عمران خان کی ڈبل گیم چوتھا اور آخری حصہ
اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ہم کشمیر پر جمے رہنے کی اخلاقی بنیاد کھو دیتے ہیں
آپ کو مغرب میں مسلم ایغور آبادی کے ساتھ چین کے سلوک پر خاموش رہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آپ نے فلسطین اور کشمیر کے بارے میں فصاحت کے ساتھ بات کی ہے؟
جب آپ ایک ترقی پذیر ملک ہیں۔ اگر آپ بائیس کروڑ عوام کے وزیراعظم بن گئے ہیں تو آپ کو بہت محتاط رہنا ہوگا کہ آپ کیا بیانات دیتے ہیں۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے، ہم اس پر بیانات دیتے ہیں۔ اسرائیل کے بارے میں یہ بانی پاکستان کا بیان کردہ مؤقف تھا۔
اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ہم کشمیر پر جمے رہنے کی اخلاقی بنیاد کھو دیتے ہیں۔ میں ان دو مسائل پر بات کرتا ہوں۔ پاکستان کا چین پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں انسانی حقوق کے بارے میں بات کرتا ہوں تو مجھے موضوع کو منتخب کرنا پڑتا ہے۔
آپ اسلامو فوبیا کے عالمی مسئلہ کے طور پر کیسے بات کرتے ہیں؟ عمران خان: میں نے دیکھا کہ امریکا میں اسلامو فوبیا ایرانی انقلاب کے بعد بڑھتا گیا، اس کے بعد سلمان رشدی کا معاملہ آیا۔ مغرب کے لوگ مسلمانوں کے ردعمل کو نہیں سمجھ سکے۔ میں مغربی ذہن کو جانتا تھاکہ مغرب کا مذہبی نظریہ مسلمانوں کے مذہبی نظرئیے سے بالکل مختلف ہے لیکن پاکستان میں ہمارے لیے، معاشی صورتحال کے سبب، یہ کہنا بہتر ہے، جیسا ہ ہم کبھی کبھی کرکٹ میں کہتے ہیں، ''آپ کو ہر گیند کو کھیلنے کی ضرورت نہیں۔'' اور یہی میں نے کیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کے قول وفعل میں تضاد ہے کیونکہ آپ نے کئی بار شادی کی اور پلے بوائے کی زندگی گزاری۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے یہ سب سنا ہے۔ مجھے قول و فعل کے تضاد میںں اتنی دلچسپی نہیں ہے، مجھے جس چیز میں دلچسپی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے بیان کیا کہ جس طرح زیادہ قدامت پسند معاشروں میں لوگ ملتے ہیں، خاندانوں کے ساتھ چیزوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ کی زندگی میں دوسرے آپشنز موجود ہیں۔ کیا آپ خوش ہیں کہ آپ کو یہ انتخاب کرنا پڑا؟ آپ کے خیال میں کیا سبق ہو سکتا ہے یا نہیں؟
میری زندگی، میرے خیال میں، ایک منفرد زندگی ہے، جو شاید ہی کسی کی ہو ، میں ایسے بہت زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا جو میری طرح دو ثقافتوں میں تقسیم زندگی گزار سکتے تھے۔ انگلینڈ ایک طرح سے میرا دوسرا گھر بن گیا تھا۔ میں اپنی ثقافت کو مغربی ثقافت سے سمجھنے اور اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے شاید بہتر خیال رکھتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مغرب ہماری ثقافت کو کس طرح دیکھتا ہے۔ اور یہاں کے لوگوں کو، میں یہ بتا سکتا ہوں کہ مغرب کیسا ہے۔یہ سوال دوعملی کا نہیں ، ارتقاء کا سوال ہے۔
جب آپ ارتقاء کا عمل کہتے ہیں، تواس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ عمران خان: جیسے جیسے میں بڑا ہوا، میرے خیالات بدلتے رہے۔ میں نے شاید اپنے آپ کو کسی بھی دوسرے انسان سے زیادہ چیلنج کیا ہے ، عموماً ایک انٹرنیشنل پروفیشنل کھلاڑی، جب کچھ چھوڑ دیتے ہیں، تو آپ کو باقی زندگی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن میں نے خود کو چیلنج کیا۔ میں نے پہلے اس ملک کے سب سے بڑے خیراتی ادارے کا کینسر اسپتال لاہور میں بنانا شروع کیا۔ پھر میں سیاست میں آگیا۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ جو لوگ خود کو چیلنج کرتے ہیں وہ کوہ پیماؤں کی طرح ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ وہ خود کو چیلنج کرتے ہیں، اتنی ہی زیادہ اونچائی حاصل کرتے ہیں لہٰذا آپ کے خیالات بدلتے اور ارتقاء پاتے رہتے ہیں، یہی میرے کہنے کا مطلب ہے۔ لہٰذا، اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ چیلنج کرنے کے بعد، میں دوسروں سے زیادہ تجربہ کار اور تیارہوں۔
آپ یہ کہہ رہے ہیں، کیونکہ آپ نے خود کو دوسروں سے زیادہ چیلنج کیا ہے اور دوسروں سے زیادہ ترقی کی ہے، اس لیے آپ نے جو زندگی گزاری ہے، وہ آپ کے لیے مناسب ہے ۔
اچھا۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں۔میرا مطلب یہ ہے کہ جب آپ خود کو چیلنج کرتے ہیں جیسا کہ میں نے کیا تھا اور آپ اپنے آپ سے زندگی کے دو اہم ترین سوالات پوچھتے رہتے ہیں، جو کچھ لوگ کرتے ہیں اور جو کچھ کبھی نہیں کرتے، وجود کا مقصد کیا ہے اور جب ہم مرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ؟جواب صرف روحانی دنیا میں موجود ہیں۔ لہذا، زندگی میں آپ کی سمت بدل جاتی ہے۔
