اسرائیل کی استثنائی حیثیت
نیتن یاہو کی موجودگی میں اوباما نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسرائیل کی طرح امریکا کا زیادہ قریبی دوست ہو
پچھلے مہینے مقبوضہ فلسطین کی نیم خود مختار انتظامیہ کے صدر محمود عباس اور صہیونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نے واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوباما سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی۔ برطانیہ کے وزیراعظم نے 12اور 13مارچ کے درمیان 24 گھنٹے کے دورے میں 22 گھنٹے صہیونیوں کے ساتھ گزارے اور 2 گھنٹے فلسطینی انتظامیہ کو شرف ملاقات بخشا۔ فلسطینی قیدیوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے یورپی پارلیمنٹ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے اپنا دورہ 22 مارچ کو مکمل کیا، صہیونی حکومت نے ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ ہمیشہ کی طرح ان دوروں اور ملاقاتوں سے فلسطینیوں کو سوائے لفظی ہمدردی کے عملی طور پر کچھ حاصل نہیں ہوا۔
امریکی صدر بارک اوباما نے تو محمو د عباس سے واضح طور پر کہہ دیا کہ بعض مشکل سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے جس میں خطرات بھی ہوں گے۔ یہ ملاقات 17 مارچ کو ہوئی جب کہ 3 مارچ کو صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کی ملاقات کا منظر ہمیشہ کی طرح ضرورت سے زیادہ خوشگوار تھا۔ وائٹ ہائوس کے مغربی حصے میں قائم اوول آفس میں محمود عباس کو اوباما سمجھا رہے تھے کہ اب انھوں نے مزید کیا کیا کرنا ہے۔ اس کے بر عکس نیتن یاہو نے اوباما کو لیکچر دیا کہ اسے امریکا کی پرواہ نہیں۔ محمود عباس سے ملاقات میں صحافیوں کے سوالات کا وقت نہیں رکھا گیا۔ نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو سوالات کی اجازت کسی کام کی نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس مسئلہ فلسطین اور امن عمل میں تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں کوئی سوال نہیں تھا۔ روس اور یوکرائن کے تذکرے سے لگ رہا تھا جیسے یوکرائن سے کوئی آدمی وائٹ ہائوس آیا تھا۔ ان ملاقاتوں میں پایا جانے والا یہ فرق مسئلہ فلسطین پر امریکی روش سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
کاخ سفید میں محمود عباس نے اپنے کارنامے بیان کیے کہ 1988 سے عادلانہ امن کے لیے اسرائیل کی جانب ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ 1993 سے اسرائیل کو تسلیم بھی کرچکے ہیں۔ لیکن ان کی تازہ ترین پوزیشن یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کرتے۔ اوباما نے محمود عباس کو فی الحال جو 2 احکامات جاری کیے ہیں، ان میں سے ایک اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنا اور دوسرا فلسطین کے علاقے وادی اردن میں اسرائیلی فوج کی تعیناتی کو قبول کرنا شامل ہیں۔
فلسطینی انتظامیہ فی الوقت قیدیوں کی رہائی کے چوتھے مرحلے پر توجہ دے رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جون کیری کے توسط سے فلسطینی انتظامیہ اور صہیونی ریاست میں اس ایشو پر اتفاق پایا جاتاہے۔ محمود عباس کا کہنا تھا کہ 29 مارچ تک یہ رہائی عمل میں آنا چاہیے اور اس سے امن عمل کی سنجیدہ کوششوں کا تاثر عوام میں مضبوط ہوگا لیکن اسرائیل نے اپریل کے پہلے ہفتے تک قیدی رہا نہیں کیے۔ اوباما کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین ایک مشکل الحصول ہدف ہے، اسی لیے آج کے مرحلے تک پہنچنے میں کئی عشرے لگے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ مشکلات کے باوجود ایک موقع موجود ہے۔ ان کی نظر میں فریقین میں سے ہر ایک خوب سمجھتا ہے کہ ایک امن معاہدے کے کیا خدوخال ہوں گے اور 1967 کی فلسطینی سرحدوں والی پوزیشن پر بھی ایک دوسرے کے لیے رعایتیں دینا ہوں گی۔ انھیں امید ہے کہ آیندہ دنوں اور ہفتوں میں پیش رفت جاری رکھ سکیں گے۔
