جمہوریت میں آمریت ضد اور من مانی کیوں
عمران خان اپنی حکومت نہ بچانے پر اسٹیبلشمنٹ سے سب سے زیادہ ناراض ہوئے جس کا کھل کر اظہار انھوں نے ہر جگہ کیا ہے
سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے سینئر نائب صدر ہوتے ہوئے مریم نواز کا بطور سینئر نائب صدر تقرر سے میرے عہدے کا جواز ختم ہو گیا ہے ، اس لیے مستعفی ہو رہا ہوں۔
میاں نواز شریف نے پارٹی قائد ہونے کی حیثیت میں ان سے یا پارٹی سے مشاورت کیے بغیر اپنی بیٹی کو یہ اہم عہدہ دے دیا اور شاہد خاقان کو اعتماد میں نہیں لیا۔
الیکشن کمیشن پہلے ہی (ن) لیگ کو پارٹی میں الیکشن کرانے کا نوٹس دے چکا تھا مگر پارٹی میں الیکشن کرانے کی بجائے پارٹی کے قائد نے پہلے سینئر نائب صدر کو ہٹائے بغیر نئے سینئر نائب صدرکا تقرر کردیا جو چیف آرگنائزر بھی مقرر کی گئی ہیں۔
یہ تقرری کوئی مسلم لیگ (ن) میں ہونا ہی انہونی بات نہیں، بلکہ جماعت اسلامی کے علاوہ ہر سیاسی پارٹی میں ایسی ہی تقرریاں ہوتی ہیں ،کوئی الیکشن نہیں ہوتا اور پارٹی سربراہ جسے چاہتا ہے پارٹی میں عہدے سے نواز دیتا ہے جسے چاہے پارٹی سے فارغ کردیتا ہے اور کسی کی سینیارٹی کا خیال نہیں رکھا جاتا بس اس کی جی حضوری دیکھی جاتی ہے جس نے اصول کی بات کی اس کی وفاداری اور دیرینہ وابستگی دیکھے بغیر اسے نافرمانی کی سزا دے دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں مرکزی عہدیداروں کا بھی خیال کیا جاتا ہے نہ کارکنوں کی قربانی دیکھی جاتی ہے۔
من مانیوں کا سلسلہ سیاسی پارٹیوں کے قیام سے ہی جاری ہے جہاں پارٹی سربراہ کے بعد اس کے صاحب زادے پارٹی قیادت کے حق دار تصور کیے جاتے ہیں اور ایسا ہر پارٹی میں ہوا ہے جس کی مثال بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو ، ان کے بعد بلاول بھٹو زرداری ، مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن، ولی خان کے بعد اسفند یار ولی ہیں جب کہ صوبائی پارٹیوں میں بھی باپ کے بعد اس کے بیٹے کا سربراہ بن جانا ہے۔
حال ہی میں بلوچستان نیشنل پارٹی میں یہ تبدیلی ضرور ہوئی ہے کہ غوث بخش بزنجو کے بعد ان کے صاحب زادے حاصل بزنجو سربراہ بنے تھے جن کے انتقال کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بی این پی کے سربراہ بنائے گئے ہیں۔
پارٹیوں میں سربراہوں کا اپنی پارٹی کی طرف سے اپنے بھائیوں بہنوں اور بیٹوں کو پارلیمنٹ کے ٹکٹ دینا بھی عام ہے جہاں نامزدگیوں کا کوئی اصول نہیں رشتے دیکھے جاتے ہیں۔
اپنوں کو ہی نوازا جاتا ہے۔ عمران خان سیاسی وراثت پر بڑی تنقید کرتے ہیں مگر انھوں نے اپنی حکومت میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو عہدوں اور مالی مفادات سے نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی بلکہ ملک سے باہر کے اپنے دوستوں کو بلا کر انھیں سرکاری عہدے دیے تھے۔
عمران خان کی سیاست اور جمہوریت تو سب سے ہی مختلف ہے ان کی جمہوریت میں اپوزیشن کو تو وہ مانتے ہی نہیں وہ خود کو عقل کل ، سب سے زیادہ تجربے کار اور ذہین اور اپنے مخالفین کو چور ، ڈاکو ، کرپٹ اور جمہوریت دشمن اس وقت تک سمجھتے ہیں جب تک وہ عمران خان کی بیعت کر کے پی ٹی آئی میں نہیں آ جاتا جس کے بعد وہ صاف و شفاف اور ہر الزام سے پاک ہو جاتا ہے ۔
جب تک سیاستدان اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں نہیں آجاتے اور عمران خان کا ہر حکم ماننے کے پابند نہیں ہو جاتے وہ ناقابل اعتبار رہیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کے صدر مملکت اپنے آئینی کردار سے زیادہ اپنے پارٹی چیئرمین کی خوشنودی کو مقدم رکھتے ہیں ان کے در دولت پر آئے دن حاضریاں دے رہے ہیں مگر عمران خان ان کے پاس نہیں جاتے۔ عمران خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے سابقہ وزرائے اعظم کی طرح رسمی ملاقات یا غیر ملکی دورے کا بتانے ایوان صدر نہیں جاتے تھے ۔
