Walk in clinic
ہمارے جیسے خواب خرگوش میں مبتلا لوگ صرف باتیں کر سکتے ہیں
ڈاکٹر وقار فاروقی نے چند ہفتے پہلے فون کیا کہ صحت کے شعبہ میں ایک نیا کام شروع کرنے کی ہمت کی ہے۔ اس کے متعلق ایک بریفنگ کا اہتمام کیا ہے۔ لہٰذا ضرور آنا ہے۔ ساتھ ساتھ واٹس ایپ میسج بھی آ گیا کہ Walk in clinicکے متعلق ایک بھرپور پریذنٹیشن ہے۔
کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ یہ ڈاکٹر وقار فاروقی ہے کون؟ ایک تعارف تو بالکل سادہ سا ہے کہ 1978 میں جب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخل ہوا تو وقار میرا ہم جماعت تھا۔ وقار کے والد اور والدہ بھی دونوں ڈاکٹر تھے۔
اور بہت محنتی اور مخلص لوگ تھے۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ میڈیکل کالج کے تعارف میں وقار کی موٹر سائیکل کا ذکر کرنا ازحد ضروری ہے۔ خصوصیت یہ تھی کہ اس کی بریکیں نہیں تھیں۔ لہٰذا اسے روکنے کے لیے پیروںکا سہارا لینا پڑتا تھا۔ دیکھنے والوں کو شاید یہ مشکل کام لگتا ہو۔ مگر وقار اور تمام دوستوں کو زبردست پریکٹس ہو گئی تھی۔
کہ ایڑی زمین پر لگا کرکہیں بھی موٹر سائیکل کو روک لیتے تھے۔ وقار بڑے آرام سے ایم بی بی ایس کر گیا۔ پھر ایف آر سی ایس کرنے کے لیے لندن چلا گیا۔ ہوا یہ کہ ہمارا جو بھی کلاس فیلو پڑھنے کے لیے لندن جاتا تھا۔ وقار فاروقی کا گھر' اس کا پہلا ٹھکانہ ہوتا ہے۔ اتنا کھلے دل کا آدمی تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جو لندن میں وقار کے گھر میں رہ کر پڑھے اور اعلیٰ تعلیم کی منزلیں عبور کرتے رہے۔
وقار کا گھر کوئی بڑا نہیں تھا لیکن اس کادل بہت بڑا تھا۔ ظرف ازحدبلند تھا۔ یہاں' وقار کی اہلیہ ڈاکٹر شہلا صاحبہ کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ جس وضعداری سے انھوں نے وقار کے دوستوں کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہا۔ وہ بذات خود قابل رشک بات تھی۔ سرجری کا امتحان پاس کر کے جب وقار واپس پاکستان آیا تو غالباً نوے کی دہائی کا ابتدائی دور تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی بھی ڈاکٹر امریکا یا لندن جا کر پاکستان واپس آنے کا سوچتا تک نہیں تھا۔ مگر وقار واپس آیا اور بہت تھوڑے عرصے کے لیے سرکاری اسپتال میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کیا۔ پھر یک دم ' سرکار کی نوکری چھوڑ کر نجی شعبہ سے منسلک ہو گیا ۔ اس کے بعد وقار نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لاہور میں ہڈیوں کا ماہر ترین سرجن کہلانے لگا۔
اس نے اپنے آپ کو صحت کے شعبہ کی آلودگیوں سے مکمل طور پر دور رکھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا' فاروقی اپنے شعبہ میں مزید مستند ہوتا چلا گیا۔ پھر معلوم ہوا کہ لاہور میں کسی نجی میڈیکل کالج کا پرنسپل لگ چکا ہے۔
تھوڑے عرصے بعد معلوم ہوا کہ ایک اور میڈیکل کالج استوار کر لیا ہے۔ یعنی اب وہ اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ سرجری کے ساتھ ساتھ' طبی ادارے کھولنے اور چلانے میں بھی ماہر ہوچکا ہے۔ مقررہ وقت پر میں ''واک ان کلینک '' کی بریفنگ کے لیے حاضر ہو گیا۔ ڈاکٹر بلال اور ڈاکٹر عزیز اسلام انجم بھی آئے ہوئے تھے۔ تقریباً ایک سو کے قریب میڈیکل پروفیشنل موجود تھے۔ فاروقی نے بڑی عرق ریزی سے نئے منصوبے کے متعلق بتانا شروع کیا۔
