احتیاط علاج سے بہتر ہے
یہ میرے لیے ایک لمحہ فکریہ تھا کہ لوگ صحت کے بنیادی اصولوں یا احتیاطی تدابیر سے واقفیت نہیں رکھتے۔۔۔
KARACHI:
ایک بڑے سے ڈپارٹمنٹل اسٹور میں ایک طرف رکھی ہوئی جڑی بوٹیوں سے بنی دوائیں دیکھ رہی تھی کہ ایک خاتون میری طرف آئیں۔ چہرے سے بہت پریشان لگ رہی تھیں۔
''آپ کو ہربل دوا کے بارے میں معلومات ہے؟'' پوچھنے لگیں۔
''تھوڑی بہت ہے کہ بس کام چل جاتا ہے''۔
''میرا آٹھ سال کا بیٹا دمے کا مریض ہے اور اسے کسی طرح افاقہ نہیں ہو رہا، اگر آپ کے علم میں کوئی ہربل دوا ہو تو خدا کے لیے مجھے بتایے''۔
''دوا تو اس وقت میرے ذہن میں نہیں آ رہی البتہ چند احتیاطی تدابیر کا علم ہے جو دمے کے مریضوں کے لیے موثر ہیں''۔
''جی فرمایے؟'' خاتون کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
''آپ کے گھر میں کارپٹ، پردے ، اسٹاف ٹوائے (فر کے کھلونے) کمبل، تکیے تو ضرور ہوں گے؟''
''جی ہاں یہ تمام چیزیں ہیں مگر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟''
''یہ تمام تر چیزیں گھر سے نکال پھینکیے کیونکہ ان سے الرجی بڑھتی ہے''۔
''میں سب چیزیں نکال سکتی ہوں مگر میرا بیٹا پنک پینتھر اور بھالو کا تو دیوانہ ہے۔ اف کھلونوں کے بغیر اسے نیند نہیں آتی''۔
''آپ اسے سوئیٹر وغیرہ بھی مت پہنائیں۔ آج کل تکیوں میں پرندوں کے پر یا کچھ ایسے اجزا ڈالے جاتے ہیں جن سے دمے کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے''۔
''اچھا!'' حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
''بچے کو پودوں سے دور رکھیں، گھر میں کیمیکل کی اشیا نہ استعمال کریں۔ جیسے کیڑے مار دوائیں وغیرہ''۔
''لیکن ڈاکٹر نے تو مجھے کبھی یہ باتیں نہیں بتائیں''۔ وہ بولی۔
''ڈاکٹر حضرات کے پاس آج کل وقت کہاں، وہ تو پانچ منٹ میں مریض نمٹا دیتے ہیں''۔
''آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ میں جس ڈاکٹر کو بچہ دکھاتی ہوں وہ پانچ منٹ بھی مشکل سے دیتے ہیں۔ اچھا یہ بتایے کہ اسے غذا میں کیا دوں؟''
''آپ اسے اگر شدید کھانسی ہو تو سات سے دس مرتبہ نیم گرم مشروب دیں جس میں چکن سوپ، دودھ یا اولٹین وغیرہ اور پانی بھی نیم گرم دیا کریں''۔ یہ سن کر خاتون قہقہہ مار کر ہنس پڑیں اور بولیں۔
''شاذ۔۔۔۔۔ اور نیم گرم پانی پیے۔۔۔۔ وہ تو یخ ٹھنڈا پانی پیتا ہے بلکہ پانی کی جگہ کولڈ ڈرنکس پیتا ہے''۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ خاتون میرا وقت ضایع کر رہی ہے۔
''پھر آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں۔ بچے کو بیمار تو آپ نے خود کیا ہے''۔ میرے بدلتے تیور دیکھ کر وہ پریشان ہوگئیں اور گھبرا کے بولیں۔
''آج کل کے بچے بہت ضدی ہیں اسے ٹھنڈا پانی یا کولڈڈرنک نہ ملے تو خوب شور مچاتا ہے''۔
