بھیک میں بھیک
قرضے لیے جارہے ہیں، کشکول بھرے جارہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سخاوت بھی چل رہی ہے
آخر بندہ بشر ہے، خیال آہی جاتا ہے کہ نصف صدی سے زیادہ ہم نے یہ جو بھاڑ جھونکا ہے، کاغذ کے کھیت میں قلم کا ہل چلاکر پھول بوئے اور خارکاٹے ہیں ،اس کافائدہ کیاہوا ہے ؟ کسی نے کبھی کوئی بات ہماری سنی؟ وہ تو اچھاہے کہ ہم بزدل ہیں ورنہ اب یہی گا رہے ہوتے کہ ۔
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کاافسانہ
سنی نہ بات کسی نے تو مرگئے چپ چاپ
خوشحال خان خٹک نے بھی قلم اورتلوار چلانے سے تھک کر اورکچھ بھی نتیجہ نہ دیکھ کر کہاتھا کہ۔بھاڑ میں جائے یہ تلوار اور قلم دونوں، آخر میں نے یہ دونوں کس کے لیے چلائے اورکس کو ان کی قدر معلوم ہے۔پچھتر سال ہوگئے، ہمیں تو چھوڑئیے ، نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں لیکن بڑے بڑے دانا دانشوروں نے صفحوں کے صفحے سیاہ کیے ہیں، ماننا تو دورکسی نے کبھی ان کے بارے کچھ کہا یا سنا ؟
ایک مرتبہ پھر اس بیوی کی بات یاد آئی جو ہمیشہ کی طرح شوہرکوہدایات دے رہی تھی ،شوہرکو بھی کچھ یاد آیا تو بولا،میری بات سنو۔ اس پر بیوی نے کہا، یہ بتاؤ آج تک میں نے کبھی تمہاری کوئی بات سنی ہے ؟ شوہرنے کہا،نہیں تو پھر آج کیوں سنوں ؟ بیوی نے تھپڑ کی طرح جملہ مارا۔لیکن ایسے سنی، ان سنی کرنا بے وجہ بھی نہیں ہوتی کیونکہ سننے والوںکی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔
مثلاً عرصہ دراز سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت بجلی خریدنے کے بجائے ملک میں دستیاب پانی، دھوپ، گیس ،کوئلے اورہوا سے کام لے گی لیکن کبھی کسی نے کچھ بھی نہیں سنا۔کیوں؟ حکومت بہری ہے، اندھی ہے۔
کوڑھ مغز ہے؟ آخر کیوں ؟کیوں ؟ اور پھر کیوں؟ اگر ایک بینظرسپورٹ، احساس پروگرام اور دیگر کارڈز وغیرہ میں ضایع کرنے والی رقم'' سولر بجلی'' کو آسان اور ستاکرنے کے لیے لگائی جاتی تو آج آدھا پاکستان سولر بجلی پر ہوچکاہوتا ؟ لیکن کیوں؟ پھر کیوں اور پھر کیوں؟ اس لیے کہ حکومت کے جو ساجھے دار ہیں، اہل کار ہیں، مال کے حصہ دار ہیں اور اب اس مہنگی بجلی کی گنگا میں تیر رہے ہیں، ان کی دوھیل گائے مرجاتی ۔ خود حکومت اور وزیروں، مشیروں، کونسلروں کے روپ جو نکھٹو اور بسیار خور اس دسترخوان پر بیٹھے ہیں، ان کے منہ میں نوالے کہاں سے ڈالے جاتے۔
سوات ،دیر ،چترال اور دوسرے کوہستانوں میں آپ نے دیکھا ہوگا یا اب بھی دیکھ کر جاسکتے ہیں کہ جگہ جگہ لوگوں نے نجی طور پر چھوٹے چھوٹے بجلی گھر بنا رکھے ہیں جو قرب وجوار کو بجلی فراہم کرتے ہیں، کہیں سو روپے فی گھر اورکہیں سو روپے فی بلب کے حساب سے۔
