ایسکوسوٹ Exosuit
سمندر میں چمک دار اجسام کی نشان دہی کرنے والا لباس تیار
گذشتہ دنوں امریکا کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں غوطہ خوری کے لیے مخصوص لباس کی نمائش کی گئی، جس میں جدید ٹیکنالوجی پر مبنی آلات لگے ہوئے ہیں۔
ان کی مدد سے سائنس دانوں کو سمندر کی تہ میں اتر کر تحقیقی کام کرنے کے دوران زیادہ سہولت اور آسانی ہو گی۔ یہ خلابازوں کے لیے مخصوص لباس کی طرح ہے، جسے پہن کر آبی حیات سے متعلق تحقیقی سرگرمیوں اور سمندر میں مشاہدے کی غرض سے 1000 فٹ کی گہرائی تک جایا جاسکتا ہے۔ اسے Exosuit کا نام دیا گیا ہے۔
سمندر کی تہ میں جان داروں کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں اور اس بارے میں سائنس دانوں کی طرف سے انکشافات اور معلومات کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے، مگر اب بھی لاتعداد مخلوقات انسان کی نظروں سے اوجھل ہیں اور گہرے پانیوں میں چھپے کئی رازوں سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔ Exosuit کی بہ دولت سائنس داں اور سمندری حیات کے ماہر قدرتی ماحول میں رہ کر ان مخلوقات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرسکیں گے۔ مختلف علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ سمندر کی تہ میں رہنے والی چمک دار آبی حیات کا مطالعہ کینسر کے خلیوں اور انسانی دماغ کی سرگرمیوں پر نئے زاویے سے روشنی ڈال سکتا ہے اور یہ لباس ان تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو گا۔ اس میں لگے ہوئے سائنسی آلات کسی چٹان کے پیچھے یا سمندری ریت کے نیچے موجود چمک دار اجسام کی نشان دہی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لباس کی تیاری کا بنیادی مقصد ایسے ہی آبی جانوروں تک پہنچنا ہے۔
Exosuit کی تیاری کا آغاز 15 سال قبل ہوا تھا۔ ساڑھے چھے فٹ اونچے اس سوٹ کی تکمیل پر چھے لاکھ امریکی ڈالر لاگت آئی ہے۔ یہ سوٹ جدید ترین کیمروں، سینسرز سمیت مختلف آلات سے لیس ہے، جن کی مدد سے ماہرین سمندری حیات سے متعلق تحقیقی ڈیٹا آسانی سے محفوظ کرسکتے ہیں۔
Exosuit کو آب دوز کی جدید ترین شکل بھی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ اس میں وہی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے، جو آب دوز کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ غوطہ خور یہ لباس پہن کر زیرآب مسلسل پانچ گھنٹے گزار سکتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس لباس سے اب زیادہ بہتر انداز میں سمندری دنیا کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور تحقیق کا عمل آسان ہو جائے گا۔ n
ان کی مدد سے سائنس دانوں کو سمندر کی تہ میں اتر کر تحقیقی کام کرنے کے دوران زیادہ سہولت اور آسانی ہو گی۔ یہ خلابازوں کے لیے مخصوص لباس کی طرح ہے، جسے پہن کر آبی حیات سے متعلق تحقیقی سرگرمیوں اور سمندر میں مشاہدے کی غرض سے 1000 فٹ کی گہرائی تک جایا جاسکتا ہے۔ اسے Exosuit کا نام دیا گیا ہے۔
سمندر کی تہ میں جان داروں کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں اور اس بارے میں سائنس دانوں کی طرف سے انکشافات اور معلومات کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے، مگر اب بھی لاتعداد مخلوقات انسان کی نظروں سے اوجھل ہیں اور گہرے پانیوں میں چھپے کئی رازوں سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔ Exosuit کی بہ دولت سائنس داں اور سمندری حیات کے ماہر قدرتی ماحول میں رہ کر ان مخلوقات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرسکیں گے۔ مختلف علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ سمندر کی تہ میں رہنے والی چمک دار آبی حیات کا مطالعہ کینسر کے خلیوں اور انسانی دماغ کی سرگرمیوں پر نئے زاویے سے روشنی ڈال سکتا ہے اور یہ لباس ان تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو گا۔ اس میں لگے ہوئے سائنسی آلات کسی چٹان کے پیچھے یا سمندری ریت کے نیچے موجود چمک دار اجسام کی نشان دہی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لباس کی تیاری کا بنیادی مقصد ایسے ہی آبی جانوروں تک پہنچنا ہے۔
Exosuit کی تیاری کا آغاز 15 سال قبل ہوا تھا۔ ساڑھے چھے فٹ اونچے اس سوٹ کی تکمیل پر چھے لاکھ امریکی ڈالر لاگت آئی ہے۔ یہ سوٹ جدید ترین کیمروں، سینسرز سمیت مختلف آلات سے لیس ہے، جن کی مدد سے ماہرین سمندری حیات سے متعلق تحقیقی ڈیٹا آسانی سے محفوظ کرسکتے ہیں۔
Exosuit کو آب دوز کی جدید ترین شکل بھی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ اس میں وہی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے، جو آب دوز کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ غوطہ خور یہ لباس پہن کر زیرآب مسلسل پانچ گھنٹے گزار سکتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس لباس سے اب زیادہ بہتر انداز میں سمندری دنیا کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور تحقیق کا عمل آسان ہو جائے گا۔ n