عمران خان کی ناراضگی کا بھی کوئی اصول اور معیار نہیں ہے وہ اپنی بات نہ ماننے والے سے ناراض ہونے کا حق رکھتے ہیں مگر ناراضگی کا حق اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی نہیں دیتے تھے جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئے تھے۔
عمران خان اپنی حکومت نہ بچانے پر اسٹیبلشمنٹ سے سب سے زیادہ ناراض ہوئے جس کا کھل کر اظہار انھوں نے ہر جگہ کیا ہے اور اب بھی سنگین الزامات لگا رہے ہیں جب کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر وہ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے اور انھوں نے اپنے ایسے کسی ساتھی کو نہیں بخشا جو ان کا حامی تھا۔
عمران خان کی اپنی پارٹی پر مکمل گرفت ہے اور ان کے کسی ایک رہنما میں بھی یہ جرأت نہیں کہ کوئی انھیں سمجھا سکے یا ان کی کسی بات کی تائید نہ کرے۔ عمران خان کی بھی اپنی پارٹی میں مکمل آمریت ہے وہ کسی کی نہیں سنتے اور وہ بھی اپنی پارٹی کو جمہوری پارٹی نہیں بلکہ ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں ۔
ان کے ارکان اسمبلی و رہنما انھیں اپنی بات پر قائل نہ کرسکے کہ اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دیں۔ قومی اسمبلی اور اپنی حکومتیں نہ چھوڑیں مگر وہ کیسے گوارا کرتے کہ پرویز الٰہی اور محمود خان وزیر اعلیٰ رہیں اور عمران خان وزیر اعظم نہ ہوں۔
انھوں نے عثمان بزدار اور محمود خان کو اپنی مرضی تک نہیں ہٹایا ، دوسرے بولتے رہ گئے اور اقتدار بچانے کے لیے انھوں نے بزدار کو قربان کردیا اور بعد میں پرویز الٰہی اور محمود خان کو بھی اقتدار میں نہ رہنے دیا اور اپنی ضد پر قائم رہے کوئی انھیں من مانیوں سے نہ روک سکا نہ انھوں نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو جمہوری اہمیت دی ، نہ ان سے ملے۔
میاں نواز شریف نے پارٹی قائد ہونے کی حیثیت میں ان سے یا پارٹی سے مشاورت کیے بغیر اپنی بیٹی کو یہ اہم عہدہ دے دیا اور شاہد خاقان کو اعتماد میں نہیں لیا۔
الیکشن کمیشن پہلے ہی (ن) لیگ کو پارٹی میں الیکشن کرانے کا نوٹس دے چکا تھا مگر پارٹی میں الیکشن کرانے کی بجائے پارٹی کے قائد نے پہلے سینئر نائب صدر کو ہٹائے بغیر نئے سینئر نائب صدرکا تقرر کردیا جو چیف آرگنائزر بھی مقرر کی گئی ہیں۔
یہ تقرری کوئی مسلم لیگ (ن) میں ہونا ہی انہونی بات نہیں، بلکہ جماعت اسلامی کے علاوہ ہر سیاسی پارٹی میں ایسی ہی تقرریاں ہوتی ہیں ،کوئی الیکشن نہیں ہوتا اور پارٹی سربراہ جسے چاہتا ہے پارٹی میں عہدے سے نواز دیتا ہے جسے چاہے پارٹی سے فارغ کردیتا ہے اور کسی کی سینیارٹی کا خیال نہیں رکھا جاتا بس اس کی جی حضوری دیکھی جاتی ہے جس نے اصول کی بات کی اس کی وفاداری اور دیرینہ وابستگی دیکھے بغیر اسے نافرمانی کی سزا دے دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں مرکزی عہدیداروں کا بھی خیال کیا جاتا ہے نہ کارکنوں کی قربانی دیکھی جاتی ہے۔
من مانیوں کا سلسلہ سیاسی پارٹیوں کے قیام سے ہی جاری ہے جہاں پارٹی سربراہ کے بعد اس کے صاحب زادے پارٹی قیادت کے حق دار تصور کیے جاتے ہیں اور ایسا ہر پارٹی میں ہوا ہے جس کی مثال بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو ، ان کے بعد بلاول بھٹو زرداری ، مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن، ولی خان کے بعد اسفند یار ولی ہیں جب کہ صوبائی پارٹیوں میں بھی باپ کے بعد اس کے بیٹے کا سربراہ بن جانا ہے۔
