منی بجٹ پٹرول بم اور معیشت
اب جا کر پاکستان اور روس کا گیس تیل کے معاہدوں کو حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا گیا ہے
2008 کے ابتدائی چند ماہ میں ہی نئی حکومت قائم ہوچکی تھی جس نے پاکستانی معیشت کو چلانے، اس کی خامیاں دور کرنے، اس کی اصلاح کی خاطر مجموعی طور پر 100 ارب ڈالر کی ضرورت کا اظہار کیا۔
اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے عالمی تعاون کی اپیل کی گئی جوکہ صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ جلد ہی آوازیں آنے لگیں کہ آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے۔ اس کے ساتھ ڈالر نے پرواز بھرنا شروع کردی۔ 60 روپے سے 62 پھر 65 اس طرح ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی پاکستان کی کرنسی کی قدر گھٹتی رہی۔ اسٹاک ایکسچینج پر مندی کے آثار پیدا ہونا شروع ہوگئے۔
بڑے بڑے تجارتی گروپس نے تشویش کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ آخر کار کئی مہینوں کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے ، چنانچہ آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت کا جائزہ لینا شروع کیا۔ جس طرح 31 جنوری سے 9 فروری تک مالیاتی ادارے کے حکام جائزہ لیتے رہے۔ قصہ مختصر آئی ایم ایف نے اصلاح معیشت کی خاطر کئی سخت شرائط عائد کر دیں، جن میں روپے کی قدر میں زبردست کمی کرنا ایک اہم عنصر تھا۔
حکومت وقت نے عوام سے اپیل کی کہ یہ کڑوی گولی ہے۔ صحت معیشت کی بہتری کے لیے اسے نگلنا ضروری ہے۔ اس طرح یہ ادارہ متعدد بارکبھی اسلام آباد وارد ہوتا کبھی معاشی حکام اس سے مذاکرات کرنے پہنچ جاتے ہر مرتبہ یہی لالی پاپ دیا جاتا کہ اصلاح معیشت کے لیے ان شرائط پر عمل درآمد لازمی ہے۔ معاملات کس طرح بگڑنا شروع ہوئے اس کا جائزہ لینے کے لیے 1994 کی طرف لوٹنا ضروری ہے۔ جب امریکی وزیر توانائی پاکستان وارد ہوئیں اور اسے آئی پی پیز کا تحفہ دیا۔
بجلی کی پیداوار کے انتہائی مہنگے پیکیج تشکیل دیے گئے ، جب کہ اسی کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے حکام نے سستے پیکیج کو قبول کیا تھا۔ پاکستانی حکام کی جانب سے بجلی کی مہنگی پیداوار کو قبولیت بخشی گئی، بس پھر کیا تھا، تیل مہنگا ہوا تو بجلی کی لاگت بھی بڑھتی چلی گئی۔ پھر کئی سال بعد فیصلہ ہوا کہ تیل سے پیداوار مہنگی ہو رہی ہے لہٰذا گیس استعمال کرکے بجلی پیدا کی جائے، بس یہاں سے پاکستانی برآمدات کو پنپنے کا موقعہ نہیں ملا۔
حکومتی اخراجات اتنے بڑھتے چلے گئے، غیر ترقیاتی اخراجات جس میں حکومت کے روز مرہ اخراجات شامل ہیں ، حد سے بڑھنا شروع ہوئے، جس کے لیے بینکوں سے کھربوں روپے کا قرض لے لیا گیا، ہر مرتبہ اصلاح معیشت اور مالی مشکلات کے خاتمے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا جاتا، جس نے اب ایسی بھیانک شرائط عائد کرنا شروع کردی ہیں جن سے معیشت مزید دام میں پھنستی چلی گئی۔ اس مرتبہ جس قسم کے عجیب مطالبے سامنے آئے اور ان پر عمل درآمد کچھ ہو گیا ہے اور مزید کیا جائے گا۔
جب سے ملک میں سیاسی کشیدگی شروع ہوئی ہے، کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ ہر قسم کے تاجروں کی روزمرہ سیل میں زبردست کمی واقع ہونا شروع ہوگئی تھی۔ حکومت نے 170 ارب روپے کا منی بجٹ پیش کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پٹرول بم عوام پر گرادیا ہے۔ پٹرول 22.20 روپے مزید مہنگا کردیا گیا ہے، ڈیزل 17.20 روپے مزید مہنگا کردیا ہے اور مٹی کا تیل 12.90 روپے مزید مہنگا کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اب ہر شے مہنگی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس سے پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک بجٹ پیش کرتے وقت چند اشیا پر ٹیکس عائد کردیا جاتا اور چند اشیا کے ٹیکسوں میں کمی اور کئی اشیا کے ٹیکسوں میں چھوٹ دے دی جاتی تھی ، مگر یہ منی بجٹ جس نے ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔
پاکستان کی کسی حکومت نے اصلاح معیشت کی خود سے کوشش نہ کی۔ نہ ہی قرض کا بار کم کرنے، قرض سے چھٹکارے کی خاطر کوئی معاشی منصوبہ بندی کی گئی۔ حکومت کے فضول اخراجات کو بھی کنٹرول نہیں کیا گیا۔ البتہ ان دنوں یہ خبر خوش آیند ہے کہ کئی وزیروں، وزرائے مملکت نے بغیر معاوضے کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ بہت سی مراعات کو ختم کیا جائے ان کی مالیت کو گھٹایا جائے، بجٹ کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ پنشن کی حد کو 5 لاکھ سے زیادہ نہ ہونے دیا جائے۔ ملک کو اس وقت اشرافیہ کی قربانی کی ضرورت ہے۔ 1994 میں بجلی کے مہنگے پیداواری ذرایع جنھیں آئی پی پیز کہا جاتا ہے اس پر دل و جان سے فدا ہونے کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے ڈیمز بنانا شروع کردیتے تو اندازہ لگائیں 1994 سے اب تک ان تین عشروں میں کیا ہمیں سستی بجلی میسر نہ ہوتی؟
اب جا کر پاکستان اور روس کا گیس تیل کے معاہدوں کو حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جب 2008 میں یہ کہا گیا کہ کڑوی گولی کھانے کے نتیجے میں معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی لیکن درمیان میں 15 سال گزر گئے۔ 90 کی دہائی میں گھریلو صنعتیں عروج پر جا رہی تھیں لیکن آہستہ آہستہ بجلی کے نرخوں اور دیگر کئی امور کے باعث اس پر زوال آنا شروع ہو گیا۔
اس شعبے کے افراد کو جدید تربیت کی بھی ضرورت ہے اور مالی معاونت کی بھی۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ جی ڈی پی کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہو رہا ہے، لہٰذا جی ڈی پی کی مالیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے تاکہ کما کر قرض ادا کرسکیں۔ غریبوں پر ٹیکس کے بوجھ کے علاوہ لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کا صحیح اور کرپشن سے پاک حساب کتاب کیا جائے تو حکومت کو کھربوں روپے کی مزید آمدن ہوگی۔
اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے عالمی تعاون کی اپیل کی گئی جوکہ صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ جلد ہی آوازیں آنے لگیں کہ آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے۔ اس کے ساتھ ڈالر نے پرواز بھرنا شروع کردی۔ 60 روپے سے 62 پھر 65 اس طرح ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی پاکستان کی کرنسی کی قدر گھٹتی رہی۔ اسٹاک ایکسچینج پر مندی کے آثار پیدا ہونا شروع ہوگئے۔
بڑے بڑے تجارتی گروپس نے تشویش کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ آخر کار کئی مہینوں کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے ، چنانچہ آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت کا جائزہ لینا شروع کیا۔ جس طرح 31 جنوری سے 9 فروری تک مالیاتی ادارے کے حکام جائزہ لیتے رہے۔ قصہ مختصر آئی ایم ایف نے اصلاح معیشت کی خاطر کئی سخت شرائط عائد کر دیں، جن میں روپے کی قدر میں زبردست کمی کرنا ایک اہم عنصر تھا۔
حکومت وقت نے عوام سے اپیل کی کہ یہ کڑوی گولی ہے۔ صحت معیشت کی بہتری کے لیے اسے نگلنا ضروری ہے۔ اس طرح یہ ادارہ متعدد بارکبھی اسلام آباد وارد ہوتا کبھی معاشی حکام اس سے مذاکرات کرنے پہنچ جاتے ہر مرتبہ یہی لالی پاپ دیا جاتا کہ اصلاح معیشت کے لیے ان شرائط پر عمل درآمد لازمی ہے۔ معاملات کس طرح بگڑنا شروع ہوئے اس کا جائزہ لینے کے لیے 1994 کی طرف لوٹنا ضروری ہے۔ جب امریکی وزیر توانائی پاکستان وارد ہوئیں اور اسے آئی پی پیز کا تحفہ دیا۔
