محبت کے شاعر نے آنکھیں موند لیں
امجد اسلام امجد نے بحیثیت شاعر، ادیب، ڈراما نگار، دانشور اور کالم نگار خود کو منوایا
ابھی اتوار (پانچ فروری) کو روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحے پر ممتاز شاعر امجد اسلام امجد کا کالم 'ایکسپریس' کے قارئین نے پڑھا ہو گا، جس میں وہ اپنے سفر حجاز اور ادائیگی عمرہ کی روداد سنا رہے تھے۔
وہ روزنامہ ایکسپریس کے لیے ہفتے میں دو کالم لکھا کرتے جو جمعرات اور اتوار کے دن شائع ہوتے۔ ادارتی شعبے کے رفیق کار سلطان عمران نے بدھ (آٹھ فروری) کو کالم موصول نہ ہونے پر رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ علالت کی وجہ سے کالم نہیں لکھ سکے۔
ادب اور ڈرامہ نویسی میں امجد اسلام امجد کے کارنامے لازوال ہیں، ان کا وجود، گفتگو اور تحریریں بھی ہمارے معاشرے کے لیے بہت بابرکت اور مینارہ نور کی حیثیت رکھتے تھے۔ انداز تکلم بہت سادہ، دل نشیں اور ان کی فکر میں clarity ہوتی تھی۔
ان کا شمار ان چند دانشوروں میں ہوتا ہے، جو مشکل ترین حالات میں بھی قوم کی ہمت نہیں ٹوٹنے دیتے بلکہ اپنی زندہ دلی اور فکری پختگی سے معاشرے کی رہنمائی کرتے ہوئے امید کی جوت جگائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے موجودہ نسل کو ماضی کی ان بہترین اقدار اور عظیم شخصیات سے متعارف کرایا، جو کسی بھی سماج کا اثاثہ ہوتے ہیں۔
ان صفات کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے کو ان کی کتنی ضرورت تھی اور ان کے اچانک رخصت ہونے سے ملک و قوم کا کتنا نقصان ہوا ہے۔
ممتاز شاعر، ڈراما نویس، مترجم، نقاد اور کالم نگار امجد اسلام امجد 4 اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ دستکاروں کے خاندان سے تعلق تھا، جو 1930ء میں سیالکوٹ سے آ کر لاہور میں آباد ہوا۔ تین بھائیوں اور چار بہنوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔
1961ء میں مسلم ماڈل اسکول، لاہور سے میٹرک کیا۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے انٹرمیڈیٹ، جبکہ اسلامیہ کالج سول لائنز سے گریجویشن مکمل کی۔ بی اے میں اردو کے مضمون میں اچھے نمبر لے کر اسکالر شپ حاصل کیا اور اورینٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔1967ء میں اورینٹل کالج سے امتیازی حیثیت میں ایم اے اردو کا امتحان پاس کیا۔
زمانہ طالب علمی میں بہت اچھے کرکٹر رہے اور ٹیسٹ کرکٹر بننے کی بہت خواہش تھی، لیکن قسمت نے اس میدان میں یاوری نہ کی۔ 2012ء میں روزنامہ ایکسپریس کو ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا: ''کرکٹ کھیلنے کا جنون مجھے بچپن سے تھا۔
آٹھویں جماعت سے بی اے تک میں نے کرکٹر بننے کے سوا کچھ سوچا نہیں تھا۔ 1964ء میں اسلامیہ کالج کی جس ٹیم نے 1952ء کے بعد پہلی بار گورنمنٹ کالج کی کرکٹ ٹیم کو ہرایا، میں اس کا اہم رکن تھا۔ میں نے ٹورنامنٹ میں آف اسپنر کی حیثیت سے انیس کھلاڑی آؤٹ کئے۔
پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم بنی تو مجھے ریزرو میں ڈال دیا گیا اور میری جگہ تین وکٹیں لینے والے لڑکے کو منتخب کرلیا گیا۔ اس سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔''
کالج کے دور میں ان کا ادب کی طرف رجحان بڑھتا گیا، جلد ہی اتنی پذیرائی ملنے لگی کہ وہ پیشہ ور کرکٹر نہ بن سکنے کا دکھ بھول گئے، بلکہ اس کو اپنے حق میں بہتر خیال کرنے لگے۔
تخلیقی صلاحیت کو پروان چڑھانے میں ان کی ایک نابینا خالہ کا کردار اہم ہے، جو بچپن میں انہیں کہانیاں سنایا کرتیں۔ امجد ان کہانیوں کو بہت دلچسپی سے سنتے اور اگلے روز اپنی سمجھ کے مطابق کہانی میں اضافے کر کے اپنے ہم جماعتوں کو سناتے۔ چنانچہ چھٹی جماعت میں ایک استاد نے ان کا نام ہی ''کہانیاں سنانے کی مشین'' رکھ ڈالا۔ بقول امجد اسلام امجد، ''شاید میرے اساتذہ نے محسوس کیا کہ میرے لکھنے اور بولنے میں کوئی اضافی چیز ہے جو مجھے باقی طلبا سے ممتاز کرتی تھی، چناچہ نویں جماعت میں مجھے اسکول کے مجلے کا ایڈیٹر بنا دیاگیا۔
جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو مجھے احساس ہواکہ میں لکھ سکتاہوں، شاعری یا نثر کی زبان میں۔''
امجد اورینٹل کالج میں ایم اے اردو کے طالب علم تھے ، جب پنجاب یونیورسٹی میں جنگ ستمبر کے سلسلے میں مشاعرہ ہوا۔انہوں نے ادھر نظم سنائی۔ مشاعرہ ختم ہونے پر احمد ندیم قاسمی ان کے پاس آئے اور کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ''میں احمد ندیم قاسمی ہوں، اور ایک رسالہ ''فنون'' نکالتا ہوں'' اس پر امجد اسلام امجد نے کہا کہ '' سر آپ کو کون نہیں جانتا، اور میں ''فنون'' پڑھتا رہتاہوں۔'' اس پہ احمد ندیم قاسمی نے فرمایا ''کیا وہ نظم جو آپ نے مشاعرے میں پڑھی ہے ، مجھے ''فنون'' کے لیے عنایت کرسکتے ہیں۔''
امجد اسلام امجد کے بقول، ''اب یہ لفظ عنایت میری اوقات سے بہت بڑا تھا، اس نے مجھے یہ اعتماد بخشاکہ میں جو کام کررہا ہوں اس کی اگر اتنا بڑا آدمی تعریف رہا ہے تو اس کو جاری رہنا چاہیے۔'' اپنی فطری صلاحیت اور احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیب کی مسلسل حوصلہ افزائی سے ان کا ادبی سفر کامیابی کی مختلف منازل طے کرتا رہا۔
امجد اسلام امجد کی ادبی شخصیت کا بنیادی حوالہ ان کی شاعری ہے۔ وہ کہا کرتے تھے، ''ڈراما نویسی، کالم نویسی، ترجمہ نگاری، سفرنامے، تنقید وغیرہ میری شاعری کے ساتھ ضرور رہے لیکن اس کے درمیان میں نہیں آئے۔'' زمانہ طالب علمی میں ہی بطور شاعر پہچان بنا چکے تھے۔
ایوب خان کے خلاف نظم ''ہوائے شہر وفا شعاراں'' خاصی مقبول ہوئی، جسے حنیف رامے نے ''نصرت'' کے ٹائٹل پر چھاپ دیا۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے معروف مصنف اور ماہر تعلیم شاہد صدیقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں، ''میں انگریزی ادب کا طالب علم تھا لیکن اردو ادب سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ ہم دوست شام کو ملتے تو شعر و ادب پر گفتگو ہوتی۔
