حمام میں نہانے والے…
ہمیں وہ سب لوگ بھی بھول جائیں گے جنہوں نے اپنی جان کسی کی مجرمانہ غفلت اور چھوٹے سے مفاد کی خاطر گنوا دی۔
BEIJING:
لے دے کر ایک غریب کے پاس ہوتا ہی کیا ہے... ایک تن داغ داغ، ایک حسرتوں بھرا دل اور ایک محرومیوں سے بھرا دماغ۔ ذہن سوالوں کی آماجگاہ ہوتا ہے ۔
جس میں اللہ سے ایک سوال ہوتا ہے کہ کیوں بھوک انھی کے گھروں میں ڈیرے ڈال کر رہنا پسند کرتی ہے؟ کیوں ان کے وجود ان کے لباسوں کی طرح چیتھڑے چیتھڑے ہوتے ہیں، کیوں انھیں زندگی کا ہر لمحہ آزمائش کی طرح گزارنا ہوتا ہے؟ کل تک جو تن داغ داغ تھے، آج وہ تن سوختہ میں بدل چکے... سارے سوالوں سمیت وہ وجود ہستی سے نابود میں بدل گئے، اور ایسے کہ کچھ کی شناخت تک ممکن نہ ہوئی۔
ہماری تاریخ کا بد ترین سانحہ... جس میں قسمت اور موت کے وقت کے علاوہ جس چیز کا زیادہ عمل دخل ہے وہ ہماری مجرمانہ غفلت ہے۔ جانے کیسے رہائشی علاقوں میں گوداموں کے نام پر کمزور ڈھانچوں کی عمارتوں کی تعمیر کر کے ... کس کس کی مٹھی گرم کر کے، انھیں گودام سے فیکٹری میں بدل دیا جاتا ہے۔ مٹھی گرم کیے جانا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر نہ کوئی پانی اور گیس کا کنکشن مل سکتا ہے نہ مشینیں لگائی جا سکتی ہیں۔
کتنی رقم سے یہ کام ہو جاتا ہو گا؟ کتنے سستے داموں ہمارے ہاں مو ت کی تجارت ہوتی ہے... ان فیکٹریوں کی اجازت دیتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا تو بہت معمولی بات ہے کہ اس علاقے کے مکینوں کا سکھ اور آرام ختم ہو جاتا ہے... اس سے بڑھ کر جانے کیا کیا ہے جسے کلی طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔کسی فیکٹری کے لیے پانی اوربجلی کے کنکشن حاصل کرنا ، محفوظ وائرنگ کرنا اور جنریٹر یا یو پی ایس کو محفوظ جگہ اور طریقے سے لگانا، سب سے اہم اقدام ہے...
اگر کوئی گیس کا سلنڈر استعمال ہو رہا ہے تو اس کا ہوا دار اور کھلی جگہ پر ہونا، آگ بجھانے کا فوری بندوبست ہونا نیز ان کے نزدیک کسی قسم کے کیمیکل کا نہ ہونا دوسرا اہم اقدام ہونا چاہیے۔ فیکٹریوں کو جیل کی طرز پر نہ بنایا جائے کہ ان میں داخلے کے علاوہ اخراج کے لیے ہنگامی راستے بھی ہوں۔ قدرتی آفات کہیں بھی اور کسی بھی وقت انسان کو درپیش ہو سکتی ہیں، ان کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے، مثلاً سیلاب اور زلزلہ وغیرہ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ فیکٹری مالکان اپنے ورکروں کو انسان سمجھیں ، انھیں اس طرح کا ماحول فراہم کریں جس طرح کا انسانوں کو کیا جانا چاہیے۔
ان کے لیے سہولیات فراہم کریں جس میں ان کی ٹرانسپورٹ، ان کے لیے پینے کا صاف پانی، ان کے استعمال کے لیے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بنے ہوئے باتھ روم، ان کے کھانے کے لیے مناسب قیمتوں پر کینٹین یا کیفے ٹیریا کا انتظام، ان کے کام کے درمیان انھیں آرام کا وقفہ فراہم کرنا، ان کی جان کی حفاظت کا بندوبست کرنا... فیکٹری مالکان کا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
