فوج مذاکراتی عمل سے الگ رہتی ہے تو اسے حکومت کا ہر فیصلہ ماننا ہوگا پروفیسر ابراہیم

فریقین میں اعتماد کا فقدان ہے، اعتماد کی بحالی کے بعد مذاکرات پشاور یا اسلام آباد میں بھی ہوسکتے ہیں، پروفیسر ابراہیم

طالبان شوریٰ سے دوسری ملاقات کے لئے ابھی تک وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے تاہم ان سے جلد ہی ملاقات کی جائے گی، پروفیسر ابراہیم فوٹو: فائل

طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ پاک فوج خود براہ راست مذاکرات کا حصہ بنے اور اگر فوج مذاکرات سے باہر رہنا چاہتی ہے تو حکومت جو فیصلہ کرے اسے وہ قبول کرنا ہوگا۔


ایک بیان میں پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ طالبان نے بتایا جنگ بندی کے بعد ایک گولی تک نہیں چلائی، طالبان کے پیس زون، غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کے مطالبات پورے نہیں ہوئے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کی فہرست ملی۔ انہوں نے کہا کہ فریقین میں اعتماد کا فقدان ہے، اعتماد کی بحالی کے بعد مذاکرات پشاور یا اسلام آباد میں بھی ہوسکتے ہیں اور اگر مذاکرات پشاور یا اسلام آباد میں ہوئے تو ممکن ہے طالبان کے امیر ملا فضل اللہ کا خاندان سوات واپس آجائے۔

پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں حکومت کا ہر فیصلہ قبول کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا تاہم اب اگر قیدیوں کی رہائی پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو پاک فوج خود براہ راست مذاکرات کا حصہ بنے اور اگر فوج مذاکرات سے باہر رہنا چاہتی ہے تو حکومت جو فیصلہ کرے اسے وہ قبول کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان شوریٰ سے دوسری ملاقات کے لئے ابھی تک وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے تاہم ان سے جلد ہی ملاقات کی جائے گی، اسلام آباد اور سبی ٹرین دھماکے کی ذمہ داری طالبان نے نہیں بلکہ کسی اور نے قبول کی ہے، طالبان سے مذاکرات مکمل ہوجائیں تو حکومت ان عناصر سے بآسانی نمٹ سکے گی۔
Load Next Story