نئی کتابوں کا تذکرہ ہوتا۔ انھی دنوں ایک نئے شاعر کی آواز نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ سادہ اسلوب اور آسان ڈکشن، دل کش استعارے اور تشبہیں اور جذبے کی ایک رو جو پڑھنے اور سننے والے کو اپنے ساتھ بہا لے جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس شاعر کا نام امجد اسلام امجد تھا۔ وہ جلد ہی نوجوانوں کے دلوں کی آواز بن گیا۔ مجھے یاد ہے اس زمانے میں امجد کی ''محبت کی ایک نظم'' خاص و عام میں مقبول تھی۔ اس کا آغاز کچھ یوں ہوتا تھا:
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
یہ نظم طوالت کے باوجود بہت سے نوجوانوں کو حفظ ہو گئی تھی۔'' امجد اسلام امجد '' فنون'' اور دوسرے ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگے۔74 19ء میںشاعری کا پہلا مجموعہ ''برزخ'' شائع ہوا۔
امجد اسلام امجد نے ڈرامہ نویسی میں بھی خوب نام کمایا، یوں ان کی شہرت صرف ادبی حلقوں تک محدود نہ رہی، بلکہ عام گھروں میں بھی ان کا نام لیا جانے لگا۔ جس زمانے میں پی ٹی وی پر اطہر شاہ خان جیدی کا ڈراما ''لاکھوں میں تین ''چل رہا تھا، امجداسلام امجد نے ان سے ڈرامے سے متعلق کچھ نکات پر بحث کی۔
ان کی تنقیدی بصیرت سے قائل ہو کر اطہر شاہ خان نے امجد سے ڈراما لکھنے کی بات کی۔ حوصلہ افزائی پر ڈراما لکھ کر پی ٹی وی کے دفتر کا چکر لگاتے رہے، لیکن کسی نے اسکرپٹ قبول نہ کیا۔ 73 19ء میں پی ٹی وی نے نئے لکھنے والوں کو خوش آمدید کہا تو راولپنڈی اسٹیشن سے ان کا ڈراما ''آخری خواب'' پیش کیا گیا۔
1974ء میں راولپنڈی اسٹیشن سے حوا کے نام سے سیریز شروع ہوئی،جس کے لیے امجد اسلام امجد نے ''برزخ''اور'' موم کی گڑیا'' کے نام سے دو ڈرامے لکھے۔ کنورخالد آفتاب کا تبادلہ لاہور ہوا تو یہاں بھی ان کی سنی گئی۔
1975ء میں 23 مارچ کا خصوصی کھیل ''خواب جاگتے ہیں'' لکھا جو ان کی شادی کے روز دکھایا گیا۔ کچھ اور ڈراموں کے بعد، ڈراما سیریل ''وارث ''کا مرحلہ آگیا، جس نے پاکستان ٹی وی ڈرامے کی تاریخ بدل دی۔ اس ڈرامے کے متعلق ان کا کہنا تھا، ''مجھے کہا گیا کہ تین دن میں کوئی آئیڈیا ہے تو پیش کرو، جس پر میں نے اس ڈراما کا پہلا اسکرپٹ لکھا۔
اس ڈرامے کی تھیم بارہ سال سے میرے اندر پک رہی تھی۔ ڈراما اتنا زیادہ ہٹ ہوا کہ اس کے اسکرپٹ کو تبدیل کرنا پڑا۔ آخری حصہ جس طرح سے دکھایا گیا، اس طرح پہلے نہیں تھا۔ چودھری حشمت کا کردارڈرامے کے وسط تک رہتا، اس کے بعد اس کے دونوں بیٹوں کے درمیان جو لڑائی تھی، اس کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی۔'' اردو کے شاہکار افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کا سلسلہ شروع ہوا تو اس میں بھی امجد اسلام امجد نے اپنا حصہ ڈالا۔
امجد اسلام امجد کی کالم نگاری کا سفر 1984ء میں امروز سے شروع ہوا۔ اپنی کالم نگاری سے انہوں نے پڑھنے والوں کی فکری رہنمائی کے ساتھ ان کے ادبی ذوق کی آبیاری بھی کی۔ کالموں میں جہاں وہ اپنے اسفار اور مصروفیات کا احوال سناتے، وہاں اپنے خیالات اور ملکی حالات سے متعلق بے تکلفانہ گفتگو کرتے۔ وہ اپنے پڑھنے والوں کو ان کم معروف لیکن عظیم کرداروںسے بھی روشناس کراتے، جنہوں نے اپنے شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔
وفات پا جانے والی معروف شخصیات سے متعلق اپنی یادوں میں قارئین کو شریک کرتے۔ وہ ایک ہنس مکھ شخصیت تھے، دوست احباب ان کے جملوں سے خوب لطف اندوز ہوتے، جس محفل میں بھی ہوتے اس کی جان بن جاتے۔ گزشتہ برس 23 مارچ کو انہوں نے اپنے ایک کالم کا آغاز ان سطروں سے کیا، ''مجھ سمیت وطن عزیز کے وہ تمام لوگ جو گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی تک میں پیدا ہوئے۔
اس بات کے شاہد اور گواہ ہیں کہ تمام تر مسائل کے باوجود ہمارے معاشرے میں خوش دلی اور خوش گمانی بہت حد تک موجود تھی، جو کہتے تھے وہ سنتے بھی تھے۔'' روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے ان کے آخری کالم، جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
کے یہ چند جملے اب کتنے معنی خیز معلوم ہوتے ہیں، ''عبادات اور دعاؤں کے ساتھ مجھے زیادہ تر احباب کے نام بنام اور باقیوں کے لیے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا وقت مل گیا اور اس کے ساتھ ہی رب کریم نے مجھے یہ توفیق بھی عنایت کی کہ میں ان سب لوگوں کے لیے بھی اپنی طرف سے معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ ان کی مغفرت کے لیے بھی دعائیں کر سکوں، جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں کبھی نہ کبھی میرے ساتھ بدسلوکی کی تھی کہ دل میں بار بار وہ آیت گونج رہی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ بدلہ لینا تمھارا حق ہے لیکن تم اگر معاف کر دو تو یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے۔''
امجد اسلام امجد 1968ء میں ایم اے او کالج میں ساڑھے تین سو روپے تنخواہ پر لیکچرار مقرر ہوئے اور 1997ء میں اسی ادارے سے بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔ تدریس سے فراغت کے بعد اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹراور چلڈرن لائبریری لاہور کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیتوں میں فرائض انجام دیے۔
23مارچ 1975ء کو امجد اسلام امجد کی شادی اپنی کزن فردوس سے ہوئی۔ روشین امجد (آپ معروف شاعر انور مسعود کی بہو ہیں) اور تحسین امجد بیٹیاں اور علی ذیشان امجد بیٹا ہے۔ان کی شاعری کے درجنوں مجموعے شائع ہوئے۔ ''عکس'' اور''کالے لوگوں کی روشن نظمیں'' شاعری کے تراجم پر مشتمل تصانیف ہیں۔ تنقیدی کتاب ''نئے پرانے ''کے نام سے ہے۔
سفرناموں کے چار اور کالموں کے چھے مجموعے چھپ چکے ہیں۔'' وارث'' ''رات''، ''دہلیز''،''سمندر''، ''فشار''، ''دن ''، ''اگر''، ''انکار'' اور ''ایندھن'' سمیت کئی یادگار ڈرامے لکھے۔ چار فلموں''حق مہر''''نجات''''چوروں کی بارات'' اور ''جو ڈر گیا وہ مر گیا''کی کہانی اور دو فلموں ''قربانی'' اور ''سلاخیں'' کے مکالمے لکھے۔ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزازات سے نوازا۔ ان کی اچانک رحلت سے وطن ایک درد دل رکھنے والے شاعر اور ادیب اور ایک خوش فکر مفکر سے محروم ہو گیا ہے۔