جہاں اتنے لوگ کام کر رہے ہوں، خواہ وہ لاہور ہو یا کراچی، فیکٹری جوتوں کی ہوں یا کپڑوں کی... سلنڈر پھٹنے سے آگ لگے یا جنریٹرکی ناقص وائرنگ سے، یہ موقع ہرگز نہیں کہ اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکائی جائیں۔ یہ سانحے ہماری غفلت کے عکاس اور ہماری اخلاقیات کے منہ پر طمانچوں کے مترادف ہیں... اتنا جانی نقصان ابھی تک شاید کسی بڑے فضائی حادثے کی صورت میں بھی نہ ہوا ہو گا۔
ذلتوں، دکھوں اور غربت کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ...سارے مسائل سے مکتی پا گئے ہیں مگر ہمارے لیے اتنے سوال چھوڑ گئے ہیں کہ جن کا جواب نہ تاریخ میں آج تک ملا ہے نہ اب ملے گا۔ یہ حادثہ بھی ہر روز ہونے والے حادثات کی طرح دو ایک دن میں کسی اور نئے حادثے کی تہہ میں چھپ جائے گا، ہم اسے بھی بھول جائیں گے۔
ہمیں وہ سب لوگ بھی بھول جائیں گے جنہوں نے اپنی جان کسی کی مجرمانہ غفلت اور چھوٹے سے مفاد کی خاطر گنوا دی۔ نہ یہ حادثات پہلے تھے نہ آخری... فقط یہ ہے کہ نقصان کے لحاظ سے سانحہ کراچی ہماری تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ بن گیا ہے۔ مالکان نے مفرور ہو کر اپنے مجرم ہونے پر سند لگا دی ، لیکن اگر وہ پکڑے بھی جائیں تو کیا بگڑ جاتا ان کا؟ آج تک کسی بڑے سے بڑے حادثے کے مجرمان کو کیا سزا ملی، ہم نے تو کبھی سنا نہ جانا...
جس ملک میں حال یہ ہو کہ قانونی کارروائی کے لیے وکیل کرنے کے تردد کی بجائے جج کیا جا سکتا ہو وہاں قانون کیا ہو گا... جس ملک میں سب سے زیادہ لاقانونیت ملک کے سرکردہ افراد ہی کرتے ہوں وہاں عام آدمی کیا کرے گا ؟ جہاں زیادہ تر انڈسٹری کے مالک اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوں ان کو کون سا ادارہ چیک کر سکتا ہے اور کس قانون کے تحت وہ اپنی فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات کے پابند ہوں گے؟ کون انھیں کہہ سکتا ہے کہ کسی رہائشی علاقے میں وہ فیکٹری نہیں چلا سکتے اور وہ بھی اتنے زیادہ ورکرز کی زندگیوں کو اپنے مفادات کی خاطر داؤ پر لگا کر!
وہ کس کو جواب دہ ہیں اور کس کے رعب میں؟ یوں بھی انسان کے اپنے اندر ایک اخلاقی حس ہوتی ہے جس کا ہمارے ہاں بالخصوص فقدان ہے... ہم اپنی ذات کو سب سے بڑھ کر اہم سمجھتے ہیں اور ہمارے اپنے مفادات سب سے افضل، غریبوں کو انسان سمجھنے کا بھی ہمارے ہاں رواج نہیں۔ دو ایک دن میڈیا بھی اتنے بڑے حادثے پر چیخ چاخ کر خاموش ہو گیا ہے، امدادی کارروائیوں اور لاشوں کی شناخت کے عمل میں کسی کو دلچسپی نہیں۔
جس آگ سے کتنے ہی معصوم اور بے قصور جل گئے ہیں اس آگ نے ان کے گھروں کے چولہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھا دیے ہیں، ان کے لواحقین کو اس ازلی محرومی سے دوچار کر دیا ہے جس کا ازالہ چند لاکھ کر سکتے ہیں نہ تیری میری تسلیاں!! کئی گھروں کے ایک سے زیادہ افراد جو اس آگ کے تنور میں جل مرے ہیں ان کی محرومی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