''پھر اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آسکتی''۔ میں نے الوداعی نظروں سے اسے دیکھا اور سامان لے کر کاؤنٹر کی طرف بڑھی۔ وہ بھی میرے قریب آ کے کھڑی ہوئیں۔
''یقین کیجیے یہ تمام احتیاطی تدابیر میں کروں گی۔ اس کے علاوہ اور کیا کروں؟'' وہ میرے صبر کا امتحان لے رہی تھی۔ مگر زبردستی چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے میں نے کہا۔
''کوئی بات نہیں اگر میری باتوں سے آپ کو کوئی حل مل سکتا ہے تو مجھے آپ کے کام آکر خوشی ہوگی''۔
''ہاں تو میں یہ جاننا چاہ رہی تھی دواؤں میں اسے کیا دوں؟''
''آپ اسے Steriodes دیتی ہوں گی جو بہت مضر صحت ہیں''۔
''جی ہاں جب وہ ایک سال کا تھا تب سے اسے یہی دوائیں دے رہی ہوں۔ مگر ان کے مضر اثرات کیا ہیں؟''
''ایسے بچے بے چینی، زود رنج اور عدم یکسوئی کا شکار ہو جاتے ہیں''۔
''میرا بیٹا بہت ضدی ہے۔ اس کا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ وہ کوئی ایک کام تو مکمل ہی نہیں کرپاتا۔ ہائپر تو اتنا ہے کہ اسکول ہو یا محلہ اس کی روز شکایتیں آتی ہیں''۔
''آپ اسے دواؤں کے بدلے Inhaler دیں یا Nebulize کروائیں۔ بھاپ سے بھی اسے افاقہ ہوگا''۔
''میں نے تو یہ سوچ کر یہ چیزیں نہیں شروع کروائیں کہ وہ ان کا عادی ہوجائے گا''۔
''مریضوں کے پاس ہمیشہ چوائس ہوتی ہے۔ مگر لاعلمی کے باعث وہ ٹھیک سے فیصلہ نہیں کرپاتے۔ دوائیں تو جگر یا گردوں پر اثرانداز ہوتی ہیں''۔
''بس یہی احتیاط کروں یا کچھ اور بھی طریقے ہیں؟'' وہ میرے چہرے کی بیزاری بھانپ گئیں۔
''گیلا تولیہ کمرے میں رکھا کریں یا آج کل Humidifier بھی استعمال کیے جاتے ہیں''۔
''اس سے کیا ہوگا؟'' اس کے چہرے کی الجھن بڑھ گئی۔
''سردیوں میں مناسب نمی فضا کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اگر نمی کم ہے تو چمڑی و بال خشک ہوجاتے ہیں۔ نزلہ زکام یا سانس کی تکالیف شروع ہوجاتی ہیں۔ بار بار گلہ خشک ہونے سے نیند متاثر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل لوگ Humidifier استعمال کرتے ہیں''۔
''کیا وہ بچوں کے لیے مناسب نہیں؟'' وہ پوچھنے لگی ۔
''میرے خیال سے نہیں۔ بچوں کے لیے گیلا تولیہ یا کپڑا کمرے میں رکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ پانی کا برتن ریڈیئٹر کے قریب رکھ دیتے ہیں تاکہ ہوا میں مناسب نمی کا تناسب برقرار رہے''۔
''اگر ہیومڈٹی زیادہ ہو تو؟''
''وہ بھی صحت کے لیے مضر ہے۔ اس کا تدارک بھی ضروری ہے۔ جس کے لیے ہم ایگزاسٹ فین وغیرہ استعمال کرتے ہیں''۔
''آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری راہنمائی کی''۔ خاتون نے اجازت لی اور شاپر اٹھاکر باہر کی طرف چل دی۔
