امجد اسلام امجد … ایک عہد تمام ہُوا
امجد اسلام امجدؔ نے ڈرامہ نویسی کے علاوہ شعر و ادب کی کئی جہات میں کام کیا
خوبصورت لمحوں کی یادیں سدا بہار موسم کی مانند ہوتی ہیں۔ ایسے میں جب موسموں کی آندھیاں چلتی ہیں تو کئی چراغ گل ہوجاتے ہیں لیکن ان کے گل ہو جانے پر بھی یادوں کے چراغ روشن رہتے ہیں۔
اس جہاں سے کوچ کرنے والی ہستی اپنے پیچھے محبتوں اور اپنائیت کا وہ بیش قیمت سرمایہ چھوڑ جاتی ہے کہ انھیں اگر فراموش بھی کوئی کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ ایسی ہی شخصیات میں امجد اسلام امجد بھی شامل تھے ، وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی باطنی شخصیت میں ہمیں مختلف رنگوں کا حسین امتزاج نظر آتا تھا۔
ان کا پیدائشی نام امجد اسلام تھا اور انھوں نے انشاء اللہ خان انشاء ، میر تقی میر اور فیض احمد فیض کی طرح اپنے پیدائشی نام کے ساتھ ''امجد'' کو بطور تخلص استعمال کیا۔ شعر و سخن کی دنیا میں ان کی پہچان امجد اسلام امجد کے نام سے ہوئی، وہ 4 اگست 1944 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
ان کا خاندان دستکاری کے کاروبار سے وابستہ تھا جن میں ادب پڑھنا تو دور کی بات سرے سے ہی پڑھنے لکھنے کا رواج ہی نہیں تھا۔
ایک انٹرویو میں اپنے بچپن کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے بتاتے تھے کہ '' یہ جسے آپ پڑھنے کی عادت کہتے ہیں یہ مجھے اپنے والد سے ملی جو ابنِ صفی کے جاسوسی ناول یا پھر تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے اور شفیق الرحمان کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے تھے ، لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے گھر سے کوئی مزید مدد نہ مل پائی۔''
امجد اسلام امجدؔ زمانہ طالب علمی میں بہت اچھے کرکٹر رہے ان کی خواہش تھی کہ وہ ٹیسٹ کرکٹر بنے ، جب کہ انھوں نے یونیورسٹی کی سطح تک کرکٹ کھیلی ، لیکن کالج کے دور میں ہی ان کا ادب کی طرف رجحان بڑھتا گیا اور جلد ہی ان کے کرکٹر بننے کا جنون سر سے اُتر گیا ، یوں ان کی مکمل توجہ شعر و ادب کی طرف مرکوز ہو گئی اور انھیں کالج میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں پذیرائی ملنے لگی۔
ان کے ہم عصر دوستوں میں پروفیسر جلیل عالی اس کالم کے دوران بتاتے ہیں کہ '' امجد اورئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو کے میرے ہم جماعت اور گہرے دوست تھے۔ ہم دونوں کلاس روم کی اگلی رو میں ساتھ ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔
عطاء الحق قاسمی ہم سے ایک سال سینئر تھے۔ خالی پیریڈ میں امجد ، عطا دو ایک دوسرے دوستوں کے ساتھ وولنر ہوسٹل میرے کمرے میں آ جاتے۔ ہم کئی بار کسی مصرعے پر فی البدیع اشعار کہتے۔ ایک یاد گار واقعہ یہ ہے کہ ہمارا ایک ہم جماعت ثاقب اپنی سیکنڈ ہینڈ کار پر کالج آیا کرتا تھا۔
ہم نے اس کی کار پر مشاعرے کا پروگرام بنایا۔ کالج کے لان میں اس کی گاڑی کھڑی کر دی اور استادِ محترم سجاد باقر رضوی مرحوم کی صدارت میں عطا، امجد ، کچھ دوسرے دوستوں اور میں نے کار پر طنزیہ مزاحیہ نظمیں پڑھیں۔''
ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد انھوں نے پی ٹی وی کے لیے لاتعداد سیریلز لکھیں جن میں ''وارث'' کے ساتھ ساتھ دہلیز ، سمندر ، رات ، وقت اور ''اپنے لوگ'' بھی شامل ہیں لیکن انھیں صحیح معنوں میں شہرت 1979 میں دکھائی جانے والی سیریل ''وارث'' سے ہی ملی۔
اُس زمانے میں شاعری کی رسائی محض ایک محدود طبقے تک ہی ہُوا کرتی تھی وہاں اُس زمانے میں بھی جب ملک میں پی ٹی وی کی صورت میں محض ایک ہی چینل ہُوا کرتا تھا تو جس پر ناظرین کی تعداد سات آٹھ کروڑ ہُوا کرتی تھی۔ '' وراث '' ڈراما جیسی سبق آموز سیریز کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا کیونکہ یہ نصف صدی کا قصہ ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں۔
ہر پل دھیان میں بسنے والے
لوگ افسانے ہو جاتے ہیں
آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں
، خواب پرانے ہو جاتے ہیں
