مشرف بھی نہ رہے…

پاکستان کی تاریخ میں جنرل مشرف کا کردار اور شخصیت بہت ہی متنازع ہے

Jvqazi@gmail.com

جنرل مشرف صاحب اب ہم میں نہیں رہے۔ایسے موقعوں پر ایک قرض ہے یا فرض ہے، اس قوم کے حوالے سے کہ ان کے دور کا جائزہ لیا جائے۔

ابھی آپ نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا تھا کہ کارگل میں جنگ چھیڑ آئے۔ جب بات بہت آگے نکل گئی تو جنرل مشرف صاحب نے نواز شریف کے آگے ہاتھ پھیلائے کہ وہ امریکا جاکر یہ جنگ رکوائے۔ جب اس جنگ کا آغاز کیا تھا تو وزیر اعظم کو اعتماد میں لانے کی بھی زحمت نہ کی جس کا ذکر میاں صاحب نے بار بار کیا۔

بے نظیر اپنی ایک کتاب میں لکھتی ہے کہ ان کی ایک ہی ملاقات ہوئی تھی جنرل مشرف سے جب وہ میجر جنرل تھے اور وہ کشمیر کے حوالے سے جی ایچ کیو گئی تھیں ،بریفنگ انھوں نے دی تھی، جب مشرف نے یہ بتایا کہ اس طریقے سے ہم سرینگر پر قبضہ کر لیں گے۔

بے نظیر لکھتی ہے کہ میں نے فورا یہ سوال اٹھایا کہ چلو سرینگر پر ہمارا قبضہ تو ہوجائے گا مگر کیا یہ قبضہ ہم برقرار رکھ سکیں گے، کیا بتا سکتے ہیں کہ اس ایڈونچر کے کتنے بڑے فال آئوٹ ہوسکتے ہیں۔ میجر جنرل مشرف اور دیگر قیادت کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا۔ بارہ اکتوبر کی اس رات کو جو کچھ ہوا،وہ سب کو پتہ ہے۔

میں اس زمانے میں سندھی اخبار میں کالم لکھا کرتا تھا۔ نہ جانے کیوں میں اس بات کا قائل ہوا کہ ہماری سول قیادت نااہل ہے ، کرپشن ہے اور جس طریقے سے میاں صاحب حکومت چلا رہے تھے اور بھاری اکثریت کے گھمنڈ میں تھے ، میں یہ سمجھا کہ کبھی کبھی آمریت درست بھی ہوتی ہے۔ میری چھوٹی سی تاریخ کا سب سے بڑا جرم جو سرزد ہوا وہ یہی تھا اور مشرف کے زمانے میں ہی آخرکار اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ میں غلطی پر تھا۔

سول قیادت جیسی بھی ہو ، حق حکومت عوام کے نمایندوں کا ہے۔ بار بار بیلٹ باکس پر جاتے جاتے لوگ آخرکار اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں گے، جمہوریت ایک رات میں نہیں آتی، یہ ارتقا کا معاملہ ہے۔ جنرل مشرف نے بہرحال آئین توڑا ،یہ واحد جنرل مشرف صاحب ہیں جنہوں نے ایک بار نہیں دو بار آئین توڑا۔

پہلی بار آئین معطل کرکے پارلیمنٹ کو تحلیل کیا اور ججوں سے ایل ایف او کے تحت حلف لیا، نو سال بعد آئین توڑ کے پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کیا، مگر سپریم کورٹ کے ججوں کو نظر بند کیا۔ وکلا کی تحریک چلی، سیاسی قیادت ملک سے باہر تھی اور سیاسی قوتیں کمزور بھی تھیں اور آخر کاراس ملک کو ایک بار پھر آمریت سے نجات ملی،مگر بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔


جنرل مشرف پر اکبر بگٹی کے قتل اور بلوچستان میں نفرت پھیلانے کے شدید الزام تھے۔ اکبر بگٹی ہمارے والد کے ساتھ عوامی لیگ میں رہے تھے ،میں جب ان کا انٹرویو کرنے گیا تو نواب اکبر بگٹی نے خود کراچی سے ڈیرہ بگٹی پہنچنے کا بندوبست بھی کیا اور ان کا تاریخی انٹرویو جو انھوں نے سندھی میں دیا تھا پورے سندھ میں بڑے شوق سے دیکھا گیا اور بار بار نشر بھی ہوا۔ بہت ہی چبھتے ہوئے سوالات تھے جو میں نے کیے اور بہت کھل کے وہ بولے۔ یہ وہ زمانے تھے جب ان کی چپقلش مشرف صاحب کے ساتھ جاری تھی۔