یہ میرے لیے ایک لمحہ فکریہ تھا کہ لوگ صحت کے بنیادی اصولوں یا احتیاطی تدابیر سے واقفیت نہیں رکھتے۔ وہ جس ماحول یا فضا میں رہتے ہیں اس میں موجود نمی کے تناسب، درجہ حرارت، روشنی یا ہوا کی مناسب مقدار سے لاعلم رہتے ہیں۔ ابھی گرمی شروع نہیں ہوئی کہ ایئرکنڈیشنڈ شروع ہوگئے۔ کئی گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ کھڑکیاں بند رہتی ہیں اور اہل خانہ روشنی اور تازہ ہوا سے دور رہتے ہیں۔ جدید زندگی سہولتوں اور آسائشوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ غیر فطری انداز انسان سے صحت جیسی نعمت چھین رہا ہے۔ مصنوعی طرز زندگی اور فطری ماحول سے دوری کی وجہ سے کئی بیماریاں بن بلائے مہمان کی طرح وارد ہوجاتی ہیں۔ دور جدید کے انسان کے ذہنی و جسمانی زوال کی وجہ غیر صحت مند طرز زندگی ہے۔
عام لوگوں کی لاعلمی کی وجہ سے اس ملک کے طبیب حضرات امیر ترین ہو رہے ہیں۔ فرنچ مضمون نگار مانٹیس نے کیا خوب کہا ہے کہ ایک انسان کا نقصان دوسرے کا فائدہ ہے۔ اگر لڑائی جھگڑے نہ ہوں تو وکیلوں کا کاروبار کیسے چلے گا۔ ذاتی لاپرواہی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے جب لوگ دھڑا دھڑ بیمار ہونے لگتے ہیں تو طبیبوں کی کمائی کا سیزن عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ایک بے خبر انسان کے زوال سے ہوشیار شخص اونچائی تک پہنچنے کے راستے تلاش کرلیتا ہے۔ اور زندگی کی کتاب کے ہر باب میں آپ کو کہیں نہ کہیں ایسی دلچسپ کہانی پڑھنے کو ضرور ملے گی۔
ایک بڑے سے ڈپارٹمنٹل اسٹور میں ایک طرف رکھی ہوئی جڑی بوٹیوں سے بنی دوائیں دیکھ رہی تھی کہ ایک خاتون میری طرف آئیں۔ چہرے سے بہت پریشان لگ رہی تھیں۔
''آپ کو ہربل دوا کے بارے میں معلومات ہے؟'' پوچھنے لگیں۔
''تھوڑی بہت ہے کہ بس کام چل جاتا ہے''۔
''میرا آٹھ سال کا بیٹا دمے کا مریض ہے اور اسے کسی طرح افاقہ نہیں ہو رہا، اگر آپ کے علم میں کوئی ہربل دوا ہو تو خدا کے لیے مجھے بتایے''۔
''دوا تو اس وقت میرے ذہن میں نہیں آ رہی البتہ چند احتیاطی تدابیر کا علم ہے جو دمے کے مریضوں کے لیے موثر ہیں''۔
''جی فرمایے؟'' خاتون کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
''آپ کے گھر میں کارپٹ، پردے ، اسٹاف ٹوائے (فر کے کھلونے) کمبل، تکیے تو ضرور ہوں گے؟''
''جی ہاں یہ تمام چیزیں ہیں مگر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟''
''یہ تمام تر چیزیں گھر سے نکال پھینکیے کیونکہ ان سے الرجی بڑھتی ہے''۔
''میں سب چیزیں نکال سکتی ہوں مگر میرا بیٹا پنک پینتھر اور بھالو کا تو دیوانہ ہے۔ اف کھلونوں کے بغیر اسے نیند نہیں آتی''۔
''آپ اسے سوئیٹر وغیرہ بھی مت پہنائیں۔ آج کل تکیوں میں پرندوں کے پر یا کچھ ایسے اجزا ڈالے جاتے ہیں جن سے دمے کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے''۔
