درآمدات کا جنون
اِس طرح کے فیصلے کیے جارہے ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم اور متضاد ہیں
حکومت نے لگژری گاڑیوں کی امپورٹ پر لگی ہوئی پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے جو ملک کے موجودہ مالی حالات کے پیشِ نظر بڑا عجیب سا معلوم ہوتا ہے ، اگرچہ اِس فیصلہ کی تردید کے بارے میں ابھی تک کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے ، تاہم یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب حکومت سادگی اختیار کرنے کی ترغیب دے رہی ہے اور دوسری جانب اِس طرح کے فیصلے کیے جارہے ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم اور متضاد ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اِن میں سے کونسا فیصلہ درست ہے اورکونسا غلط ہے۔
وزیرِ اعظم اور اْن کے حواری ملک در ملک گھومتے پھر رہے ہیں اور اْن کا موقف یہ ہے کہ ملک اِس وقت شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے اور نیّا بھنور میں پھنسی ہوئی ڈول رہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب حکومتِ وقت نے ایسا نا قابلِ فہم فیصلہ کیا ہو۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق اِن گاڑیوں کی خریداری پر اربوں کھربوں روپے خرچ ہوں گے اور اِس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک کہاوت ہے کہ نتھو جوڑے پلے پلی اور رام اوندھائے کْپّے۔
حالات یہ ہیں کہ عوام کو روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ایک روٹی کی قیمت بڑھتے بڑھتے پندرہ بیس روپے ہوچکی ہے اور معلوم نہیں ہے کہ آگے اِس میں اور کتنا اضافہ ہوگا۔ عوام کی قوتِ خرید برداشت سے باہر ہوگئی ہے اور پیٹ کے جہنم کو بھرنا دشوار سے دشوار تر ہو رہا ہے۔
ملک میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد پہلے ہی تشویشناک حد تک پہنچی ہوئی تھی اور اب اندیشہ یہ ہے کہ اِس میں مزید اضافہ ہوگا۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تنگ آکر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں اور اپنے بال بچوں کو قتل کررہے ہیں اور چوری ڈاکے اور عصمت فروشی جیسے جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
اخبارات کو دیکھیے اْن میں طرح طرح کی وارداتوں کی بھر مار ہے۔ لوگ گھروں میں بھوکے مرنے سے بچنے کے لیے نت نئے جرائم کرنے پر مجبور ہیں تاکہ جیل چلے جائیں جہاں کم سے کم اْنہیں دو وقت کی روٹی میسر آجائے گی۔
دوسری جانب حکمراں ہیں کہ جن کے وزیروں اور مشیروں کی تعداد میں اضافہ پر اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے قومی خزانہ پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
اِس کے علاوہ وہ طبقہ بھی ہے جو بڑے ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہا ہے اور اْسے معلوم بھی نہیں کہ ملک کے عوام پر کیا قیامت گزر رہی ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے پالتو جانوروں کے لیے جس میں کتے بلیاں بھی شامل ہیں بیرونی ممالک سے خوراک امپورٹ کی جارہی ہے۔
حکمرانوں کے محلوں میں جائیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اْن کے عیش و آرام کا حال کیا ہے اور اِس سے اْنہیں کوئی غرض نہیں کہ عام آدمی کن عذابوں میں مبتلا ہے۔
اربابِ اختیار کو یہ احساس ہی نہیں کہ اْن کے زیرِ حکمرانی رعایا پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا لوگ ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے ہیں اور اْن کا کوئی پْرسانِ حال نہیں ہے۔ اسپتالوں میں دوائیں ناپید ہیں اور مطلوبہ عملہ کا کال پڑا ہوا ہے۔
دوسری جانب تعلیمی ادارے ہیں کہ جن میں طالب علموں کو نہ کتابیں کاپیاں میسر ہیں اور نہ اساتذہ کو وقت پر تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں ، جب یہ حالت ہوگی تو بھلا استاد کیا خاک پڑھائیں گے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز میں زبردست کٹوتی کردی گئی ہے اور بعض سرکاری اداروں میں تو کارکنوں کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہی ہیں اور پینشنرز کو انتہائی تاخیر سے پینشنوں کی ادائیگی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے اْنہیں ناقابلِ بیان حد تک مشکلات درپیش ہیں۔
پینشنرز میں ایک بڑی تعداد اْن لوگوں کی ہے جنھیں عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہیں اور وہ نہ تو اسپتالوں کے بھاری خرچے افورڈ کرسکتے ہیں اور نہ ہی مہنگی مہنگی دوائیں جن میں زیادہ تر جان بچانے والی دوائیں شامل ہیں کیونکہ یہ دوائیں عام دواؤں سے کئی گْنا مہنگی ہیں اور اِن کی بروقت دستیابی بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔ یہ بیچارے سرد آہیں بھر کر یہ کہنے کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں :
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے
وطنِ عزیز اپنی تاریخ کے سنگین ترین دور سے گز رہا ہے لیکن ہمارے اربابِ اختیار اِس صورتحال سے قطع نظر مختلف حیلوں بہانوں سے بیرونی ممالک کے دوروں پر دورے کررہے ہیں جن پر بھاری اخراجات آ رہے ہیں۔
اِن لاحاصل دوروں کا لْبِ لْباب یہ ہے کہ بیرونی ساہوکار اربابِ اختیار سے ایسے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ملک کے بے کس اور بے بس عوام جو پہلے ہی معاشی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اِس دلدل سے نکلنے کے بجائے مزید دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے۔
ذرا غور کیجیے تو اِس صورتحال کی ذمے دار محض موجودہ حکومت نہیں بلکہ ماضی کی دیگر حکومتیں بھی ذمے دار ہیں ، سب نے ایکسپورٹس کو فروغ دینے کے بجائے امپورٹس کو فروغ دیا جس کے نتیجہ میں ہمارا بیلینس آف پیمنٹس خراب سے خراب ہوتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ہم نجکاری کے نام پر گھر کے برتن بھانڈوں سمیت سب کچھ فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
اِس صورتحال کے تناظر میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حکومت نے ہزاروں طلبا کو تحفتاً لیپ ٹاپس دینے کی اسکیم سوچی ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ لیپ ٹاپس پاکستان میں نہیں بنائے جاتے بلکہ بیرونی ممالک سے امپورٹ کیے جاتے ہیں جس پر بھاری زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام ایسے آڑے وقت پر کیا جائے گا جب وطنِ عزیز کے لیے ایک ایک ڈالر اہمیت رکھتا ہے۔
ن لیگ کی موجودہ حکومت سابقہ حکومت کا ہی تسلسل ہے۔ یاد رہے کہ جب میاں نواز شریف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی تو اْنہوں نے درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔
موجودہ حالات یہ ہیں کہ درآمدات کا پھاٹک کھلا ہوا ہے اور کھجور کے درختوں سے لے کر فرنیچر اور ماربل سلیب تک تمام چیزیں امپورٹ کی جارہی ہیں حتیٰ کہ کرکٹ کے کوچ تک پاکستانی نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں کچھ نہیں بنایا جا رہا۔ ''سیف سٹی پروجیکٹس'' پر بے تحاشہ ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں لیکن اِس کے باوجود جرائم کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ملک میں کوئی جگہ بھی خواتین کے لیے محفوظ نہیں ہے اور حکومت مجرموں کے آگے بے بس نظر آرہی ہے۔
کراچی میں جو کہ ملک کا تجارتی عروس البلاد ہے اسٹریٹ کرائم عام ہے حالانکہ نصب کیے گئے سی سی ٹی وی کیمروں پر خطیر رقومات خرچ کی گئی ہیں۔ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے اور وہ وقت آن پہنچا ہے کہ درآمدات کے جنون کو ختم کردیا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب حکومت سادگی اختیار کرنے کی ترغیب دے رہی ہے اور دوسری جانب اِس طرح کے فیصلے کیے جارہے ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم اور متضاد ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اِن میں سے کونسا فیصلہ درست ہے اورکونسا غلط ہے۔
وزیرِ اعظم اور اْن کے حواری ملک در ملک گھومتے پھر رہے ہیں اور اْن کا موقف یہ ہے کہ ملک اِس وقت شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے اور نیّا بھنور میں پھنسی ہوئی ڈول رہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب حکومتِ وقت نے ایسا نا قابلِ فہم فیصلہ کیا ہو۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق اِن گاڑیوں کی خریداری پر اربوں کھربوں روپے خرچ ہوں گے اور اِس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک کہاوت ہے کہ نتھو جوڑے پلے پلی اور رام اوندھائے کْپّے۔
حالات یہ ہیں کہ عوام کو روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ایک روٹی کی قیمت بڑھتے بڑھتے پندرہ بیس روپے ہوچکی ہے اور معلوم نہیں ہے کہ آگے اِس میں اور کتنا اضافہ ہوگا۔ عوام کی قوتِ خرید برداشت سے باہر ہوگئی ہے اور پیٹ کے جہنم کو بھرنا دشوار سے دشوار تر ہو رہا ہے۔
ملک میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد پہلے ہی تشویشناک حد تک پہنچی ہوئی تھی اور اب اندیشہ یہ ہے کہ اِس میں مزید اضافہ ہوگا۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تنگ آکر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں اور اپنے بال بچوں کو قتل کررہے ہیں اور چوری ڈاکے اور عصمت فروشی جیسے جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
اخبارات کو دیکھیے اْن میں طرح طرح کی وارداتوں کی بھر مار ہے۔ لوگ گھروں میں بھوکے مرنے سے بچنے کے لیے نت نئے جرائم کرنے پر مجبور ہیں تاکہ جیل چلے جائیں جہاں کم سے کم اْنہیں دو وقت کی روٹی میسر آجائے گی۔
دوسری جانب حکمراں ہیں کہ جن کے وزیروں اور مشیروں کی تعداد میں اضافہ پر اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے قومی خزانہ پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