ہر درجہ دلیل اور عملیت پسندباتیں تھیں۔ مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جب بھی کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو دوسروں سے پوچھتا ضرور ہے کہ اسے کس ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ اکثر اوقات ' اس اہم ترین سوال کا جواب غیر منطقی انداز سے یا قیافے سے دیا جاتا ہے۔
اور مریض کسی غلط آدمی کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ فاروقی اور اس کی ٹیم نے روز مرہ کی بیماریوں کی ایک فہرست ترتیب دی۔ عمومی طور پر نوے فیصد لوگوں کو انھیں امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے نزلہ' زکام' کھانسی' بخار وغیرہ۔ اس ٹیم نے ان نوے فیصد بیماریوں کے لیے Walk in clinicکا نظام کار شروع کیاہے۔
دراصل یہ لندن میں N.H.Sسسٹم کے قریب ترین ہے۔ شاید آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو کہ لندن میں کوئی بھی شہری' جی پی ڈاکٹر کو دکھائے بغیر کنسلٹنٹ ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتا۔ جی پی ڈاکٹر سے مراد وہ ڈاکٹر ہیں جنھوںنے پوسٹ گریجویشن نہیں کی ہوتی۔ زیادہ تر مریضوں کو جی پی ڈاکٹروں سے آگے جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
اس طرح نہ صرف مریض کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ بڑے اسپتالوں پر بھی بوجھ نہیں پڑتا۔ NHS کا مربوط نظام دنیا میں صحت کے نظاموں میں بہترین گنا جاتا ہے۔ Walk in clinicاسی این ایچ ایس کی طرف ایک مضبوط قدم ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ اب تک لاہور میں اس طرح کے تین کلینک قائم ہو چکے ہیں۔
ایک جوہر ٹاون میں ' ایک ڈیفنس لالک چوک پر' اور ایک کا محل وقوع میرے ذہن سے نکل چکا ہے۔ مراکز کی فیس بھی حد درجہ کم رکھی گئی ہے۔ جو افراد' کم فیس بھی ادا نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے تمام سہولیات مکمل طور پر مفت ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ نوے فیصد صحت کے مسائل ' اب بغیر کسی تردد کے ان کلینکس میں حل ہو سکتے ہیں۔
بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کلینکس کی تعداد کو نہ صرف بڑھایا جائے گا۔ بلکہ انھیں ملک کے ہر شہر تک لے جایا جائے گا۔ یہ انقلابی قدم اگر ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا تو صحت کے نجی شعبہ میں ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ طبی سہولتیں' حد درجہ سستے داموں میں مہیا ہو سکیں اور معیاری بھی ہوں گی۔
اس تمام تجربے کے پیچھے وقار فاروقی کا اخلاص اور انسانیت سے محبت کا جذبہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ پیسہ کمانا نہ کبھی فاروقی کا جنون تھا اور نہ اب ہے۔ یہ تمام اچھوتا کام' صرف اور صرف عام لوگوں کی بھلائی کے لیے ہے۔
ہم میں سے واضح اکثریت' سارا دن نظام کوکوستے ہوئے ملے گی۔ ہرکوئی ملک کی برائی کرتا نظر آئے گا۔ کسی سرکاری ادارہ میں چلے جائیے ۔ تقریباً ہر شخص غیر مطمئن نظر آئے گا۔ عدالتوں میں چلے جائیے' تو سائلین ' نظام انصاف کی شان میں برملا گستاخیاں کرتے نظر آئینگے۔ ٹاؤٹ اور جعلی گواہ آپ کو برائے فروخت ہر قدم پر مل جائیں گے۔ ان عدالتوں میں سب کچھ مل جائے گا۔ مگر عام آدمی کو انصاف ملنا ناممکن ہو گا۔
ہر کوئی نظام عدل کے نقائص بیان کرے گا۔ مگر معاملات کوبہتر کیسے کرنا ہے اس طرف کوئی بھی بات کرتا نظر نہیں آئے گا۔ بالکل اسی طرح صفائی کے فوائد ہر کوئی گنواتا ہے۔ ملک کے ہر شہر ' گلی کوچہ میں کچرے کے ڈھیر پر تف تف کرتا بھی معلوم ہو گا۔ مگر گاڑی کا شیشہ کھول کر خالی لفافے باہر پھینکنے سے کوئی بھی نہیں باز آئے گا۔
