کوچۂ سخن
غزل
یخ بستہ سمے درد کے ٹل کیوں نہیں جاتے
اب پنچھی سوئے شاخِ غزل کیوں نہیں جاتے
کس واسطے آ جاتے ہو احساس کچلنے
تم یاد کے ملبے سے نکل کیوں نہیں جاتے
کیوں آنکھ سے جاتی نہیں یہ شب کی سیاہی
خورشید ترے ہجر کے ڈھل کیوں نہیں جاتے
اب تک ہمیں نفرین سے کیوں تکتی ہے دنیا
کم ظرف کی پیشانی سے بل کیوں نہیں جاتے
پہلے ہی اذیت کے ہدف پر ہے یہ دنیا
احساس زدہ لوگو! بدل کیوں نہیں جاتے
گر آج کٹھن وقت ہے، کل ٹھیک بھی ہوگا
سب چھوڑ کے ہم جانبِ کل کیوں نہیں جاتے
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
کھٹک رہی ہیں زمانے کی ساری آنکھوں کو
یہ کس سے عشق ہوا ہے ہماری آنکھوں کو
ہمارے بعد کوئی بے بصر ہماری جگہ
بسر کرے گا ترے سر سے واری آنکھوں کو
یار قربان سرِ بزم اجنبی پن پر
سکھائی کس نے ہے یہ رازداری آنکھوں کو
نہ ہو گا محو وہ روزن سے جھانکتا چہرہ
تمام عمر رہے گی خماری آنکھوں کو
تری گلی میں پڑی مدتوں سے محوِ صدا
اک آدھ دید کا سکہ بھکاری آنکھوں کو
یہ رنگ و نور کی ترسیل میں معاون ہیں
نظر لگے نہ کسی کی تمہاری آنکھوں کو
(آزاد حسین آزاد۔کراچی)
۔۔۔
غزل
نہیں شاہ زادگی بھولتی کسی مرتبے کو مقام کو
یہاں بادشاہی کا حق نہیں ہے غلام ابن ِ غلام کو
ترے خلفشار نے یوں شفق کیا میری شام کو آن کر
کہ ترس رہی ہے سخن وری مرے در پہ اذن ِ کلام کو
میں قبول و رد کے ہوں درمیاں کوئی فیصلہ ہو کشاں کشاں
دلِ خستہ کیسے میں سونپ دوں کسی ایک مسلک ِ تام کو
میں بیاض لکھ دوں ورق ورق کوئی تشنگی نہ رہے کہیں
مرا حرف حرف ہو اس طرح کہ عروج بخشے دوام کو
مجھے نخل ِ دل پہ نہیں رکھا، نہ جگہ ملی تری آنکھ میں
نہ ہی اب ہے کاندھے پہ ہاتھ کوئی نہ گھر ہے کوئی قیام کو
مجھے پھینکنا بھی تو اس جگہ کڑی خامشی کی اتھاہ میں
جہاں شور اٹھے مری ہست کا جہاں پر لگیں مرے نام کو
مرے آئنے نے کہا مجھے تری شام میں ابھی دیر ہے
ابھی اور پرکھیں گے ماہ رو ترے حسن ِ ماہ تمام کو
چلے جارہے ہیں گروہ پر نہیں جانتے کہاں جا رکیں
نہیں جارہا ہے یہ راستہ کسی اعلیٰ ارفع مقام کو
کبھی شور کرتا ہے دیر تک کبھی دھڑکنیں نہیں سن رہا
تونے دل کے ہاتھ میں دے دیا ہے خیالِ نو کی لگام کو
(حنا عنبرین۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
کہاں کہاں پہ نجانے مرا بدن پڑا ہے
سو لے کے آ گیا جتنا بھی مجھ سے بن پڑا ہے
تمہارے وار سے اتنا بھی کب ہوا تھا کم
تمہارے بعد بھی اک شخص غالباً پڑا ہے
میں ایک غیب سے دوجے میں یوں گیا جلدی
کہ چند روز ہی رستے میں مجھ کو تن پڑا ہے
