آئی ایم ایف کی مخالفت حکومت بینک ڈپازٹس پر ٹیکس اور درآمد پر فلڈ لیوی سے دستبردار

معیشت، بینکنگ سسٹم پر منفی اثرات کے خدشے پر وزارت تجارت اور اسٹیٹ بینک نے بھی مجوزہ ٹیکسوں کی مخالفت کی

حکومت نان فائلرز کے ڈپازٹس پر 0.6 فیصد ٹیکس دوبارہ متعارف کراسکتی ہے، ذرائع۔ فوٹو فائل

آئی ایم ایف اور اہم اسٹیک ہولڈرز کی مخالفت کے بعد حکومت درآمدات پر مجوزہ فلڈ لیوی اور عوام کے بینک ڈپازٹس پر یک وقتی ٹیکس ختم کرنے پر مجبور ہوگئی۔

ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ یہ تجاویز آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ بات چیت کے دوران شیئر کی گئیں۔ مزید برآں درآمدات پر ایک فیصد سے تین فیصد فلڈ لیوی لگانے کا منصوبہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور جنرل ایگریمنٹ آن ٹریڈ اینڈ ٹیرف کے تحت پاکستان کے وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔

ابتدائی طور پر دونوں یہ تجاویز ان8 سے 10 اقدامات کا حصہ تھیں جو چار ماہ میں 170 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کے لیے زیر غور تھے، ان اقدامات سے سالانہ 500 ارب روپے سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا تھا۔ وزارت خزانہ کے ایک سینئر عہدے دار نے تصدیق کی کہ دونوں اقدامات کو اب ختم کر دیا گیا ہے۔

جمعہ کے روز ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ حکومت آٹھ سے دس مدوںکی فہرست میں سے ٹیکس لگانے کے ممکنہ شعبوں کے بارے میں فیصلہ کرے گی

۔ اس فہرست میں نان فائلرز کی جانب سے رقم نکالنے پر 0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کرکے اسے 18 فیصد کرنا شامل تھا۔ جی ایس ٹی میں اضافے سے صرف چار ماہ میں 70 ارب روپے حاصل ہوں گے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے نقد رقم نکالنے پر ٹیکس کی مخالفت کے باوجود امکان ہے کہ حکومت 0.6 فیصد ٹیکس کو دوبارہ متعارف کرانے کے منصوبے پر آگے بڑھے گی۔ یہ قدم ایک بار پھر کرنسی کی گردش میں اضافہ کر سکتا ہے۔

نقد رقم نکالنے یا جمع کرانے پر ٹیکس جیسے اقدامات رجعت پسندانہ ہیں اور آمدنی پر مبنی منصفانہ ٹیکس کے اصول کے خلاف ہیں تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت تاریخی طور پر ایسے اقدامات کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

وزارت خزانہ کا بینک ڈپازٹس پر یک وقتی لیوی لگانے کا منصوبہ ایک غیر معمولی اقدام تھا اور اس سے لوگوں کو مجبور کیا جا سکتا تھا کہ وہ اپنا پیسہ بینکنگ سسٹم سے باہر رکھیں۔ ڈپازٹس پر 0.6 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کی تجویز اب بھی زیر غور ہے اور اس سے بھی کرنسی کی گردش میں اضافہ ہو سکتا ہے۔


اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق دسمبر 2022 کے آخر تک بینکنگ سسٹم کے کل ڈپازٹس تقریباً 22.5 ٹریلین روپے تھے۔ ان میں تنخواہ دار افراد، تاجروں اور دیگر کے 10.5 ٹریلین روپے کے ڈپازٹس شامل ہیں۔

ذرائع نے کہا حکومت صرف ایسے طبقے کو ٹارگٹ کرنا چاہتی ہے جن کے پاس زیادہ ڈپازٹ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت خزانہ کی بنیادی توجہ ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہے جس کی قیمت معیشت کے مختلف شعبوں پر بھاری مضمرات کی صورت میں پڑے گی۔

اپنے دورے کے بعد کے بیان میں آئی ایم ایف نے ریونیو بڑھانے کے مستقل اقدامات پر زور دیا جن سے فوری طور پر ٹیکس وصولی میں اضافہ ہو اور وہ عدالتی جانچ پڑتال کا بھی مقابلہ کر سکتے ہوں۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ اضافی ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 60 سے 70 ارب روپے اکٹھا کرنے کے لیے درآمدات پر ایک فیصد سے تین فیصد فلڈ لیوی لگانے کا منصوبہ بھی شیئر کیا۔ تاہم آئی ایم ایف نے اس کی توثیق نہیں کی۔

ابتدائی طور پر تجویز ایک فیصد سے تین اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کی تھی، جسے وزارت خزانہ نے ایک لیوی میں تبدیل کیا جس کا مقصد رقم کو صوبوں کی پہنچ سے باہر رکھنا تھا۔ امپورٹ ڈیوٹی وفاقی تقسیم شدہ پول کا حصہ ہیں جو صوبوں اور مرکز میں تقسیم کیے جاتے ہیں لیکن لیوی ایک وفاقی ٹیکس ہے جسے صوبوں کے ساتھ نہیں بانٹا جاتا۔

ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے ڈبلیو ٹی او، وزارت تجارت اور وزارت خزانہ کے نمائندوں سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس میٹنگ میں واضح نقطہ نظر یہ تھا کہ فلڈ لیوی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے وعدوں کی خلاف ورزی ہوگی۔

کسٹم کے ایک اہلکار نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ لیوی کی اصطلاح ڈیوٹی نہیں ہے۔ اسی طرح گھریلو سامان پر یکساں ٹیکس نہ لگا کر درآمدی سامان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔

 
Load Next Story