نیتن یاہو کی موجودگی میں اوباما نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسرائیل کی طرح امریکا کا زیادہ قریبی دوست اور اتحادی ہو۔ اس حوالے سے صہیونی حکومت کے وزیراعظم کو دوسرا اعزاز یہ حاصل ہے کہ صدر اوباما نے دنیا میں سب سے زیادہ جس سے ملاقاتیں اور مشاورت کی وہ یہی ہیں۔ صہیونیوں سے فوجی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی پر تعاون کا تذکرہ بھی کیا۔ نیتن یاہو نے واضح کردیا کہ ایران کے بارے میں امریکا کی پالیسی کچھ بھی ہو لیکن اسرائیل ایران کے خلاف اپنے ''دفاع'' میں سب کچھ کر گزرنے کا ''حق'' رکھتا ہے۔ انھیں فلسطینیوں سے شکایت تھی کہ اسرائیل نے ان کے لیے غزہ خالی کردیا اور مغربی کنارے کے کچھ علاقے بھی انھیں دے دیے لیکن بدلے میں انھیں راکٹ ملے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ بیت المقدس سمیت وہ پورا علاقہ جس پر قبضہ کرکے اسرائیل نامی ریاست قائم کی گئی ہے، یہ پورا علاقہ دراصل فلسطین ہے۔ بیس بائیس فیصد زمین فلسطینیوںکے لیے خالی کردینا کوئی احسان نہیں ہے، فلسطینی پورے فلسطین پر حق رکھتے ہیں۔
برطانوی مصنف اور نقاد نکولس بلنکو نے تبصرہ کیا ہے کہ اسرائیل کا سیاسی طبقہ ایک بلبلے میں قید ہے اور اس بلبلے کے اندر وہ اپنے خیالات پر کاربند ہیں۔ اس کی ایک مثال انھوں نے نیتن یاہو کے خطاب کے اس جملے کو قرار دیا کہ فلسطینی انتظامیہ اور عرب علاقوں میں نسل پرستانہ بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی ناجائز و غیر قانونی بستیاں نہیں ہیں بلکہ فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہ کیا جانا امن عمل کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو کی دلیل در اصل یہ ہے کہ اسرائیل کو دنیا میں ایک استثنائی حیثیت حاصل ہے کہ وہ جو سمجھے اور چاہے وہ کرتا رہے، بین الاقوامی معیار اور اخلاقیات کوئی حیثیت نہیں رکھتے، لہٰذا دنیا کو چاہیے کہ اس موقف کو یاد رکھے اور قبول کرے۔ نکولس بلنکو نے زور دیا ہے کہ 20 سالہ ناکام امن عمل کے پیش نظر اسرائیل کے اس تصوراتی موقف کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔
تنظیم آزادی فلسطین کی ترجمان حنان اشروی نے بھی یورپی پارلیمنٹ کی ایڈہاک کمیٹی کے اراکین سے رملہ میں ہونے والی ملاقات میں اسی نکتے پر زور دیا کہ دنیا میں قانون کی حکمرانی کے لیے بین الاقوامی قوانین موجود ہیں اور یہ اسرائیل پر بھی لاگو ہونے چاہئیں۔
ان ساری تفصیلات کے بعد کیا فلسطینیوں کے حق میں کوئی بھی عملی اقدام دیکھنے میں آئے، جواب ہے نہیں۔ فلسطینی انتظامیہ فی الحال اس وجہ سے اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کررہی کہ ان کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں 16 لاکھ فلسطینی عرب آباد ہیں۔ وہ امریکا کا کتنا دبائو برداشت کرپائیں گے، آنے والا وقت خود ہی بتادے گا۔ اب تک فلسطین کی اس قیادت نے جو مغربی کنارے میں پائی جاتی ہے، بہت سے اہم مطالبات سے دست برداری بھی کی ہے اور بہت سے مطالبات پر ڈٹ جانے کے بعد پسپائی بھی اختیار کی ہے۔ ان میں سے اہم ترین فلسطینی مہاجرین جو دیگر ممالک میں آباد ہیں ان کی اپنے وطن واپسی ہے۔ اس کا مطلب ان علاقوں میں واپسی ہے جہاں سے انھیں صہیونی دہشت گردوں نے بے دخل کرکے جلاوطنی پر مجبور کیا تھا۔ اسرائیل اس شرط کو نہیں مانتا اور محمود عباس بھی اس پر پسپائی اختیار کرچکے ہیں۔ فی الوقت وہ اسرائیلی جیلوں میںقید مروان برغوثی اور احمد سعدات سمیت دیگر فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی خبر سننے کے متمنی ہیں۔ لیکن ان کی رہائی بھی فلسطینیوں کے مصائب کو کم نہیں کرسکے گی کیونکہ حنان اشروی کے الفاظ میں سارے فلسطینی جیل میں ہی رہتے ہیں۔
امریکی صدر بارک اوباما نے تو محمو د عباس سے واضح طور پر کہہ دیا کہ بعض مشکل سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے جس میں خطرات بھی ہوں گے۔ یہ ملاقات 17 مارچ کو ہوئی جب کہ 3 مارچ کو صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کی ملاقات کا منظر ہمیشہ کی طرح ضرورت سے زیادہ خوشگوار تھا۔ وائٹ ہائوس کے مغربی حصے میں قائم اوول آفس میں محمود عباس کو اوباما سمجھا رہے تھے کہ اب انھوں نے مزید کیا کیا کرنا ہے۔ اس کے بر عکس نیتن یاہو نے اوباما کو لیکچر دیا کہ اسے امریکا کی پرواہ نہیں۔ محمود عباس سے ملاقات میں صحافیوں کے سوالات کا وقت نہیں رکھا گیا۔ نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو سوالات کی اجازت کسی کام کی نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس مسئلہ فلسطین اور امن عمل میں تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں کوئی سوال نہیں تھا۔ روس اور یوکرائن کے تذکرے سے لگ رہا تھا جیسے یوکرائن سے کوئی آدمی وائٹ ہائوس آیا تھا۔ ان ملاقاتوں میں پایا جانے والا یہ فرق مسئلہ فلسطین پر امریکی روش سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
کاخ سفید میں محمود عباس نے اپنے کارنامے بیان کیے کہ 1988 سے عادلانہ امن کے لیے اسرائیل کی جانب ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ 1993 سے اسرائیل کو تسلیم بھی کرچکے ہیں۔ لیکن ان کی تازہ ترین پوزیشن یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کرتے۔ اوباما نے محمود عباس کو فی الحال جو 2 احکامات جاری کیے ہیں، ان میں سے ایک اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنا اور دوسرا فلسطین کے علاقے وادی اردن میں اسرائیلی فوج کی تعیناتی کو قبول کرنا شامل ہیں۔
فلسطینی انتظامیہ فی الوقت قیدیوں کی رہائی کے چوتھے مرحلے پر توجہ دے رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جون کیری کے توسط سے فلسطینی انتظامیہ اور صہیونی ریاست میں اس ایشو پر اتفاق پایا جاتاہے۔ محمود عباس کا کہنا تھا کہ 29 مارچ تک یہ رہائی عمل میں آنا چاہیے اور اس سے امن عمل کی سنجیدہ کوششوں کا تاثر عوام میں مضبوط ہوگا لیکن اسرائیل نے اپریل کے پہلے ہفتے تک قیدی رہا نہیں کیے۔ اوباما کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین ایک مشکل الحصول ہدف ہے، اسی لیے آج کے مرحلے تک پہنچنے میں کئی عشرے لگے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ مشکلات کے باوجود ایک موقع موجود ہے۔ ان کی نظر میں فریقین میں سے ہر ایک خوب سمجھتا ہے کہ ایک امن معاہدے کے کیا خدوخال ہوں گے اور 1967 کی فلسطینی سرحدوں والی پوزیشن پر بھی ایک دوسرے کے لیے رعایتیں دینا ہوں گی۔ انھیں امید ہے کہ آیندہ دنوں اور ہفتوں میں پیش رفت جاری رکھ سکیں گے۔