''اچھا!'' حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
''بچے کو پودوں سے دور رکھیں، گھر میں کیمیکل کی اشیا نہ استعمال کریں۔ جیسے کیڑے مار دوائیں وغیرہ''۔
''لیکن ڈاکٹر نے تو مجھے کبھی یہ باتیں نہیں بتائیں''۔ وہ بولی۔
''ڈاکٹر حضرات کے پاس آج کل وقت کہاں، وہ تو پانچ منٹ میں مریض نمٹا دیتے ہیں''۔
''آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ میں جس ڈاکٹر کو بچہ دکھاتی ہوں وہ پانچ منٹ بھی مشکل سے دیتے ہیں۔ اچھا یہ بتایے کہ اسے غذا میں کیا دوں؟''
''آپ اسے اگر شدید کھانسی ہو تو سات سے دس مرتبہ نیم گرم مشروب دیں جس میں چکن سوپ، دودھ یا اولٹین وغیرہ اور پانی بھی نیم گرم دیا کریں''۔ یہ سن کر خاتون قہقہہ مار کر ہنس پڑیں اور بولیں۔
''شاذ۔۔۔۔۔ اور نیم گرم پانی پیے۔۔۔۔ وہ تو یخ ٹھنڈا پانی پیتا ہے بلکہ پانی کی جگہ کولڈ ڈرنکس پیتا ہے''۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ خاتون میرا وقت ضایع کر رہی ہے۔
''پھر آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں۔ بچے کو بیمار تو آپ نے خود کیا ہے''۔ میرے بدلتے تیور دیکھ کر وہ پریشان ہوگئیں اور گھبرا کے بولیں۔
''آج کل کے بچے بہت ضدی ہیں اسے ٹھنڈا پانی یا کولڈڈرنک نہ ملے تو خوب شور مچاتا ہے''۔
''پھر اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آسکتی''۔ میں نے الوداعی نظروں سے اسے دیکھا اور سامان لے کر کاؤنٹر کی طرف بڑھی۔ وہ بھی میرے قریب آ کے کھڑی ہوئیں۔
''یقین کیجیے یہ تمام احتیاطی تدابیر میں کروں گی۔ اس کے علاوہ اور کیا کروں؟'' وہ میرے صبر کا امتحان لے رہی تھی۔ مگر زبردستی چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے میں نے کہا۔
''کوئی بات نہیں اگر میری باتوں سے آپ کو کوئی حل مل سکتا ہے تو مجھے آپ کے کام آکر خوشی ہوگی''۔
''ہاں تو میں یہ جاننا چاہ رہی تھی دواؤں میں اسے کیا دوں؟''
''آپ اسے Steriodes دیتی ہوں گی جو بہت مضر صحت ہیں''۔
''جی ہاں جب وہ ایک سال کا تھا تب سے اسے یہی دوائیں دے رہی ہوں۔ مگر ان کے مضر اثرات کیا ہیں؟''
''ایسے بچے بے چینی، زود رنج اور عدم یکسوئی کا شکار ہو جاتے ہیں''۔
''میرا بیٹا بہت ضدی ہے۔ اس کا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ وہ کوئی ایک کام تو مکمل ہی نہیں کرپاتا۔ ہائپر تو اتنا ہے کہ اسکول ہو یا محلہ اس کی روز شکایتیں آتی ہیں''۔
''آپ اسے دواؤں کے بدلے Inhaler دیں یا Nebulize کروائیں۔ بھاپ سے بھی اسے افاقہ ہوگا''۔
''میں نے تو یہ سوچ کر یہ چیزیں نہیں شروع کروائیں کہ وہ ان کا عادی ہوجائے گا''۔
''مریضوں کے پاس ہمیشہ چوائس ہوتی ہے۔ مگر لاعلمی کے باعث وہ ٹھیک سے فیصلہ نہیں کرپاتے۔ دوائیں تو جگر یا گردوں پر اثرانداز ہوتی ہیں''۔
