لفظ اس کی میراث ہم سب جس کے ’’وارث‘‘
امجد کا خوب صورت دل اپنی ہر دھڑکن صفحات پر رقم کرتے کرتے تھک چکا تھا، تھم گیا، رُک گیا
یہ ڈراما ''وارث'' تھا جس نے مجھ سمیت جانے کتنوں سے امجد اسلام امجد کو متعارف کرایا۔
اس دور میں نہ موبائل فون تھا، نہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ کی رنگین دنیا تھی نہ سماجی ویب سائٹس کی چہل پہل۔ تفریح کے لیے لے دے کے ریڈیو ہوتا تھا یا ٹی وی، سنیما جاکر فلم دیکھنا کبھی کبھار کا تعیش تھا، ٹی وی بھی محلے کے چند گھروں ہی کی شان بڑھا رہا ہوتا تھا۔
اس چھوٹی سی اسکرین کی سیاہی وسفیدی اپنے میں جانے کتنے رنگ سمائے ہوتی تھی، لیکن جنرل ضیاء الحق کے جبر تلے سینے کا پورا زور لگائے سانسیں لے کر گھٹن سے لڑتے سماج کو گھیرے سیاہی اور تاریکی کی جھلک بھی اس پردے پر جگہ نہیں پاتی تھی۔
ڈراسہما، الجھا، پاکیزہ اور نہایت باحیا رومان، حبس کا مداوا ہنسی سے کرتا مزاح، نیکیوں پر اُکساتی نصیحتیں اور اللہ پر توکل کرکے اور خدا کی مرضی جان کر ہر ظلم سے چشم پوشی کرتا تصوف۔۔۔۔ان ڈراموں کی کہانیاں بس انھیں موضوعات تک محدود تھیں۔ ایک بہت بڑے قلم کار کے ڈرامے کا اتنا ہی ''چھوٹا'' مکالمہ کسی قدر اب تک یاد ہے، ڈرامے کا محب وطن ہیرو کہتا ہے،''مجھے اس ملک سے محبت ہے، اس کی ٹوٹی سڑکوں کوڑے کرکٹ سے محبت ہے، اس کی حکومت سے محبت ہے۔''
اس فضا میں جب ''وارث'' کا سفاک، جابر، مکار، اپنے پوتے کی بے راہ روی پر جھومتا قہقہے لگاتا ''چوہدری حشمت'' اور اس کے ظلم کے شکار افراد کردار کی صورت سامنے آئے تو یہ میرے لیے اپنے وطن کی پہلی سچی تصویر تھی۔
امجد صاحب کو زندہ رکھنے کے لیے ان کی جو چند تخلیقات کافی ہیں ان میں یہ ڈراما سرفہرست ہے۔
جس رات ''وارث'' کی قسط نشر ہوتی سڑکیں ویران ہوجاتیں، بازار سنسان ہوجاتے اور گلیاں خالی ہوجاتیں۔ آخر ایسا کیا تھا اس ڈرامے میں کہ اس کے لگ بھگ سارے ہی کردار دلوں میں اُتر گئے تھے یا جن کے لیے آنکھوں میں نفرت اتر آتی تھی؟ یہ کہانی کی بنت، تجسس، سیدھی سادی زبان میں لکھے گئے مکالمے اور اعلیٰ درجے کی کردار نگاری تھی جس نے ہر نظر ہر سماعت کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
یہ امجداسلام امجد کے قلم کا اعجاز اور تخلیق کا کمال تو ہے کہ مجھ جیسا بھلکڑ آج ان پر لکھنے بیٹھا ہے تو اسے ''وارث'' کی کہانی ہی نہیں اس کے نمایاں کرداروں دلاور، مولاداد، فرخ، سیمی، چوہدری یعقوب، چوہدری انور، شیرمحمد کے نام بھی یاد ہیں۔
امجد صاحب نے اس ڈرامے میں کرداروں کو ان کی تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت انسانی روپ میں پیش کیا۔ سو ہمیں جہاں ہر قانون، اصول اور ضابطے کو پیروں تلے روندتا ظالم جاگیردار چوہدری حشمت اپنی تمام شیطنیت کے ساتھ نظر آتا ہے وہیں وہ جاگیردارانہ سماج کی وضع داری کی مثال بن کر بھی سامنے آتا ہے اور پانی میں ڈوبتی حویلی چھوڑنے سے انکار کرکے اپنے پُرکھوں کی تصویر کے ساتھ غرق آب ہوجاتا ہے۔
''وارث'' کی گاؤں اور شہر، صنعتی ودیہی معاشرت اور شہری ودیہاتی اقدار کے تضادات دکھاتی اور ہمارے ملک میں جاگیرداری نظام کا مکروہ چہرہ سامنے لاتی کہانی امجد اسلام امجد کے ایک سچے قلم کار ہونے کی حکایت بھی سناتی ہے۔