وہیں پر ذرا اوپر دیکھئیے کہ دشوار گزار پہاڑوں میں جگہ جگہ سرکاری کھمبے بھی ایستادہ نظر آتے ہیں، جن پر زرکثیرصرف ہوچکاہے، ٹھیکیداروں اور ساجھے داروں نے جی بھر کمائیاں کی ہوں گی اور متعلقہ عملہ بھی موجود ہے، ان کی تنخواہیں، مراعات اور پنش بھی چل رہے ہیں، جب کہ کہیں کھمبے اورکہیں تار ٹوٹے پڑے ہیں یعنی سب کچھ کھوہ کھاتے جاچکاہے ۔
جتنے ڈیم اخباروں اور بیانوں، اعلانوں میں بنے یا بنائے جارہے ہیں، ان کے لیے ہزاروں افسروں، چھوٹے افسروں اور کلرکوں، چپڑاسیوں، مالیوں کی بھرتیاں ہوچکی ہیں اور یہ چھوٹے بڑے اہلکار سرکاری بنگلوں اورکوارٹروں میں رہ رہے ہیں۔
بھوت دفتروں میں سب کچھ وصول کررہے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ نہ یہ ڈیم کبھی بنے ہیں اور نہ کوئی بنائے گا کیونکہ فرنس آئل،گیس اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے مالک اوردوسرے ساجھے دار آرام سے کمارہے ہیں، ان کی برکت سے پاکستان ماحولیاتی آلودگی میں خود کفیل ہوچکا ہے۔
اب بے نظیرانکم سپورٹ پر ایک نظر ڈالتے ہیں، نام کے لحاظ یہ بے نظیرانکم سپورٹ ہے اور ابتدا بھی پیپلز پارٹی نے کی ہے لیکن اس بہتی گنگا میں ساری پارٹیوں کی ساری حکومتیں، وزیر، کونسلر اور افسران ''اشنان'' کر رہے ہیں، پی ٹی آئی اور وژن اعظم نے تو اس کے پہلو بہ پہلو کچھ اور بھی دکانیں اور اسٹال بڑھائے ہیں۔
ایک کروڑ نوکریاں، پچاس کروڑ گھر، بلین ٹری اور یہ کارڈ وہ کارڈ، حساس، ہشاس، بشاش اورشاباش پروگرام۔ ہم صرف بے نظیر انکم سپورٹ کے بار ے میں کچھ حقائق آپ کو بتاتے ہیں، اس سے آپ ان تمام اداروں کا قیاس کر سکتے ہیں جنھیں ہم سرکاری پیسوں سے ووٹوں کی خریداری کہتے ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام دوہزارآٹھ میں شروع کیاگیا تو ایم این ایزاور سینٹرز کو چھ ہزار مستحق خاندانوں اور ایم پی ایز کو ایک ہزار خاندان کااختیار دے دیاگیا، پہلے مرحلے میں بائیس لاکھ خاندانوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے نوازاگیا۔
پیپلز پارٹی کی ایک خاتون رہنما فرزانہ راجہ کو اس پروگرام کا سربراہ بنایاگیا، پہلے سال چھبیس ارب کے لگ بھگ روپے تقسیم کیے گئے ،کئی سال تک یہ پروگرام چلتارہا، ہرسال رقوم میں اضافہ بھی ہوتا رہا، پھر ایک دن خبر آئی کہ محترمہ فرزانہ راجہ بیرون ملک چلی گئی لیکن جانے سے پہلے نہ کوئی حساب نہ احتساب۔ تبدیلی سرکار کے حساس پروگرام، ہیلتھ پروگرام اور درخت پروگرام کا حساب بھی شامل کرلیا جائے تورقم کا حساب خود لگائیں، مزے کی بات ہے کہ وژن اعظم اور ان کے تبلچی اب بھی فرما رہے ہیں کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
کہ خون خاک نشاں تھارزق خاک ہوا
پروگرام بدستورچل رہاہے، ہر پارٹی کے لوگ آجارہے ہیں، فہرستیں کم وبیش ہورہی ہیں اور اب یہ حساب لگانا کچھ بھی مشکل نہیں کہ کتنے ڈیموں، بجلی گھروں اور تیل کو یہ پروگرام ہڑپ کرچکاہے، قرضے لیے جارہے ہیں، کشکول بھرے جارہے ہیں اور ساتھ سخاوت بھی چل رہی ہے ۔