پلاسٹک کے لفافوں کا نقصان سب کو معلوم ہے۔ مگر کوئی بھی دکاندار کو یہ نہیں کہے گا کہ پلاسٹک کے لفافے میں لپٹی چیزوں کو وصول نہیں کرے گا۔ ملک کے کسی شعبہ کو دیکھ لیں۔ کج فہمی اور برائی آپ کو بدرجہ اتم نظر آئے گی۔
گر ایک نکتہ ڈھوننے سے بھی نہیں ملے گا۔ بذات خود اپنے عمل سے حل کرنے کا طریقہ ۔ یعنی اپنی ذات سے کام کو درست کرنے کی کوشش مفقود نظر آئے گی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم مسائل اور نقائص پر تو ہر دم بحث در بحث کرتے رہتے ہیں۔ مگر ان کو حل کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ یہ وہ نقص ہے جو تمام مسائل کو مزید طول دیتا ہے۔
مثبت کام کرنے کے لیے ذاتی نظم و ضبط چاہیے۔ جو بہر حال ہمارا قومی شعار نہیں ہے۔ بالائی طبقہ اس صورت حال کا ہر حال میں خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ پٹرول جتنا مرضی مہنگا کردوں۔ لوگ ہرگز سڑکوں پر نکل کر احتجاج نہیں کریں گے۔
موٹرسائیکل اور گاڑیوں سے اجتناب نہیں کریں گے۔ عام لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ ہر مشکل کا حل خود نکال سکتے ہیں۔ جس دن عام لوگ مہنگا پٹرول خریدنا بند کر دیں ۔ پیدل چلنا شروع کر دیں ' سائیکل چلانی شروع کر دیں۔ پٹرول خود بخود سستا ہو جائے گا۔ مگر یہ تمام مثبت حرکتیں زندہ معاشرے کرتے ہیں۔
ہمارے جیسے خواب خرگوش میں مبتلا لوگ صرف باتیں کر سکتے ہیں۔ اس خرابی زدہ ماحول میں ڈاکٹر وقار فاروقی اور اس کی ٹیم نے جو بہترین کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی ستائش ہونی چاہیے۔ واک ان کلینکس شاید ہمارے صحت کے ابتدائی مسائل حل کر دیں۔
باقی تو خیر ہم نے کیا کرنا ہے۔ دعا ہے کہ وقار کو اس کے اس نئے اور نیک کام میں کامیابی ہو۔ اور معاشرے میں یہ کلینکس ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوں۔ خدا کرے!
کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ یہ ڈاکٹر وقار فاروقی ہے کون؟ ایک تعارف تو بالکل سادہ سا ہے کہ 1978 میں جب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخل ہوا تو وقار میرا ہم جماعت تھا۔ وقار کے والد اور والدہ بھی دونوں ڈاکٹر تھے۔
اور بہت محنتی اور مخلص لوگ تھے۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ میڈیکل کالج کے تعارف میں وقار کی موٹر سائیکل کا ذکر کرنا ازحد ضروری ہے۔ خصوصیت یہ تھی کہ اس کی بریکیں نہیں تھیں۔ لہٰذا اسے روکنے کے لیے پیروںکا سہارا لینا پڑتا تھا۔ دیکھنے والوں کو شاید یہ مشکل کام لگتا ہو۔ مگر وقار اور تمام دوستوں کو زبردست پریکٹس ہو گئی تھی۔
کہ ایڑی زمین پر لگا کرکہیں بھی موٹر سائیکل کو روک لیتے تھے۔ وقار بڑے آرام سے ایم بی بی ایس کر گیا۔ پھر ایف آر سی ایس کرنے کے لیے لندن چلا گیا۔ ہوا یہ کہ ہمارا جو بھی کلاس فیلو پڑھنے کے لیے لندن جاتا تھا۔ وقار فاروقی کا گھر' اس کا پہلا ٹھکانہ ہوتا ہے۔ اتنا کھلے دل کا آدمی تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جو لندن میں وقار کے گھر میں رہ کر پڑھے اور اعلیٰ تعلیم کی منزلیں عبور کرتے رہے۔