امجد اسلام امجد کا شعر ہے:
زندگی کا ہی نہیں ٹھور ٹھکانہ معلوم
موت تو طے ہے کہ کس وقت کہاں آنی ہے
وہ روزنامہ ایکسپریس کے لیے ہفتے میں دو کالم لکھا کرتے جو جمعرات اور اتوار کے دن شائع ہوتے۔ ادارتی شعبے کے رفیق کار سلطان عمران نے بدھ (آٹھ فروری) کو کالم موصول نہ ہونے پر رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ علالت کی وجہ سے کالم نہیں لکھ سکے۔
ادب اور ڈرامہ نویسی میں امجد اسلام امجد کے کارنامے لازوال ہیں، ان کا وجود، گفتگو اور تحریریں بھی ہمارے معاشرے کے لیے بہت بابرکت اور مینارہ نور کی حیثیت رکھتے تھے۔ انداز تکلم بہت سادہ، دل نشیں اور ان کی فکر میں clarity ہوتی تھی۔
ان کا شمار ان چند دانشوروں میں ہوتا ہے، جو مشکل ترین حالات میں بھی قوم کی ہمت نہیں ٹوٹنے دیتے بلکہ اپنی زندہ دلی اور فکری پختگی سے معاشرے کی رہنمائی کرتے ہوئے امید کی جوت جگائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے موجودہ نسل کو ماضی کی ان بہترین اقدار اور عظیم شخصیات سے متعارف کرایا، جو کسی بھی سماج کا اثاثہ ہوتے ہیں۔
ان صفات کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے کو ان کی کتنی ضرورت تھی اور ان کے اچانک رخصت ہونے سے ملک و قوم کا کتنا نقصان ہوا ہے۔
ممتاز شاعر، ڈراما نویس، مترجم، نقاد اور کالم نگار امجد اسلام امجد 4 اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ دستکاروں کے خاندان سے تعلق تھا، جو 1930ء میں سیالکوٹ سے آ کر لاہور میں آباد ہوا۔ تین بھائیوں اور چار بہنوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔
1961ء میں مسلم ماڈل اسکول، لاہور سے میٹرک کیا۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے انٹرمیڈیٹ، جبکہ اسلامیہ کالج سول لائنز سے گریجویشن مکمل کی۔ بی اے میں اردو کے مضمون میں اچھے نمبر لے کر اسکالر شپ حاصل کیا اور اورینٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔1967ء میں اورینٹل کالج سے امتیازی حیثیت میں ایم اے اردو کا امتحان پاس کیا۔
زمانہ طالب علمی میں بہت اچھے کرکٹر رہے اور ٹیسٹ کرکٹر بننے کی بہت خواہش تھی، لیکن قسمت نے اس میدان میں یاوری نہ کی۔ 2012ء میں روزنامہ ایکسپریس کو ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا: ''کرکٹ کھیلنے کا جنون مجھے بچپن سے تھا۔
آٹھویں جماعت سے بی اے تک میں نے کرکٹر بننے کے سوا کچھ سوچا نہیں تھا۔ 1964ء میں اسلامیہ کالج کی جس ٹیم نے 1952ء کے بعد پہلی بار گورنمنٹ کالج کی کرکٹ ٹیم کو ہرایا، میں اس کا اہم رکن تھا۔ میں نے ٹورنامنٹ میں آف اسپنر کی حیثیت سے انیس کھلاڑی آؤٹ کئے۔
پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم بنی تو مجھے ریزرو میں ڈال دیا گیا اور میری جگہ تین وکٹیں لینے والے لڑکے کو منتخب کرلیا گیا۔ اس سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔''