کہیں اس سے بھی زیادہ نقصان ہے... چھوٹے چھوٹے بچے جن کے ماں اور باپ دونوں اس حادثے کی نذر ہو گئے ہیں ان کے دکھ کا کیا مداوا ہو سکتا ہے؟ ان معصوموں کے آنسو پونچھنا، ان کے دکھ کی شدت کو کم کرنے کے لیے انھیں سرکاری سرپرستی میں لینا اور ان کا مستقبل محفوظ کرنا مملکت اور اس فیکٹری مالکان کی ذمے داری ہے، جنہوں نے سوائے اپنی جان بچانے کے کچھ بھی نہ کیا ہو گا۔
کیا یہ حادثہ کسی کے لیے بھی آنکھیں کھولنے کا موجب بناہے؟ کیا مستقبل میں اس طرح کے حادثات کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں؟ کیا ہنگامی طور پر ملک کی تمام فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات کی جانچ پڑتال شروع کر دی گئی ہے؟ کیا کوئی فوری حکم جاری کیا گیا ہے کہ آیندہ کسی رہائشی علاقے میں نئی فیکٹری کی تعمیر نہ ہو سکے گی اور پرانی فیکٹریوں کو فوری طور پر کام کرنے سے روک دیا جائے اور انھیں کہا جائے کہ وہ فیکٹریوں کو شہر سے باہر یا انڈسٹریل علاقے میں منتقل کریں؟
اگر یہ سب کچھ نہیں کیا گیا تو پھر اس حادثے پر قومی سوگ کا اعلان کوئی معنی نہیں رکھتا، فقط کہہ دینے سے معلوم نہیں ہوتا کہ ملک کے اقتدار کے ایوانوں میں بسنے والے ہلاک ہونے والوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حمام میں نہانے والے سب ننگے ہوتے ہیں ... انھیں کسی کو ننگا کہہ کر اس پر ہنسنے کا حق نہیں ہوتا، جس طرح کوئلے کے دلال کسی کے کالے منہ کی طرف اشارہ نہیں کرتے... اور انگریزی کا محاورہ ہے، جس کا ترجمہ ہے... '' تم میری کمر کھجاؤ، میں تمہاری کھجاتا ہوں!!!!! ''
لے دے کر ایک غریب کے پاس ہوتا ہی کیا ہے... ایک تن داغ داغ، ایک حسرتوں بھرا دل اور ایک محرومیوں سے بھرا دماغ۔ ذہن سوالوں کی آماجگاہ ہوتا ہے ۔
جس میں اللہ سے ایک سوال ہوتا ہے کہ کیوں بھوک انھی کے گھروں میں ڈیرے ڈال کر رہنا پسند کرتی ہے؟ کیوں ان کے وجود ان کے لباسوں کی طرح چیتھڑے چیتھڑے ہوتے ہیں، کیوں انھیں زندگی کا ہر لمحہ آزمائش کی طرح گزارنا ہوتا ہے؟ کل تک جو تن داغ داغ تھے، آج وہ تن سوختہ میں بدل چکے... سارے سوالوں سمیت وہ وجود ہستی سے نابود میں بدل گئے، اور ایسے کہ کچھ کی شناخت تک ممکن نہ ہوئی۔
ہماری تاریخ کا بد ترین سانحہ... جس میں قسمت اور موت کے وقت کے علاوہ جس چیز کا زیادہ عمل دخل ہے وہ ہماری مجرمانہ غفلت ہے۔ جانے کیسے رہائشی علاقوں میں گوداموں کے نام پر کمزور ڈھانچوں کی عمارتوں کی تعمیر کر کے ... کس کس کی مٹھی گرم کر کے، انھیں گودام سے فیکٹری میں بدل دیا جاتا ہے۔ مٹھی گرم کیے جانا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر نہ کوئی پانی اور گیس کا کنکشن مل سکتا ہے نہ مشینیں لگائی جا سکتی ہیں۔
کتنی رقم سے یہ کام ہو جاتا ہو گا؟ کتنے سستے داموں ہمارے ہاں مو ت کی تجارت ہوتی ہے... ان فیکٹریوں کی اجازت دیتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا تو بہت معمولی بات ہے کہ اس علاقے کے مکینوں کا سکھ اور آرام ختم ہو جاتا ہے... اس سے بڑھ کر جانے کیا کیا ہے جسے کلی طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔کسی فیکٹری کے لیے پانی اوربجلی کے کنکشن حاصل کرنا ، محفوظ وائرنگ کرنا اور جنریٹر یا یو پی ایس کو محفوظ جگہ اور طریقے سے لگانا، سب سے اہم اقدام ہے...