بجلی کی پیداوار کے انتہائی مہنگے پیکیج تشکیل دیے گئے ، جب کہ اسی کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے حکام نے سستے پیکیج کو قبول کیا تھا۔ پاکستانی حکام کی جانب سے بجلی کی مہنگی پیداوار کو قبولیت بخشی گئی، بس پھر کیا تھا، تیل مہنگا ہوا تو بجلی کی لاگت بھی بڑھتی چلی گئی۔ پھر کئی سال بعد فیصلہ ہوا کہ تیل سے پیداوار مہنگی ہو رہی ہے لہٰذا گیس استعمال کرکے بجلی پیدا کی جائے، بس یہاں سے پاکستانی برآمدات کو پنپنے کا موقعہ نہیں ملا۔
حکومتی اخراجات اتنے بڑھتے چلے گئے، غیر ترقیاتی اخراجات جس میں حکومت کے روز مرہ اخراجات شامل ہیں ، حد سے بڑھنا شروع ہوئے، جس کے لیے بینکوں سے کھربوں روپے کا قرض لے لیا گیا، ہر مرتبہ اصلاح معیشت اور مالی مشکلات کے خاتمے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا جاتا، جس نے اب ایسی بھیانک شرائط عائد کرنا شروع کردی ہیں جن سے معیشت مزید دام میں پھنستی چلی گئی۔ اس مرتبہ جس قسم کے عجیب مطالبے سامنے آئے اور ان پر عمل درآمد کچھ ہو گیا ہے اور مزید کیا جائے گا۔
جب سے ملک میں سیاسی کشیدگی شروع ہوئی ہے، کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ ہر قسم کے تاجروں کی روزمرہ سیل میں زبردست کمی واقع ہونا شروع ہوگئی تھی۔ حکومت نے 170 ارب روپے کا منی بجٹ پیش کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پٹرول بم عوام پر گرادیا ہے۔ پٹرول 22.20 روپے مزید مہنگا کردیا گیا ہے، ڈیزل 17.20 روپے مزید مہنگا کردیا ہے اور مٹی کا تیل 12.90 روپے مزید مہنگا کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اب ہر شے مہنگی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس سے پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک بجٹ پیش کرتے وقت چند اشیا پر ٹیکس عائد کردیا جاتا اور چند اشیا کے ٹیکسوں میں کمی اور کئی اشیا کے ٹیکسوں میں چھوٹ دے دی جاتی تھی ، مگر یہ منی بجٹ جس نے ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔
پاکستان کی کسی حکومت نے اصلاح معیشت کی خود سے کوشش نہ کی۔ نہ ہی قرض کا بار کم کرنے، قرض سے چھٹکارے کی خاطر کوئی معاشی منصوبہ بندی کی گئی۔ حکومت کے فضول اخراجات کو بھی کنٹرول نہیں کیا گیا۔ البتہ ان دنوں یہ خبر خوش آیند ہے کہ کئی وزیروں، وزرائے مملکت نے بغیر معاوضے کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ بہت سی مراعات کو ختم کیا جائے ان کی مالیت کو گھٹایا جائے، بجٹ کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ پنشن کی حد کو 5 لاکھ سے زیادہ نہ ہونے دیا جائے۔ ملک کو اس وقت اشرافیہ کی قربانی کی ضرورت ہے۔ 1994 میں بجلی کے مہنگے پیداواری ذرایع جنھیں آئی پی پیز کہا جاتا ہے اس پر دل و جان سے فدا ہونے کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے ڈیمز بنانا شروع کردیتے تو اندازہ لگائیں 1994 سے اب تک ان تین عشروں میں کیا ہمیں سستی بجلی میسر نہ ہوتی؟
اب جا کر پاکستان اور روس کا گیس تیل کے معاہدوں کو حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جب 2008 میں یہ کہا گیا کہ کڑوی گولی کھانے کے نتیجے میں معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی لیکن درمیان میں 15 سال گزر گئے۔ 90 کی دہائی میں گھریلو صنعتیں عروج پر جا رہی تھیں لیکن آہستہ آہستہ بجلی کے نرخوں اور دیگر کئی امور کے باعث اس پر زوال آنا شروع ہو گیا۔
اس شعبے کے افراد کو جدید تربیت کی بھی ضرورت ہے اور مالی معاونت کی بھی۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ جی ڈی پی کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہو رہا ہے، لہٰذا جی ڈی پی کی مالیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے تاکہ کما کر قرض ادا کرسکیں۔ غریبوں پر ٹیکس کے بوجھ کے علاوہ لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کا صحیح اور کرپشن سے پاک حساب کتاب کیا جائے تو حکومت کو کھربوں روپے کی مزید آمدن ہوگی۔