قوم کو آج تک سچ بتایا ہی نہیں گیا
وہ دن دور نہیں جب PDM میں شامل ساری جماعتیں اس ناکامی کا ذمے دار صرف اکیلے انھی کو قرار دے رہی ہونگی
پاکستان آج جن مشکلات کا شکار ہے اور جس تباہی کی ہولناک تصویر بنا ہوا ہے وہ کہنے کو ہمارے سیاستدانوں کی نااہلی اور اُن کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہے ۔
وطن عزیز کے معرض وجود میں آجانے کے دن سے لے کر آج تک ملکی سیاست میں مقتدر قوتوں کا کوئی نہ کوئی ظاہری اور مخفی کردار ضرور رہا ہے۔ ہم تاریخ کے صفحات الٹتے ہیں تو 1948 سے ہی ہمیں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں سب سے بڑا اور اہم کردار اسی کا ملتا ہے۔
ہم بہت دور نہیں جاتے ہیں اور تاریخ کے اُن واقعات کا یہاں جائزہ لیتے ہیں جو جنرل ضیاء کے 11سالہ دور کے بعد 1988 سے شروع ہوتے ہیں۔
جنرل ضیاء نے جاتے جاتے اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار کو آئینی تحفظ دینے کے لیے دستور میں آٹھویں ترمیم کر کے 58-2b کو شامل کردیا۔ سیاسی مداخلت کی اس ننگی تلوار نے ہماری بہت سے سویلین حکومتوں کا پے درپے قتل کیا۔
کہنے کو وہ صدر مملکت کا صوابدیدی آئینی حق تھا لیکن اس صوابدیدی حق کے پیچھے کون سے کردار چھپے ہوتے تھے یا اس کی کڑیاں کس ادارے سے جڑی ہوتی تھی، یہ ہم سب کو معلوم ہے۔ غلام اسحق خان نے اپنے اس آئینی حق کا بڑی دلیری اور بے دردی سے استعمال کیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف دونوں کی جمہوری اور قانونی حکومتوں کو قبل از وقت فارغ کر دیا۔
1993 میں گرچہ ہماری سپریم کورٹ نے اُن کے اس اقدام کو رد کرتے ہوئے میاں نوازشریف کی حکومت کو بحال بھی کردیا لیکن عدلیہ کے اس فیصلے کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال کر بالآخر میاں صاحب کو از خود چند مہینوں بعد ہی استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔
اُن کے اس استعفیٰ کے پیچھے کون کون سے عوامل پس پردہ شامل تھے یہ تو صرف میاں صاحب ہی بتاسکتے ہیں۔ وہ کون سی طاقت تھی جس نے عوام کی حمایت اور سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد بھی میاں صاحب کو استعفیٰ دینے پر اس طرح بے بس اور لاچار کر دیا کہ وہ اس کے اسباب بھی قوم کو بتا نہ سکے۔ باہر سے امپورٹ کیے گئے معین قریشی کو بطور نگراں وزیراعظم لگانا بھی سیاست میں جڑے غیر ملکی کردار کو عیاں بھی کرتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بعد میاں نوازشریف اور نوازشریف کے بعد پھر بے نظیر بھٹو اور اسی طرح 1997 میں بے نظیر صاحبہ کو ہٹا کے پھر میاں صاحب کو لانا کون سی مجبوری اور سیاسی بصیرت تھی ۔
جب یہی کچھ کرنا تھا تو اُن دونوں کو اپنے اپنے پانچ سال پورے کرنے دیے جانے چاہیے تھے۔ سیاسی ابتری اور عدم استحکام پیدا کر کے اِن دونوں سیاستدانوں کا اتنا نقصان شاید نہیں کیا گیا ہوگا جتنا کہ اس ملک اور مملکت خداداد پاکستان کا کر دیا ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں کس طرح اپنی مرضی و منشاء کے مطابق عدالتی بینچ بنائے جاتے تھے اور حکومت مخالف ججوں پر مشتمل بینچ بناکر فیصلے لیے جاتے تھے۔ جسٹس وجیہ الدین اور جسٹس سعید الزماں صدیقی جیسے اصول پسند اور انصاف پسند ججوں کو کوئٹہ بھیج کر انصاف کا قتل کیا جا رہا تھا۔
پھر جب مسلم لیگ نون کے کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ کے احاطے میں ہنگامہ آرائی کی تو توہین عدالت کے جرم میں اُنہیں نہ صرف بد نام بھی کیا گیا بلکہ سزائیں بھی دی گئیں۔ کوشش یہی تھی کہ اس ملک کو چلنے نہیں دیا جائے۔ میاں صاحب کو صرف ایک ڈیڑھ سال میں فارغ کرکے پھر سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جائے۔
سیاسی اور جمہوری حکومتوں کو نہ چلنے دینے کا سلسلہ کبھی بھی تھمنے نہیں پایا ہے۔ وہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہا ہے۔ خدشہ یہی ہے کہ درپردہ آج بھی کوئی نہ کوئی کوشش ہو رہی ہے۔ کچھ سیاستدانوں کا اچانک گرفتار ہوجانا اورکچھ کو ضمانتوں کے بعد بھی رہائی کا نہ ملنا ہماری اس تشویش کو مزید تقویت بخش رہا ہے۔
