پہلا بھارتی بینک پاکستان میں31 مارچ تک برانچ کھول دے گا

بینک آف انڈیا نے شاخ کھولنے کیلیے کنسلٹنٹس کی تقرری بھی کردی،مضبوط بینکاری چینل کے قیام سے...

پاکستان اور بھارت کے درمیان بارٹرٹریڈ کی بھی وسیع گنجائش موجود ہے،جی ایم منیرعالم، صدرکے سی سی آئی سے ملاقات،پہلی برانچ کراچی میںقائم کی جائے،میاں ابرار فوٹو: اےایف پی/ فائل

MANCHESTER:
پاکستان میں بینک آف انڈیا اپنی پہلی برانچ31 مارچ 2013 تک قائم کردے گا۔

جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کرنے والوں کیلیے ٹریڈفنانسنگ مہیا کرے گا۔

یہ بات پاکستان کا دورہ کرنے والے بینک آف انڈیا کے جنرل منیجرو چیف ایگزیکٹو منیرعالم نے ہفتہ کو کراچی چیمبرآف کامرس کے صدرمیاں ابرار احمد سے ملاقات اور صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہی۔

منیرعالم نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مضبوط بینکاری چینل کے قیام کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی 6 تا7 ارب ڈالر کی غیررسمی تجارت باقاعدہ تجارت میں تبدیل ہوجائے گی۔

بینک آف انڈیا نے پاکستان میں اپنے کنسلٹنٹس کی بھی تقرری کردی ہے جن کی مشاورت سے پاکستان کے کسی بڑے شہر میں پہلی برانچ قائم کی جائے گی اورپاکستان میں اپنی بینکنگ بزنس کے پرکشش شعبوں کی نشاندہی کی جائے گی تاکہ پروفیشنل انداز میں بینک کے قیام کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکیں۔

بینک آف انڈیا کا شمار بھارت کے پانچ سرفہرست بینکوں میں ہوتا ہے جس کی بھارت میں4081 جبکہ بیرونی ممالک میں51 شاخیں بینکاری خدمات انجام دے رہی ہیں جو بھارت کے سرکاری سطح کا ممبئی بیسڈ بینک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بینک آف انڈیا سال2006 سے پاکستان میں اپنی برانچ کے قیام میں دلچسپی رکھتا تھا لیکن قوانین سمیت دیگر مسائل کے باعث ایسا نہ ہوسکا۔


تاہم دونوں حکومتوں کے مابین تعلقات میں خوشگوار تبدیلی کے بعد بینک نے اپنی دلچسپی کا اعادہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے ریگولیٹرز کی منظوری سے پاکستان میں جلد ازجلد اپنی برانچ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بینک آف انڈیا نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ریگولیشنز کے مطابق 10 ارب روپے مالیت کے ادا شدہ سرمائے سمیت دیگر شرائط کو تسلیم کرلیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بارٹرٹریڈ کی بھی وسیع گنجائش موجود ہے جبکہ بینک آف انڈیا پاکستان میں اپنی پہلی برانچ کے قیام کے نتائج کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مزید برانچوں کے قیام اورریٹیل بینکاری کے حوالے سے مشاورت کرے گا۔

منیرعالم نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر تجارتی سرگرمیاں اب مغرب سے مشرقی ممالک اور خطوں میں منتقل ہورہی ہیں اور تجارتی حجم و سرگرمیوں کی توسیع کے انفرااسٹرکچر میں مضبوط بینکاری نظام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ خوشگوار حالات کو اب ریورس گیئرنہیں لگے گا کیونکہ دونوں سطح پر حالیہ اقدامات وسیع البنیاد ہیں۔

اس موقع پر کراچی چیمبر کے صدر میاں ابرار نے تجویز دی کہ تجارتی حب کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے بینک آف انڈیا اپنی پہلی برانچ کراچی میں قائم کرے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ویزا ریجیم بہتر ہونے کے بعد مضبوط بینکاری نظام قائم ہونے کے بغیر دوطرفہ تجارتی سرگرمیوں کا فروغ ناممکن ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 98 فیصد پورٹ ہینڈلنگ کراچی بندرگاہ کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ صنعتی وبرآمدی پیداواراور ریونیو میں کراچی کا حصہ سب سے زیادہ ہے، میاں ابرار نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کو دسمبر2012 میں ہی انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دیدیا جائے گا، اس دوران دونوں ممالک کے درمیان مختلف نوعیت کے معاہدے طے پائیں گے۔

فی الوقت پاکستان اور بھارت کے درمیان سالانہ1.5 ارب ڈالر کی باضابطہ تجارت ہوتی ہے جبکہ 6 تا7 ارب ڈالر مالیت کی دوطرفہ تجارت غیررسمی ہے جو کسی تیسرے ملک کے توسط سے کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طویل دورانیے کے بعدپاکستان کی جانب سے نئی ترجیحات کا تعین کیا گیا ہے جبکہ بھارت بھی اس حقیقت سے آگاہ ہوگیا ہے کہ پاکستان اس کے لیے اہم ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے پاکستان تین بڑے اکنامک بلاکس کے وسط میں واقع ہے جس کا احساس بھارت کو ہوگیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارت تعلقات میں بہتری بھارت کے حق میں ہے، جب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی تو سارک کا غیرمتحرک اکنامک بلاک دوبارہ متحرک ہو جائیگا جو خطے میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما کرے گا۔ اس موقع پر کراچی چیمبر کے سینئرنائب صدر یونس بشیر، نائب صدر ضیاء احمد خان اور محمد ہارون اگر نے بھی خطاب کیا۔
Load Next Story