نئی عسکری قیادت میں تاثر ہے کہ رجیم چینج آپریشن ناکام ہوچکا عمران خان
جنرل (ر) باجوہ اور ہمارے درمیان مسائل تب پیدا ہوئے جب انہوں نے ملک کے چند بڑے مجرموں کی حمایت کی، سربراہ پی ٹی آئی
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ نئی عسکری قیادت میں تاثر ہے کہ رجیم چینج آپریشن ناکام ہوچکا، جنرل (ر) باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جن کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کے لیے راہ ہموار ہوئی۔
یہ بات عمران خان نے وائس آف امریکا کو خصوصی انٹریو دیتے ہوئے کہی۔ عمران خان نے کہا کہ فوج کی تمام پالیسیوں کا انحصار صرف ایک فرد کی شخصیت پر ہوتا ہے، ہماری حکومت اور جنرل (ر) باجوہ کے مابین مثبت تعلقات کے نتیجے میں ہمیں پاک فوج کی منظم حمایت حاصل رہی، حکومت اور عسکری ادارے کی مشترکہ کوششوں سے کورونا وائرس کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا گیا۔
انہوں ںے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ اور ہمارے درمیان مسائل تب پیدا ہوئے جب انہوں نے ملک کے چند بڑے مجرموں کی حمایت کی، جنرل (ر) باجوہ چاہتے تھے کہ ہم ان چوروں کی کرپشن معاف کرکے ان کے ساتھ مل کر کام کریں، جنرل (ر) باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جن کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کے لیے راہ ہموار ہوئی۔
عمران خان نے کہا کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اختیار بھی ہونا چاہیے ہم ن دونوں کو علیحدہ نہیں رکھا جاسکتا، جب اختیار آرمی چیف کے پاس اور ذمہ داری وزیر اعظم کے پاس ہو تو نظام نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی نئی عسکری قیادت میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ رجیم چینج آپریشن ناکام ہو چکا ہے، پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے، اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، الیکشن کمیشن کی ساکھ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اس صورت میں شفاف انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے، سندھ کے بلدیاتی انتخابات کو تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کسی بھی حکومت کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات کا ہونا ناگزیر ہے، میں نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ وہ دہشت گردی کی صورت میں ہماری معاونت کرسکیں، ہمارے وزیر خارجہ بلاول نے اپنا سارا وقت بیرونی دوروں پر صرف کیا لیکن افغانستان کا ایک بھی دورہ نہیں کیا۔
سربراہ پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے، جب طالبان نے افغانستان کی حکومت سنبھالی تو 30 سے 40 ہزار مہاجرین کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا، ہمارے لیے ان کی دوبارہ آباد کاری ایک بہت بڑا چیلنج تھا لیکن ہماری حکومت ختم ہونے کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا، اس دوران نئی حکومت آئی جس کی غفلت کی وجہ سے دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کردیا۔
انہوں ںے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد کسی کی ذاتی انا پر نہیں بلکہ ملکی مفادات پر ہونی چاہیے، پاکستان کے لوگوں کا مفاد اس میں ہے کہ ہمارے امریکا کے ساتھ بہترین تجارتی تعلقات ہوں، روس اور یوکرین کے تنازع میں ہم نے غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا، کسی ایک فریق کی حمایت سے آپ اپنے لوگوں کے مفادات کو متاثر کرتے ہیں۔
عمران خان نے مزید کہا کہ بحیثیت وزیر اعظم میری ترجیح میرے ملک کی 22 کروڑ عوام تھے، پاکستان جیسا ملک جس کی بڑی آبادی خط غربت سے نیچے ہو وہ اخلاقی بیانات دینے کی استطاعت نہیں رکھتا۔
یہ بات عمران خان نے وائس آف امریکا کو خصوصی انٹریو دیتے ہوئے کہی۔ عمران خان نے کہا کہ فوج کی تمام پالیسیوں کا انحصار صرف ایک فرد کی شخصیت پر ہوتا ہے، ہماری حکومت اور جنرل (ر) باجوہ کے مابین مثبت تعلقات کے نتیجے میں ہمیں پاک فوج کی منظم حمایت حاصل رہی، حکومت اور عسکری ادارے کی مشترکہ کوششوں سے کورونا وائرس کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا گیا۔
انہوں ںے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ اور ہمارے درمیان مسائل تب پیدا ہوئے جب انہوں نے ملک کے چند بڑے مجرموں کی حمایت کی، جنرل (ر) باجوہ چاہتے تھے کہ ہم ان چوروں کی کرپشن معاف کرکے ان کے ساتھ مل کر کام کریں، جنرل (ر) باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جن کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کے لیے راہ ہموار ہوئی۔
عمران خان نے کہا کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اختیار بھی ہونا چاہیے ہم ن دونوں کو علیحدہ نہیں رکھا جاسکتا، جب اختیار آرمی چیف کے پاس اور ذمہ داری وزیر اعظم کے پاس ہو تو نظام نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی نئی عسکری قیادت میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ رجیم چینج آپریشن ناکام ہو چکا ہے، پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے، اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، الیکشن کمیشن کی ساکھ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اس صورت میں شفاف انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے، سندھ کے بلدیاتی انتخابات کو تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کسی بھی حکومت کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات کا ہونا ناگزیر ہے، میں نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ وہ دہشت گردی کی صورت میں ہماری معاونت کرسکیں، ہمارے وزیر خارجہ بلاول نے اپنا سارا وقت بیرونی دوروں پر صرف کیا لیکن افغانستان کا ایک بھی دورہ نہیں کیا۔
سربراہ پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے، جب طالبان نے افغانستان کی حکومت سنبھالی تو 30 سے 40 ہزار مہاجرین کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا، ہمارے لیے ان کی دوبارہ آباد کاری ایک بہت بڑا چیلنج تھا لیکن ہماری حکومت ختم ہونے کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا، اس دوران نئی حکومت آئی جس کی غفلت کی وجہ سے دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کردیا۔
انہوں ںے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد کسی کی ذاتی انا پر نہیں بلکہ ملکی مفادات پر ہونی چاہیے، پاکستان کے لوگوں کا مفاد اس میں ہے کہ ہمارے امریکا کے ساتھ بہترین تجارتی تعلقات ہوں، روس اور یوکرین کے تنازع میں ہم نے غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا، کسی ایک فریق کی حمایت سے آپ اپنے لوگوں کے مفادات کو متاثر کرتے ہیں۔
عمران خان نے مزید کہا کہ بحیثیت وزیر اعظم میری ترجیح میرے ملک کی 22 کروڑ عوام تھے، پاکستان جیسا ملک جس کی بڑی آبادی خط غربت سے نیچے ہو وہ اخلاقی بیانات دینے کی استطاعت نہیں رکھتا۔