ایک ایسا قلم کار جس کی اپنے سماج پر گہری نظر بھی تھی اور جس کے دل میں طاقت کے جوتوں تلے روز کچلے جاتے اپنے لوگوں کا درد بھی۔ انسانی نفسیات کے گہرے مطالعے اور زبان پر مکمل دسترس نے جان دار مکالموں کی صورت میں اس ڈرامے کو ہمارے ناسٹلیجیا کا حصہ بنا اور اس کے کرداروں کو امر کردیا ہے۔
میں ان کے ڈراموں کے سحر سے نکل بھی نہ پایا تھا کہ عین جوانی کی دہلیز پر ان کی شاعری سے سامنا ہوگیا، اور ان کے لفظ زندگی میں روشنی بھرنے لگے۔ ''وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا''۔۔۔۔بڑی ہی خوب صورت اور رچی ہوئی غزل کا یہ مصرعہ تو جیسے میرا راہ نما بن چکا ہے۔
جب بھی کسی چمکتی دمکتی تیز رو خواہش کے پیچھے لپکا، میری کسی بہت پُرانی ڈائری کے بوسیدہ ورق پر بسا یہ مصرعہ اُڑتا ہوا آیا اور میرے پاؤں کی زنجیر بن گیا، اور پھر میں وہیں سے موڑ مُڑا اور ''جو نہیں ملا اسے بھول جا'' کا ورد کرتا کسی نئے راستے کا راہ رو ہوگیا۔
امجد کی غزلوں، مصرعوں اور نظموں نے میری ہی طرح بے شمار دلوں اور ذہنوں کو اپنا اسیر کیا، جانے کتنے ہی سینوں میں چھپے جذبات ان کے شعروں میں ڈھل کر زبانوں پر جاری ہوگئے۔
آج کا وہ شاعری اور زبان کی نزاکتوں سے نابلد نوجوان بھی جو اکثر اردو رومن میں لکھتا اور ادب کے نام سے بھی دور بھاگتا ہے، جب جذبات اور احساسات کی شکست وریخت کے لمحوں میں اپنے اندر کے تلاطم کو زبان دینا چاہتا ہے تو امجد کی شاعری اس کا ہاتھ تھامنے اور پیٹھ سہلانے کے لیے آموجود ہوتی ہے۔ کبھی کسی کے بچھڑ جانے کا درد نڈھال کرڈالے تو:
''وہ جن سے بستی تھی دل کی بستی
وہ یار سارے نہیں رہے تھے
مگر ... یہ المیہ سب سے بالاتر تھا
کہ ہم تمہارے نہیں رہے تھے
کہ تم ہمارے نہیں رہے تھے
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
بڑی ہی مدت گزر چکی تھی''
کے دردآشنا لفظ ہم نفس بن کر سہارا دینے آپہنچتے ہیں۔
کوئی یاد سینے میں سسک رہی ہو اور ''کسی کی یاد کا موسم'' اندر رم جھم برسنے لگے تو:
''کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا''
کی تشفی ملال کے آنسو اپنی پوروں پر اتار لیتی ہے۔
بے اعتنائی کا شکوہ لفظوں کا محتاج ہوجائے تو یہاں بھی امجد کی بیاض جذبوں کا ساز بن جاتی ہے:
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں، میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
''محبت کی ایک نظم'' سے ''ذرا سی بات تک'' اپنی نظموں اور غزلوں میں امجد ہمارے گویائی سے محروم جذبوں اور رسائی سے محروم آرزوؤں کے ترجمان بن کر سامنے آتے ہیں اور بڑی ہی فراخ دلی سے ہمیں اپنے لفظوں کی میراث کا وارث بنادیتے ہیں۔
امجد کا خوب صورت دل اپنی ہر دھڑکن صفحات پر رقم کرتے کرتے تھک چکا تھا، تھم گیا، رُک گیا۔ دنیا کو محبت سے دیکھتی اور دھرتی واسیوں پر پیار لٹاتی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ ہم ان کی اس نصیحت پر عمل نہیں کرسکتے ''جو نہیں ملا اسے بھول جا'' کہ وہ اپنی تابندہ شاعری اور زندگی سے مکالموں کی صورت ہم سب کو میسر تھے اور رہیں گے، اور امجد یہ تو بتا ہی چکے ہیں کہ ان کی یاد کا ماتم کیسے کرنا ہے:
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو
تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ
رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
اگر کبھی میری یاد آئے
اس دور میں نہ موبائل فون تھا، نہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ کی رنگین دنیا تھی نہ سماجی ویب سائٹس کی چہل پہل۔ تفریح کے لیے لے دے کے ریڈیو ہوتا تھا یا ٹی وی، سنیما جاکر فلم دیکھنا کبھی کبھار کا تعیش تھا، ٹی وی بھی محلے کے چند گھروں ہی کی شان بڑھا رہا ہوتا تھا۔
اس چھوٹی سی اسکرین کی سیاہی وسفیدی اپنے میں جانے کتنے رنگ سمائے ہوتی تھی، لیکن جنرل ضیاء الحق کے جبر تلے سینے کا پورا زور لگائے سانسیں لے کر گھٹن سے لڑتے سماج کو گھیرے سیاہی اور تاریکی کی جھلک بھی اس پردے پر جگہ نہیں پاتی تھی۔
ڈراسہما، الجھا، پاکیزہ اور نہایت باحیا رومان، حبس کا مداوا ہنسی سے کرتا مزاح، نیکیوں پر اُکساتی نصیحتیں اور اللہ پر توکل کرکے اور خدا کی مرضی جان کر ہر ظلم سے چشم پوشی کرتا تصوف۔۔۔۔ان ڈراموں کی کہانیاں بس انھیں موضوعات تک محدود تھیں۔ ایک بہت بڑے قلم کار کے ڈرامے کا اتنا ہی ''چھوٹا'' مکالمہ کسی قدر اب تک یاد ہے، ڈرامے کا محب وطن ہیرو کہتا ہے،''مجھے اس ملک سے محبت ہے، اس کی ٹوٹی سڑکوں کوڑے کرکٹ سے محبت ہے، اس کی حکومت سے محبت ہے۔''
اس فضا میں جب ''وارث'' کا سفاک، جابر، مکار، اپنے پوتے کی بے راہ روی پر جھومتا قہقہے لگاتا ''چوہدری حشمت'' اور اس کے ظلم کے شکار افراد کردار کی صورت سامنے آئے تو یہ میرے لیے اپنے وطن کی پہلی سچی تصویر تھی۔
امجد صاحب کو زندہ رکھنے کے لیے ان کی جو چند تخلیقات کافی ہیں ان میں یہ ڈراما سرفہرست ہے۔
جس رات ''وارث'' کی قسط نشر ہوتی سڑکیں ویران ہوجاتیں، بازار سنسان ہوجاتے اور گلیاں خالی ہوجاتیں۔ آخر ایسا کیا تھا اس ڈرامے میں کہ اس کے لگ بھگ سارے ہی کردار دلوں میں اُتر گئے تھے یا جن کے لیے آنکھوں میں نفرت اتر آتی تھی؟ یہ کہانی کی بنت، تجسس، سیدھی سادی زبان میں لکھے گئے مکالمے اور اعلیٰ درجے کی کردار نگاری تھی جس نے ہر نظر ہر سماعت کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
یہ امجداسلام امجد کے قلم کا اعجاز اور تخلیق کا کمال تو ہے کہ مجھ جیسا بھلکڑ آج ان پر لکھنے بیٹھا ہے تو اسے ''وارث'' کی کہانی ہی نہیں اس کے نمایاں کرداروں دلاور، مولاداد، فرخ، سیمی، چوہدری یعقوب، چوہدری انور، شیرمحمد کے نام بھی یاد ہیں۔
امجد صاحب نے اس ڈرامے میں کرداروں کو ان کی تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت انسانی روپ میں پیش کیا۔ سو ہمیں جہاں ہر قانون، اصول اور ضابطے کو پیروں تلے روندتا ظالم جاگیردار چوہدری حشمت اپنی تمام شیطنیت کے ساتھ نظر آتا ہے وہیں وہ جاگیردارانہ سماج کی وضع داری کی مثال بن کر بھی سامنے آتا ہے اور پانی میں ڈوبتی حویلی چھوڑنے سے انکار کرکے اپنے پُرکھوں کی تصویر کے ساتھ غرق آب ہوجاتا ہے۔
''وارث'' کی گاؤں اور شہر، صنعتی ودیہی معاشرت اور شہری ودیہاتی اقدار کے تضادات دکھاتی اور ہمارے ملک میں جاگیرداری نظام کا مکروہ چہرہ سامنے لاتی کہانی امجد اسلام امجد کے ایک سچے قلم کار ہونے کی حکایت بھی سناتی ہے۔