مکانِ ذہن میں کیسے سما گئی تری فکر
کہیں معاش کی چنتا کہیں سخن پڑا ہے
کبھی ملو تو سکھاؤں مجھے ہرانے کے گُر
اک آدھ مرتبہ خود سے بھی میرا رن پڑا ہے
کبھی کبھی تو زیادہ ہوا ہے حجرۂ جسم
یہ آسمان بھی کم مجھ کو دفعتاً پڑا ہے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
یہ ستونِ جاں ہے اُسی طرح، ابھی انہدام ہوا نہیں
مرے پہلے عشق کی خیر ہو کہ یہ رستہ عام ہوا نہیں
ابھی میرے نام کے رنگ کو تری کائنات ملی کہاں
ابھی بیٹھا ہوں اسی خاک پر، ابھی میرا کام ہوا نہیں
میں تو لکھ کے لایا تھا آیتیں، کہ مکالمے کی فضا بنے
وہاں قہقہوں کی دکان تھی کوئی ہمکلام ہوا نہیں
کئی لوگ تھے کسی گیت سے، کئی لوگ شعر شناس تھے
ترے بعد صاحبِ شام کا کوئی انتظام ہوا نہیں
میں اجاڑ عشق کی ہر پرت میں لکھا ہوا تجھے مل گیا
وہ جو سبز رقبۂ باغ تھا وہی میرے نام ہوا نہیں
وہ جو سادہ لوح پرند تھے وہ ہر ایک چال سمجھ چکے
میں پرانا جال لیے پھرا کوئی زیرِ دام ہوا نہیں
( قیوم طاہر۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
ہمیشہ دل کی لگن دل کی جستجو روئے
گوارا اب بھی نہیں ایک پل کہ تو روئے
جدائی میں بھلا آسان تھا کہاں رونا
بٹھا بٹھا کے اسے اپنے روبرو روئے
ہمارے دل کے تڑپنے پہ وہ بہت ہنسا ہے
ہمیشہ جس کی تمنا میں ہم لہو روئے
بہت قرینے سے اپنی اداسیوں سے نبھی
غموں کے ساز پہ کب یار کوبکو روئے
کمال یہ ہے کہ اظہار کر لیا میں نے
بھلے بھلے سے بنا عرض ِ آرزو، روئے
جہاں ٹہلتے تھے ہم دونوں شام سے پہلے
مجھے اداس جو دیکھے وہ آبجو روئے
جو پیار سے تھی بسی جھونپڑی بنی جنت
پہ عنبرین بغیر اس کے کاخ و کو روئے
(عنبرین خان ۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
کب اترے گا روح سے گارا مٹی کا
مٹی کی ہے جھیل ، کنارا مٹی کا
میں نے ہر دم کی دلداری مٹی کی
میں نے ہر دم قرض اتارا مٹی کا
میں نے چودہ چاند کیے ہیں جس کے نام
اس نے بھیجا ایک ستارا مٹی کا
مٹی کو روندا مٹی کا خون کیا
ہوگا آخر کار اجارہ مٹی کا
آنکھوں میں ہے صحراؤں سا سونا پن
پاؤں کے نیچے ہے انگارا مٹی کا
میں نے پاؤں جما رکھے اوصاف یہاں
میں نے سمجھا صاف اشارہ مٹی کا
(اوصاف شیخ۔ ساہیوال)
۔۔۔
غزل
ہر بات کو ہر خواب کو ترمیم میں رکھا
بس عشق کی سوغات کو تسلیم میں رکھا
یہ ہجر ہے اک تحفۂ نایاب سو اس کو
تخصیص میں رکھا کبھی تعمیم میں رکھا
انساں کی مساوات عقیدہ ہے ہمارا
ہر ابنِ بشر ہم نے تو تکریم میں رکھا
بس ایک سبق ہم کو ملا عشق کا اشکر
اورہم نے بھی دل کو اسی تعلیم میں رکھا
(اشکرفاروقی۔ جام پور)