میں انٹرویو کر کے جب ڈیرہ بگٹی سے نکلا تو دو دنوں کے بعد ڈاکٹر شازیہ والا واقعہ ہوگیا، اس واقعے کے رد عمل میںبگٹی قبیلے نے مزاحمت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب خود عاصمہ جہانگیر بھی وہاں پہنچی تھی۔ میں آخری وقت پر ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے وہاں نہ پہنچ سکا۔

نواب صاحب نے مجھے اپنے داماد جو جیکب آباد میں تھے ان کے لیے کہا تھا وہاں تک تم پہنچ جانا باقی وہ مجھے پہنچا دیں گے۔ خود مجھے بلوچستان کے گورنر نے بھی ایک انٹرویو دیتے وقت کہا تھا کہ ہمیں پتہ ہے اکبر بگٹی صاحب آپ کی بہت عزت کرتے ہیں آپ اپنے اثر رسوخ استعمال کریں کہ بیچ کا راستہ نکل سکے ،یہ بات ان کو میں نے فون پر بتائی تو اکبر بگٹی صاحب نے قہقہہ لگایا۔

اور یوں پھر اکبر بگٹی وطن بدر ہوئے، ڈیرہ بگٹی ان کو چھوڑنا پڑا ، پہاڑوں پر چلے گئے۔ دل نے چاہا کہ وہاں جا ئوں ان سے ملوں ان کا انٹرویو کروں، مگر یہ نہ ہوسکا۔ اکبر بگٹی صاحب سمجھتے تھے کہ میں ان سے ملنے کے لیے پہاڑوں پر آئوں گا او ر اور انھوں نے یہ شکایت جیکب آباد کے ایک صحافی سے بھی کی کہ سندھی لوگ بیوفا ہوتے ہیں اور دیکھو قاضی صاحب یعنی میں ان سے ملنے نہیں گیا، وعدہ کرنے کے باوجود بھی! نواب اکبر بگٹی ایک آپریشن میں مارے گئے،جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ پاکستان کی تاریخ جنرل مشرف کو اکبر بگٹی کے حوالے سے بہت متنازعہ کردار کی حیثیت سے یاد رکھے گی ۔

یہ بھی ہوا کہ میں اس جہاز میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ اٹھارہ ا کتوبر 2007 کو آیا جب وہ اپنی جلاوطنی ختم کرکے واپس آرہی تھی جس طرح جہاز اڑا ،وہ منظر بھی یاد اور جب جہاز کراچی ایئرپورٹ پر اترا میں اس وقت بہت قریب تھا بے نظیربھٹو کے، جب وہ سیڑھیوں سے اتریں اور اپنے آنسو نہ روک سکی۔ میں فورااترنے کے بعد ڈاکٹر جبار خٹک کو ساتھ لے کے نکلا کہ ان کے استقبال کے مناظر فلم بند کرکے ٹی وی چینل نشر کرسکوں اور جب واپس وہاں سے جلسہ گاہ کی طرف لوٹا تو میرے پہنچنے سے پہلے دھماکہ ہوا جس کے نتیجے بہت زیادہ لوگ مارے گئے۔

حیرانی ہے کہ اس دھماکے کی پیش گوئی سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب رحیم نے پہلے ہی کردی تھی۔ آخرکار بے نظیر بھٹو ڈیڑھ ماہ بعد راولپنڈی میں ماری گئیں، جس طرح سے شواہد مٹائے گئے اور جو اقوام متحدہ کے لوگوں کی رپورٹ پیش ہوئی، وہ رپورٹ بھی جنرل مشرف کو بے نظیر کے قتل کے حوالے سے متنازع بناتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں جنرل مشرف کا کردار اور شخصیت بہت ہی متنازع ہے۔ ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل ایڈونچر کرنے میں نہیں ہے بلکہ اس جمہوری راستے میں آئین کی بالادستی میں، پارلیمنٹ کی سپرمیسی اور قانون کی حکمرانی میں ہے۔
Load Next Story