوبہ پسند آ گیا اور بینک نے انہیں 50 ہزار ڈالر قرض دے دیا ۔
فلیکس این گیٹ کو خریدنے کے لیے شاہد خان نے کمپنی کے مالکان کو اچھی آفر پیش کی، جسے انہوں نے فوراً قبول کر لیا ۔ لیکن فلیکس این گیٹ کو شاہد خان کے حوالے کرتے ہوئے اس کے سابقہ مالکان کو اس بات کی بھنک تک نہ ہوئی کہ وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کوڑیوں کے بھاؤ بیچ رہے ہیں ۔
انہیں تو یہاں تک لگ رہا تھا کہ فلیکس این گیٹ کمپنی خریدنے والا شخص اسے خرید کر دیوالیہ ہو جائے گا ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ یہی کمپنی جو خسارے میں جا رہی تھی، شاہد خان کی ملکیت میں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ترقی کرنے لگی ۔
نہ صرف فلیکس این گیٹ کی فیکٹریوں میں گاڑیوں کیلئے سپیئر پارٹس کی پروڈکشن بڑھ گئی، بلکہ کمپنی کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی دگنا اضافہ کر دیا گیا ۔
شاہد خان نے ہمیشہ سے اپنا ایک اصول رکھا کہ اُن کی فیکٹریوں سے بننے والے گاڑیوں کے سپیئر پارٹس خوبصورت اوراعلیٰ معیار کے ہوں گے ۔ شاہد خان کو اپنی محنت اور عزم کا پھل کچھ اس طرح ملا کہ ان کا 1984ء میں اُس زمانے کی سب سے بڑی گاڑی ساز کمپنیوں میں سے ایک 'ٹویوٹا' سے معاہدہ طے پا گیا ۔
پہلے پہل انہوں نے ٹویوٹا کی پک اپس کیلئے بمپر بنانے شروع کیے ۔ ٹویوٹا سے معاہدہ طے پانے کے صرف 3برس بعد شاہد خان کو 1987ء میں مذکورہ کمپنی کے سب سے بڑے بمپر سپلائرز کا اعزاز مل گیا اور اگلے دو برسوں میں شاہد کی کمپنی امریکا میں موجود 'ٹویوٹا' کی تمام فیکٹریوں میں بننے والی گاڑیوں کیلئے بمپرز بنانے لگی ۔
شاہد خان نے جب ٹویوٹا سے اپنا پہلا معاہدہ کیا تھا تو اس وقت ان کی کمپنی کی کل مالیت صرف 17ملین ڈالر تھی ، لیکن 2010 میں یہی کمپنی 2 ارب ڈالر اور پھر 2022 میں 12ارب ڈالر مالیت رکھنے والی کمپنی بن گئی ۔
2011 میں شاہد خان کی امریکا بھر میں موجود 48 فیکٹریوں میں 12ہزار ملازمین کام کر رہے تھے ۔ وقت رفتہ کے ساتھ نہ صرف اِن کی فیکٹریوں کی تعداد اور اِن فیکٹریوں میں بنانے والے سپیئر پارٹس کی پروڈکشن میں اضافہ ہوا ، بلکہ آج شاہد خان کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد بھی دگنی ہو کر27 ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔
گاڑیوں میں دلچسپی سے ہٹ کر شاہد خان فٹ بال کے بھی بہت بڑے مداح تھے ۔ انہوں نے امریکا آکر فٹ بال کا کھلاڑی بننے کا بھی ارادہ کیا ، لیکن کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ان کا یہ خواب ادھورا ہی رہا ، تاہم انہوں نے امریکامیں رہتے ہوئے فٹ بال کے میدان میں وہ اعزاز حاصل کر لیا ، جو شاید آج تک فٹ بال کے کسی سب سے بڑے کھلاڑی کو بھی نصیب نہیں ہو ا ۔
شاہد خان نے اپنے مشغلے کو کاروبار میں بدلنے کیلئے ایک شاندارفیصلہ کیا ۔ انہوں نے 2012 میں مشہور امریکی فٹ بال کلب 'جیکسن ویلے جیگورز' 760 ملین ڈالر میں خرید لیا ، جبکہ 2013 میں انہوں نے لندن کا مشہور انگلش فٹ بال کلب 'فل ہیم' بھی اپنی ملکیت میں لے لیا ۔
انہوں نے ریسلنگ کے کھیل میں بھی سرمایہ کاری کی اور یہاں بھی دگنا منافع کمایا ۔ شاہد خان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو اسے سونابنا دیتے ہیں، شاہد خان اپنی کامیابی کا راز بڑے ہی خوبصورت الفاظ میں بتاتے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ آپ اگر کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں، ملازمت کرنا چاہتے ہیں یا کسی مسئلے کا حل تلاش کر نا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ آپ پیسے پھینکیں اورآپ کو مطلوبہ نتائج مل جائیں گے ، بلکہ مسئلے کا حل نکالنے کے لیے آپ کو اپنے سے زیادہ قابل اور تجربہ کار لوگوں کو سننا پڑے گا ۔
شاہد خان نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ کبھی کسی کام کو چھوٹا نہ سمجھیں، بلکہ اس کام کی اہمیت کو سمجھنے اور اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں ، وہ کہتے ہیں کہ جب وہ مقامی ریسٹورنٹ میں برتن دھویا کرتے تھے ، تو اس وقت انہیں یہ احساس بڑی شدت سے ہوتا تھا کہ اُن کا مستقبل اُن کے اپنے ہاتھ میں ہے ، وہ چاہیں تو ساری زندگی برتن دھوتے ہوئے گزار سکتے ہیں اور چاہیں تو اپنے آپ کو دنیا کا کامیاب ترین انسان بنا سکتے ہیں ۔