امجد اسلام امجدؔ نے ڈرامہ نویسی کے علاوہ شعر و ادب کی کئی جہات میں کام کیا اور کئی تراجم کرنے کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے۔
احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیب کی مسلسل حوصلہ افزائی سے ان کا ادبی سفر کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا رہا۔ وہ '' چشمِ تماشا '' کے نام سے باقاعدگی کے ساتھ کئی برسوں سے روزنامہ ''ایکسپریس'' میں کالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔
ان کا کالم ادارتی صفحہ پر جمعرات اور اتوار کے دن شائع ہوتا۔ ان کا آخری کالم 5 فروری کو شائع ہُوا جس میں وہ اپنے سفرِ حجاز اور ادائیگی عمرہ کی روداد سنا رہے تھے۔ بدقسمتی سے یہ ان کا آخری کالم ثابت ہُوا جسے ان کی وفات کے اگلے دن ان کی یاد میں دوبارہ شائع کیا گیا۔
ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مجھے اپنا شعری مجموعہ ''ساحلوں کی ہَوا '' پیش کیا ،جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ اس شعری مجموعہ میں ان کی نظم ''محبت ایسا نغمہ ہے'' جسے جتنی بار بھی پڑھا جائے کم کم ہے۔
اس نظم کو وہ خود بھی بہت شوق سے سناتے۔ ان کی ایک نظم ایوب خان کے خلاف '' ہوائے شہر وفا شعاراں'' خاصی مقبول ہوئی۔ جسے بعد میں حنیف رامے نے مجلہ '' نصرت '' کے سرورق پر شائع کیا۔
اسی طرح ان کی ایک نظم ''محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے'' ہر خاص و عام میں بہت مقبول ہوئی۔ نظم میں انھیں جو سہولتِ اظہار میسر آیا ،غزل میں اُس کا فقدان تو نہیں البتہ فکر و خیال کی جدت اور جذبات کی روانی جو انھیں نظم کی فضا میں اُڑائے پھرتی تھی ۔ محبت ان کا خاص موضوع تھا لیکن انھوں نے گردو پیش کو بھی فراموش نہیں کیا۔ ان کی شہرئہ آفاق غزل کے دو اشعار دیکھیے:
کہاں آ کے رکنے تھے راستے
کہاں موڑ تھا اُسے بھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد
رکھ جو نہیں ملا اُسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں
کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سُن
اُسے بھول جا اُسے بھول جا
''میں تیرے سنگ کیسے چلوں ساجنا'' اس مشہورِ زمانہ غزل کو ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی خوبصورت آواز میں گار کر امجد اسلام امجدؔ کے کلام کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ '' برزخ '' کے نام سے 1974 ء میں منظرِ عام پر آیا۔ نظم و نثر میں ان کی چالیس سے زیادہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ۔
ان کی ایک غزل کو ردو بدل کے ساتھ ہندوستان کی فلم '' راجہ '' میں گانے کے طور پر پیش کیا گیا اس غزل کا مطلع کچھ یوں ہے۔
ملے کیسے صدیوں کی پیاس
اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
بڑی دلربا ہے یہ ساری
کہانی، ذرا پھر سے کہنا
امجد اسلام امجدؔ کی ادبی شخصیت کا بنیادی حوالہ ان کی شاعری تھا ، بعض اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ شاعری سے زیادہ اچھے ڈرامہ نویس ، مترجم ، نقاد اور کالم نگار تھے۔
میرے نزدیک ایک اچھا شاعر ہی اچھا نثر نگار ہو سکتا ہے۔ امجد صاحب کو نظم و نثر دونوں پر ہی دسترس حاصل تھی۔ بہت سے ادبی رسالوں کی ادارت اور تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے خدمات سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داری نبھاتے رہے ، جب کہ وہ اپنی ادبی خدمات کے بدلے میں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی اور ستارئہ امتیاز سمیت متعدد اعزازات بھی حاصل کر چکے تھے۔
ان کے فن و شخصیت پر نہ صرف تحقیقی مقالات لکھے گئے بلکہ بہت سے ادبی رسائل نے ان پر خصوصی گوشے بھی شائع کیے۔ محبتیں اور چاہتیں بانٹنے والے امجد اسلام امجدؔ کی رحلت10 فروری2023 کی ہوئی۔ امجد صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بدولت اردو ادب کو اپنا قلمی سرمایہ بھی دیا۔ ان کا کام قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ فخر بھی۔ ان کی جدائی کے غم میں احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کے سوا اور کیا کہا جائے۔