حال ہی میں بلوچستان نیشنل پارٹی میں یہ تبدیلی ضرور ہوئی ہے کہ غوث بخش بزنجو کے بعد ان کے صاحب زادے حاصل بزنجو سربراہ بنے تھے جن کے انتقال کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بی این پی کے سربراہ بنائے گئے ہیں۔
پارٹیوں میں سربراہوں کا اپنی پارٹی کی طرف سے اپنے بھائیوں بہنوں اور بیٹوں کو پارلیمنٹ کے ٹکٹ دینا بھی عام ہے جہاں نامزدگیوں کا کوئی اصول نہیں رشتے دیکھے جاتے ہیں۔
اپنوں کو ہی نوازا جاتا ہے۔ عمران خان سیاسی وراثت پر بڑی تنقید کرتے ہیں مگر انھوں نے اپنی حکومت میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو عہدوں اور مالی مفادات سے نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی بلکہ ملک سے باہر کے اپنے دوستوں کو بلا کر انھیں سرکاری عہدے دیے تھے۔
عمران خان کی سیاست اور جمہوریت تو سب سے ہی مختلف ہے ان کی جمہوریت میں اپوزیشن کو تو وہ مانتے ہی نہیں وہ خود کو عقل کل ، سب سے زیادہ تجربے کار اور ذہین اور اپنے مخالفین کو چور ، ڈاکو ، کرپٹ اور جمہوریت دشمن اس وقت تک سمجھتے ہیں جب تک وہ عمران خان کی بیعت کر کے پی ٹی آئی میں نہیں آ جاتا جس کے بعد وہ صاف و شفاف اور ہر الزام سے پاک ہو جاتا ہے ۔
جب تک سیاستدان اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں نہیں آجاتے اور عمران خان کا ہر حکم ماننے کے پابند نہیں ہو جاتے وہ ناقابل اعتبار رہیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کے صدر مملکت اپنے آئینی کردار سے زیادہ اپنے پارٹی چیئرمین کی خوشنودی کو مقدم رکھتے ہیں ان کے در دولت پر آئے دن حاضریاں دے رہے ہیں مگر عمران خان ان کے پاس نہیں جاتے۔ عمران خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے سابقہ وزرائے اعظم کی طرح رسمی ملاقات یا غیر ملکی دورے کا بتانے ایوان صدر نہیں جاتے تھے ۔
عمران خان کی ناراضگی کا بھی کوئی اصول اور معیار نہیں ہے وہ اپنی بات نہ ماننے والے سے ناراض ہونے کا حق رکھتے ہیں مگر ناراضگی کا حق اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی نہیں دیتے تھے جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئے تھے۔
عمران خان اپنی حکومت نہ بچانے پر اسٹیبلشمنٹ سے سب سے زیادہ ناراض ہوئے جس کا کھل کر اظہار انھوں نے ہر جگہ کیا ہے اور اب بھی سنگین الزامات لگا رہے ہیں جب کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر وہ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے اور انھوں نے اپنے ایسے کسی ساتھی کو نہیں بخشا جو ان کا حامی تھا۔
عمران خان کی اپنی پارٹی پر مکمل گرفت ہے اور ان کے کسی ایک رہنما میں بھی یہ جرأت نہیں کہ کوئی انھیں سمجھا سکے یا ان کی کسی بات کی تائید نہ کرے۔ عمران خان کی بھی اپنی پارٹی میں مکمل آمریت ہے وہ کسی کی نہیں سنتے اور وہ بھی اپنی پارٹی کو جمہوری پارٹی نہیں بلکہ ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں ۔
ان کے ارکان اسمبلی و رہنما انھیں اپنی بات پر قائل نہ کرسکے کہ اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دیں۔ قومی اسمبلی اور اپنی حکومتیں نہ چھوڑیں مگر وہ کیسے گوارا کرتے کہ پرویز الٰہی اور محمود خان وزیر اعلیٰ رہیں اور عمران خان وزیر اعظم نہ ہوں۔
انھوں نے عثمان بزدار اور محمود خان کو اپنی مرضی تک نہیں ہٹایا ، دوسرے بولتے رہ گئے اور اقتدار بچانے کے لیے انھوں نے بزدار کو قربان کردیا اور بعد میں پرویز الٰہی اور محمود خان کو بھی اقتدار میں نہ رہنے دیا اور اپنی ضد پر قائم رہے کوئی انھیں من مانیوں سے نہ روک سکا نہ انھوں نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو جمہوری اہمیت دی ، نہ ان سے ملے۔