اگر کوئی گیس کا سلنڈر استعمال ہو رہا ہے تو اس کا ہوا دار اور کھلی جگہ پر ہونا، آگ بجھانے کا فوری بندوبست ہونا نیز ان کے نزدیک کسی قسم کے کیمیکل کا نہ ہونا دوسرا اہم اقدام ہونا چاہیے۔ فیکٹریوں کو جیل کی طرز پر نہ بنایا جائے کہ ان میں داخلے کے علاوہ اخراج کے لیے ہنگامی راستے بھی ہوں۔ قدرتی آفات کہیں بھی اور کسی بھی وقت انسان کو درپیش ہو سکتی ہیں، ان کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے، مثلاً سیلاب اور زلزلہ وغیرہ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ فیکٹری مالکان اپنے ورکروں کو انسان سمجھیں ، انھیں اس طرح کا ماحول فراہم کریں جس طرح کا انسانوں کو کیا جانا چاہیے۔
ان کے لیے سہولیات فراہم کریں جس میں ان کی ٹرانسپورٹ، ان کے لیے پینے کا صاف پانی، ان کے استعمال کے لیے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بنے ہوئے باتھ روم، ان کے کھانے کے لیے مناسب قیمتوں پر کینٹین یا کیفے ٹیریا کا انتظام، ان کے کام کے درمیان انھیں آرام کا وقفہ فراہم کرنا، ان کی جان کی حفاظت کا بندوبست کرنا... فیکٹری مالکان کا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
جہاں اتنے لوگ کام کر رہے ہوں، خواہ وہ لاہور ہو یا کراچی، فیکٹری جوتوں کی ہوں یا کپڑوں کی... سلنڈر پھٹنے سے آگ لگے یا جنریٹرکی ناقص وائرنگ سے، یہ موقع ہرگز نہیں کہ اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکائی جائیں۔ یہ سانحے ہماری غفلت کے عکاس اور ہماری اخلاقیات کے منہ پر طمانچوں کے مترادف ہیں... اتنا جانی نقصان ابھی تک شاید کسی بڑے فضائی حادثے کی صورت میں بھی نہ ہوا ہو گا۔
ذلتوں، دکھوں اور غربت کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ...سارے مسائل سے مکتی پا گئے ہیں مگر ہمارے لیے اتنے سوال چھوڑ گئے ہیں کہ جن کا جواب نہ تاریخ میں آج تک ملا ہے نہ اب ملے گا۔ یہ حادثہ بھی ہر روز ہونے والے حادثات کی طرح دو ایک دن میں کسی اور نئے حادثے کی تہہ میں چھپ جائے گا، ہم اسے بھی بھول جائیں گے۔
ہمیں وہ سب لوگ بھی بھول جائیں گے جنہوں نے اپنی جان کسی کی مجرمانہ غفلت اور چھوٹے سے مفاد کی خاطر گنوا دی۔ نہ یہ حادثات پہلے تھے نہ آخری... فقط یہ ہے کہ نقصان کے لحاظ سے سانحہ کراچی ہماری تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ بن گیا ہے۔ مالکان نے مفرور ہو کر اپنے مجرم ہونے پر سند لگا دی ، لیکن اگر وہ پکڑے بھی جائیں تو کیا بگڑ جاتا ان کا؟ آج تک کسی بڑے سے بڑے حادثے کے مجرمان کو کیا سزا ملی، ہم نے تو کبھی سنا نہ جانا...
