ڈیفالٹ خدشات کے باوجود ایف بی آر کا لگژری گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ

ٹیکس دہندگان کی سہولت کے نام پر1.6بلین کی لاگت سے 155لگژری گاڑیاں خریدے گا

ٹیکس دہندگان کی سہولت کے نام پر1.6بلین کی لاگت سے 155لگژری گاڑیاں خریدے گا (فوٹو فائل)

وزیر اعظم کی کفایت شعاری کی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے غیر ملکی قرضے سے ٹیکس دہندگان کی سہولت کے نام پر 1.6 بلین روپے سے زائد کی لاگت سے 155 لگژری گاڑیاں خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ ایف بی آر نے ڈبلیو بی کے 400 ملین ڈالر کے پاکستان ریونیو پراجیکٹ کے تحت 19.6 بلین روپے مالیت کے انویسٹمنٹ پروجیکٹ فنانسنگ (آئی پی ایف) جزو کے لیے وزارت منصوبہ بندی کو دستاویزات جمع کرائی ہیں۔

ان دستاویزات باریکی سے جانچ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ایف بی آر 155 گاڑیاں 1,500 سی سی سے 3,000 سی سی تک خریدنے جا رہا ہے، انجن کی گنجائش جسے خود ایف بی آر نے لگژری قرار دیا ہے اور اس پر بھاری ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے دستاویزات میں گاڑیوں کی ساخت کی وضاحت نہیں کی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی حالات کی وجہ سے کفایت شعاری کی پالیسی کے نفاذ کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جس سے ڈیفالٹ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔


وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو 170 ارب روپے کے منی بجٹ کا اعلان کیا لیکن ان کا ''ریونیو آرم'' کاریں خریدنے اور ٹیکس دہندگان کے پیسے کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون میں ایک خبر شائع ہونے کے بعد اسحاق ڈار پہلے ہی ایف بی آر کو پوائنٹ آف سیل فنڈز کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے سے روک چکے ہیں۔

تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ گاڑیاں تمام فیلڈ فارمیشنوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ فیصل آباد، گوجرانوالہ، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں واقع علاقائی ٹیکس دفاتر کو 9،9گاڑیاں دینے کا منصوبہ ہے۔اپنے تکنیکی جائزہ میں وزارت منصوبہ بندی نے ایف بی آر کے ان گاڑیوں کو خریدنے کے اقدام پر اعتراضات بھی اٹھائے ہیں جس میں ایف بی آر سے ضرورت اور قیمت کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔

وزارت منصوبہ بندی نے تربیت، ورکشاپس اور عملے کی استعداد کار بڑھانے کے لیے 3 ملین ڈالر مختص کرنے پر بھی اعتراض کیا ہے۔ پروجیکٹ مینجمنٹ کی آپریشنل لاگت کے لیے 320.4 ملین روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے (یعنی گاڑیوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے 30 ملین روپے، ایندھن کے لیے 18 ملین روپے، پراجیکٹ کنٹریکٹ عملے کے لیے 30 ملین روپے)۔

بہت سے لوگوں نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ٹیکس اصلاحات کے نام پر WB کا 400 ملین ڈالر کا قرض لینے کے اقدام کی مخالفت کی تھی، اس خوف سے کہ اس سے غیر ملکی قرضے کا ضیاع بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ 149 ملین ڈالر کے ناکام ٹیکس ایڈمنسٹریشن اینڈ ریفارم پروجیکٹ کے معاملے میں ہوا تھا۔
Load Next Story