مالیاتی غیرذمے داری پاکستان بیرونی سرمایہ کاری سے ہاتھ دھوسکتا ہے
مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے سست اقتصادی شرح نمو کو تیز کرنے کی کوئی بھی کوشش فوری طور پر عالمی مالیاتی فنڈ اور علاقائی ممالک کے خلاف ہو جائے گی، اب یہ سب پاکستان کو ایک مالیاتی طور پر ذمے دار ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔
تاہم حکومت کو کم معاشی نمو اور بلند افراط زر سے نمٹنے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا جو عمران خان اور شہباز شریف کی حکومتوں کی جانب سے گزشتہ 2سالوں کے دوران کیے گئے سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ سنگین اور عدم توازن کی وجہ سے جو ملک کی معاشی استحکام کو خطرہ لاحق ہیں۔
پاکستان جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال 2023-24 میں 4 فیصد سے زیادہ اقتصادی ترقی کی شرح حاصل کرنے کے لیے مالیاتی اور مالیاتی پالیسیاں وضع کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں اعلان کیا تھا کہ زراعت، صنعتی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی وجہ سے آئندہ مالی سال کے لیے مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو 4 فیصد سے تجاوز کر جائے گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتصادی ترقی کی شرح کو تیز کرنے کے لیے معیشت پر ایک نئی ٹاسک فورس بھی قائم کی ہے جس کے لیے آئی ایم ایف اور علاقائی ممالک کی جانب سے معاشی استحکام کی بحالی کے لیے کیے جانے والے مطالبات کے برعکس پالیسیوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہوگی۔
ذرائع نے بتایا کہ 1.1 بلین ڈالر کے قرضے کی قسط کی منظوری کے لیے جن علاقائی ممالک کی مالی معاونت انتہائی ضروری تھی ،وہ بھی پاکستان کو مالیاتی طور پر محتاط راستہ اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ کی تاریخ حاصل کرنے کے لیے ان کی یقین دہانیاں اہم تھیں، چاہے دونوں فریق عملے کی سطح پر معاہدہ کر لیں۔ آئی ایم ایف قرض کی منظوری کے لیے بورڈ میٹنگ سے قبل علاقائی ممالک سے براہ راست یقین دہانیاں طلب کرے گا۔چونکہ پاکستان کی بیرونی اور مالی صورتحال بدستور نازک ہے اس لیے رواں سال جون میں موجودہ 6.5 بلین ڈالر پیکیج کی میعاد ختم ہونے کے بعد ملک کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑے گا۔
افراط زر پر قابو پانے کے لیے سخت مالیاتی پالیسیوں کی بھی ضرورت ہے، جس کا اندازہ وزارت خزانہ نے رواں مالی سال کے لیے 29 فیصد رکھا ہے۔ آئی ایم ایف مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے شرح سود میں بڑی ایڈجسٹمنٹ کا خواہاں ہے کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ تاخیری کارروائی سے مہنگائی کی شرح میں کمی آنے میں تاخیر ہوگی۔
سہ ماہی اقتصادی ترقی کے اعداد و شمار کو باقاعدگی سے جاری کرنے کے لیے پی بی ایس ڈیٹا سیٹ ابھی مکمل نہیں ہے کچھ سیکٹرز کے ان پٹ اور آؤٹ پٹ دونوں کا ڈیٹا دستیاب ہے جب کہ پروڈکشن سائیڈ کے کچھ سیکٹرز میں یا تو ان پٹ یا آؤٹ پٹ ڈیٹا موجود تھا جو کہ نمو کے اعداد و شمار میں غلطی کا سبب بن سکتا ہے۔