کالج کے دور میں ان کا ادب کی طرف رجحان بڑھتا گیا، جلد ہی اتنی پذیرائی ملنے لگی کہ وہ پیشہ ور کرکٹر نہ بن سکنے کا دکھ بھول گئے، بلکہ اس کو اپنے حق میں بہتر خیال کرنے لگے۔
تخلیقی صلاحیت کو پروان چڑھانے میں ان کی ایک نابینا خالہ کا کردار اہم ہے، جو بچپن میں انہیں کہانیاں سنایا کرتیں۔ امجد ان کہانیوں کو بہت دلچسپی سے سنتے اور اگلے روز اپنی سمجھ کے مطابق کہانی میں اضافے کر کے اپنے ہم جماعتوں کو سناتے۔ چنانچہ چھٹی جماعت میں ایک استاد نے ان کا نام ہی ''کہانیاں سنانے کی مشین'' رکھ ڈالا۔ بقول امجد اسلام امجد، ''شاید میرے اساتذہ نے محسوس کیا کہ میرے لکھنے اور بولنے میں کوئی اضافی چیز ہے جو مجھے باقی طلبا سے ممتاز کرتی تھی، چناچہ نویں جماعت میں مجھے اسکول کے مجلے کا ایڈیٹر بنا دیاگیا۔
جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو مجھے احساس ہواکہ میں لکھ سکتاہوں، شاعری یا نثر کی زبان میں۔''
امجد اورینٹل کالج میں ایم اے اردو کے طالب علم تھے ، جب پنجاب یونیورسٹی میں جنگ ستمبر کے سلسلے میں مشاعرہ ہوا۔انہوں نے ادھر نظم سنائی۔ مشاعرہ ختم ہونے پر احمد ندیم قاسمی ان کے پاس آئے اور کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ''میں احمد ندیم قاسمی ہوں، اور ایک رسالہ ''فنون'' نکالتا ہوں'' اس پر امجد اسلام امجد نے کہا کہ '' سر آپ کو کون نہیں جانتا، اور میں ''فنون'' پڑھتا رہتاہوں۔'' اس پہ احمد ندیم قاسمی نے فرمایا ''کیا وہ نظم جو آپ نے مشاعرے میں پڑھی ہے ، مجھے ''فنون'' کے لیے عنایت کرسکتے ہیں۔''
امجد اسلام امجد کے بقول، ''اب یہ لفظ عنایت میری اوقات سے بہت بڑا تھا، اس نے مجھے یہ اعتماد بخشاکہ میں جو کام کررہا ہوں اس کی اگر اتنا بڑا آدمی تعریف رہا ہے تو اس کو جاری رہنا چاہیے۔'' اپنی فطری صلاحیت اور احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیب کی مسلسل حوصلہ افزائی سے ان کا ادبی سفر کامیابی کی مختلف منازل طے کرتا رہا۔
امجد اسلام امجد کی ادبی شخصیت کا بنیادی حوالہ ان کی شاعری ہے۔ وہ کہا کرتے تھے، ''ڈراما نویسی، کالم نویسی، ترجمہ نگاری، سفرنامے، تنقید وغیرہ میری شاعری کے ساتھ ضرور رہے لیکن اس کے درمیان میں نہیں آئے۔'' زمانہ طالب علمی میں ہی بطور شاعر پہچان بنا چکے تھے۔
ایوب خان کے خلاف نظم ''ہوائے شہر وفا شعاراں'' خاصی مقبول ہوئی، جسے حنیف رامے نے ''نصرت'' کے ٹائٹل پر چھاپ دیا۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے معروف مصنف اور ماہر تعلیم شاہد صدیقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں، ''میں انگریزی ادب کا طالب علم تھا لیکن اردو ادب سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ ہم دوست شام کو ملتے تو شعر و ادب پر گفتگو ہوتی۔
نئی کتابوں کا تذکرہ ہوتا۔ انھی دنوں ایک نئے شاعر کی آواز نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ سادہ اسلوب اور آسان ڈکشن، دل کش استعارے اور تشبہیں اور جذبے کی ایک رو جو پڑھنے اور سننے والے کو اپنے ساتھ بہا لے جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس شاعر کا نام امجد اسلام امجد تھا۔ وہ جلد ہی نوجوانوں کے دلوں کی آواز بن گیا۔ مجھے یاد ہے اس زمانے میں امجد کی ''محبت کی ایک نظم'' خاص و عام میں مقبول تھی۔ اس کا آغاز کچھ یوں ہوتا تھا:
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
یہ نظم طوالت کے باوجود بہت سے نوجوانوں کو حفظ ہو گئی تھی۔'' امجد اسلام امجد '' فنون'' اور دوسرے ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگے۔74 19ء میںشاعری کا پہلا مجموعہ ''برزخ'' شائع ہوا۔
امجد اسلام امجد نے ڈرامہ نویسی میں بھی خوب نام کمایا، یوں ان کی شہرت صرف ادبی حلقوں تک محدود نہ رہی، بلکہ عام گھروں میں بھی ان کا نام لیا جانے لگا۔ جس زمانے میں پی ٹی وی پر اطہر شاہ خان جیدی کا ڈراما ''لاکھوں میں تین ''چل رہا تھا، امجداسلام امجد نے ان سے ڈرامے سے متعلق کچھ نکات پر بحث کی۔
ان کی تنقیدی بصیرت سے قائل ہو کر اطہر شاہ خان نے امجد سے ڈراما لکھنے کی بات کی۔ حوصلہ افزائی پر ڈراما لکھ کر پی ٹی وی کے دفتر کا چکر لگاتے رہے، لیکن کسی نے اسکرپٹ قبول نہ کیا۔ 73 19ء میں پی ٹی وی نے نئے لکھنے والوں کو خوش آمدید کہا تو راولپنڈی اسٹیشن سے ان کا ڈراما ''آخری خواب'' پیش کیا گیا۔
1974ء میں راولپنڈی اسٹیشن سے حوا کے نام سے سیریز شروع ہوئی،جس کے لیے امجد اسلام امجد نے ''برزخ''اور'' موم کی گڑیا'' کے نام سے دو ڈرامے لکھے۔ کنورخالد آفتاب کا تبادلہ لاہور ہوا تو یہاں بھی ان کی سنی گئی۔
1975ء میں 23 مارچ کا خصوصی کھیل ''خواب جاگتے ہیں'' لکھا جو ان کی شادی کے روز دکھایا گیا۔ کچھ اور ڈراموں کے بعد، ڈراما سیریل ''وارث ''کا مرحلہ آگیا، جس نے پاکستان ٹی وی ڈرامے کی تاریخ بدل دی۔ اس ڈرامے کے متعلق ان کا کہنا تھا، ''مجھے کہا گیا کہ تین دن میں کوئی آئیڈیا ہے تو پیش کرو، جس پر میں نے اس ڈراما کا پہلا اسکرپٹ لکھا۔
اس ڈرامے کی تھیم بارہ سال سے میرے اندر پک رہی تھی۔ ڈراما اتنا زیادہ ہٹ ہوا کہ اس کے اسکرپٹ کو تبدیل کرنا پڑا۔ آخری حصہ جس طرح سے دکھایا گیا، اس طرح پہلے نہیں تھا۔ چودھری حشمت کا کردارڈرامے کے وسط تک رہتا، اس کے بعد اس کے دونوں بیٹوں کے درمیان جو لڑائی تھی، اس کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی۔'' اردو کے شاہکار افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کا سلسلہ شروع ہوا تو اس میں بھی امجد اسلام امجد نے اپنا حصہ ڈالا۔
امجد اسلام امجد کی کالم نگاری کا سفر 1984ء میں امروز سے شروع ہوا۔ اپنی کالم نگاری سے انہوں نے پڑھنے والوں کی فکری رہنمائی کے ساتھ ان کے ادبی ذوق کی آبیاری بھی کی۔ کالموں میں جہاں وہ اپنے اسفار اور مصروفیات کا احوال سناتے، وہاں اپنے خیالات اور ملکی حالات سے متعلق بے تکلفانہ گفتگو کرتے۔ وہ اپنے پڑھنے والوں کو ان کم معروف لیکن عظیم کرداروںسے بھی روشناس کراتے، جنہوں نے اپنے شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔
وفات پا جانے والی معروف شخصیات سے متعلق اپنی یادوں میں قارئین کو شریک کرتے۔ وہ ایک ہنس مکھ شخصیت تھے، دوست احباب ان کے جملوں سے خوب لطف اندوز ہوتے، جس محفل میں بھی ہوتے اس کی جان بن جاتے۔ گزشتہ برس 23 مارچ کو انہوں نے اپنے ایک کالم کا آغاز ان سطروں سے کیا، ''مجھ سمیت وطن عزیز کے وہ تمام لوگ جو گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی تک میں پیدا ہوئے۔
اس بات کے شاہد اور گواہ ہیں کہ تمام تر مسائل کے باوجود ہمارے معاشرے میں خوش دلی اور خوش گمانی بہت حد تک موجود تھی، جو کہتے تھے وہ سنتے بھی تھے۔'' روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے ان کے آخری کالم، جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
کے یہ چند جملے اب کتنے معنی خیز معلوم ہوتے ہیں، ''عبادات اور دعاؤں کے ساتھ مجھے زیادہ تر احباب کے نام بنام اور باقیوں کے لیے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا وقت مل گیا اور اس کے ساتھ ہی رب کریم نے مجھے یہ توفیق بھی عنایت کی کہ میں ان سب لوگوں کے لیے بھی اپنی طرف سے معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ ان کی مغفرت کے لیے بھی دعائیں کر سکوں، جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں کبھی نہ کبھی میرے ساتھ بدسلوکی کی تھی کہ دل میں بار بار وہ آیت گونج رہی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ بدلہ لینا تمھارا حق ہے لیکن تم اگر معاف کر دو تو یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے۔''
امجد اسلام امجد 1968ء میں ایم اے او کالج میں ساڑھے تین سو روپے تنخواہ پر لیکچرار مقرر ہوئے اور 1997ء میں اسی ادارے سے بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔ تدریس سے فراغت کے بعد اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹراور چلڈرن لائبریری لاہور کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیتوں میں فرائض انجام دیے۔
23مارچ 1975ء کو امجد اسلام امجد کی شادی اپنی کزن فردوس سے ہوئی۔ روشین امجد (آپ معروف شاعر انور مسعود کی بہو ہیں) اور تحسین امجد بیٹیاں اور علی ذیشان امجد بیٹا ہے۔ان کی شاعری کے درجنوں مجموعے شائع ہوئے۔ ''عکس'' اور''کالے لوگوں کی روشن نظمیں'' شاعری کے تراجم پر مشتمل تصانیف ہیں۔ تنقیدی کتاب ''نئے پرانے ''کے نام سے ہے۔
سفرناموں کے چار اور کالموں کے چھے مجموعے چھپ چکے ہیں۔'' وارث'' ''رات''، ''دہلیز''،''سمندر''، ''فشار''، ''دن ''، ''اگر''، ''انکار'' اور ''ایندھن'' سمیت کئی یادگار ڈرامے لکھے۔ چار فلموں''حق مہر''''نجات''''چوروں کی بارات'' اور ''جو ڈر گیا وہ مر گیا''کی کہانی اور دو فلموں ''قربانی'' اور ''سلاخیں'' کے مکالمے لکھے۔ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزازات سے نوازا۔ ان کی اچانک رحلت سے وطن ایک درد دل رکھنے والے شاعر اور ادیب اور ایک خوش فکر مفکر سے محروم ہو گیا ہے۔
امجد اسلام امجد کا شعر ہے:
زندگی کا ہی نہیں ٹھور ٹھکانہ معلوم
موت تو طے ہے کہ کس وقت کہاں آنی ہے