''بس یہی احتیاط کروں یا کچھ اور بھی طریقے ہیں؟'' وہ میرے چہرے کی بیزاری بھانپ گئیں۔
''گیلا تولیہ کمرے میں رکھا کریں یا آج کل Humidifier بھی استعمال کیے جاتے ہیں''۔
''اس سے کیا ہوگا؟'' اس کے چہرے کی الجھن بڑھ گئی۔
''سردیوں میں مناسب نمی فضا کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اگر نمی کم ہے تو چمڑی و بال خشک ہوجاتے ہیں۔ نزلہ زکام یا سانس کی تکالیف شروع ہوجاتی ہیں۔ بار بار گلہ خشک ہونے سے نیند متاثر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل لوگ Humidifier استعمال کرتے ہیں''۔
''کیا وہ بچوں کے لیے مناسب نہیں؟'' وہ پوچھنے لگی ۔
''میرے خیال سے نہیں۔ بچوں کے لیے گیلا تولیہ یا کپڑا کمرے میں رکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ پانی کا برتن ریڈیئٹر کے قریب رکھ دیتے ہیں تاکہ ہوا میں مناسب نمی کا تناسب برقرار رہے''۔
''اگر ہیومڈٹی زیادہ ہو تو؟''
''وہ بھی صحت کے لیے مضر ہے۔ اس کا تدارک بھی ضروری ہے۔ جس کے لیے ہم ایگزاسٹ فین وغیرہ استعمال کرتے ہیں''۔
''آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری راہنمائی کی''۔ خاتون نے اجازت لی اور شاپر اٹھاکر باہر کی طرف چل دی۔
یہ میرے لیے ایک لمحہ فکریہ تھا کہ لوگ صحت کے بنیادی اصولوں یا احتیاطی تدابیر سے واقفیت نہیں رکھتے۔ وہ جس ماحول یا فضا میں رہتے ہیں اس میں موجود نمی کے تناسب، درجہ حرارت، روشنی یا ہوا کی مناسب مقدار سے لاعلم رہتے ہیں۔ ابھی گرمی شروع نہیں ہوئی کہ ایئرکنڈیشنڈ شروع ہوگئے۔ کئی گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ کھڑکیاں بند رہتی ہیں اور اہل خانہ روشنی اور تازہ ہوا سے دور رہتے ہیں۔ جدید زندگی سہولتوں اور آسائشوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ غیر فطری انداز انسان سے صحت جیسی نعمت چھین رہا ہے۔ مصنوعی طرز زندگی اور فطری ماحول سے دوری کی وجہ سے کئی بیماریاں بن بلائے مہمان کی طرح وارد ہوجاتی ہیں۔ دور جدید کے انسان کے ذہنی و جسمانی زوال کی وجہ غیر صحت مند طرز زندگی ہے۔
عام لوگوں کی لاعلمی کی وجہ سے اس ملک کے طبیب حضرات امیر ترین ہو رہے ہیں۔ فرنچ مضمون نگار مانٹیس نے کیا خوب کہا ہے کہ ایک انسان کا نقصان دوسرے کا فائدہ ہے۔ اگر لڑائی جھگڑے نہ ہوں تو وکیلوں کا کاروبار کیسے چلے گا۔ ذاتی لاپرواہی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے جب لوگ دھڑا دھڑ بیمار ہونے لگتے ہیں تو طبیبوں کی کمائی کا سیزن عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ایک بے خبر انسان کے زوال سے ہوشیار شخص اونچائی تک پہنچنے کے راستے تلاش کرلیتا ہے۔ اور زندگی کی کتاب کے ہر باب میں آپ کو کہیں نہ کہیں ایسی دلچسپ کہانی پڑھنے کو ضرور ملے گی۔