وقار کا گھر کوئی بڑا نہیں تھا لیکن اس کادل بہت بڑا تھا۔ ظرف ازحدبلند تھا۔ یہاں' وقار کی اہلیہ ڈاکٹر شہلا صاحبہ کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ جس وضعداری سے انھوں نے وقار کے دوستوں کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہا۔ وہ بذات خود قابل رشک بات تھی۔ سرجری کا امتحان پاس کر کے جب وقار واپس پاکستان آیا تو غالباً نوے کی دہائی کا ابتدائی دور تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی بھی ڈاکٹر امریکا یا لندن جا کر پاکستان واپس آنے کا سوچتا تک نہیں تھا۔ مگر وقار واپس آیا اور بہت تھوڑے عرصے کے لیے سرکاری اسپتال میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کیا۔ پھر یک دم ' سرکار کی نوکری چھوڑ کر نجی شعبہ سے منسلک ہو گیا ۔ اس کے بعد وقار نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لاہور میں ہڈیوں کا ماہر ترین سرجن کہلانے لگا۔
اس نے اپنے آپ کو صحت کے شعبہ کی آلودگیوں سے مکمل طور پر دور رکھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا' فاروقی اپنے شعبہ میں مزید مستند ہوتا چلا گیا۔ پھر معلوم ہوا کہ لاہور میں کسی نجی میڈیکل کالج کا پرنسپل لگ چکا ہے۔
تھوڑے عرصے بعد معلوم ہوا کہ ایک اور میڈیکل کالج استوار کر لیا ہے۔ یعنی اب وہ اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ سرجری کے ساتھ ساتھ' طبی ادارے کھولنے اور چلانے میں بھی ماہر ہوچکا ہے۔ مقررہ وقت پر میں ''واک ان کلینک '' کی بریفنگ کے لیے حاضر ہو گیا۔ ڈاکٹر بلال اور ڈاکٹر عزیز اسلام انجم بھی آئے ہوئے تھے۔ تقریباً ایک سو کے قریب میڈیکل پروفیشنل موجود تھے۔ فاروقی نے بڑی عرق ریزی سے نئے منصوبے کے متعلق بتانا شروع کیا۔
ہر درجہ دلیل اور عملیت پسندباتیں تھیں۔ مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جب بھی کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو دوسروں سے پوچھتا ضرور ہے کہ اسے کس ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ اکثر اوقات ' اس اہم ترین سوال کا جواب غیر منطقی انداز سے یا قیافے سے دیا جاتا ہے۔
اور مریض کسی غلط آدمی کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ فاروقی اور اس کی ٹیم نے روز مرہ کی بیماریوں کی ایک فہرست ترتیب دی۔ عمومی طور پر نوے فیصد لوگوں کو انھیں امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے نزلہ' زکام' کھانسی' بخار وغیرہ۔ اس ٹیم نے ان نوے فیصد بیماریوں کے لیے Walk in clinicکا نظام کار شروع کیاہے۔
دراصل یہ لندن میں N.H.Sسسٹم کے قریب ترین ہے۔ شاید آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو کہ لندن میں کوئی بھی شہری' جی پی ڈاکٹر کو دکھائے بغیر کنسلٹنٹ ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتا۔ جی پی ڈاکٹر سے مراد وہ ڈاکٹر ہیں جنھوںنے پوسٹ گریجویشن نہیں کی ہوتی۔ زیادہ تر مریضوں کو جی پی ڈاکٹروں سے آگے جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
اس طرح نہ صرف مریض کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ بڑے اسپتالوں پر بھی بوجھ نہیں پڑتا۔ NHS کا مربوط نظام دنیا میں صحت کے نظاموں میں بہترین گنا جاتا ہے۔ Walk in clinicاسی این ایچ ایس کی طرف ایک مضبوط قدم ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ اب تک لاہور میں اس طرح کے تین کلینک قائم ہو چکے ہیں۔
ایک جوہر ٹاون میں ' ایک ڈیفنس لالک چوک پر' اور ایک کا محل وقوع میرے ذہن سے نکل چکا ہے۔ مراکز کی فیس بھی حد درجہ کم رکھی گئی ہے۔ جو افراد' کم فیس بھی ادا نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے تمام سہولیات مکمل طور پر مفت ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ نوے فیصد صحت کے مسائل ' اب بغیر کسی تردد کے ان کلینکس میں حل ہو سکتے ہیں۔
بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کلینکس کی تعداد کو نہ صرف بڑھایا جائے گا۔ بلکہ انھیں ملک کے ہر شہر تک لے جایا جائے گا۔ یہ انقلابی قدم اگر ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا تو صحت کے نجی شعبہ میں ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ طبی سہولتیں' حد درجہ سستے داموں میں مہیا ہو سکیں اور معیاری بھی ہوں گی۔
اس تمام تجربے کے پیچھے وقار فاروقی کا اخلاص اور انسانیت سے محبت کا جذبہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ پیسہ کمانا نہ کبھی فاروقی کا جنون تھا اور نہ اب ہے۔ یہ تمام اچھوتا کام' صرف اور صرف عام لوگوں کی بھلائی کے لیے ہے۔
ہم میں سے واضح اکثریت' سارا دن نظام کوکوستے ہوئے ملے گی۔ ہرکوئی ملک کی برائی کرتا نظر آئے گا۔ کسی سرکاری ادارہ میں چلے جائیے ۔ تقریباً ہر شخص غیر مطمئن نظر آئے گا۔ عدالتوں میں چلے جائیے' تو سائلین ' نظام انصاف کی شان میں برملا گستاخیاں کرتے نظر آئینگے۔ ٹاؤٹ اور جعلی گواہ آپ کو برائے فروخت ہر قدم پر مل جائیں گے۔ ان عدالتوں میں سب کچھ مل جائے گا۔ مگر عام آدمی کو انصاف ملنا ناممکن ہو گا۔
ہر کوئی نظام عدل کے نقائص بیان کرے گا۔ مگر معاملات کوبہتر کیسے کرنا ہے اس طرف کوئی بھی بات کرتا نظر نہیں آئے گا۔ بالکل اسی طرح صفائی کے فوائد ہر کوئی گنواتا ہے۔ ملک کے ہر شہر ' گلی کوچہ میں کچرے کے ڈھیر پر تف تف کرتا بھی معلوم ہو گا۔ مگر گاڑی کا شیشہ کھول کر خالی لفافے باہر پھینکنے سے کوئی بھی نہیں باز آئے گا۔
پلاسٹک کے لفافوں کا نقصان سب کو معلوم ہے۔ مگر کوئی بھی دکاندار کو یہ نہیں کہے گا کہ پلاسٹک کے لفافے میں لپٹی چیزوں کو وصول نہیں کرے گا۔ ملک کے کسی شعبہ کو دیکھ لیں۔ کج فہمی اور برائی آپ کو بدرجہ اتم نظر آئے گی۔
گر ایک نکتہ ڈھوننے سے بھی نہیں ملے گا۔ بذات خود اپنے عمل سے حل کرنے کا طریقہ ۔ یعنی اپنی ذات سے کام کو درست کرنے کی کوشش مفقود نظر آئے گی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم مسائل اور نقائص پر تو ہر دم بحث در بحث کرتے رہتے ہیں۔ مگر ان کو حل کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ یہ وہ نقص ہے جو تمام مسائل کو مزید طول دیتا ہے۔
مثبت کام کرنے کے لیے ذاتی نظم و ضبط چاہیے۔ جو بہر حال ہمارا قومی شعار نہیں ہے۔ بالائی طبقہ اس صورت حال کا ہر حال میں خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ پٹرول جتنا مرضی مہنگا کردوں۔ لوگ ہرگز سڑکوں پر نکل کر احتجاج نہیں کریں گے۔
موٹرسائیکل اور گاڑیوں سے اجتناب نہیں کریں گے۔ عام لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ ہر مشکل کا حل خود نکال سکتے ہیں۔ جس دن عام لوگ مہنگا پٹرول خریدنا بند کر دیں ۔ پیدل چلنا شروع کر دیں ' سائیکل چلانی شروع کر دیں۔ پٹرول خود بخود سستا ہو جائے گا۔ مگر یہ تمام مثبت حرکتیں زندہ معاشرے کرتے ہیں۔
ہمارے جیسے خواب خرگوش میں مبتلا لوگ صرف باتیں کر سکتے ہیں۔ اس خرابی زدہ ماحول میں ڈاکٹر وقار فاروقی اور اس کی ٹیم نے جو بہترین کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی ستائش ہونی چاہیے۔ واک ان کلینکس شاید ہمارے صحت کے ابتدائی مسائل حل کر دیں۔
باقی تو خیر ہم نے کیا کرنا ہے۔ دعا ہے کہ وقار کو اس کے اس نئے اور نیک کام میں کامیابی ہو۔ اور معاشرے میں یہ کلینکس ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوں۔ خدا کرے!