اِس کے علاوہ وہ طبقہ بھی ہے جو بڑے ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہا ہے اور اْسے معلوم بھی نہیں کہ ملک کے عوام پر کیا قیامت گزر رہی ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے پالتو جانوروں کے لیے جس میں کتے بلیاں بھی شامل ہیں بیرونی ممالک سے خوراک امپورٹ کی جارہی ہے۔
حکمرانوں کے محلوں میں جائیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اْن کے عیش و آرام کا حال کیا ہے اور اِس سے اْنہیں کوئی غرض نہیں کہ عام آدمی کن عذابوں میں مبتلا ہے۔
اربابِ اختیار کو یہ احساس ہی نہیں کہ اْن کے زیرِ حکمرانی رعایا پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا لوگ ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے ہیں اور اْن کا کوئی پْرسانِ حال نہیں ہے۔ اسپتالوں میں دوائیں ناپید ہیں اور مطلوبہ عملہ کا کال پڑا ہوا ہے۔
دوسری جانب تعلیمی ادارے ہیں کہ جن میں طالب علموں کو نہ کتابیں کاپیاں میسر ہیں اور نہ اساتذہ کو وقت پر تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں ، جب یہ حالت ہوگی تو بھلا استاد کیا خاک پڑھائیں گے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز میں زبردست کٹوتی کردی گئی ہے اور بعض سرکاری اداروں میں تو کارکنوں کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہی ہیں اور پینشنرز کو انتہائی تاخیر سے پینشنوں کی ادائیگی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے اْنہیں ناقابلِ بیان حد تک مشکلات درپیش ہیں۔
پینشنرز میں ایک بڑی تعداد اْن لوگوں کی ہے جنھیں عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہیں اور وہ نہ تو اسپتالوں کے بھاری خرچے افورڈ کرسکتے ہیں اور نہ ہی مہنگی مہنگی دوائیں جن میں زیادہ تر جان بچانے والی دوائیں شامل ہیں کیونکہ یہ دوائیں عام دواؤں سے کئی گْنا مہنگی ہیں اور اِن کی بروقت دستیابی بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔ یہ بیچارے سرد آہیں بھر کر یہ کہنے کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں :
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے
وطنِ عزیز اپنی تاریخ کے سنگین ترین دور سے گز رہا ہے لیکن ہمارے اربابِ اختیار اِس صورتحال سے قطع نظر مختلف حیلوں بہانوں سے بیرونی ممالک کے دوروں پر دورے کررہے ہیں جن پر بھاری اخراجات آ رہے ہیں۔
اِن لاحاصل دوروں کا لْبِ لْباب یہ ہے کہ بیرونی ساہوکار اربابِ اختیار سے ایسے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ملک کے بے کس اور بے بس عوام جو پہلے ہی معاشی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اِس دلدل سے نکلنے کے بجائے مزید دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے۔
ذرا غور کیجیے تو اِس صورتحال کی ذمے دار محض موجودہ حکومت نہیں بلکہ ماضی کی دیگر حکومتیں بھی ذمے دار ہیں ، سب نے ایکسپورٹس کو فروغ دینے کے بجائے امپورٹس کو فروغ دیا جس کے نتیجہ میں ہمارا بیلینس آف پیمنٹس خراب سے خراب ہوتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ہم نجکاری کے نام پر گھر کے برتن بھانڈوں سمیت سب کچھ فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
اِس صورتحال کے تناظر میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حکومت نے ہزاروں طلبا کو تحفتاً لیپ ٹاپس دینے کی اسکیم سوچی ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ لیپ ٹاپس پاکستان میں نہیں بنائے جاتے بلکہ بیرونی ممالک سے امپورٹ کیے جاتے ہیں جس پر بھاری زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام ایسے آڑے وقت پر کیا جائے گا جب وطنِ عزیز کے لیے ایک ایک ڈالر اہمیت رکھتا ہے۔
ن لیگ کی موجودہ حکومت سابقہ حکومت کا ہی تسلسل ہے۔ یاد رہے کہ جب میاں نواز شریف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی تو اْنہوں نے درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔
موجودہ حالات یہ ہیں کہ درآمدات کا پھاٹک کھلا ہوا ہے اور کھجور کے درختوں سے لے کر فرنیچر اور ماربل سلیب تک تمام چیزیں امپورٹ کی جارہی ہیں حتیٰ کہ کرکٹ کے کوچ تک پاکستانی نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں کچھ نہیں بنایا جا رہا۔ ''سیف سٹی پروجیکٹس'' پر بے تحاشہ ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں لیکن اِس کے باوجود جرائم کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ملک میں کوئی جگہ بھی خواتین کے لیے محفوظ نہیں ہے اور حکومت مجرموں کے آگے بے بس نظر آرہی ہے۔
کراچی میں جو کہ ملک کا تجارتی عروس البلاد ہے اسٹریٹ کرائم عام ہے حالانکہ نصب کیے گئے سی سی ٹی وی کیمروں پر خطیر رقومات خرچ کی گئی ہیں۔ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے اور وہ وقت آن پہنچا ہے کہ درآمدات کے جنون کو ختم کردیا جائے۔