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق جاری ہے
اسے کہتے ہیں ''نیستی'' کے مارے پن چکی چلانا اور مستی کے بارے مزدوری نہ لینا یا بھیک میں بھیک لینا۔
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کاافسانہ
سنی نہ بات کسی نے تو مرگئے چپ چاپ
خوشحال خان خٹک نے بھی قلم اورتلوار چلانے سے تھک کر اورکچھ بھی نتیجہ نہ دیکھ کر کہاتھا کہ۔بھاڑ میں جائے یہ تلوار اور قلم دونوں، آخر میں نے یہ دونوں کس کے لیے چلائے اورکس کو ان کی قدر معلوم ہے۔پچھتر سال ہوگئے، ہمیں تو چھوڑئیے ، نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں لیکن بڑے بڑے دانا دانشوروں نے صفحوں کے صفحے سیاہ کیے ہیں، ماننا تو دورکسی نے کبھی ان کے بارے کچھ کہا یا سنا ؟
ایک مرتبہ پھر اس بیوی کی بات یاد آئی جو ہمیشہ کی طرح شوہرکوہدایات دے رہی تھی ،شوہرکو بھی کچھ یاد آیا تو بولا،میری بات سنو۔ اس پر بیوی نے کہا، یہ بتاؤ آج تک میں نے کبھی تمہاری کوئی بات سنی ہے ؟ شوہرنے کہا،نہیں تو پھر آج کیوں سنوں ؟ بیوی نے تھپڑ کی طرح جملہ مارا۔لیکن ایسے سنی، ان سنی کرنا بے وجہ بھی نہیں ہوتی کیونکہ سننے والوںکی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔
مثلاً عرصہ دراز سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت بجلی خریدنے کے بجائے ملک میں دستیاب پانی، دھوپ، گیس ،کوئلے اورہوا سے کام لے گی لیکن کبھی کسی نے کچھ بھی نہیں سنا۔کیوں؟ حکومت بہری ہے، اندھی ہے۔
کوڑھ مغز ہے؟ آخر کیوں ؟کیوں ؟ اور پھر کیوں؟ اگر ایک بینظرسپورٹ، احساس پروگرام اور دیگر کارڈز وغیرہ میں ضایع کرنے والی رقم'' سولر بجلی'' کو آسان اور ستاکرنے کے لیے لگائی جاتی تو آج آدھا پاکستان سولر بجلی پر ہوچکاہوتا ؟ لیکن کیوں؟ پھر کیوں اور پھر کیوں؟ اس لیے کہ حکومت کے جو ساجھے دار ہیں، اہل کار ہیں، مال کے حصہ دار ہیں اور اب اس مہنگی بجلی کی گنگا میں تیر رہے ہیں، ان کی دوھیل گائے مرجاتی ۔ خود حکومت اور وزیروں، مشیروں، کونسلروں کے روپ جو نکھٹو اور بسیار خور اس دسترخوان پر بیٹھے ہیں، ان کے منہ میں نوالے کہاں سے ڈالے جاتے۔
سوات ،دیر ،چترال اور دوسرے کوہستانوں میں آپ نے دیکھا ہوگا یا اب بھی دیکھ کر جاسکتے ہیں کہ جگہ جگہ لوگوں نے نجی طور پر چھوٹے چھوٹے بجلی گھر بنا رکھے ہیں جو قرب وجوار کو بجلی فراہم کرتے ہیں، کہیں سو روپے فی گھر اورکہیں سو روپے فی بلب کے حساب سے۔
وہیں پر ذرا اوپر دیکھئیے کہ دشوار گزار پہاڑوں میں جگہ جگہ سرکاری کھمبے بھی ایستادہ نظر آتے ہیں، جن پر زرکثیرصرف ہوچکاہے، ٹھیکیداروں اور ساجھے داروں نے جی بھر کمائیاں کی ہوں گی اور متعلقہ عملہ بھی موجود ہے، ان کی تنخواہیں، مراعات اور پنش بھی چل رہے ہیں، جب کہ کہیں کھمبے اورکہیں تار ٹوٹے پڑے ہیں یعنی سب کچھ کھوہ کھاتے جاچکاہے ۔