نیتن یاہو کی موجودگی میں اوباما نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسرائیل کی طرح امریکا کا زیادہ قریبی دوست اور اتحادی ہو۔ اس حوالے سے صہیونی حکومت کے وزیراعظم کو دوسرا اعزاز یہ حاصل ہے کہ صدر اوباما نے دنیا میں سب سے زیادہ جس سے ملاقاتیں اور مشاورت کی وہ یہی ہیں۔ صہیونیوں سے فوجی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی پر تعاون کا تذکرہ بھی کیا۔ نیتن یاہو نے واضح کردیا کہ ایران کے بارے میں امریکا کی پالیسی کچھ بھی ہو لیکن اسرائیل ایران کے خلاف اپنے ''دفاع'' میں سب کچھ کر گزرنے کا ''حق'' رکھتا ہے۔ انھیں فلسطینیوں سے شکایت تھی کہ اسرائیل نے ان کے لیے غزہ خالی کردیا اور مغربی کنارے کے کچھ علاقے بھی انھیں دے دیے لیکن بدلے میں انھیں راکٹ ملے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ بیت المقدس سمیت وہ پورا علاقہ جس پر قبضہ کرکے اسرائیل نامی ریاست قائم کی گئی ہے، یہ پورا علاقہ دراصل فلسطین ہے۔ بیس بائیس فیصد زمین فلسطینیوںکے لیے خالی کردینا کوئی احسان نہیں ہے، فلسطینی پورے فلسطین پر حق رکھتے ہیں۔
برطانوی مصنف اور نقاد نکولس بلنکو نے تبصرہ کیا ہے کہ اسرائیل کا سیاسی طبقہ ایک بلبلے میں قید ہے اور اس بلبلے کے اندر وہ اپنے خیالات پر کاربند ہیں۔ اس کی ایک مثال انھوں نے نیتن یاہو کے خطاب کے اس جملے کو قرار دیا کہ فلسطینی انتظامیہ اور عرب علاقوں میں نسل پرستانہ بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی ناجائز و غیر قانونی بستیاں نہیں ہیں بلکہ فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہ کیا جانا امن عمل کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو کی دلیل در اصل یہ ہے کہ اسرائیل کو دنیا میں ایک استثنائی حیثیت حاصل ہے کہ وہ جو سمجھے اور چاہے وہ کرتا رہے، بین الاقوامی معیار اور اخلاقیات کوئی حیثیت نہیں رکھتے، لہٰذا دنیا کو چاہیے کہ اس موقف کو یاد رکھے اور قبول کرے۔ نکولس بلنکو نے زور دیا ہے کہ 20 سالہ ناکام امن عمل کے پیش نظر اسرائیل کے اس تصوراتی موقف کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔
تنظیم آزادی فلسطین کی ترجمان حنان اشروی نے بھی یورپی پارلیمنٹ کی ایڈہاک کمیٹی کے اراکین سے رملہ میں ہونے والی ملاقات میں اسی نکتے پر زور دیا کہ دنیا میں قانون کی حکمرانی کے لیے بین الاقوامی قوانین موجود ہیں اور یہ اسرائیل پر بھی لاگو ہونے چاہئیں۔
ان ساری تفصیلات کے بعد کیا فلسطینیوں کے حق میں کوئی بھی عملی اقدام دیکھنے میں آئے، جواب ہے نہیں۔ فلسطینی انتظامیہ فی الحال اس وجہ سے اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کررہی کہ ان کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں 16 لاکھ فلسطینی عرب آباد ہیں۔ وہ امریکا کا کتنا دبائو برداشت کرپائیں گے، آنے والا وقت خود ہی بتادے گا۔ اب تک فلسطین کی اس قیادت نے جو مغربی کنارے میں پائی جاتی ہے، بہت سے اہم مطالبات سے دست برداری بھی کی ہے اور بہت سے مطالبات پر ڈٹ جانے کے بعد پسپائی بھی اختیار کی ہے۔ ان میں سے اہم ترین فلسطینی مہاجرین جو دیگر ممالک میں آباد ہیں ان کی اپنے وطن واپسی ہے۔ اس کا مطلب ان علاقوں میں واپسی ہے جہاں سے انھیں صہیونی دہشت گردوں نے بے دخل کرکے جلاوطنی پر مجبور کیا تھا۔ اسرائیل اس شرط کو نہیں مانتا اور محمود عباس بھی اس پر پسپائی اختیار کرچکے ہیں۔ فی الوقت وہ اسرائیلی جیلوں میںقید مروان برغوثی اور احمد سعدات سمیت دیگر فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی خبر سننے کے متمنی ہیں۔ لیکن ان کی رہائی بھی فلسطینیوں کے مصائب کو کم نہیں کرسکے گی کیونکہ حنان اشروی کے الفاظ میں سارے فلسطینی جیل میں ہی رہتے ہیں۔