ملک اس وقت سنگین مالی بحران سے گذر رہا ہے جب کہ سیاسی عدم استحکام تو2017 سے چل رہا ہے۔ یہ دونوں بحرانوں نے مل کر ملک اور قوم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ مسلم لیگ نون نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کر دی کہ عمران خان کی ساری نا اہلی اور ناکامی کا ذمہ اپنے سر لے لیا ہے اور اب یہ حالت ہے کہ وہ اس سے چھٹکارا چاہتے ہوئے بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہی ہے۔
میاں شہباز شریف کو بہت سوں نے مشورہ بھی دیا تھا کہ اس گرداب میں اپنے آپ کو اس وقت نہیں پھنسائیں، لیکن وہ نہیں مانے۔ اُن کاخیال تھا کہ وہ چند مہینوں میں ملک کو درست اور صحیح راستے پر لے آئیں گے ، لیکن ایسا ممکن نہیں ہو پایا ہے اور حالات مزید ابتری کاشکار ہوگئے ہیں۔ اُن کا اور اسحق ڈار کا خیال تھا کہ وہ IMF کو کسی طرح رام کرلیں گے اور ملک میں جاری مالی بحران کو فی الحال فوری طور پر ٹال لیںگے ، مگر IMF ٹس سے مس نہ ہوا۔
اُسے ملک کے اندر سیلاب کی تباہی کے بھی واسطے دیے گئے مگر وہ کسی رعایت پر راضی نہ ہوا۔ دوسری جانب قوم اس مہنگائی اور مالی پریشانیوں کا ذمے دار اب اس حکومت کو سمجھنے لگی ہے۔ رفتہ رفتہ مسلم لیگ کے دیرینہ اور پرانے کارکن بھی مایوس اور باغی ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک ایک سنگین بحران کی زد میں ہے۔ خزانے میں اگلے دو چار مہینوں کا بھی زر مبادلہ باقی نہیں رہا ہے۔ کوئی اُمید اور کرشمہ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
جن قوتوں نے سازشیں کر کے سیاسی اتھل پتھل کے ذریعے ملک اور قوم کو اس مقام پر پہنچایا ہے وہ اپنا دامن بچا کر پتلی گلی سے نکلتے جا رہے ہیں اور میاں شہباز شریف نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسی ناگہانی آفت میں پھنستے جا رہے ہیں جہاں سے اُن کے ماضی کی ساری کارکردگی صفر ہو کر اُن کا منہ چڑانے جا رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے وہ اس مصیبت سے جان چھڑا لیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب PDM میں شامل ساری جماعتیں اس ناکامی کا ذمے دار صرف اکیلے انھی کو قرار دے رہی ہونگی۔
وطن عزیز کے معرض وجود میں آجانے کے دن سے لے کر آج تک ملکی سیاست میں مقتدر قوتوں کا کوئی نہ کوئی ظاہری اور مخفی کردار ضرور رہا ہے۔ ہم تاریخ کے صفحات الٹتے ہیں تو 1948 سے ہی ہمیں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں سب سے بڑا اور اہم کردار اسی کا ملتا ہے۔
ہم بہت دور نہیں جاتے ہیں اور تاریخ کے اُن واقعات کا یہاں جائزہ لیتے ہیں جو جنرل ضیاء کے 11سالہ دور کے بعد 1988 سے شروع ہوتے ہیں۔
جنرل ضیاء نے جاتے جاتے اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار کو آئینی تحفظ دینے کے لیے دستور میں آٹھویں ترمیم کر کے 58-2b کو شامل کردیا۔ سیاسی مداخلت کی اس ننگی تلوار نے ہماری بہت سے سویلین حکومتوں کا پے درپے قتل کیا۔
کہنے کو وہ صدر مملکت کا صوابدیدی آئینی حق تھا لیکن اس صوابدیدی حق کے پیچھے کون سے کردار چھپے ہوتے تھے یا اس کی کڑیاں کس ادارے سے جڑی ہوتی تھی، یہ ہم سب کو معلوم ہے۔ غلام اسحق خان نے اپنے اس آئینی حق کا بڑی دلیری اور بے دردی سے استعمال کیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف دونوں کی جمہوری اور قانونی حکومتوں کو قبل از وقت فارغ کر دیا۔
1993 میں گرچہ ہماری سپریم کورٹ نے اُن کے اس اقدام کو رد کرتے ہوئے میاں نوازشریف کی حکومت کو بحال بھی کردیا لیکن عدلیہ کے اس فیصلے کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال کر بالآخر میاں صاحب کو از خود چند مہینوں بعد ہی استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔
اُن کے اس استعفیٰ کے پیچھے کون کون سے عوامل پس پردہ شامل تھے یہ تو صرف میاں صاحب ہی بتاسکتے ہیں۔ وہ کون سی طاقت تھی جس نے عوام کی حمایت اور سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد بھی میاں صاحب کو استعفیٰ دینے پر اس طرح بے بس اور لاچار کر دیا کہ وہ اس کے اسباب بھی قوم کو بتا نہ سکے۔ باہر سے امپورٹ کیے گئے معین قریشی کو بطور نگراں وزیراعظم لگانا بھی سیاست میں جڑے غیر ملکی کردار کو عیاں بھی کرتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بعد میاں نوازشریف اور نوازشریف کے بعد پھر بے نظیر بھٹو اور اسی طرح 1997 میں بے نظیر صاحبہ کو ہٹا کے پھر میاں صاحب کو لانا کون سی مجبوری اور سیاسی بصیرت تھی ۔
جب یہی کچھ کرنا تھا تو اُن دونوں کو اپنے اپنے پانچ سال پورے کرنے دیے جانے چاہیے تھے۔ سیاسی ابتری اور عدم استحکام پیدا کر کے اِن دونوں سیاستدانوں کا اتنا نقصان شاید نہیں کیا گیا ہوگا جتنا کہ اس ملک اور مملکت خداداد پاکستان کا کر دیا ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں کس طرح اپنی مرضی و منشاء کے مطابق عدالتی بینچ بنائے جاتے تھے اور حکومت مخالف ججوں پر مشتمل بینچ بناکر فیصلے لیے جاتے تھے۔ جسٹس وجیہ الدین اور جسٹس سعید الزماں صدیقی جیسے اصول پسند اور انصاف پسند ججوں کو کوئٹہ بھیج کر انصاف کا قتل کیا جا رہا تھا۔
پھر جب مسلم لیگ نون کے کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ کے احاطے میں ہنگامہ آرائی کی تو توہین عدالت کے جرم میں اُنہیں نہ صرف بد نام بھی کیا گیا بلکہ سزائیں بھی دی گئیں۔ کوشش یہی تھی کہ اس ملک کو چلنے نہیں دیا جائے۔ میاں صاحب کو صرف ایک ڈیڑھ سال میں فارغ کرکے پھر سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جائے۔
سیاسی اور جمہوری حکومتوں کو نہ چلنے دینے کا سلسلہ کبھی بھی تھمنے نہیں پایا ہے۔ وہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہا ہے۔ خدشہ یہی ہے کہ درپردہ آج بھی کوئی نہ کوئی کوشش ہو رہی ہے۔ کچھ سیاستدانوں کا اچانک گرفتار ہوجانا اورکچھ کو ضمانتوں کے بعد بھی رہائی کا نہ ملنا ہماری اس تشویش کو مزید تقویت بخش رہا ہے۔
ملک اس وقت سنگین مالی بحران سے گذر رہا ہے جب کہ سیاسی عدم استحکام تو2017 سے چل رہا ہے۔ یہ دونوں بحرانوں نے مل کر ملک اور قوم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ مسلم لیگ نون نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کر دی کہ عمران خان کی ساری نا اہلی اور ناکامی کا ذمہ اپنے سر لے لیا ہے اور اب یہ حالت ہے کہ وہ اس سے چھٹکارا چاہتے ہوئے بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہی ہے۔
میاں شہباز شریف کو بہت سوں نے مشورہ بھی دیا تھا کہ اس گرداب میں اپنے آپ کو اس وقت نہیں پھنسائیں، لیکن وہ نہیں مانے۔ اُن کاخیال تھا کہ وہ چند مہینوں میں ملک کو درست اور صحیح راستے پر لے آئیں گے ، لیکن ایسا ممکن نہیں ہو پایا ہے اور حالات مزید ابتری کاشکار ہوگئے ہیں۔ اُن کا اور اسحق ڈار کا خیال تھا کہ وہ IMF کو کسی طرح رام کرلیں گے اور ملک میں جاری مالی بحران کو فی الحال فوری طور پر ٹال لیںگے ، مگر IMF ٹس سے مس نہ ہوا۔
اُسے ملک کے اندر سیلاب کی تباہی کے بھی واسطے دیے گئے مگر وہ کسی رعایت پر راضی نہ ہوا۔ دوسری جانب قوم اس مہنگائی اور مالی پریشانیوں کا ذمے دار اب اس حکومت کو سمجھنے لگی ہے۔ رفتہ رفتہ مسلم لیگ کے دیرینہ اور پرانے کارکن بھی مایوس اور باغی ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک ایک سنگین بحران کی زد میں ہے۔ خزانے میں اگلے دو چار مہینوں کا بھی زر مبادلہ باقی نہیں رہا ہے۔ کوئی اُمید اور کرشمہ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
جن قوتوں نے سازشیں کر کے سیاسی اتھل پتھل کے ذریعے ملک اور قوم کو اس مقام پر پہنچایا ہے وہ اپنا دامن بچا کر پتلی گلی سے نکلتے جا رہے ہیں اور میاں شہباز شریف نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسی ناگہانی آفت میں پھنستے جا رہے ہیں جہاں سے اُن کے ماضی کی ساری کارکردگی صفر ہو کر اُن کا منہ چڑانے جا رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے وہ اس مصیبت سے جان چھڑا لیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب PDM میں شامل ساری جماعتیں اس ناکامی کا ذمے دار صرف اکیلے انھی کو قرار دے رہی ہونگی۔