۔۔۔
غزل
یعنی کہ انسِلاک کا کوئی سبب تو ہے
خوفِ غبار و خاک کا کوئی سبب تو ہے
کھل کر مذاق کرنے سے کھلتا ہے رازِ دل
سو آپ سے مذاق کا کوئی سبب تو ہے
قوسِ قزح سے جوڑ دیا اُس بدن کا رنگ
اس کارِ اشتراک کا کوئی سبب تو ہے
کوئی تو ہے کہ جس کی تمنّا یہاں جلے
دیوارِ دل میں طاق کا کوئی سبب تو ہے
ہے اِس قدر حسین جو ترتیبِ دو جہاں
اِس حسنِ اتّفاق کا کوئی سبب تو ہے
کوئی لحاظِ جنس نہیں بات چیت میں
آج اِس قدر مذاق کا کوئی سبب تو ہے
شاید اُتارا جائے کسی اور عہد میں
اِس عہدِ خوفناک کا کوئی سبب تو ہے
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
ترک کر کے دوستی بھی وہ غزالوں سے لگے
جس طرح ڈر خواہشوں کے الجھے جالوں سے لگے
مانتا ہوں دوستوں کی صف میں شامل ہے مگر
پہلے جیسا اب نہیں، اس کے سوالوں سے لگے
اپنی نیت تو ہمیشہ صاف رکھتا ہوں مگر
ڈر مجھے کچھ دوستوں کی مخفی چالوں سے لگے
اس نے جو وعدہ کیا ہے ملنے آئے گا ضرور
مضطرب سا جو مجھے بے کل خیالوں سے لگے
جانے کب سے کوئی بھی رہنے نہیں آیا یہاں
مجھ کو ایسا گھر کے سب بوسیدہ تالوں سے لگے
ساقیا کیا ہے ملایا بادۂ پر جوش میں
آگ سی تن میں ترے ان مے پیالوں سے لگے
میں تو راتوں کے اندھیروں میں بھی شاداں ہوں شہاب
ساتھ ہیں کچھ لوگ جن کو ڈر اجالوں سے لگے
(شہاب اللہ شہاب۔ کے پی کے)
۔۔۔
غزل
زمانہ مائلِ جور و جفا ابھی تک ہے
مرے لبوں پہ ترا مدعا ابھی تک ہے
کبھی جلایا تھا بامِ طلب پہ اِک چراغ
مرے خلاف جہاں کی ہَوا ابھی تک ہے
وہ ایک لمحہ جو اُترا تھا تیری فرقت کا
ستم شعار سکوں آزما ابھی تک ہے
درِ قبول پہ تالے پڑے زمانہ ہُوا
اٹھا ہوا مرا دستِ دعا ابھی تک ہے
اگرچہ لاکھ یہاں آندھیوں سے حشر اٹھا
ہتھیلیوں پہ وہ جلتا دیا ابھی تک ہے
بس ایک بار پکارا تھا اس کو میں نے نبیل ؔ
فضا میں گونجتی میری صدا ابھی تک ہے
(ڈاکٹر نبیل احمد نبیل، لاہور)
۔۔۔
''ماہتاب''
جوسارے چہرے گلاب ہوتے
جو سارے دل ماہتاب ہوتے
دھنک سا ہوتا یہ اپنا آنگن
مہک سی ہوتی یوں چار سو بس
کہ جیسے مہکا ہوا ہو گلشن
مگر یہ ساری تو خواہشیں ہیں
ہمارے دل کی یہ حسرتیں ہیں
کہ سارے رستے وہاں کو جاتے
جہاں ہمیشہ بہار ہوتی
ہوا ہمیشہ لہک کے چلتی
سکون ہوتا ہر اک لمحے میں
نہیں بھٹکتا کوئی مسافر
ہمیشہ پاتے سب اپنی منزل
محبتوں کے شہر جو ہوتے
نہ پھر کہیں پر فساد ہوتے
جو سارے چہرے گلاب ہوتے
جو سارے دل ماہتاب ہوتے
کبھی نہ ڈھلتا خوشی کا سورج
کبھی نہ بکھرے یہ خواب ہوتے
جو سارے چہرے گلاب ہوتے
جو سارے دل ماہتاب ہوتے
(تسنیم مرزا۔ کراچی)