جب آپ ایک ترقی پذیر ملک ہیں۔ اگر آپ بائیس کروڑ عوام کے وزیراعظم بن گئے ہیں تو آپ کو بہت محتاط رہنا ہوگا کہ آپ کیا بیانات دیتے ہیں۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے، ہم اس پر بیانات دیتے ہیں۔ اسرائیل کے بارے میں یہ بانی پاکستان کا بیان کردہ مؤقف تھا۔
اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ہم کشمیر پر جمے رہنے کی اخلاقی بنیاد کھو دیتے ہیں۔ میں ان دو مسائل پر بات کرتا ہوں۔ پاکستان کا چین پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں انسانی حقوق کے بارے میں بات کرتا ہوں تو مجھے موضوع کو منتخب کرنا پڑتا ہے۔
آپ اسلامو فوبیا کے عالمی مسئلہ کے طور پر کیسے بات کرتے ہیں؟ عمران خان: میں نے دیکھا کہ امریکا میں اسلامو فوبیا ایرانی انقلاب کے بعد بڑھتا گیا، اس کے بعد سلمان رشدی کا معاملہ آیا۔ مغرب کے لوگ مسلمانوں کے ردعمل کو نہیں سمجھ سکے۔ میں مغربی ذہن کو جانتا تھاکہ مغرب کا مذہبی نظریہ مسلمانوں کے مذہبی نظرئیے سے بالکل مختلف ہے لیکن پاکستان میں ہمارے لیے، معاشی صورتحال کے سبب، یہ کہنا بہتر ہے، جیسا ہ ہم کبھی کبھی کرکٹ میں کہتے ہیں، ''آپ کو ہر گیند کو کھیلنے کی ضرورت نہیں۔'' اور یہی میں نے کیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کے قول وفعل میں تضاد ہے کیونکہ آپ نے کئی بار شادی کی اور پلے بوائے کی زندگی گزاری۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے یہ سب سنا ہے۔ مجھے قول و فعل کے تضاد میںں اتنی دلچسپی نہیں ہے، مجھے جس چیز میں دلچسپی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے بیان کیا کہ جس طرح زیادہ قدامت پسند معاشروں میں لوگ ملتے ہیں، خاندانوں کے ساتھ چیزوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ کی زندگی میں دوسرے آپشنز موجود ہیں۔ کیا آپ خوش ہیں کہ آپ کو یہ انتخاب کرنا پڑا؟ آپ کے خیال میں کیا سبق ہو سکتا ہے یا نہیں؟
میری زندگی، میرے خیال میں، ایک منفرد زندگی ہے، جو شاید ہی کسی کی ہو ، میں ایسے بہت زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا جو میری طرح دو ثقافتوں میں تقسیم زندگی گزار سکتے تھے۔ انگلینڈ ایک طرح سے میرا دوسرا گھر بن گیا تھا۔ میں اپنی ثقافت کو مغربی ثقافت سے سمجھنے اور اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے شاید بہتر خیال رکھتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مغرب ہماری ثقافت کو کس طرح دیکھتا ہے۔ اور یہاں کے لوگوں کو، میں یہ بتا سکتا ہوں کہ مغرب کیسا ہے۔یہ سوال دوعملی کا نہیں ، ارتقاء کا سوال ہے۔
جب آپ ارتقاء کا عمل کہتے ہیں، تواس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ عمران خان: جیسے جیسے میں بڑا ہوا، میرے خیالات بدلتے رہے۔ میں نے شاید اپنے آپ کو کسی بھی دوسرے انسان سے زیادہ چیلنج کیا ہے ، عموماً ایک انٹرنیشنل پروفیشنل کھلاڑی، جب کچھ چھوڑ دیتے ہیں، تو آپ کو باقی زندگی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن میں نے خود کو چیلنج کیا۔ میں نے پہلے اس ملک کے سب سے بڑے خیراتی ادارے کا کینسر اسپتال لاہور میں بنانا شروع کیا۔ پھر میں سیاست میں آگیا۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ جو لوگ خود کو چیلنج کرتے ہیں وہ کوہ پیماؤں کی طرح ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ وہ خود کو چیلنج کرتے ہیں، اتنی ہی زیادہ اونچائی حاصل کرتے ہیں لہٰذا آپ کے خیالات بدلتے اور ارتقاء پاتے رہتے ہیں، یہی میرے کہنے کا مطلب ہے۔ لہٰذا، اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ چیلنج کرنے کے بعد، میں دوسروں سے زیادہ تجربہ کار اور تیارہوں۔
آپ یہ کہہ رہے ہیں، کیونکہ آپ نے خود کو دوسروں سے زیادہ چیلنج کیا ہے اور دوسروں سے زیادہ ترقی کی ہے، اس لیے آپ نے جو زندگی گزاری ہے، وہ آپ کے لیے مناسب ہے ۔
اچھا۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں۔میرا مطلب یہ ہے کہ جب آپ خود کو چیلنج کرتے ہیں جیسا کہ میں نے کیا تھا اور آپ اپنے آپ سے زندگی کے دو اہم ترین سوالات پوچھتے رہتے ہیں، جو کچھ لوگ کرتے ہیں اور جو کچھ کبھی نہیں کرتے، وجود کا مقصد کیا ہے اور جب ہم مرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ؟جواب صرف روحانی دنیا میں موجود ہیں۔ لہذا، زندگی میں آپ کی سمت بدل جاتی ہے۔