بیرون ملک رکھا کالا دھن سفید کرنے کیلیے بھی ایمنسٹی اسکیم لانے پرغور
2 فیصد سے کم ٹیکس پرسیاستدانوں سمیت تمام شہریوں کے بیرون ملک اثاثوں ورقوم کوبھی قانونی حیثیت دینے کی تجویز
ISLAMABAD:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ایمنسٹی اسکیم کے تحت 2 فیصد سے کم ٹیکس کی ادائیگی پر سیاستدانوں، بیوروکریٹس سمیت تمام پاکستانیوں کے بیرون ممالک موجودہ قیمتی فلیٹس، مکانات ودیگر اثاثہ جات اور غیر ملکی بینکوں میں رکھی گئی۔
دولت کو بھی قانونی حیثیت دینے کاموقع دینے کی تجویز کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ اس ضمن میں وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے ہفتہ کو چھٹی کے باوجود چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) علی ارشد حکیم اور انکی ٹیم کااجلاس بلایا تھا۔
تاہم ایف بی آر کی ٹیم پورا دن اسٹینڈ بائی رہی لیکن وزیر خزانہ اپنی شدید ترین مصروفیات کے باعث ایف بی آر نہ جا سکے اور توقع ہے کہ اب یہ اجلاس پیر کو ہوگا جس میں نہ صرف ایمنسٹی اسکیم کے مسودے پر غورکیا جائیگا بلکہ ایف بی آر کی مجموعی کارکردگی اور رواں مالی سال کے پہلے ڈھائی ماہ کے دوران ایف بی آر کی طرف سے حاصل کی جانے والی ٹیکس وصولیوں کا بھی جائزہ لیا جائیگا۔
علاوہ ازیں اجلاس میں ٹیکس وصولیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی بھی نشاندہی کی جائے گی تاکہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے اور ٹیکس وصولیوں کو متحرک بنایا جا سکے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایمنسٹی اسکیم کو موثر بنانے کیلیے ماہرین کی طرف سے پاکستانیوں کے بیرون ممالک میں موجود اثاثہ جات اور بیرون ممالک بینکوں میں پڑی رقوم کو قانونی حیثیت دینے کا موقع دینے کیلیے ایمنسٹی اسکیم میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
تاہم ان ماہرین کا کہنا ہے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ایمنسٹی اسکیم کے تحت پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثوں کو قانونی حیثیت دینے کا موقع دینے کیلیے ضروری ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کرنے سے پہلے ایف بی آر کے پاس پاکستانیوں کے بیرون ممالک میں موجود اثاثہ جات کی تفصیلات موجود ہوں تاکہ انہیں اس بارے میں آگاہ کیا جاسکے اور وہ اس اسکیم سے زیادہ سے زیادہ فائد اٹھاسکیں۔
تاہم اس بارے میں جب ایف بی آر کے سینئر افسر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ انفورسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے اورانفورسمنٹ ایک جاری پراسیس ہے جو ابھی بھی جاری ہے جبکہ ایمنسٹی اسکیم خصوصی اقدام ہوتا ہے جو ایک مخصوص پیریڈ کیلیے ہوتا ہے لہٰذا ایف بی آر کی کوشش ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کو اتنا پر کشش بنایا جائے کہ لوگ خود اس سے زیادہ سے زیادہ فائد اٹھائیں اور اپنا کالادھن زیادہ سے زیادہ اس اسکیم کے تحت سفید کرکے ملکی معیشت کا حصہ بنائیں تاکہ قانونی معیشت کا حجم بڑھے اور ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ مل سکے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ایمنسٹی اسکیم کے تحت 2 فیصد سے کم ٹیکس کی ادائیگی پر سیاستدانوں، بیوروکریٹس سمیت تمام پاکستانیوں کے بیرون ممالک موجودہ قیمتی فلیٹس، مکانات ودیگر اثاثہ جات اور غیر ملکی بینکوں میں رکھی گئی۔
دولت کو بھی قانونی حیثیت دینے کاموقع دینے کی تجویز کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ اس ضمن میں وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے ہفتہ کو چھٹی کے باوجود چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) علی ارشد حکیم اور انکی ٹیم کااجلاس بلایا تھا۔
تاہم ایف بی آر کی ٹیم پورا دن اسٹینڈ بائی رہی لیکن وزیر خزانہ اپنی شدید ترین مصروفیات کے باعث ایف بی آر نہ جا سکے اور توقع ہے کہ اب یہ اجلاس پیر کو ہوگا جس میں نہ صرف ایمنسٹی اسکیم کے مسودے پر غورکیا جائیگا بلکہ ایف بی آر کی مجموعی کارکردگی اور رواں مالی سال کے پہلے ڈھائی ماہ کے دوران ایف بی آر کی طرف سے حاصل کی جانے والی ٹیکس وصولیوں کا بھی جائزہ لیا جائیگا۔
علاوہ ازیں اجلاس میں ٹیکس وصولیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی بھی نشاندہی کی جائے گی تاکہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے اور ٹیکس وصولیوں کو متحرک بنایا جا سکے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایمنسٹی اسکیم کو موثر بنانے کیلیے ماہرین کی طرف سے پاکستانیوں کے بیرون ممالک میں موجود اثاثہ جات اور بیرون ممالک بینکوں میں پڑی رقوم کو قانونی حیثیت دینے کا موقع دینے کیلیے ایمنسٹی اسکیم میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
تاہم ان ماہرین کا کہنا ہے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ایمنسٹی اسکیم کے تحت پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثوں کو قانونی حیثیت دینے کا موقع دینے کیلیے ضروری ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کرنے سے پہلے ایف بی آر کے پاس پاکستانیوں کے بیرون ممالک میں موجود اثاثہ جات کی تفصیلات موجود ہوں تاکہ انہیں اس بارے میں آگاہ کیا جاسکے اور وہ اس اسکیم سے زیادہ سے زیادہ فائد اٹھاسکیں۔
تاہم اس بارے میں جب ایف بی آر کے سینئر افسر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ انفورسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے اورانفورسمنٹ ایک جاری پراسیس ہے جو ابھی بھی جاری ہے جبکہ ایمنسٹی اسکیم خصوصی اقدام ہوتا ہے جو ایک مخصوص پیریڈ کیلیے ہوتا ہے لہٰذا ایف بی آر کی کوشش ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کو اتنا پر کشش بنایا جائے کہ لوگ خود اس سے زیادہ سے زیادہ فائد اٹھائیں اور اپنا کالادھن زیادہ سے زیادہ اس اسکیم کے تحت سفید کرکے ملکی معیشت کا حصہ بنائیں تاکہ قانونی معیشت کا حجم بڑھے اور ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ مل سکے۔