میں نے سمجھا تھا کہ لوٹ
آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی
مری قسمت کر دی
اس جہاں سے کوچ کرنے والی ہستی اپنے پیچھے محبتوں اور اپنائیت کا وہ بیش قیمت سرمایہ چھوڑ جاتی ہے کہ انھیں اگر فراموش بھی کوئی کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ ایسی ہی شخصیات میں امجد اسلام امجد بھی شامل تھے ، وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی باطنی شخصیت میں ہمیں مختلف رنگوں کا حسین امتزاج نظر آتا تھا۔
ان کا پیدائشی نام امجد اسلام تھا اور انھوں نے انشاء اللہ خان انشاء ، میر تقی میر اور فیض احمد فیض کی طرح اپنے پیدائشی نام کے ساتھ ''امجد'' کو بطور تخلص استعمال کیا۔ شعر و سخن کی دنیا میں ان کی پہچان امجد اسلام امجد کے نام سے ہوئی، وہ 4 اگست 1944 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
ان کا خاندان دستکاری کے کاروبار سے وابستہ تھا جن میں ادب پڑھنا تو دور کی بات سرے سے ہی پڑھنے لکھنے کا رواج ہی نہیں تھا۔
ایک انٹرویو میں اپنے بچپن کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے بتاتے تھے کہ '' یہ جسے آپ پڑھنے کی عادت کہتے ہیں یہ مجھے اپنے والد سے ملی جو ابنِ صفی کے جاسوسی ناول یا پھر تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے اور شفیق الرحمان کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے تھے ، لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے گھر سے کوئی مزید مدد نہ مل پائی۔''
امجد اسلام امجدؔ زمانہ طالب علمی میں بہت اچھے کرکٹر رہے ان کی خواہش تھی کہ وہ ٹیسٹ کرکٹر بنے ، جب کہ انھوں نے یونیورسٹی کی سطح تک کرکٹ کھیلی ، لیکن کالج کے دور میں ہی ان کا ادب کی طرف رجحان بڑھتا گیا اور جلد ہی ان کے کرکٹر بننے کا جنون سر سے اُتر گیا ، یوں ان کی مکمل توجہ شعر و ادب کی طرف مرکوز ہو گئی اور انھیں کالج میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں پذیرائی ملنے لگی۔
ان کے ہم عصر دوستوں میں پروفیسر جلیل عالی اس کالم کے دوران بتاتے ہیں کہ '' امجد اورئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو کے میرے ہم جماعت اور گہرے دوست تھے۔ ہم دونوں کلاس روم کی اگلی رو میں ساتھ ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔
عطاء الحق قاسمی ہم سے ایک سال سینئر تھے۔ خالی پیریڈ میں امجد ، عطا دو ایک دوسرے دوستوں کے ساتھ وولنر ہوسٹل میرے کمرے میں آ جاتے۔ ہم کئی بار کسی مصرعے پر فی البدیع اشعار کہتے۔ ایک یاد گار واقعہ یہ ہے کہ ہمارا ایک ہم جماعت ثاقب اپنی سیکنڈ ہینڈ کار پر کالج آیا کرتا تھا۔
ہم نے اس کی کار پر مشاعرے کا پروگرام بنایا۔ کالج کے لان میں اس کی گاڑی کھڑی کر دی اور استادِ محترم سجاد باقر رضوی مرحوم کی صدارت میں عطا، امجد ، کچھ دوسرے دوستوں اور میں نے کار پر طنزیہ مزاحیہ نظمیں پڑھیں۔''
ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد انھوں نے پی ٹی وی کے لیے لاتعداد سیریلز لکھیں جن میں ''وارث'' کے ساتھ ساتھ دہلیز ، سمندر ، رات ، وقت اور ''اپنے لوگ'' بھی شامل ہیں لیکن انھیں صحیح معنوں میں شہرت 1979 میں دکھائی جانے والی سیریل ''وارث'' سے ہی ملی۔
اُس زمانے میں شاعری کی رسائی محض ایک محدود طبقے تک ہی ہُوا کرتی تھی وہاں اُس زمانے میں بھی جب ملک میں پی ٹی وی کی صورت میں محض ایک ہی چینل ہُوا کرتا تھا تو جس پر ناظرین کی تعداد سات آٹھ کروڑ ہُوا کرتی تھی۔ '' وراث '' ڈراما جیسی سبق آموز سیریز کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا کیونکہ یہ نصف صدی کا قصہ ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں۔
ہر پل دھیان میں بسنے والے
لوگ افسانے ہو جاتے ہیں
آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں
، خواب پرانے ہو جاتے ہیں
امجد اسلام امجدؔ نے ڈرامہ نویسی کے علاوہ شعر و ادب کی کئی جہات میں کام کیا اور کئی تراجم کرنے کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے۔
احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیب کی مسلسل حوصلہ افزائی سے ان کا ادبی سفر کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا رہا۔ وہ '' چشمِ تماشا '' کے نام سے باقاعدگی کے ساتھ کئی برسوں سے روزنامہ ''ایکسپریس'' میں کالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔
ان کا کالم ادارتی صفحہ پر جمعرات اور اتوار کے دن شائع ہوتا۔ ان کا آخری کالم 5 فروری کو شائع ہُوا جس میں وہ اپنے سفرِ حجاز اور ادائیگی عمرہ کی روداد سنا رہے تھے۔ بدقسمتی سے یہ ان کا آخری کالم ثابت ہُوا جسے ان کی وفات کے اگلے دن ان کی یاد میں دوبارہ شائع کیا گیا۔
ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مجھے اپنا شعری مجموعہ ''ساحلوں کی ہَوا '' پیش کیا ،جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ اس شعری مجموعہ میں ان کی نظم ''محبت ایسا نغمہ ہے'' جسے جتنی بار بھی پڑھا جائے کم کم ہے۔
اس نظم کو وہ خود بھی بہت شوق سے سناتے۔ ان کی ایک نظم ایوب خان کے خلاف '' ہوائے شہر وفا شعاراں'' خاصی مقبول ہوئی۔ جسے بعد میں حنیف رامے نے مجلہ '' نصرت '' کے سرورق پر شائع کیا۔
اسی طرح ان کی ایک نظم ''محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے'' ہر خاص و عام میں بہت مقبول ہوئی۔ نظم میں انھیں جو سہولتِ اظہار میسر آیا ،غزل میں اُس کا فقدان تو نہیں البتہ فکر و خیال کی جدت اور جذبات کی روانی جو انھیں نظم کی فضا میں اُڑائے پھرتی تھی ۔ محبت ان کا خاص موضوع تھا لیکن انھوں نے گردو پیش کو بھی فراموش نہیں کیا۔ ان کی شہرئہ آفاق غزل کے دو اشعار دیکھیے:
کہاں آ کے رکنے تھے راستے
کہاں موڑ تھا اُسے بھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد
رکھ جو نہیں ملا اُسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں
کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سُن
اُسے بھول جا اُسے بھول جا
''میں تیرے سنگ کیسے چلوں ساجنا'' اس مشہورِ زمانہ غزل کو ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی خوبصورت آواز میں گار کر امجد اسلام امجدؔ کے کلام کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ '' برزخ '' کے نام سے 1974 ء میں منظرِ عام پر آیا۔ نظم و نثر میں ان کی چالیس سے زیادہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ۔
ان کی ایک غزل کو ردو بدل کے ساتھ ہندوستان کی فلم '' راجہ '' میں گانے کے طور پر پیش کیا گیا اس غزل کا مطلع کچھ یوں ہے۔
ملے کیسے صدیوں کی پیاس
اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
بڑی دلربا ہے یہ ساری
کہانی، ذرا پھر سے کہنا
امجد اسلام امجدؔ کی ادبی شخصیت کا بنیادی حوالہ ان کی شاعری تھا ، بعض اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ شاعری سے زیادہ اچھے ڈرامہ نویس ، مترجم ، نقاد اور کالم نگار تھے۔
میرے نزدیک ایک اچھا شاعر ہی اچھا نثر نگار ہو سکتا ہے۔ امجد صاحب کو نظم و نثر دونوں پر ہی دسترس حاصل تھی۔ بہت سے ادبی رسالوں کی ادارت اور تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے خدمات سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داری نبھاتے رہے ، جب کہ وہ اپنی ادبی خدمات کے بدلے میں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی اور ستارئہ امتیاز سمیت متعدد اعزازات بھی حاصل کر چکے تھے۔
ان کے فن و شخصیت پر نہ صرف تحقیقی مقالات لکھے گئے بلکہ بہت سے ادبی رسائل نے ان پر خصوصی گوشے بھی شائع کیے۔ محبتیں اور چاہتیں بانٹنے والے امجد اسلام امجدؔ کی رحلت10 فروری2023 کی ہوئی۔ امجد صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بدولت اردو ادب کو اپنا قلمی سرمایہ بھی دیا۔ ان کا کام قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ فخر بھی۔ ان کی جدائی کے غم میں احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کے سوا اور کیا کہا جائے۔
میں نے سمجھا تھا کہ لوٹ
آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی
مری قسمت کر دی