جتنے ڈیم اخباروں اور بیانوں، اعلانوں میں بنے یا بنائے جارہے ہیں، ان کے لیے ہزاروں افسروں، چھوٹے افسروں اور کلرکوں، چپڑاسیوں، مالیوں کی بھرتیاں ہوچکی ہیں اور یہ چھوٹے بڑے اہلکار سرکاری بنگلوں اورکوارٹروں میں رہ رہے ہیں۔
بھوت دفتروں میں سب کچھ وصول کررہے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ نہ یہ ڈیم کبھی بنے ہیں اور نہ کوئی بنائے گا کیونکہ فرنس آئل،گیس اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے مالک اوردوسرے ساجھے دار آرام سے کمارہے ہیں، ان کی برکت سے پاکستان ماحولیاتی آلودگی میں خود کفیل ہوچکا ہے۔
اب بے نظیرانکم سپورٹ پر ایک نظر ڈالتے ہیں، نام کے لحاظ یہ بے نظیرانکم سپورٹ ہے اور ابتدا بھی پیپلز پارٹی نے کی ہے لیکن اس بہتی گنگا میں ساری پارٹیوں کی ساری حکومتیں، وزیر، کونسلر اور افسران ''اشنان'' کر رہے ہیں، پی ٹی آئی اور وژن اعظم نے تو اس کے پہلو بہ پہلو کچھ اور بھی دکانیں اور اسٹال بڑھائے ہیں۔
ایک کروڑ نوکریاں، پچاس کروڑ گھر، بلین ٹری اور یہ کارڈ وہ کارڈ، حساس، ہشاس، بشاش اورشاباش پروگرام۔ ہم صرف بے نظیر انکم سپورٹ کے بار ے میں کچھ حقائق آپ کو بتاتے ہیں، اس سے آپ ان تمام اداروں کا قیاس کر سکتے ہیں جنھیں ہم سرکاری پیسوں سے ووٹوں کی خریداری کہتے ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام دوہزارآٹھ میں شروع کیاگیا تو ایم این ایزاور سینٹرز کو چھ ہزار مستحق خاندانوں اور ایم پی ایز کو ایک ہزار خاندان کااختیار دے دیاگیا، پہلے مرحلے میں بائیس لاکھ خاندانوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے نوازاگیا۔
پیپلز پارٹی کی ایک خاتون رہنما فرزانہ راجہ کو اس پروگرام کا سربراہ بنایاگیا، پہلے سال چھبیس ارب کے لگ بھگ روپے تقسیم کیے گئے ،کئی سال تک یہ پروگرام چلتارہا، ہرسال رقوم میں اضافہ بھی ہوتا رہا، پھر ایک دن خبر آئی کہ محترمہ فرزانہ راجہ بیرون ملک چلی گئی لیکن جانے سے پہلے نہ کوئی حساب نہ احتساب۔ تبدیلی سرکار کے حساس پروگرام، ہیلتھ پروگرام اور درخت پروگرام کا حساب بھی شامل کرلیا جائے تورقم کا حساب خود لگائیں، مزے کی بات ہے کہ وژن اعظم اور ان کے تبلچی اب بھی فرما رہے ہیں کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
کہ خون خاک نشاں تھارزق خاک ہوا
پروگرام بدستورچل رہاہے، ہر پارٹی کے لوگ آجارہے ہیں، فہرستیں کم وبیش ہورہی ہیں اور اب یہ حساب لگانا کچھ بھی مشکل نہیں کہ کتنے ڈیموں، بجلی گھروں اور تیل کو یہ پروگرام ہڑپ کرچکاہے، قرضے لیے جارہے ہیں، کشکول بھرے جارہے ہیں اور ساتھ سخاوت بھی چل رہی ہے ۔
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق جاری ہے
اسے کہتے ہیں ''نیستی'' کے مارے پن چکی چلانا اور مستی کے بارے مزدوری نہ لینا یا بھیک میں بھیک لینا۔