جس ملک میں حال یہ ہو کہ قانونی کارروائی کے لیے وکیل کرنے کے تردد کی بجائے جج کیا جا سکتا ہو وہاں قانون کیا ہو گا... جس ملک میں سب سے زیادہ لاقانونیت ملک کے سرکردہ افراد ہی کرتے ہوں وہاں عام آدمی کیا کرے گا ؟ جہاں زیادہ تر انڈسٹری کے مالک اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوں ان کو کون سا ادارہ چیک کر سکتا ہے اور کس قانون کے تحت وہ اپنی فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات کے پابند ہوں گے؟ کون انھیں کہہ سکتا ہے کہ کسی رہائشی علاقے میں وہ فیکٹری نہیں چلا سکتے اور وہ بھی اتنے زیادہ ورکرز کی زندگیوں کو اپنے مفادات کی خاطر داؤ پر لگا کر!
وہ کس کو جواب دہ ہیں اور کس کے رعب میں؟ یوں بھی انسان کے اپنے اندر ایک اخلاقی حس ہوتی ہے جس کا ہمارے ہاں بالخصوص فقدان ہے... ہم اپنی ذات کو سب سے بڑھ کر اہم سمجھتے ہیں اور ہمارے اپنے مفادات سب سے افضل، غریبوں کو انسان سمجھنے کا بھی ہمارے ہاں رواج نہیں۔ دو ایک دن میڈیا بھی اتنے بڑے حادثے پر چیخ چاخ کر خاموش ہو گیا ہے، امدادی کارروائیوں اور لاشوں کی شناخت کے عمل میں کسی کو دلچسپی نہیں۔
جس آگ سے کتنے ہی معصوم اور بے قصور جل گئے ہیں اس آگ نے ان کے گھروں کے چولہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھا دیے ہیں، ان کے لواحقین کو اس ازلی محرومی سے دوچار کر دیا ہے جس کا ازالہ چند لاکھ کر سکتے ہیں نہ تیری میری تسلیاں!! کئی گھروں کے ایک سے زیادہ افراد جو اس آگ کے تنور میں جل مرے ہیں ان کی محرومی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
کہیں اس سے بھی زیادہ نقصان ہے... چھوٹے چھوٹے بچے جن کے ماں اور باپ دونوں اس حادثے کی نذر ہو گئے ہیں ان کے دکھ کا کیا مداوا ہو سکتا ہے؟ ان معصوموں کے آنسو پونچھنا، ان کے دکھ کی شدت کو کم کرنے کے لیے انھیں سرکاری سرپرستی میں لینا اور ان کا مستقبل محفوظ کرنا مملکت اور اس فیکٹری مالکان کی ذمے داری ہے، جنہوں نے سوائے اپنی جان بچانے کے کچھ بھی نہ کیا ہو گا۔
کیا یہ حادثہ کسی کے لیے بھی آنکھیں کھولنے کا موجب بناہے؟ کیا مستقبل میں اس طرح کے حادثات کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں؟ کیا ہنگامی طور پر ملک کی تمام فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات کی جانچ پڑتال شروع کر دی گئی ہے؟ کیا کوئی فوری حکم جاری کیا گیا ہے کہ آیندہ کسی رہائشی علاقے میں نئی فیکٹری کی تعمیر نہ ہو سکے گی اور پرانی فیکٹریوں کو فوری طور پر کام کرنے سے روک دیا جائے اور انھیں کہا جائے کہ وہ فیکٹریوں کو شہر سے باہر یا انڈسٹریل علاقے میں منتقل کریں؟
اگر یہ سب کچھ نہیں کیا گیا تو پھر اس حادثے پر قومی سوگ کا اعلان کوئی معنی نہیں رکھتا، فقط کہہ دینے سے معلوم نہیں ہوتا کہ ملک کے اقتدار کے ایوانوں میں بسنے والے ہلاک ہونے والوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حمام میں نہانے والے سب ننگے ہوتے ہیں ... انھیں کسی کو ننگا کہہ کر اس پر ہنسنے کا حق نہیں ہوتا، جس طرح کوئلے کے دلال کسی کے کالے منہ کی طرف اشارہ نہیں کرتے... اور انگریزی کا محاورہ ہے، جس کا ترجمہ ہے... '' تم میری کمر کھجاؤ، میں تمہاری کھجاتا ہوں!!!!! ''