ایک ایسا قلم کار جس کی اپنے سماج پر گہری نظر بھی تھی اور جس کے دل میں طاقت کے جوتوں تلے روز کچلے جاتے اپنے لوگوں کا درد بھی۔ انسانی نفسیات کے گہرے مطالعے اور زبان پر مکمل دسترس نے جان دار مکالموں کی صورت میں اس ڈرامے کو ہمارے ناسٹلیجیا کا حصہ بنا اور اس کے کرداروں کو امر کردیا ہے۔
میں ان کے ڈراموں کے سحر سے نکل بھی نہ پایا تھا کہ عین جوانی کی دہلیز پر ان کی شاعری سے سامنا ہوگیا، اور ان کے لفظ زندگی میں روشنی بھرنے لگے۔ ''وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا''۔۔۔۔بڑی ہی خوب صورت اور رچی ہوئی غزل کا یہ مصرعہ تو جیسے میرا راہ نما بن چکا ہے۔
جب بھی کسی چمکتی دمکتی تیز رو خواہش کے پیچھے لپکا، میری کسی بہت پُرانی ڈائری کے بوسیدہ ورق پر بسا یہ مصرعہ اُڑتا ہوا آیا اور میرے پاؤں کی زنجیر بن گیا، اور پھر میں وہیں سے موڑ مُڑا اور ''جو نہیں ملا اسے بھول جا'' کا ورد کرتا کسی نئے راستے کا راہ رو ہوگیا۔
امجد کی غزلوں، مصرعوں اور نظموں نے میری ہی طرح بے شمار دلوں اور ذہنوں کو اپنا اسیر کیا، جانے کتنے ہی سینوں میں چھپے جذبات ان کے شعروں میں ڈھل کر زبانوں پر جاری ہوگئے۔
آج کا وہ شاعری اور زبان کی نزاکتوں سے نابلد نوجوان بھی جو اکثر اردو رومن میں لکھتا اور ادب کے نام سے بھی دور بھاگتا ہے، جب جذبات اور احساسات کی شکست وریخت کے لمحوں میں اپنے اندر کے تلاطم کو زبان دینا چاہتا ہے تو امجد کی شاعری اس کا ہاتھ تھامنے اور پیٹھ سہلانے کے لیے آموجود ہوتی ہے۔ کبھی کسی کے بچھڑ جانے کا درد نڈھال کرڈالے تو:
''وہ جن سے بستی تھی دل کی بستی
وہ یار سارے نہیں رہے تھے
مگر ... یہ المیہ سب سے بالاتر تھا
کہ ہم تمہارے نہیں رہے تھے
کہ تم ہمارے نہیں رہے تھے
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
بڑی ہی مدت گزر چکی تھی''
کے دردآشنا لفظ ہم نفس بن کر سہارا دینے آپہنچتے ہیں۔
کوئی یاد سینے میں سسک رہی ہو اور ''کسی کی یاد کا موسم'' اندر رم جھم برسنے لگے تو:
''کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا''
کی تشفی ملال کے آنسو اپنی پوروں پر اتار لیتی ہے۔
بے اعتنائی کا شکوہ لفظوں کا محتاج ہوجائے تو یہاں بھی امجد کی بیاض جذبوں کا ساز بن جاتی ہے:
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں، میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
''محبت کی ایک نظم'' سے ''ذرا سی بات تک'' اپنی نظموں اور غزلوں میں امجد ہمارے گویائی سے محروم جذبوں اور رسائی سے محروم آرزوؤں کے ترجمان بن کر سامنے آتے ہیں اور بڑی ہی فراخ دلی سے ہمیں اپنے لفظوں کی میراث کا وارث بنادیتے ہیں۔
امجد کا خوب صورت دل اپنی ہر دھڑکن صفحات پر رقم کرتے کرتے تھک چکا تھا، تھم گیا، رُک گیا۔ دنیا کو محبت سے دیکھتی اور دھرتی واسیوں پر پیار لٹاتی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ ہم ان کی اس نصیحت پر عمل نہیں کرسکتے ''جو نہیں ملا اسے بھول جا'' کہ وہ اپنی تابندہ شاعری اور زندگی سے مکالموں کی صورت ہم سب کو میسر تھے اور رہیں گے، اور امجد یہ تو بتا ہی چکے ہیں کہ ان کی یاد کا ماتم کیسے کرنا ہے:
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو
تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ
رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
اگر کبھی میری یاد آئے